کتاب ”تصوف اور تشیع کا فرق“ کو ڈاؤنلوڈ کریں۔ تالیف: علامہ ہاشم معروف حسنی، ترجمہ: شیخ محمد حسن جعفری
مولانا محمد حسن جعفری بلوچ نے علامہ سید ہاشم معروف حسنی لبنانی کی عربی تصنیف موسومہ ’’بین التصوف و التشیع‘‘ کا ’’تصوف اور تشیع کا فرق‘‘ کی صورت اردو ترجمہ کر کے ۲۰۰۸ء میں مجمع علمی اسلامی کراچی سے شائع کرایا جو ۵۲۸ صفحات پر محیط ہے۔
اس کے آغاز میں تین صفحاتی ’’ابتدائیہ‘‘ جناب رضا حسین رضوانی نے اور تین صفحاتی ’’پیش لفظ‘‘ مصنف نے لکھا ہے۔ تصنیف ۷۴ عنوانات کی حامل ہے جن میں مسلک تشیع کی تاریخ و اصول، تاریخِ تصوف، تصوف و تشیع میں فرق، اصطلاحات ِتصوف، مشہور صوفیہ کا تذکرہ، افکار و عقائد، کرامات، شطحیات، وغیرہ شامل ہیں۔
بنیادی طور پر یہ کتاب بغداد یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر کامل مصطفیٰ شیبی کی تصنیف ’’الصلۃ بین التصوف والتشیع‘‘ کے رد میں بطورِ دفاع لکھی گئی جہاں ڈاکٹر شیبی نے تصوف کو اہل تشیع کی فکر کا پروردہ قرار دیا تھا۔
اس کے کچھ چیدہ عنوانات یہ ہیں: سببِ تالیف، کیاتشیع سبائی فتنہ ہے؟، کیا تشیع خوارج کے ظہور کا ردعمل ہے؟، کیا تشیع شہادتِ حسین ؑ کا ردعمل ہے؟، تصوف اور تشیع میں فرق، تجسیم، حلول، اتحاد، وحدت الوجود، نبوت، امامت شیعوں کی نظر میں، شیعہ اور صوفیہ کی نظر میں عصمت کا مفہوم، شفاعت: اسلام کی نظر میں اور صوفیہ کی نظر میں، تقیہ اورفرقۂ ملامتیہ، کراماتِ آئمۂ اہل بیت ؑ اور کراماتِ اولیائے صوفیہ، تفسیر و تاویل، تصوف اور آئمۂ اہلبیت ؑ، غلات، حقیقت تصوف اور اس کی تعریفات، تصوف پر یونانی فلسفے، ہندومت، بدھ مت اور چینی فلسفہ کے اثرات، حقیقتِ محمدیہ، صوفیہ کے ہاں نبوت اور ولایت کا نظریہ، نظامِ کائنات صوفیہ کی نظر میں، غالی صوفیہ کی نظر میں جنت و دوزخ کا تصور، کرامت، بھنگ نوشی، علم و عمل اور جہاد کے بارے صوفیہ کے نظریات، اصطلاحاتِ صوفیہ: جمع و تفریق، فنا وبقا، قبض و کشاد، خلوت، غیاب وحضور، تلوین و تمکین، تجرید و تفرید، ملامتیہ اور جواں مردی، مرید و شیخ، اولین صوفی اقطاب، صوفی طریقے اور سلسلے، تصوف کے متعلق آئمۂ اہل بیت ؑ اور علمائے شیعہ ؒ کے نظریات۔
اولین صوفی اقطاب کے باب میں عبدالواحد بن زید، ابراہیم بن ادہم، ذوالنون مصری، شفیق بلخی، بشر حافی، عسکر بن حسین، معروف کرخی، حاتم الاصم، ابو حمزہ خراسانی، ابو بکر شبلی، سری سقطی، جنید بغدادی، سمنون بن عمر، بایزید بسطامی، سہل بن عبداﷲ تستری، محمدبن خفیف شیرازی، منصور حلاج، ابنِ عربی، عبدالکریم جِیلی کے حالات و عقائد بیان کئے گئے ہیں اور یہ دکھایا گیا ہے کہ ان حضرات کی سوچ شیعہ مکتبِ فکر سے تضاد رکھتی تھی۔
تصنیف کے مندرجات کا خلاصہ یہ ہے کہ بقول ڈاکٹر شیبی، مسلکِ تشیع تین مراحل سے گزرا۔ اس کا پہلا مرحلہ ظہور اسلام سے متصل ہے۔ حضرت علی ؑ ’’جوہرِ اسلام‘‘ کی نمائندگی کرتے تھے اور سابقون الاولون کی ایک جماعت ان کی پیروی کرتی تھی۔ ان میں سلمان فارسیؓ، ابوذر غفاریؓ اورعمار بن یاسرؓ سرفہرست تھے۔ یہ لوگ حضرت علی ؑ سے محبت کرتے تھے۔ ان لوگوں کا تشیع صرف اسی حدتک تھا۔
