مراجع کی تحریریں اور بیانات

راہِ معرفت – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین وحید خراسانی

138 ملاحظات

حضرت بقیۃ اللہ، ارواحنا فداہ، اور دیگر معصومین علیہم السلام، حتیٰ خداوند تعالٰی کی صحیح معرفت اور حقیقی شناخت کے لئے اور صحیح توحید کو پہچاننے کے لئے صرف اور صرف کتاب و سنت کے نور سے استفادہ کرنا چاہئے۔ یعنی اس سلسلے میں فقط کلامِ خداوند تعالٰی یعنی قرآن مجید اور اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام کے فرمان، یعنی سنت، کی طرف رجوع کرنا چاہئے۔ کیونکہ نورِ ہدایت فقط ان دو گراں مایہ منابع میں ہے اور ان سے روگردانی صراطِ مستقیم اور شاہراہِ خوشبختی سے انحراف کے مترادف ہے۔
قرآن اور روایت آئمہ اطہار ؑ کے علاوہ باقی سب سراب اور بے راہ روی ہے۔ نہ یہ روح کی تشنگی کو کم کرتا ہے نہ یہ ہلاکت و بربادی کے خطرے سے امان دیتا ہے۔ بلکہ یہ روح کی تیرگی کو افزون کرتا ہے اور سرمایہ حیات کو ضائع کرتا ہے۔

فلاسفہ، عرفاء اور صوفیوں کی یاوہ گوئیوں کے پیچھے جانا اور حسین ابن منصور حلاج جیسے نام نہاد عرفان و توحید کے مرشدوں کی پیروی کرنا کہ جن کے بارے میں حضرت صاحب الزمان علیہ السلام کی طرف لعن پر مشتمل خط صادر ہوا ہے، یہ سب انحطاط و تنزلی اور راہ روشن ولایت اور حقیقت سے انحراف کے علاؤہ کچھ نہیں ہے۔ (بحار الانوار، جلد 51، صفحات 369، 380۔)

آیا منصور حلاج جیسے افراد جو کفر و الحاد گوئی اور انا الحق کے خدائی دعویٰ کی وجہ سے تشیع کے عظیم فقہاء شیخ صدوق اور قطب الدین راوندی رحمۃ اللہ علیہما کی طرف سے منفورِ خدا اور رسول ؐ اور امامؑ قرار دیئے گئے، اور اس کے لئے فقہاء کی طرف سے سزائے موت کا حکم دیا گیا، آیا ایسے افراد راہیان بسوی خدا و پیغمبر علیہم السلام کے راہنما بن سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں!

کیا محمد بلخی رومی اور شبستری جیسے فاسد العقیدہ اور منحرف شاعر جہنوں نے حلاج کی بے ہودہ گوئی یا بد سرائی کو عرفان اسلامی اور اسرار الہیٰ سمجھ کر روحانیت کے بلند مقام پر فائز اور فنا فی اللہ شخصیت کے طور پر متعارف کروایا، ہو سکتا ہے کہ یہ معارف قرآن کے بیان کرنے والے اور امام زمانہ علیہ السلام کی واقعی شناخت کروانے والے ہوں؟ ہرگز ایسا نہیں ہو سکتا۔

بلخی حلاج کی حمایت اور مدح سرائی میں کہتا ہے:
چون قلم در دست غداری بود
لا جرم منصور بر داری بود
ترجمہ: چونکہ قلمدانِ فیصلہ غدار کے ہاتھ میں تھا لہٰذا بلا وجہ منصور تختہ دار پر لٹکایا گیا۔

اور شبستری نے حلاج کے دعوائے خدائی کو جائز سمجھتے ہوئے کہا:
روا باشد انا الحق از درختی
چرا نبود روا از نیک بختی
ترجمہ: اگر انا الحق کی صدا ایک درخت سے جائز اور صحیح ہے تو کیونکر ایک نیک بخت (حلاج) سے جائز نہیں۔

