ملا صدرا کی کتاب اسفارِ اربعہ کی فصل ”في ذكر عشق الظرفاء والفتيان للأوجه الحسان“ کا اردو ترجمہ
جان لو کہ اس محبت اور اس کی ماہیت کے بارے میں فلاسفہ کے اقوال مختلف ہیں۔ کچھ اسے اچھا اور کچھ برا سمجھتے ہیں، کچھ اسے اچھے الفاظ میں سراہتے ہیں تو کچھ اسے گھٹیا حرکت سمجھتے ہیں اور اس کو بے کار لوگوں کا کام سمجھتے ہیں- کچھ اسے روحانی فضیلت سمجھتے ہیں اور اس کی مدح کرتے ہیں اور یہ کام کرنے والوں کی خوبیاں گنواتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی نیت اچھی ہوتی ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے اس کی ماہیت اور علت و اسباب کو نہیں جانا اور کچھ نے اسے نفسیاتی بیماری قرار دیا تو کچھ اسے روحانی جنون سے تعبیر کرتے ہیں۔
گہرائی میں جا کر نفیس اندازِ فکر سے مطالعہ کیا جائے اور ان معاملات کے کلی اسباب اور اعلیٰ مبادی اور حکیمانہ مقاصد کو دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ عشق حسین چہرے کی خوبصورتی سے حاصل ہونے والی شدید لذت کا نام ہے۔ یہ وہ پابندیاں توڑنے والی محبت ہے جو کسی کی لطیف اداؤں، اس کے اعضاء کے تناسب اور اسکے بدن کی ترکیب سے ہو جائے۔ یہ ماضی میں اکثر اقوام میں فطری طور پر، کسی تکلف اور تصنع کے بغیر، پایا جاتا تھا۔ یہ لامحالہ روحانی عظمتوں میں سے ہے کہ جس میں کوئی حکمت اور مصلحت ہو گی۔ لہٰذا اسے ایک مستحسن اور اچھا کام ہونا چاہئیے کیوں کہ یہ شریفانہ مقاصد کے حصول کیلئے رائج ہوا ہے۔
اصول کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں ان قوموں میں اس کا رواج ملتا ہے جن کے ہاں مختلف علوم، فنونِ لطیفہ، ادب اور ریاضی کی تعلیم ہوتی ہے، جیسے کہ اہلِ فارس، اہلِ عراق، اہلِ شام و روم ہیں۔ نیز وہ تمام اقوام جن میں دقیق علمی کام ہوتا ہے اور ان کی صنعت میں نزاکتوں کا خیال رکھا جاتا ہے اور جنہوں نے مہذب زندگی کو اپنا لیا ہے، وہ اس لطیف عشق سے محروم نہیں ہیں کہ جس کا منشاء محبوب کی اداؤں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے سوا کچھ نہیں اور ہم نے اپنی ساری زندگی میں کوئی ایسا شخص نہیں پایا جس کا دل نرم، طبیعت نازک، سوچ پاکیزہ اور روح مہربان ہو اور وہ اس محبت سے عاری ہو۔
لیکن ہم نے کردوں، بدوؤں، ترکوں اور حبشیوں جیسی کثیف، سخت دل اور خشک فطرت اقوام کو اس قسم کی محبت سے عاری پایا ہے۔ بلکہ ان میں سے اکثر مرد عورتوں سے محبت اور عورتیں مردوں سے محبت تک ہی محدود رہتی ہیں۔ یہ حیوانوں کی طرح بس جنسِ مخالف سے ہم بستری اور پست خواہشات کو پورا کرنے پر متمرکز ہوتے ہیں، کہ جس کام سے فطرت کا مقصد محض انسانی نسل کی بقاء ہے اور ہیولوں میں اشکال کو باقی رکھنا ہے۔ پس یہ لوگ ہمیشہ سوزاک اور نامردی میں مبتلا رہتے ہیں۔