تشیع کا دوسرا مرحلہ ایک سیاسی تحریک کی صورت میں اس وقت شروع ہوا جب حضرت عثمان کے بعد حضرت علی ؑ خلیفہ بنے اور جمل و صفین کی خون ریز جنگیں ہوئیں۔ تیسرا مرحلہ امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد شروع ہوا اور اسی مرحلے میں شیعیت کے عقائد مکمل ہوئے۔
حضرت علی ؑ کے دور میں ان کے حمایتی اگرچہ شیعہ تھے مگر ان کا تشیع وہ نہیں تھا جو بعد کے شیعہ فقہا اور متکلمین کے ہاں پایا جاتا ہے۔ مسلک شیعہ کے وہ اصول ہیں کہ ابتدائی لوگ ان اصطلاحات سے نامانوس تھے عصمت، رجعت، بداء، تقیہ، وغیرہ ہیں۔ تصوف کو تشیع کی وجہ سے فروغ ملا۔
اس کے برعکس علامہ سید ہاشم معروف حسنی کے نزدیک تشیع روزِ اول سے اسلام کا جزو رہی ہے۔ اس کی ابتدا آیتِ انذار کے وقت سے ہوئی جب آنحضرت ؐ نے بنی عبدالمطلب کو کھانے پر بلایا اور فرمایا: تم میں سے کون ہے جو اس دعوت میں میری مدد کرے؟ «وَ أَنْذِرْ عَشِیرَتَک الْأَقْرَبِینَ وَاخْفِضْ جَناحَک لِمَنِ اتَّبَعَک مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فَإِنْ عَصَوْک فَقُلْ إِنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تَعْمَلُون» (سوره شعراء/۲۱۴ ـ۲۱۶)۔
اس اعلان پر حضرت علی ؑ کے سوا کسی نے لبیک نہ کہا۔ آپ نے فرمایا: «إِنَّ هَذَا أَخِی وَ وَصِیی وَ خَلِیفَتِی فِیکمْ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِیعُوا» (تاریخ الامم والملوک، محمد بن جریر الطبری، بیروت، دار قاموس الحدیث، ج ۲، ص ۲۱۷)۔ یہ میرا بھائی، میرا وصی اور تمہارے درمیان میرا خلیفہ ہے۔ تم لوگ اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔
اس کے باوصف مسلمان اپنی تاریخ کے آغاز میں مسئلہ امامت پر اختلاف کا شکار ہوئے۔ اہل تسنن اور اہل تشیع کے بنیادی عقائد توحید، تنزیہ خداوندی، عدل، نبوت، معاد، اور ثواب و عقاب میں کوئی زیادہ فرق نہیں رکھتے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور جہاد کے بارے میں ان کے نظریات میں کوئی بڑا تصادم نہیں ہے۔ حقیقتِ قرآن و سنت کے بارے میں بھی اختلاف نہیں۔ تاہم اسلام کی بنیادی تعلیمات کی تشریح کے ضمن میں اختلاف ہے۔ لیکن ان اختلافات سے کوئی اسلام سے خارج نہیں ہے۔ خارج از اسلام کوئی اس وقت ہوتا ہے جب وہ ان عقائد کا انکار کرے۔
اہل تشیع کے نزدیک ازروئے شرع امام کا تقرر خدا پر واجب ہے جب کہ اشاعرہ کے نزدیک امام کا نصب واجب نہیں۔ عبداﷲ بن سبا، جسے مسلک شیعہ کا بانی مشہور کیا جاتا رہا ہے، اس نے حضرت علی ؑ کی ولایت، وصایت اور پیغمبرؐ کی رجعت کا عقیدہ پیش کیا۔ وہ تاریخ میں ایک فرضی کردار ہے۔ یہ کہانی سیف بن عمر تمیمی نے دوسری صدی ہجری میں گھڑی۔ حضرت عمار یاسرؓ، جو حضرت علی ؑ کے طرف دار تھے، کے ذکر کو چھپانے کے لیے یہ طلسماتی کردار بنایا گیا۔
شیعیت میں تجسیم و تشبیہ خدا اور دیدار الہیٰ کی نفی ہے۔ تصوف ظہورِ تشیع سے قبل کی سوچ ہے جس کا وجود دو ہزار سات سو سال قبل چینی فلسفہ میں ملتا ہے۔ جہاں کنفیوشس کے ہم عصر چینی صوفی ’’لی آرہ‘‘ یا لاؤ ٹسے (Lao Tzu/ lao Tse) نے صوفیانہ نظریات پیش کئے۔ اس نے دنیا سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دریائے زرد کو عبورکر کے لاتعلق ہونے کی کوشش کی۔ آخری سرحد پر اسے روک کر ایک کتاب لکھنے کا کہاگیا۔
