نقد بدایۃ الحکمہ – پانچواں درس
مندرجہ ذیل متن حوزہ علمیہ قم میں جناب محمد حسین طباطبائی کی ”بدایۃ الحکمۃ“ کے رد میں دیئے گئے علامہ سید قاسم علی احمدی کے دروس سے ایک انتخاب ہے۔ اس سلسلۂ دروس کا مقصد حدوث و قدمِ عالم، مادہ و صورت، وحدتِ وجود، اتحادِ علم و عالم و معلوم اور قدیم فلسفے کے دیگر اہم مسائل میں صاحبِ کتاب کی رائے اور وحی اور شریعت کے درمیان بنیادی فرق کو واضح کرنا رہا ہے۔ یہاں وسائل کی کمی کے باعث صرف پانچویں درس کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے۔
پانچویں درس کا ترجمہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہماری گفتگو یہاں تک پہنچی تھی کہ ذہنی مرحلے میں وجود ماہیت پر زائد اور اس سے جدا ہے۔ جیسا کہ ملا ہادی سبزواری اپنی منظومہ میں کہتے ہیں:
ان الوجود عارض الماہیۃ
تصوراً و اتحدا ہویۃ
یعنی ذہنی تصور میں وجود ماہیت پر عارض ہے حالانکہ ان دونوں کی ہویت ایک ہی ہے۔
ہستی اور چیستی
بعض اوقات ہم سوال کرتے ہیں کہ شے کیا ہے، باوجود اس کے کہ ہمیں اس کے تحقق کا علم ہے۔ اور بعض اوقات ہم اس کے تحقق کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں باوجود اس کے کہ ہمیں پتا ہوتا ہے کہ وہ چیز کیا ہے؟ لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ چیستی اور ہستی کا مفہوم الگ الگ ہے۔ یعنی تصور کی حد تک ماہیت اور وجود جدا ہیں۔ مثال کے طور پر، ہم ایک بار پوچھتے ہیں:
سیمرغ کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کے ہونے سے واقف ہیں، لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ کیا ہے۔
لیکن کبھی کبھی ہم پوچھتے ہیں: کیا سیمرغ وجود رکھتا ہے یا نہیں؟ لہٰذا اس صورت میں ہمیں یہ علم تو ہے کہ سیمرغ کیا ہوتا ہے۔ لیکن اس کا تحقق، موجود ہونا اور پایا جانا ہمارے لیے مجہول ہے۔
خارجی اشیاء کس مفہوم کی مصداق ہیں؟
اب سوال یہ ہے کہ ہمارے ذہن سے باہر جو موجودات (existents) ہیں وہ ہمارے ذہن کے اندر پائے جانے والے ماہیت کے مفہوم کا مصداق ہیں یا ہمارے ذہن میں پائے جانے والے وجود کے مفہوم کا مصداق ہیں؟ پس ہماری بحث ایک مصداقی بحث ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ باہر جو چیزیں ہیں وہ ہمارے ذہن میں چیستی کے مفہوم کا مصداق ہیں تو اصالت ماہیت کو حاصل ہو جائے گی اور اگر کہیں کہ ہستی کے مفہوم کا مصداق ہیں تو اصالت وجود کو حاصل ہو گی۔
حقیقت کیا ہے؟
ہمارا یہ کہنا ہے کہ یہ بات بے معنی ہو گی اگر کہا جائے کہ ذہن سے باہر پائے جانے والے موجودات، ہمارے ذہن کے مفہوم وجود کا مصداق ہیں۔ کیونکہ محمد حسین طباطبائی آگے چل کر کہتے ہیں کہ وجود بسیط ہے۔ یعنی خارجی اجزاء اور ذہنی ترکیب نہیں رکھتا۔ فاقد جنس و فصل ہے، بلکہ اس کے جنس اور فصل ایک دوسرے کے عین ہیں۔ یعنی اس کا ما بہ الامتیاز ہی اس کا ما بہ الاشتراک ہے۔
پس اگر یہ کہا جائے کہ خارج میں جو ہے وہ مفہومِ وجود کا مصداق ہے اور اصالت وجود کو حاصل ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ موجودات کمیت، کیفیت اور وزن نہ رکھتی ہوں۔