ظریف اور لطیف طبع لوگوں میں اس عشق کی موجودگی کا مقصد نوخیز لڑکوں کو سدھانا، انکی تربیت کرنا، انہیں مہذب بنانا اور انہیں نحو، لغت، بیان اور حساب وغیرہ جیسے علوم پڑھانا اور دقیق مہارتیں سکھانا ہے۔ پسندیدہ آداب، موزوں و لطیف اشعار اور پاک صاف نغمے یاد کرانا اور قصے، تاریخ، حکمت کے نایاب موتی اور احادیث پڑھا کر ان میں نفسانی کمالات پیدا کرنا ہے۔
کیوں کہ بچے اور نو عمر لڑکے جب اپنے ماں باپ کی تربیت سے فارغ ہو لیتے ہیں تو انہیں استادوں اور معلمین سے تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ ان کی توجہ اور محبت کے محتاج ہوتے ہیں، ان کی شفقت بھری نگاہ اور پیار کے طالب ہوتے ہیں، اسلئے یہ جائز ہے۔
بڑی عمر کے مردوں کے دلوں میں نو عمر لڑکوں کی کشش اور خوبصورت نوخیز نوجوانوں کا عشق خدا کی عنایت ہے تاکہ اساتذہ ان کو ادب سکھانے، ان کے ناقص نفوس کی تہذیب کر کے کمال تک پہنچانے، انہیں زندگی کے عالی مقاصد اور خود شناسی کی تبلیغ کرنے کی طرف مائل ہوں۔
وگرنہ خدا اس عشق کو اکثر علماء اور ظریف لوگوں کے دلوں میں بلاوجہ پیدا نہ کرتا۔ اس عشق کا سنگدل اور خشک لوگوں کے بجائے لطیف روحوں اور نازک دلوں میں پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا کوئی فائدہ، کوئی حکمت اور ایک صحیح مقصد ہے۔
ہم جب ان اہداف کی ترتیب کو دیکھتے ہیں کہ جن کا ہم نے ذکر کیا ہے تو لامحالہ انسان میں اس عشق کی موجودگی کو ایک رزیلت یا بدی کے بجائے فضیلت اور خوبی ماننا پڑتا ہے۔
اور میری زندگی کی قسم! یہ عشق روح کو دنیا کی سب پریشانیوں سے آزاد کر دیتا ہے اور انسان کا صرف ایک مقصد رہ جاتا ہے اور وہ ہے انسانی حسن کا نظارہ کرنا کہ جس میں الله کے حسن کے آثار بہت زیادہ ہیں۔
چنانچہ اس کی طرف اس ارشاد ربانی میں اشارہ ہوا ہے: ”لقد خلقنا الانسان في أحسن تقويم“ (سوره تین، آیت 4) اور اس آیت میں: ”ثم أنشأناه خلقا آخر فتبارك الله أحسن الخالقين“ (سوره مومنون، آیت 14) ۔
اب چاہے خلق الآخرسے مراد ظاہری شکل کا مکمل ہونا ہو یا نفسِ ناطقہ، دونوں صحیح ہیں کیونکہ ظاہر اصل میں باطن کا ہی پرتو ہوتا ہے اور صورت حقیقت کا عکس ہوتی ہے اور بدن میں جو ہے وہ نفس اور اسکی صفات کے مطابق ہی ہے کیونکہ مجاز کا راستہ حقیقت تک پہنچاتا ہے۔
لہٰذا کسی انسان سے یہ نفسانی لگاؤ اگر حیوانی شہوت کے حد سے بڑھ جانے کا نتیجہ نہ ہو بلکہ معشوق کی اداؤں، اس کے پیکر کی ترکیب، مزاج کے اعتدال، حسنِ اخلاق، چال ڈھال کے تناسب اور اس کے ناز نخروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کیلئے ہو تو یہ فضائل میں سے ہے اور اس سے دل نرم، ذہن تیز اور روح بلند معارف کو سمجھنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔
اسی وجہ سے مشائخِ طریقت اپنے مریدوں کو آغاز میں عشق کرنے کا حکم دیتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ پاکیزہ عشق روح کو نرم اور دل کو روشن کرنے کے اہم ترین اسباب میں سے ہے۔