کیا محمد بلخی رومی سنی جو کہ امام غائبِ منتظر فرزندِ دلبندِ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے وجود خارجی کا عقیدہ ہی نہیں رکھتا۔ یعنی وہ حضرت امام مہدی علیہ السلام کے غائب ہونے اور ایک دن ظاہر ہو کر دنیا کو عدل و انصاف سے پر کرنے کا معتقد ہی نہیں بلکہ وہ مہدی کو نفس میں سالک اور تفکر کے وقت اپنی فکر میں موجودِ حاضر سمجھتا ہے اور مہدویتِ نوعیہ (یعنی ایک معین شخص نہیں) کا قائل ہے اور شیخِ ارشاد کو مہدی سالک گردانتا ہے، آیا ایسا شخص حضرت حجۃ اللہ ارواحنا فداہ کے دلباختہ عاشقوں کو اس بزرگوار تک پہنچا سکتا ہے اور آپ کے مقام والا و اعلیٰ کی آپ کے شیعوں کو شناخت کروا سکتا ہے؟ہرگز نہیں۔ وہ مثنوی کے صفحہ 126 پر کہتا ہے:
پس بہ ہر دوری ولیی قایم است — تا قیامت آزمایش دایم است‏
پس امام حی قایم آن ولی است — خواہ از نسل عمر خواہ از علی است‏
مہدی و ہادی وی است ای راہ جو — ہم نہان و ہم نشستہ پیش رو
ترجمہ: ہر دور میں ایک ولی پنہاں ہے۔ قیامت تک امتحان و آزمائش دائمی ہے۔ پس وہ زندہ اور قائم امام ہے۔ خواہ عمر کی اولاد ہو یا علیؑ کی۔ اے سالک! وہی مہدی و ہادی ہے۔ وہی پنہاں ہے اور سامنے بیٹھا بھی وہی ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ راندہ درگاہِ الہی اور عامی المذہب جو وجودِ مقدس امام عصر علیہ السلام کا منکر ہو وہ مجتہدین کا تعارف کروائے اور اسلام و قرآن کے معارف کو بیان کرے؟ ہرگز نہیں!

محققِ کبیر اور فقیہ روشن ضمیر مرحوم علامہ مجلسی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ حصول معرفت کے لئے اور فلاسفہ و حکماء کے گمراہ کنندہ بے بنیاد من گھڑت نظریات سے اجتناب کے لئے خاندانِ عصمت و طہارت کے ساتھ تمسک و توسل کو ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے رسالہ اعتقادات و سیر و سلوک کے صفحہ 4 پر لکھتے ہیں:
ترجمہ: ”بلا تردید اہلبیت علیہم السلام نے ہمارے لئے بہت ساری احادیث و روایات چھوڑی ہیں۔ پس ہمارے لئے ناروا ہے کہ اس دور میں ہم ان عظیم ہستیوں کی احادیث اور فکر و اندیشہ سے تمسک نہ کریں اور ان کے آثار سے استفادہ نہ کریں۔

ہمارے دور کے اکثر لوگوں نے اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کے آثار و فرمائشات کو پس پشت ڈال دیا ہے اور خود مستبد بالرائے ہو گئے ہیں۔ پس ایک گروہ حکماء کے پیچھے چل نکلا۔ حکماء و فلاسفہ جو خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرنے والے ہیں (ضال و مضل) اور کسی پیغمبر کے معتقد نہیں اور کسی کتاب پر ایمان نہیں رکھتے۔ فقط اپنے فاسد افکار اور اپنی بے وقت آراء پر اعتماد کرتے ہیں۔

کچھ لوگوں نے انہیں اپنا امام منتخب کر لیا ہے اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی صد در صد واضح و صحیح اخبار و روایت کی محض اس لئے تاویل کرتے ہیں کہ وہ حکماء کے نظریے کے موافق نہیں ہیں۔ جبکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے دلائل و شبہات نہ مفیدِ ظن ہیں اور نہ مفیدِ وہم، بلکہ ان کے افکار تارِ عنکبوت سے بھی زیادہ ضعیف ہیں۔

نیز وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ذہنی میلانات مختلف اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں ہیں اور ان کے نظریات میں تباین و ناسازگاری موجود ہے۔ کیونکہ فلاسفہ کا ایک گروہ مشائی کہلاتا ہے جبکہ دوسرا اشراقی ہے اور ان دونوں گروہوں کی رائے اور فکر میں بعدِ مشرقین ہے۔

ایسے لوگوں سے پناہ بخدا جو اصولِ عقائد میں بھی عقل و فکر پر بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ حیوانات کی مانند چراہ گاہوں میں سرگردان پھرتے ہیں۔ مجھے اپنی زندگی کی قسم یہ لوگ کیسے جرات کرتے ہیں کہ واضح نصوص اور اہلبیتِ عصمت و طہارت علیہم السلام سے صحیح طور پر صادر ہونے والی روایات کی ایک فلسفی کی خوش گمائی کے لئے توجیہ و تاویل کرتے ہیں جو کسی مذہب و دین کا معتقد نہیں ہے۔“