دوسرے لفظوں میں ممکنات میں سے ہر ایک ماہیت اور وجود سے مرکب ہے۔ یہ ماہیت ہے جو مقولاتِ عشر کیلئے مقسم واقع ہوتی ہے، وجود نہیں۔ یہ ماہیت ہے جو جوہر اور عرض سے تقسیم ہوتی ہے، اور یہ سب وجود کے علاوہ ہیں۔ پس خارج میں ہم جو دیکھتے ہیں وہ جواہر و اعراض کے سوا کچھ نہیں۔
اصالت نہ ماہیت کو حاصل ہے نہ وجود کو
البتہ یہ بات ناگفتہ نہ رہے کہ ہم اصالتِ ماہیت کے بھی قائل نہیں بلکہ ہمارا یہ مؤقف ہے کہ جو کچھ خدا نے خلق کیا وہ اشیاء ہیں جنہیں ہم خارج میں پاتے ہیں۔ جعلِ خداوند موجودات سے تعلق رکھتا ہے۔ جیسے پہاڑ، درخت، پتھر، آسمان، وغیرہ۔ یہ مجعولِ ماہیت نہیں۔ اگر اصالتِ ماہیت کے قائلین کی ماہیت سے مراد خارج میں مجعول شے ہو تو ہمارے اور ان میں کوئی اختلاف نہیں ہو گا۔
ہم یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ جعل کا تعلق اشیاء کے وجود سے نہیں، کیونکہ اس صورت میں ان سے موجودیت کا سلب ہونا بھی برقرار رہنا چاہئے۔ یعنی یہ ممکن ہونا چاہئے کہ موجودیت کی نسبت کو ان سے الگ کیا جا سکے۔ جبکہ ہم واضح طور پر دیکھتے ہیں کہ کسی شے سے موجودیت کا سلب کیا جانا ممکن نہیں۔ یعنی جب کوئی چیز خارج میں موجود ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ہے تو سہی مگر وجود نہیں رکھتی۔ جبکہ اگر وجود اصیل ہوتا تو یہ سلب برقرار ہوتا۔
اسی لیے اصالتِ وجود کے قائلین میں سے بعض نے کہا ہے کہ اصالتِ وجود کو فلسفی ذوق کے زور پر ثابت سمجھنا اور ثابت کرنا چاہئے۔ ورنہ جو کچھ ہم دیکھتے اور جانتے ہیں وہ آسمان، زمین، پتھر، درخت، ۔ ۔ ۔ وغیرہ جیسی اشیاء ہی ہیں۔
اس بنا پر کوئی اور اعتراض کرنے سے پہلے ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ یہ بات اور عقیدہ، یعنی اصالتِ وجود، بداہت کے خلاف ہے، چنانچہ برہان قائم کرنے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔
ہم نے اپنی کتاب ”تنزیہ المعبود“ میں کہا ہے کہ کیا وجدان اور فطرتِ سلیم یہ حکم کرتی ہے کہ اشیاء اور ماہیاتِ خارجی اولاً اور بالذات حقیقی اور واقعی اشیاء ہیں؟ یا یہ کہ وہ جو اولاً اور بالذات محقق ہے حقیقتِ وجود ہے اور ماہیات کا تحقق مجازی اور ثانوی اور عرضی ہے؟ کیا اشیاء واقعی طور پر ذہن سے باہر تحقق رکھتی ہیں یا نہیں؟ (1)
صاحبِ کتاب ”حکمتِ بوعلی“ اپنی کتاب ”ودایع الحکم“ میں کہتے ہیں:
”کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ آخر حقیقتِ وجود کیسی حقیقت ہے کہ ہر نام و نشان، عنوان و مقولہ، مادہ و صورت، جوہر و عرض، حواسِ ظاہرہ و باطنہ کے عناوین اور ان کے مرکز میں جو ہے، سب کچھ خالصتاً ماہیات کا حق ہے اور یہ حقیقتِ وجود ان سے بہرہ مند نہیں ہوتی۔ وجود نہ ذات رکھتا ہے نہ ذاتیات رکھتا ہے۔ کیونکہ ذات بھی ماہیت ہے اور ذاتیات بھی ماہیت ہے۔ اور اس کے کوئی کمالات بھی نہیں کہ، نعوذ باللہ تعالٰی، ذاتِ واجب تعالٰی کی طرح اس کا عین ہوں۔ انہوں نے عجیب واجب الوجود فاقد کمالات بنا لیا ہے کہ سبھی ماہیاتِ کمالات کو بھی اس سے سلب کرنا پڑے۔“ (2)
کیا کتاب و سنت کی نصوص سے یہ متبادر ہوتا ہے کہ خارجی واقعیتیں انسان، درخت اور باقی چیزوں کے مفاہیم کے حقیقی مصادیق ہیں اور یہ امور خارج میں اولاً اور بالذات تحقق رکھتے ہیں؟ یا یہ کہ جو چیز خارج میں موجود اور متحقق ہے ان چیزوں کا وجود ہے یا حقیقتِ وجود متحقق ہے نہ کہ خود یہ اشیاء؟