احادیث میں بھی آیا ہے کہ ”ان الله جميل يحب الجمال“، الله حسین ہے اور خوبصورتی کو پسندفرماتا ہے۔
کہا گیا ہے کہ جو عاشق ہوا مگر پاک دامن رہا اور اپنےعشق کو چھپایا، وہ مرا تو شہید مرا۔
یہاں یہ کہنا ہے کہ انسان میں پایا جانے والا عشق دو طرح کا ہے: حقیقی اور مجازی، اور حقیقی عشق الله اور اسکی صفات و افعال سے محبت ہے، اس عنوان سے کہ یہ اس کے افعال ہیں۔
عشقِ مجازی کی دو قسمیں ہیں، ایک نفسانی عشق اور دوسرا حیوانی عشق ہے۔ نفسانی عشق وہ ہے جو عاشق اور معشوق کے نفوس کی جوہری موافقت سے پیدا ہوتا ہے اور اسکا اثر محبوب کی اداؤں کی مدح کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے، وہ ادائیں محبوب کے نفس کا پرتو ہوتی ہیں۔
عشقِ حیوانی جسم کی ضرورت اور لذت کی طلب سے پیدا ہوتا ہے اور عاشق کو معشوق کے ظاہر سے لگاؤ ہوتا ہے اور وہ اس کے اعضاٴ کے رنگ، تناسب اور بناوٹ کی طرف مائل ہوتا ہے، جو جسم کی صفات ہیں۔
پہلی قسم کا عشقِ مجازی نفس کی لطافت اور نرم دلی کا تقاضا ہے اور دوسری قسم کا عشقِ مجازی نفس کے برائی کی طرف رجحان سے پیدا ہوتا ہے اور اکثر اوقات گناہوں کی لالچ پر جا ٹھہرتا ہے۔ اس میں عقل پر حیوانیت غالب آ جاتی ہے۔
اس کے برعکس پہلی قسم سے نفس میں شیفتگی اور لطافت پیدا ہوتی ہے۔ وجد اور حزن و بکاء اور رقتِ قلب و فکر پیدا ہوتی ہے۔ گویا وہ کوئی باطنی چیز طلب کر رہا ہو کہ جو حواس سے پوشیدہ ہے۔
لہٰذا نفس دنیاوی مشاغل سے اپنا رابطہ توڑ کر معشوق کے سوا سب کو بھلا دیتا ہے اور وہی اس کی فکر کا مرکز اور اسکی پریشانیوں کا محور بن جاتا ہے۔
اس طرح نفسانی عشق رکھنے والے کیلئے محبوبِ حقیقی کی طرف متوجہ ہونا اسے نہ رکھنے والے کی نسبت آسان تر ہے، کیوں کہ اس نے دنیا سے تعلق پہلے ہی توڑ لیا ہوتا ہے اور اب صرف معشوق بدلنا ہوتا ہے۔
لیکن یہاں ایک نکتے کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اگرچہ یہ عشق اخلاقی خوبی شمار ہوتا ہے، لیکن یہ اکثر انسان کو عقل اور شہوت کے دوراہے پر لا کھڑا کرتا ہے۔
ایسی خوبی ہر زمانے اور ہر حال میں ہر کسی کیلئے علی الاطلاق اچھی اور شرافت مندانہ نہیں ہے۔
بلکہ ضروری ہے کہ اس عشق کا استعمال سیر و سلوک کے وسط میں نفس کو رام کرنے اور غفلت سے جگانے اور طبیعت کی سختی کو ختم کرنے کیلئے کیا جائے تاکہ اسے لذتوں کے سمندر سے باہر نکالا جا سکے۔
لیکن نفس کی الہٰی معارف سے تکمیل کے مراحل میں کہ جب وہ عقلانیت تک پہنچ جائے اور علوم کے کلیات کو سمجھ لے اور عالمِ قدس سے ملحق ہو چکا ہو تو اس وقت خوبصورت اور نمکین چہروں اور بشری اداؤں کے عشق میں مبتلا ہونا مصلحت نہیں ہے، کیوں کہ اب اسکا رتبہ ان چیزوں سے بالاتر ہو چکا ہے۔
اسی لیے کہا گیا ہے کہ مجاز حقیقت کو پانے کا راستہ ہے، یعنی جب اس راستے سے نکل کے حقیقی دنیا میں پہنچ گئے تو دوبارہ اس خیالی دنیا میں واپس جانا گھٹیا اور قبیح حرکت ہے اور بری خصلتوں میں سے ہے۔