اس نے دو الفاظ ’’ٹاؤ (Tao/Dao)‘‘ اور ’’ٹی (Te/De)‘‘ پر کتاب نیز پانچ ہزار الفاظ پر ان کی شرح لکھی۔ ’’ٹاؤ ‘‘ سے مراد راستہ اور’’ٹی‘‘ سے مراد دروازہ ہے۔ اس کے نزدیک ٹاؤ کے حصول کے لیے بشری خواہشات، جسمانی ضروریات اور اپنی ذات کے شعور سے آزاد ہونا چاہیے۔ باطن کی صفائی، روشن ضمیری اور نیکی کرنا انسان کی فطرت ثانیہ بن جائے۔ اس سے نفس کی پاکیزگی حاصل ہوتی ہے اور روح ٹاؤ کا مفہوم جاننے کے قابل ہو جاتی ہے۔ تب جا کر ٹاؤ سے اتصال ہوتا ہے اور ذات حق کی تجلی ہوتی ہے۔ یہی لفظ تصوف کی بنیاد بن گیا۔ مسلم تصوف اور چینی ٹاؤ ازم میں مشابہت ہے۔
خراسان، سبزوار، شیراز، بلخ، نیشاپور، ماوراء النہر کے لوگوں کا چین سے رابطہ رہا۔ جب یہ مسلمان ہوئے تو ان میں سابقہ مذاہب کے اکابر عالم موجود تھے۔ برامکہ کا تعلق ماوراء النہر سے تھا جو قبل از اسلام مجوسی تھے۔ ان نو مسلم شیوخ نے اپنے سابقہ مذہبی افکارِ تصوف مسلمانوں میں متعارف کرائے۔
ہندوستان میں برہمن تصوف اور بدھ تصوف حضرت عیسیٰ ؑ کی بعثت سے قبل موجود تھے۔ ایران میں مانویت اور زرتشتی تصوراتِ تصوف موجودتھے۔ مسلمانوں پر تصوف کے اثرات اس وقت مرتب ہوئے جب عہد بنو عباس میں نئی مباحث کا آغاز ہوا۔ خلیفہ منصور نے ۱۴۸ھ میں جندی شاہ پور مدرسے میں نصرانی عالم جریس بن بختیشوع کو سربراہ مقررکیا جس نے یونانی کتب کے تراجم کا سلسلہ شروع کیا۔ شام اور فارس کے نسطوری عیسائیوں نے ارسطو کی تعلیمات عام کیں۔ حران کے عیسائیوں نے یونانی فلسفہ کی کتب کا عربی ترجمہ کیا۔ یوں عربوں میں نو فلاطونی تصوف کی تعلیمات متعارف ہوئیں۔
افلاطون کے مطابق عقل کے ذریعے معرفتِ خدا محال ہے۔ اس کے لیے بے خودی، غور و فکر، اوراد، مجاہدات اور فنا ضروری ہیں۔ نو فلاطونیت سے ابنِ عربی اور الجیلی جیسے صوفیہ متاثر ہوئے۔ یہ اثرات حلاج اور بسطامی پر پڑے تھے۔ انہی بیرونی درآمدکردہ معجون نما حلول اتحاد، تناسخ جیسے خیالات سے مسلم تصوف کی بنیاد پڑی۔ ماسینیون (Massignon) کے مطابق لفظ ’’صوفی‘‘ دوسری صدی ہجری کے وسط میں سامنے آیا۔ اولین بار جابربن حیان اور ابو ہاشم کوفی کو اسی لفظ سے موسوم کیا گیا۔ صوفیہ شعبدہ باز تھے۔ یہ غلو میں انبیاء ؑ جیسی کرامات بیان کرتے۔ کئی صوفیوں نے اپنی کرامات میں انبیاء ؑ سے برتری کا دعویٰ کیا۔
انہوں نے بے فائدہ مشکل اصطلاحات تراشیں اور ان کے معنوں میں ابہام پیدا کیا۔ جیسے: صوفی، حال، وجد، صحو، سکر، رضا، رجا، زہد، خوف، توکل، کرامات، استدراج، باطنیہ، تقمص، نسخ، فسخ، رسخ، تناسخ (آواگون)، لطف، حلول، مکاشفہ، لوائح، طوالع، لوامع، تجلی، شریعت، طریقت، حقیقت، وغیرہ۔
صوفیہ اکتسابی علم کے خلاف رہے اور اسے حجاب بتاتے جب کہ غیبی علم کے قائل تھے۔ ان کے اراکین تصوف گرسنگی، بیداری، کم گوئی، مردم بیزاری تھے۔ جنید کے استاد ابو جعفر حداد، ابو سعید خزاز اور ابراہیم بن ادہم جیسے صوفی، امراء کے دروازوں پر بھیک مانگتے اور اسے ریاضت کی روح بتاتے۔ تصوف مسلکِ تشیع کا پروردہ نہیں بلکہ بیش تر صوفیہ کا تعلق اہل تسنن سے ہے۔
کتاب کے آخر میں تصوف کے بارے میں شیعہ آئمہ ؑ اور شیعہ علماء کے نظریات بیان کئے گئے ہیں۔
بشکریہ: ڈاکٹر غلام قاسم مجاہد بلوچ