کیا اشیاء اور خارجی ماہیات ایک سراب کی مانند ہیں جسے جاہل لوگ پانی سمجھ رہے ہوں؟ کیا عقلاء کی اکثریت کے نزدیک جو کچھ موجود ہے خود اشیاء، یعنی خود درخت، پتھر، انسان ہے یا کوئی اور چیز کہ جسے وجود کا نام دیا جائے؟ اگر جواب مثبت ہو، جیسا کہ اصالتِ وجود کے قائلین معتقد ہیں، تو پھر کہنا چاہئے کہ یہ اشیاء اور ذوات حدِ وجود اور اس سے انتزاع کی گئی ہیں۔
دوسرے لفظوں میں آیا اصولاً اشیاء اور ماہیاتِ خارجی سے تحقق اور موجودیت کا چھن جانا ممکن ہے؟
اس بنا پر اگر وجدان اور فطرت کا لازمہ نصوصِ کتاب و سنت سے متبادر اور سبھی عقلاء کے اذہان کا مرتکز یہ ہے کہ وہ جو خارج میں متحقق ہے سورج، چاند، پتھر، درخت، ۔ ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ ہیں۔ اور یہ معلوم ہو چکا کہ وہ جو سبھی دیکھتے ہیں مشخص اور خاص ذوات کے سوا کچھ نہیں کہ جن سے موجودیت کا سلب ہونا ممکن نہیں۔ اور جب یہ واضح ہو گیا کہ ذوات و ماہیاتِ خارجی کا وجود نامی چیز سے انتزاع ہونا باطل ہے۔ تو کیسے ایک عقلمند انسان کیلئے جائز ہے کہ اس امر سے دستبردار ہو جائے جس پر برہان قائم ہو چکا ہے اور اصالتِ وجود کا عقیدہ اپنا لے کہ جو کسی دلیل پر قائم نہیں اور جو دلائل اس کے اثبات کیلئے بنائے گئے ان سب کی بنیادیں نادرست، بدیہیات کے خلاف اور مصادرہ بہ مطلوب ہیں؟ (3)
ملا ہادی سبزواری اعتراف کرتے ہیں کہ اصالتِ وجود کو صرف کشف کے زور پر ثابت کیا جا سکتا ہے۔ محقق اصفہانی اپنی کتاب ”نہایۃ الدرایہ“ میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ تمام مشہور فلاسفہ اور متکلمین اصالتِ ماہیت اور جعل کے ماہیت سے تعلق کے قائل ہوئے ہیں۔ (4)
ملا صدرا بھی اپنے زندگی کے ایک حصے میں اصالتِ ماہیت کا قائل رہا ہے اور اس کا شدت سے دفاع کرتا تھا۔ (5) اور بعد میں اس اعتقاد سے پھر گیا۔ بعض معاصرین نے بھی اقرار کیا ہے کہ فارابی سے پہلے فلسفی بحثوں کا دار و مدار اصالتِ ماہیت پر ہوا کرتا تھا۔ (6)
اصالتِ وجود کے بارے جناب محمد حسین طباطبائی کا مؤقف
پہلے باب کی چوتھی فصل میں اصالتِ وجود و اعتباریتِ ماہیت کے عنوان کے تحت محمد حسین طباطبائی کہتے ہیں:
”اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خارجی دنیا واقعی ہے اور واقعی آثار رکھتی ہے اور یہ وہم یا خیال پردازی کی پیداوار نہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم سوفسطائی نہیں۔ اور یہ سب امور، جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں، اگرچہ ایک ہی چیز ہوتے ہیں لیکن ان سے ہمارا ذہن دو دو مفاہیم نکالتا ہے کہ جن میں سے ہر ایک دوسرے سے الگ ہے۔ ایک ہستی کا مفہوم ہے اور ایک چیستی کا مفہوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں وجود اور ماہیت کے مفاہیم اگرچہ ذہنی مفاہیم ہیں لیکن ان کا خارجی مصداق اور واقعیت ایک ہی چیز ہوتی ہے۔