بعید نہیں کہ اس عشق کے بارے میں ہمارے پیشروؤں کے بیچ اختلافِ نظر کا سبب یہی ہو کہ وہ پاکیزہ نفسانی محبت، جس کا مصدر نفس کی نرمی اور محبوب کی اداؤں، اس کے چہرے کی زیبائی، اسکے بدنی تناسب اور مزاج کے اعتدال کی مدح اور ستائش ہے، اس کو اس حیوانی شہوت سے تشبیہ دے رہے تھے کہ جس کا منشاء جسمانی تقاضے ہیں۔
البتہ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ یہ عشق بیکار لوگوں کا کام ہے، وہ اہلِ فکر نہیں ہیں اور عرفانی رازوں سے بے خبر اور نازک رموز سے ناواقف ہیں۔ وہ فقط حواس تک محدود ہیں اور ظاہری جذبات کے اظہار سے آگے نہیں سمجھتے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اللہ نفوس کی جبلت میں کسی چیز کو کسی بڑی حکمت اور کسی عظیم مقصد کے بغیر نہیں رکھتا۔
اور جو لوگ اسے نفسانی بیماری یا روحانی جنون سمجھتے ہیں وہ اس وجہ سے ایسا کہتے ہیں کیوں کہ انہوں نے عاشقوں کی نیندیں اڑنے، ان کے جسم کے لاغر ہونے، ان کی صحت خراب ہونے، نبض کی تیزی، آنکھیں دھنس جانے، سانس اکھڑنے اور چہرے کی پژمردگی کا مشاہدہ کیا تو انہیں مریض سمجھا۔
لہٰذا وہ سمجھے کہ اس عشق کا سبب مزاج کا فساد اور سوداٴ (ایک فرضی رطوبت) کا غلبہ ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ یہ حالات نفس سے شروع ہوتے ہیں اور بدن پر اثر کرتے ہیں۔
چونکہ ہر وہ شخص جو اہلِ فکر ہو اور ہمیشہ اپنے دل کے راز سے پریشان رہتا ہو اور اس میں بہت توانائی خرچ کرے اور اسی میں ڈوبا رہے تو اسکی جسمانی توانائی دماغ میں خرچ ہو جاتی ہے اور دماغی کام کی کثرت کی وجہ سے حرارت پیدا ہوتی ہے جو مختلف رطوبتوں اور سالم مرکبات کو جلا دیتی ہے۔
اس طرح مایوسی اور خشکی جسم کے اعضاء پر وارد ہو جاتی ہے اور خون کو سوداٴ (ایک فرضی رطوبت) میں بدلنے لگتی ہے۔ بعض اوقات اس سے مالیخولیا بھی پیدا ہو جاتا ہے۔
اسی طرح جو یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ایک روحانی جنون ہے تو وہ اسلئے کہ انہیں ایسی کوئی دوا نہیں ملی جو اسکا درمان کر سکے نہ ایسا شربت ملا جو اس کو ٹھیک کر دے۔ سوائے الله سے دعا مانگنے، نماز پڑھنے اور صدقہ دینے اور کاہنوں اور پادریوں سے دم کروانے کے کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
یونانی طبیبوں اور فلسفیوں میں بھی یہی طریقے رائج تھے کہ جب کسی مریض و علیل شخص کے علاج معالجہ سے ناامید ہو جاتے تھے تو اسے اپنے بت خانوں میں لے جاتے تھے اور اس کیلئے عبادت، صدقات اور قربانی دینے کا کہتے اور پجاریوں اور مذہبی پیشواؤں سے خدا کے سامنے شفا کیلئے دعا کرنے کا کہتے۔ اور جب مریض ٹھیک ہو جاتا تو اس علاج کو روحانی علاج اور اس بیماری کو روحانی جنون کہا جاتا۔
ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ یہ عشق ہوا و ہوس ہے جو نفس پر غالب ہو جاتی ہے جیسے کہ جسم پر مختلف مزاج ظاہر ہوتے رہتے ہیں یا جنس میں باہم مماثل صورتیں!