محققِ عالی قدر مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ مرزا مہدی اصفہانی کا حضرتِ حجتؑ کے حضور شرفیاب ہونے کا واقعہ، جو اسی کتاب کے صفحہ 189 پر تحریر ہے، اس میں حضرت ولی عصر ارواحنا فداہ سے یہ عبارت نقل ہوئی ہے:
ترجمہ : ”معارف اسلامی ہم اہلبیت علیہم السلام کے علاؤہ کسی اور سے حاصل کرنا گویا ہمارا انکار کرنا ہے۔“

آیا محی الدین ابن عربی ناصبی جو متوکل جیسے غاصبِ خلافت اور مجرم کو خلافت کا ظاہری اور باطنی حقدار اور روحانی کمالات میں امیر المومنین اور حضرت امام حسین علیہما السلام کے ہم پلہ قرار دیتا ہے، وہ شناخت خدا اور معرفتِ پیغمبر و آئمہ اطہار علیہم السلام کے لئے نمونہ اور کسوٹی بن سکتا ہے؟ کیا وہ موحدین کا پیشوا اور قرآن و سنت کا عارف ہو سکتا ہے؟ ہرگز و ہرگز نہیں!

گرانقدر عالم دین اور محدثِ عالی مقام مرحوم مرزا حسین نوری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ”خاتمہ مستدرک الوسائل“ کی دوسری جلد کے صفحہ 239 پر ملا صدرا شیرازی اور محی الدین ابنِ عربی کے متعلق کچھ مطالب بیان فرماتے ہیں، جن کا ترجمہ یہ ہے:
”محمد بن ابراہیم شیرازی المعروف ملا صدرا مفاہیمِ فلسفہ کا محقق اور صوفیاء کے دعوؤں کو رواج دینے والا ہے، اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کی کچھ مشہور کتابیں ہیں جن میں اس نے فقہاء اور حاملینِ دینِ مبین پر لعن و تشنیع کی ہے اور انہیں جاہل اور دانشوروں کے زمرہ سے خارج قرار دیا ہے۔ (اسفارِ اربعہ، جلد 1، صفحہ 363)

اور اس کے برعکس ابنِ عربی، مصنفِ فتوحات، کی تعریف کی ہے اپنے کلام میں ایسے توصیفی کلمات ذکر کئے ہیں کہ اس ایک کے علاؤہ کسی بھی عالمِ دین کو راسخ العقیدہ اور تعریف کا سزاوار نہیں سمجھا۔ جبکہ علمائے عامہ اور ناصبیوں میں سے کوئی بھی اس ابنِ عربی سے زیادہ ناصبی نہیں ہے۔ اسی نے اپنی کتاب فتوحات میں بعض اقطاب اور ابدال کے حالات میں لکھا ہے کہ:
”ان قطب میں سے بعض وہ ہیں جن کو ظاہری خلافت کی طرح باطنی خلافت بھی حاصل ہے اور وہ مقام و منزلت کے لحاظ سے ابوبکر، عمر، عثمان، علی، معاویہ بن یزید، عمر ابن عبد العزیز اور متوکل باللہ جیسے ہیں۔“

متوکل عباسی، جسے محی الدین ابنِ عربی نے اقطاب و ابدال میں شمار کیا ہے، اور اس کے لئے خلافت ظاہریہ اور باطنیہ کا اقرار کیا ہے، وہ شخص ہے جس کے بارے میں جلال الدین سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں تصریح کی ہے کہ اس نے 236 ہجری میں امام حسین علیہ السلام کی قبر کو اور اس کے ارد گرد کے مکانات کو ویران کرنے کا حکم دیا اور حکم دیا کہ اس جگہ کاشتکاری کی جائے۔ اور لوگوں کو حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے روک دیا، اور وہاں فصل بوئی لیکن وہ جگہ صحرا کی مانند باقی رہی۔ متوکل اہلبیت علیہم السلام سے دشمنی اور تعصب میں شہرت رکھتا ہے۔

محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب فتوحات میں علی الاعلان کہا ہے کہ گمراہیوں کی بنیاد شیعہ ہیں۔ وہ مخصوص ریاضتیں کرتے ہیں۔ اور اپنی کتاب ”مسامرۃ الابرار“ میں صراحتاً کہا ہے کہ رجبیون ایک ایسا گروہ ہے جو ریاضت کرتے ہیں اور اس ریاضت کے آثار یہ ہیں کہ ان کو شیعہ خنزیر کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

نیز فتوحات میں تصریح کی ہے کہ عمر ابن خطاب عصمت کے بلند درجے پر فائز تھے۔ اس کے علاوہ اور بہت سے ایسے نظریات ہیں جو صد در صد دلالت کرتے ہیں کہ محی الدین ابن عربی ناصبی ترین سنی تھا۔

لیکن اس کے باوجود ایک شیعہ (ملا صدرا) اس کے حق میں یہ کہے کہ وہ ایک محقق عارف باللہ ہے جو غلط اور بے ہودہ بات نہیں کہتا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسی تعبیرات اور القابات اس کو دے اور اس کے لئے اور اس کے ہمنواؤں کے لئے جائز سمجھتا ہو؟“

حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی اپنی کتاب ”احقاق الحق“ کی پہلی جلد کے صفحات 183 سے 185 تک کے حاشیہ میں تصوف کی مصیبت کو اسلام میں آنے والے مصائب میں سے بڑی مصیبت اور دین کی بنیاد کو خراب کرنے والا سمجھتے ہیں اور لکھتے ہیں:
ترجمہ: ”انہوں نے قرآن و سنت کی صد در صد واضح اور صریح نصوص کی تاویل کی اور فطرت و عقلی احکام کی مخالفت کی اور وحدت الوجود بلکہ وحدت الموجود جیسے باطل نظریہ کے معتقد ہوئے۔“

پھر وہ مصباح الشریعہ جیسی کتابوں کو جو صوفیوں کی خود ساختہ، ناروا اور بے بنیاد مطالب سے بھری پڑی ہیں، ان کتابوں میں شمار کرتے ہیں جو متصوفہ کی گھڑی ہوئی ہیں اور گمراہ لوگوں کی وارثت ہیں۔

ثقۃ الاسلام مرحوم کلینی اعلیٰ اللہ مقامہ نے اپنی کتاب اصولِ کافی، جلد اول، صفحہ 399 پر ایک باب اس عنوان کے ساتھ تشکیل دیا ہے: أنه ليس شيء من الحق في يد الناس إلا ما خرج من عند الأئمة (عليهم السلام) وأن كل شيء لم يخرج من عندهم فهو باطل.
یعنی لوگوں کے پاس حق میں سے کچھ نہیں سوائے اس کے جو آئمہ معصومین علیہم السلام کے در سے ملا ہو، اور بے شک جو ان کے غیر سے ملے وہ باطل ہے۔ اس باب میں شیخ کلینی نے کچھ احادیث نقل کی ہیں جن میں سے ہم دو کو یہاں پیش کرتے ہیں کہ جن کی سند کو علامہ مجلسی رضوان اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

1۔ اس باب کی تیسری حدیث میں آیا ہے کہ حضرت امام باقر ؑ نے سلمہ ابن کہیل اور حکم بن عتیبہ سے کہا:
”تم مشرق اور مغرب تک دوڑ کر دیکھ لو، تمہیں صحیح علم کہیں سے نہیں ملے گا سوائے اس کے جو کچھ ہم اہلبیت ؑ سے نکلا ہے۔“
یہ دونوں عامہ کے فقہاء تھے اور آئمہ علیہم السلام کے مورد لعنت و ملامت اور ناپسندیدہ تھے۔

2۔ چوتھی حدیث میں ابو بصیر ؓ سے مروی ہے کہ امام باقر ؑ نے فرمایا: ”حکم ابن عتیبہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ: ومن الناس من يقول آمنا بالله وباليوم الآخر وما هم بمؤمنين (البقرة: 7)۔ حکم مشرق سے مغرب تک دوڑ لگائے، خدا کی قسم وہ اس کے سوا کچھ علم نہیں پائے گا جو اس گھرانے کے پاس ہے جس پر جبرائیل اترے۔“

مآخذ: آیۃ اللہ العظمیٰ وحید خراسانی، ”پیامِ امام زمانہ ؑ“، صفحات 57 – 66، مؤسسہ الامام المنتظر، قم، 2001ء۔

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button