مثلاً جب ہم خارج میں انسان کو دیکھتے ہیں تو ذہن دو مفاہیم بناتا ہے، ایک یہ کہ وہ انسان ہے اور دوسرا یہ کہ وہ موجود ہے۔ لیکن مسلمان فلسفیوں میں اس بات پر اختلاف ہے کہ ان دو میں سے کونسا اصیل ہے۔ چنانچہ مشائی فلسفی اصالتِ وجود کی طرف مائل ہوئے اور اشراقی فلسفی اصالتِ ماہیت کے قائل ہو گئے۔
لیکن ان میں سے کوئی بھی بیک وقت دونوں کی اصالت کا قائل نہ ہوا۔ کیونکہ اس اعتقاد کا لازمہ یہ ہوتا کہ ایک چیز، دو چیزیں ہو۔ مثلاً یہ کہ ہمارے پاس ایک ایسی ہستی یا وجود ہو جو پھول نہ ہو اور ایک ایسا پھول ہو جو ہستی یا وجود نہ ہو۔ یا مثلاً آگ کے معاملے میں ایک آگ وجود کے بغیر ہو اور ایک وجود آگ کے بغیر ہو۔ ۔ ۔ حق وہی ہے جس کے مشائی فلسفی قائل ہوئے۔“
اصالتِ وجود پر طباطبائی صاحب کے دلائل
محمد حسین طباطبائی وجود کے اصیل ہونے پر چار دلائل قائم کرتے ہیں جن میں سے پہلی دلیل اس مکتب فکر کے مریدوں کیلئے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ گویا کہ باقی سب دلائل اس کے سامنے ہیچ ہیں۔ حتیٰ کہ کہتے ہیں کہ یہ دلیل ایک جادو کی طرح ہے جس نے سبھی کو مسحور کر رکھا ہے۔
البتہ ہم اپنے دروس میں اصالتِ وجود پر طباطبائی صاحب کی چاروں دلیلوں کا جائزہ لیں گے اور ان کی زیادہ تر خامیوں کو ذکر کر کے یہ واضح کریں گے کہ اصالتِ وجود کے دلائل کس قدر کمزور ہیں۔ نیز یہ بھی بیان کریں گے کہ اگر کوئی اصالتِ وجود کا قائل ہو تو اسے اس کے لوازمات کو بھی ماننا چاہئے۔ اس کا ایک لازمہ وحدت الوجود ہے۔ چنانچہ ملا ہادی سبزواری اپنی منظومہ میں کہتے ہیں:
و عند مشّائیّةِ حقائقٌ
تبایَنَتْ و هو لدَیَّ زاهقٌ
یعنی اگرچہ مشائی حضرات اصالتِ وجود کے قائل ہیں لیکن وہ حقائق کو جداگانہ اور متکثر موجودات مانتے ہیں۔ جبکہ میں اس بات کو درست نہیں سمجھتا۔
اصالتِ وجود پر طباطبائی صاحب کی پہلی دلیل
طباطبائی صاحب کہتے ہیں کہ ماہیت اپنی حد میں اپنے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس کی نسبت وجود اور عدم سے یکسان ہے۔ دوسرے لفظوں میں ماہیت خود بخود نہ وجود پر مشتمل ہے، نہ عدم پر مشتمل ہے۔ لہٰذا یہ اصیل نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اگر ایسا ہو کہ ماہیت اس یکسانی سے نکلے اور اس کا ہونا نہ ہونے پر ترجیح پائے اور یوں موجود ہو کہ اس پر موجودگی کے آثار مرتب ہوں، یا اس کے برعکس اس کا عدم اس کے وجود پر ترجیح پائے تو ناچار اسے کچھ اور ہونا ہو گا تاکہ اس کام سے عہدہ بر آ ہو سکے۔
لہٰذا یہاں اہم سوال یہ ہے کہ وہ چیز جو اس کام کو انجام دے سکتی ہے، کیا ہے؟ کیا عدم ماہیت کو حدِ استوا سے خارج کر کے وجود تک پہنچا سکتا ہے؟ جواب یقیناً منفی ہے۔ کیونکہ عدم خود کوئی چیز ہے ہی نہیں، لہٰذا وہ کسی چیز کو وجود تک پہنچا بھی نہیں سکتا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ ماہیت خود بخود حدِ استوا سے نکلے، اور یہ بھی محال ہے۔ کیونکہ اس کو ماننا کسی چیز میں کسی سبب کے بغیر تبدیلی آ جانے کو ماننے کے مترادف ہو گا۔ یہ بات، یعنی معلول کا علت کے بغیر واقع ہونا، محال ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایسی چیز جس کی ذات وجود اور عدم میں متساوی النسبہ ہے، کیسے خود بخود اور بدونِ علت انقلاب سے دوچار ہو سکتی ہے؟ پس یہ ایک محال امر ہے اور نتیجتاً یہ فرض بھی باطل ہو گا۔