ان میں سے کچھ یہ کہتے ہیں کہ اس عشق کی جڑ پیدائش کے وقت زائچوں کا ملنا ہے۔ پس جن دو لوگوں کے زائچے پیدائش کے وقت مل گئے، یا دونوں کے زائچوں میں ایک ستارہ آیا یا دو برج بعض چیزوں میں اشتراک رکھتے ہوں، جیسے ایک جیسی مثلثیں وغیرہ جنہیں جنتریوں والے بہتر سمجھتے ہیں، تو ان لوگوں میں عاشقی معشوقی واقع ہو جاتی ہے۔
ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ عشق مل کر ایک ہو جانے کی شدید اور حدیں پار کرتی ہوئی خواہش کا نام ہے۔ یہ بات اگرچہ اچھی ہے لیکن مختصر ہے اور اس کی تفصیل جاننا پڑے گی۔
یہ کس قسم کا مل کر ایک ہونا ہے؟
چونکہ ملنے سے مراد بعض اوقات دو جسموں کا امتزاج اور اختلاط ہوتا ہے۔ ایسی آمیزش نفس کے معاملے میں تو ممکن نہیں ہو سکتی۔
اگر عاشق اور معشوق کے بدن میں غفلت یا نادانی سے رابطہ برقرار ہو جائے یا خواب میں بدن مل جائیں تو جان لیجئے کہ اس سے مقصد حاصل نہیں ہو گا کیوں کہ جیسا کہ پہلے بیان ہوا، عشق نفس کی صفت ہے، جسم کی نہیں۔
بلکہ ملاپ کا صحیح معنی اور تصور وہی ہے جسے ہم نے عقل و معقول کی بحث میں بیان کیا ہے، یعنی نفسِ عاقل کا نفسِ حساس سے عقلِ بالفعل اور محسوسِ بالفعل کے طور پر متحد ہو جانا۔
یہ ہے صحیح معنوں میں عاشق کا معشوق ہو جانا، اور یہ مشاہدے کی تکرار، گہری سوچ و بچار اور معشوق کے چہرے اور شمائل کے خیالوں میں گم رہنے اور اس کا ذکر کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ محبوب کی فرضی شکل نظر آنے لگے اور عاشق کے مَن میں اسکی تصویر نقش ہو جائے۔ یہ وہ چیز ہے جس کا راستہ ہم نے روشن کر دیا اور طریقہ بتا دیا، اس طرح کہ کوئی ذہین آدمی انکار کی جرات نہ کرے۔
عاشقوں کی کہانیوں میں ایسی باتیں آئی ہیں کہ جن سے ہماری بات صحیح ثابت ہوتی ہے۔ جیسے کہ بیان ہوا ہے کہ ایک دفعہ مجنون عشق میں اتنا ڈوبا ہوا تھا کہ جب اس کی محبوبہ آئی اور کہا کہ میں لیلیٰ ہوں، تو اس نے کوئی توجہ نہ کی اور کہا: میں اب تمہارے عشق سے بے نیاز ہو چکا ہوں۔
ایسا اس لیے ہوا کہ عشق اصل میں اسی صورتِ حاصل کا نام ہے، یہ وہی معشوق ہے جو اندر نقش ہو چکا اور ذہن سے باہر وجود نہیں رکھتا۔ وہ اعراض سے پاک صورت کا مالک ہے، کیوں کہ معلوم اپنی اصل میں وہی صورتِ علمی ہے، نہ وہ کہ جو تصور کا خارج میں مصداق ہے۔
جیسا کہ کہا ہے، جب حاضری کی شدت اور زور کے مشاہدے سے عاقل اور معقول کا ایک ہونا اور حسی جوہر کا محسوس میں ڈھل جاناصحیح اور روزِ روشن کی طرح عیاں ہے، تو عاشق کا اس طرح معشوق کی صورت اختیار کر لینا بھی ممکنات میں سے ہے کہ جس کے بعد معشوق کی جسمانی حاضری کی ضرورت نہ رہے اور اس کے آنے سے کوئی فائدہ نہ ہو۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:
انا من اھوی، و من اھوی انا
(میں وہی ہوں جس کا عاشق ہوں، معشوق خود مجھی میں ہے)
نحن روحان، حللنا بدنا
(ہم وہ روحیں ہیں کہ جن کے جسم حلول کر گئے)
فاذا ابصرتنی ابصرتہ
(جس نے مجھے دیکھا، اسے دیکھا)
و اذا ابصرتہ ابصرتنا
(جس نے اسے دیکھا، اس نے مجھے بھی دیکھا)
پس مخفی نہ رہے کہ دو چیزوں کا اتحاد اس کے سوا کچھ نہیں جس کو ہم نے تحقیق کے بعد ثابت کیا، اور یہ روحانی معاملات اور نفسانی احوال کی خاصیت ہے۔
لیکن جسم کی دنیا میں اتحاد کا کسی صورت امکان نہیں۔ ہاں جسم قریب آ سکتے ہیں، مخلوط ہو سکتے ہیں اور چھو سکتے ہیں۔ بلکہ ہماری تحقیق یہ کہتی ہے کہ اس دنیا میں حقیقی ملاپ ممکن ہی نہیں اور دو وجوہات کی بنا پر اتحاد نہیں ہو سکتا:
پہلی یہ کہ جب ایک متصل جسم پر تحقیق کی جائے تو معلوم ہو گا کہ وہ غیبت اور فقدان سے آمیختہ ہے، کیوں کہ اس کا ہر جز دوسرے اجزاء سے جدا ہے۔ پس اس کے اجزاء میں اتصال اصل میں جدائی ہے، مگر چونکہ ان اجزا کے مابین کوئی خلا یا سطح یا جسمِ مباینی نہیں ہے، لہٰذا کہا جاتا ہے کہ یہ اجزاء متصل ہیں۔ ان کی وحدت کثرت سے پاک نہیں ہے۔ چونکہ جسم کی ذات ہی یہ ہے، یعنی عدمُ حضورِ وحدت، لہٰذا کوئی اور چیز کیسے اس سے وحدت حاصل کر سکتی ہے؟ بھلا اس جسم اور کسی اور چیز میں ملاپ کیسے ہو سکتا ہے؟
دوسری یہ کہ اس بات سے قطع نظر کہ جو پہلے کہا، دو اجسام میں پیوند اور اتصال ممکن نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کی سطح آپس میں مس ہو اور سطح جسم کی حقیقت اور ذات سے الگ چیز ہوتی ہے۔
اس صورت میں پیار کرنے والے کے جسم سے کوئی چیز معشوق کے جسم کی ذات میں نہیں جا سکتی۔ کیوں کہ یہ چیز یا اس کا نفس ہے یا جسم، یا نفس یا بدن کے عوارض میں سے کوئی عرض ہے، ان کے علاوہ تیسری چیز محال ہے۔
چونکہ عرض کا منتقل ہونا محال ہے، لہٰذا دوسری کا بھی امکان نہیں۔ چونکہ دو جسموں کا ضم ہونا بھی محال ہے، اور جسم کی اطراف اور حدود کا ملنا عاشق کے مرض کی شفا نہیں نہ اسکی پیاس بجھاتا ہے، لہٰذا پہلا طریقۂ وصال بھی ناممکن ٹھہرا۔
چونکہ اگر نفوس میں سے کسی نفس کا اپنی ذات میں کسی بدن کے ساتھ اتصال فرض کر لیا جائےتو اسے اس کا نفس بننا پڑے گا جس کا نتیجہ ایک بدن کے دو نفس نکلتا ہے اور یہ محال اور ناممکن ہے۔ چاہے عاشق کی آخری تمنا بھی پوری ہو جائے۔
یعنی معشوق کے نزدیک ہونا اور اس کے ساتھ محفل جمانا، اور یہ تمنا پوری ہو جائے تو وہ اس سے آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ وہ تنہائی میں ملاقات کرنا اور اس کے ساتھ اکیلے میں بیٹھنا چاہتا ہے۔ یہ آرزو پوری ہو جائے اور تیسرا کوئی نہ ہو تو عاشق بوس و کنار کرنا چاہتا ہے۔ یہ خواہش بھی پوری ہو جائے تو عاشق اس سے ایک لحاف میں سونے اور تمام اعضاء و جوارح ملانے اور اس سے آگے کچھ کرنے کی بھی تمنا کرتا ہے۔
لیکن اب بھی اس کا شوق پورا نہیں ہوتا اور نفس کی آگ پہلے کی طرح باقی رہتی ہے۔ بلکہ شوق اور اضطراب بڑھ جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک عاشق کہتا ہے:
أعانقها والنفس بعد مشوقة
(تڑپ کے اس کے گلے جو ملا)
إليها وهل بعد العناق تداني
(دل بولا اور آگے بڑھ جا)
والثم فاهاكى تزول حرارتي
(لب چوم کے خود کو ٹھنڈا کیا)
فيزداد ما القى من الهيجان
(ہیجان مگر بڑھتا ہی گیا)
كان فؤادي ليس يشفى غليله
(مرے دل کی پیاس تو بجھے گی نہیں)
سوى ان يرى الروحان يتحدان
(جب تک دو روحیں ایک نہ ہوں)
اس کا لمی سبب یہ ہے کہ محبوب حقیقت میں ہڈیاں اور گوشت اور بدن کی کوئی چیز نہیں بلکہ مادی دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جس سے نفس لگاؤ پیدا کرے اور اسکی آرزو کرے۔ بلکہ معشوق وہ روحانی صورت ہے جو کسی اور دنیا میں پائی جاتی ہے۔ (1)
حوالہ:
1۔ ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 7، صفحہ 171 تا 179، دار احياء التراث العربی، بيروت۔