اس بنا پر وہ اکیلا سبب جو ماہیت کو حدِ استوا سے خارج کرے ناگزیر وجود ہونا چاہئے۔ پس ثابت ہوا کہ وجود اصیل ہے۔ چنانچہ ملا ہادی سبزواری اپنی منظومہ میں کہتے ہیں:
کیف و بالکونِ عن استواءِ
قد خَرَجَتْ قاطبةُ الأشیاءِ
یعنی کیسے ممکن ہے کہ وجود اعتباری ہو جبکہ سبھی اشیاء اور ماہیات وجود کے واسطے سے وجود اور عدم کی حد استواء سے خارج ہوتی ہیں؟
اس دلیل کا رد
ہم سمجھتے ہیں کہ اس دلیل پر متعدد اعتراضات وارد ہوتے ہیں جن کو ذیل میں بیان کیا جائے گا۔
پہلا اعتراض
ہم اصالتِ وجود کے ماننے والوں سے کہتے ہیں کہ آپ وجود کیلئے دو مراحل کے قائل ہیں۔ ایک مرحلۂ مفہوم، جب آپ کہتے ہیں کہ مفہومِ وجود بدیہی ہے۔ دوسرا وجود کا خارجی اور حقیقی مصداق۔ جبکہ ماہیت کی اصالت کو فرض کیا جائے تو وہاں بھی دو مراحل ہیں۔ ایک مفہوم بما ہو مفہوم اور دوسرا خارج میں ماہیت کا مصداق۔
اس بنا پر یہ کہنا کہ الماہیۃ من حیث ہی لیست الا ہی لا موجودۃ ولا معدومۃ، اور یہ کہ وجود اور عدم سے اس کی نسبت مساوی ہے، اس کے مفہوم بما ہو مفہوم کی حد تک ہی درست ہے۔ اصالتِ ماہیت کے قائلین جب یہ کہتے ہیں کہ ماہیت اصیل ہے اور اولاً اور بالذات خارج میں محقق ہے، ان کا مقصود مصداقِ ماہیت ہوتا ہے، اس کا مفہوم نہیں!
لہٰذا پہلے مرحلے (مفہوم) کیلئے جو بات درست ہو وہ ضروری نہیں کہ دوسرے مرحلے (مصداق) کیلئے بھی درست ہو۔ دوسرے لفظوں میں مفہوم بما ہو مفہوم کے مرحلے میں اس حکم کے مسلم ہونے سے ماہیت کی اعتباریت اور وجود کی اصالت ثابت نہیں ہوتی مگر یہ کہ مصادرہ بہ مطلوب کا مغالطہ استعمال کیا جائے۔ کیونکہ دو مرحلے ہیں، ایک مفہوم کا مرحلہ ہے اور ایک مصداق کا مرحلہ ہے۔
ایک اعتراض اور جناب طباطبائی کا جواب
جناب محمد حسین طباطبائی اپنے پہلے برہان کے بیان میں ایک اعتراض کو بیان کرتے ہیں اور پھر اس کا جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
یہ جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ ماہیت جاعل، یعنی خدائے متعال، سے رابطے کی وجہ سے حدِ استوا سے نکل کر اصالت کے مرحلے تک پہنچی ہے اور اس پر آثار مرتب ہوئے ہیں، اس جواب سے ختم ہو جاتا ہے کہ کیا اس ارتباط اور انتساب کے بعد ماہیت نے اپنی حالت کو تبدیل کیا یا نہیں؟ اگر تبدیلی سے دوچار ہوئی ہے تو وہ چیز جس نے ماہیت کی حالت کو تبدیل کیا وہ خود ماہیت تھی یا کچھ اور؟
اگر خود تغیر سے دوچار ہوئی ہے تو یہ وہی انقلابِ ذات ہے جو محال ہے۔ اس بنا پر جو چیز اس تبدیلی کا باعث ہوئی وہ وجود ہی ہے۔ پس وجود کو ہی اصالت حاصل ہو گی چاہے اس ارتباط کو وجود سے ارتباط کے بجائے جاعل سے ارتباط کا نام دیا جائے۔
طباطبائی صاحب کا جواب غلط ہے
سابقہ دروس میں بتایا جا چکا ہے کہ انسان حمل اولی ذاتی کی رو سے انسان ہے۔ اس حمل میں مفہومی اتحاد ہے۔ لیکن حمل شایع صناعی میں مفہومی طور پر اختلاف ہوتا ہے لیکن خارجی مصادیق میں اتحاد ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہنا کہ انسان لکھاری ہے۔ پس جاعل نے اس خارجی مصداق کو جعل کیا، مفہوم کو نہیں!
اس بنا پر ہم موجود کو خارج میں جعل کئے گئے مصداق پر حمل کرتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ جاعل نے مفہوم من حیث ہو مفہوم کو جعل کیا ہو۔ یا خود اس مفہوم کو جعلِ ترکیبی سے حدِ استوا سے خارج کر کے مصداق میں تبدیل کیا ہو۔ دوسرے لفظوں میں مصداق کا مرحلہ مفہوم کے مرحلے سے بالکل کوئی رابطہ نہیں رکھتا۔ کیونکہ جعلِ بسیط کے جاعل نے مفہوم کو نہیں، بلکہ خارج میں اس کے مصداق کو جعل کیا ہے۔ یعنی خارجی انسان کو جعل کیا ہے۔
پس جب جاعل خارجی چیز کو خارج میں جعل کرتا ہے تو ہم اس مجعول خارجی شئے پر موجود کو حمل کرتے ہیں۔ پس جاعل کے جعل کرنے کے بعد مصداق پر موجودیت کا حمل درست ہو گا۔ اس بیان سے انقلاب کا شبہہ بھی باطل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مفہوم بما ہو مفہوم کے مرحلے میں ماہیت میں کوئی تبدیلی حاصل نہیں ہوئی، اسلئے کہ جعل مفہوم کے مرحلے سے نہیں بلکہ مصداق کے مرحلے سے تعلق رکھتا ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی انقلاب واقع نہیں ہوا۔ چونکہ اگر توہمِ انقلاب مفہوم کے مرحلے سے مربوط ہے تو مفہوم من حیث ہی مفہوم ہمیشہ وہی نفسِ مفہوم ہے۔ اور حمل اولی ذاتی میں اصلاً وجودِ خارجی نہیں رکھتا کہ انقلاب سے دوچار ہو۔ اور اگر توہمِ انقلاب مصداق کے بارے ہے تو مصداق کوئی سابقہ نہیں رکھتا تھا کہ اس میں کوئی انقلاب آتا۔ بلکہ وہ تو پہلے تھا ہی نہیں اور جاعل نے اسے جعل اور ایجاد کیا ہے۔ جس لحظے جاعل نے اسے جعل کیا، تب سے متحقق اور موجود ہے۔
مختصر یہ کہ!
طباطبائی صاحب نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کیلئے ابتداء میں ہی ماہیت کو اعتباری فرض کیا اور وجود کی اصالت کو مسلم سمجھا اور ماہیت کیلئے مصداق کے قائل نہ ہوئے۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ چونکہ ماہیت ایک اعتباری امر ہے لہٰذا ایک ہی مرحلہ رکھتی ہے اور چونکہ وہ مرحلہ فقط مفہوم کا مرحلہ ہے جو وجود اور عدم کی نسبت سے مساوی ہے، لہٰذا یہ لازم ہے کہ کوئی اور چیز ہو جو اسے اس حدِ استواء سے خارج کرے۔ وہی چیز وجود ہے۔ (عرضِ مترجم: گویا دائرے میں گھوم کر جو فرض کیا اسے ہی ثابت کیا)۔ اس کا بطلان واضح ہے۔
اہم نکتہ
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وجود بھی ماہیت کی طرح حدِ استواء میں ہے۔ کیونکہ ہماری بحث واجب الوجود کے بارے نہیں جو ذاتاً اقتصائے وجود رکھتا ہو۔ بحث ممکن الوجود کے بارے ہے جو لا اقتضائی ہے۔ پس ممکن الوجود اس مرحلے میں نہ اقتضائے وجود رکھتا ہے نہ اقتضائے عدم رکھتا ہے۔ کیونکہ اگر اقتضائے وجود رکھتا تو واجب الوجود ہوتا۔ اور اگر اقتضائے عدم رکھتا تو ممتنع الوجود ہوتا۔
پس وہ اعتراض جو یہ حضرات اصالتِ ماہیت کے قائلین پر اٹھاتے ہیں وہ خود ان پر بھی وارد ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہنا صحیح ہے کہ: الوجود من حیث هو لیس الا هو لا موجود و لا معدوم۔ اس بنا پر مفہومِ وجود بھی مخرج کا محتاج ہے جو اسے حدِ استواء سے خارج کرے۔
اگر یہ کہا جائے کہ جاعل کو مفہوم کے مرحلے سے کوئی سروکار نہیں، اس نے مصداق کے مرحلے میں ہی اسے حدِ استواء سے خارج کیا ہے، تو ہم بھی یہی بات ماہیت کے بارے میں کہتے ہیں۔ جاعل کو ماہیت کے مفہوم سے کوئی سروکار نہیں، اس کا جعل ماہیت کے مصداق سے تعلق رکھتا ہے جو خارجی شئے ہے۔
دوسرا اعتراض
طباطبائی صاحب کی دلیل پر ہمارا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ فرض کیا مسلم فلاسفہ کے دونوں گروہوں کے نزدیک ماہیت کی تعریف ایک ہی ہے اور ان کی اس سے مراد بھی ایک ہی ہے، تو ہم کہیں گے کہ یہ تعریف صرف مفہوم ماہیت کے معنی کی حد تک صحیح ہے۔ ماہیت کے مصداق کی نسبت یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ ماہیت کے مصداق یعنی اشیاء کا تحققِ خارجی، اور اس بنا پر وہ چیزیں جو وجودِ خارجی رکھتی ہیں وہ وجود اور عدم کی نسبت سے حدِ استواء پر نہیں ہو سکتیں۔ کیونکہ ہم اشیائے خارجی سے تحقق اور ثبوت کو درک کرتے ہیں۔
اس بنا پر اگر یہ کہا جائے کہ کوئی چیز خارج میں تحقق اور ثبوت رکھتی ہے اور اسی حال میں نہ موجود ہے اور نہ معدوم، یہ بات ارتفاعِ نقیضین کو لازم کرے گی۔ اور ارتفاعِ نقیضین تو عقلاً محال ہے۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ خارج میں انسان، درخت اور پتھر ۔ ۔ ۔ متحقق اور ذی الثبوت ہونے کے ساتھ ساتھ نہ موجود ہیں اور نہ معدوم ہیں، تو ہم ایک محال امر کے قائل ہونگے جو ارتفاعِ نقیضین ہے۔
تیسرا اعتراض
محمد حسین طباطبائی صاحب پر ہمارا تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ یہ عبارت، «الماہیۃ من حیث ہی لیست الا یی لا موجودۃ و لا معدومۃ»، ماہیت کی صحیح تعریف ہے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ جو لوگ وجود کی اصالت کو منوانا چاہیں انہوں نے یہ بات اسلئے کہی ہو تاکہ اس راستے سے ماہیت کے اعتباری ہونے اور وجود کے اصیل ہونے کا اثبات کیا جا سکے؟
کیونکہ اس عبارت سے منظور یہ ہے کہ وجود سے ہٹ کر ماہیت کچھ نہیں ہے۔ نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے۔ نتیجتاً ماہیت جیسا موجودِ اعتباری نہ عینی موجود ہے نہ معدومِ محض ہے۔ کیونکہ ماہیت تو وجود سے انتزاع ہوتی ہے اور ماہیت کا انتزاعی ہونا اس کے اعتباری ہونے کی دلیل ہے۔
ایک اور احتمال یہ ہے کہ بعید نہیں یہ عبارت وجود اور عدم کے مابین وجودِ واسطہ، جسے «حال» بھی کہتے ہیں، کے قائلین کی طرف سے گھڑی گئی ہو۔ یہ معتزلہ کا عقیدہ ہے جو کہتے ہیں کہ عالمِ حال میں تحققِ خارجی سے پہلے ماہیت کیلئے ایک قسم کا تقرر اور ثبوت وجود رکھتا ہے جس میں وہ نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے۔ اس بنا پر ممکن ہے کہ اصالتِ وجود کے قائلین نے اصل بات اس فرقے سے لی ہو اور اسے ماہیت کی درست تعریف کے طور پر پیش کر دیا ہو۔ ان احتمالات کے ہوتے ہوئے یہ عبارت ماہیت کی درست تعریف نہیں سمجھی جا سکتی۔
اہم یاد دہانی
عرفانی فلسفی خارج میں خالق و مخلوق نامی دو حقیقتوں، دو ذاتوں اور دو ہویتوں کے قائل نہیں ہیں۔ اگر کوئی ان کی اصالتِ وجود کے بارے کہی گئی باتوں اور ان سے جو متفرع ہوتا ہے اور جو کچھ انہوں نے وجود کے خواص کے بارے کہہ رکھا ہے، پر غور کرے تو واضح ہوتا ہے کہ اصالت وجود سے ان کی مراد یہ ہے کہ:
خارج میں ایک حقیقت اور ایک سنخ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اس کا امتداد بے نہایت ہے اور مجسمہ سازی کے لامتناہی خمیر کی طرح اصل اور اصیل ہے جسے جعل یا خلق کرنا ممکن نہیں۔ اس حقیقت کا نام وجود ہے، جو ایک لامتناہی اور عینی حقیقت ہے۔ یہی حقیقت ہے کہ جو «ہر لحظہ بہ شکل بت عیار در آمد»!
وہ حقیقت واجب الوجود ہے۔ اصالتِ وجود کا عقیدہ اصل میں وحدت الوجود کے عقیدے کا نیا روپ ہے۔ لہٰذا یہ لوگ بدایۃ الحکمۃ، نہایۃ الحکمۃ اور دوسری کتابوں میں کہتے ہیں کہ: خارج میں جو کچھ ہے، خود وجود ہے۔ وجود وہ عینی حقیقت ہے جو عدم پذیر نہیں اور بالذات عدم سے گریزاں ہے ورنہ اجتماعِ نقیضین حاصل ہوتا ہے۔ (عرضِ مترجم: جبکہ خارج میں جو ہے وہ گوناگوں موجودات existents ہیں، وجود being نہیں)۔
پس ان کے نزدیک ہر چیز عین واجب الوجود ہے۔ خالق و مخلوق نامی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ”تنزیہ المعبود“ میں ان کے اساطین سے نقل کیا ہے جو کہتے ہیں کہ وحدت الوجود کو منوانے کیلئے ہمیں چار چیزوں کی ضرورت ہے:
1۔ اصالتِ وجود
2۔ وجود کا مشترکِ معنوی ہونا
3۔ تشکیکِ وجود
4۔ وحدت وجود
عقلی اور نقلی براہین سے واضح ہے کہ خدا اور خلق میں تباین اور ذاتی جدائی ہے۔ یہ جدائی ایسی نہیں کہ نقیضین کی طرح ایک موجود ہو اور دوسرا معدوم ہو۔ خالق اور مخلوق میں ایسا تباین نہیں بلکہ ہر دو موجود ہیں اور ثبوت اور تحقق کا مفہوم دونوں پر صادق آتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کثرت در وحدت یا تشکیکِ وجود کا عقیدہ درست نہیں – ڈاکٹر سید محمود ہاشمی نسب
مخلوقات متجزی، مقداری، عددی اور زمان و مکان رکھنے والی ہیں۔ خداوند زمان و مکان سے ماوراء، تصور و توہم میں نہ آنے والا اور غیر عددی و غیر مقداری و غیر متجزی ہے۔
حوالہ جات
1۔ سید قاسم علی احمدی، ”تنزیہ المعبود“، صفحہ ۱۷۔
2۔ علامہ شیخ محمدصالح حائری، ”ودایع الحکم“، صفحہ ۵۴۔
3۔ سید قاسم علی احمدی، ”تنزیہ المعبود“، صفحہ ۱۷۔
4۔ محمد حسین کمپانی اصفہانی، ”نہایۃ الدرایہ“، جلد ۲، صفحہ ۲۵۶۔
5۔ ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد ۱، صفحہ ۴۹۔
6۔ مصباح یزدی، ”آموزشِ فلسفہ“، جلد ۱، صفحہ ۲۹۴۔
منبع:
نقد بدایة الحکمة «تقریرات درس استاد سید قاسم علی احمدی» (جلسه پنجم)