مجتہدِ اعظم علامہ سید دلدار علی نقوی غفران مآب 1753ء میں رائے بریلی کے نواحی قصبے نصیر آباد میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد مولانا غلام حسین دکنی الہٰ آبادی سے منطق اور معقولات کی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ لکھنؤ میں اہلسنت کے معروف مدرسے دارالعلوم فرنگی محل میں داخل ہوئے اور وہاں درسِ نظامی کی تعلیم مکمل کی۔ عقلی علوم میں مزید پختگی پیدا کرنے کیلئے وہ علامہ تفضل حسین کشمیری کی خدمت میں تشریف لے گئے اور بطلیموسی فلکیات اور قدیم فلسفے میں مہارت حاصل کرنے کے بعد نجف روانہ ہوئے۔
اٹھارویں صدی کا ہندوستان
جب آپ وطن واپس لوٹے تو شمالی ہند میں سیاسی آشوب کا زمانہ تھا۔ روہیل کھنڈ کے پختون راجے شاہ ولی اللہ جیسے درباری علماء کی مدد سے مغل سلطنت کے خلاف سازشوں میں مصروف تھے۔ احمد شاہ ابدالی دہلی کو تاراج کر چکا تھا۔ غلام قادر روہیلہ نے مغل شہنشاہ کی آنکھیں نکال کر شہزادیوں کو بے آبرو کیا۔ فرقہ واریت کو ہوا دینے کیلئے تعلیماتِ محمدؐ و آلِ محمد ؑ کے خلاف کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ہندو مسلم دشمنی بھی بڑھ رہی تھی۔ مرہٹے اور مسلمان راجے برسر پیکار تھے اور انگریز اس سیاسی ابتری کا فائدہ اٹھا کر بنگال پر قابض ہو چکے تھے۔ ایسے میں اودھ میں شیعہ نواب کی حکومت معاشی اور سیاسی استحکام کا نمونہ تھی جس نے لکھنؤ کو علم و ثقافت کا مرکز بنا دیا تھا۔
علامہ سید دلدار علی نقوی نے لکھنؤ میں حوزہ علمیہ کی بنیاد رکھی اور مکتبِ اہلبیت ؑ کی ترویج کیلئے کمر بستہ ہو گئے۔ آپ نے عقائدِ حقہ کی وضاحت کیلئے ”عماد الاسلام“ کے عنوان سے ضخیم کتاب تصنیف فرمائی جس میں اشعریوں کے امام فخر الدین الرازی کے کلامی نطریات کا رد کیا۔ اصولِ فقہ پر اپنی کتاب ”اساس الاصول“ میں ملا امین استر آبادی کی ”فوائدِ مدنیہ“ کا رد کیا۔
1790ء میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ”تحفۂ اثنا عشریہ“ لکھی تو آپ نے اس کے مختلف ابواب کا جواب مستقل کتابوں کی شکل میں دیا جن میں ”صوارم الالہٰیہ“، ”حسام الاسلام“، ”رسالۂ غیبت“ اور ”ذوالفقار“ وغیرہ شامل ہیں۔
آپ نے بھرپور علمی زندگی گزار کر 1820ء میں وفات پائی۔ آپ کا مزار مبارک حسینیۂ غفران مآب میں موجود ہے۔ آپ کو خدا نے پانچ بیٹوں سے نوازا، جو سب کے سب درجۂ اجتہاد پر فائز ہوئے اور آج بھی آپ کی اولاد خاندانِ اجتہاد کے نام سے جانی جاتی ہے۔ زیرِ نظر مضمون میں آپ کی کتاب ”الشہاب الثاقب“ کا مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے۔
وجۂ تصنیف
مجددِ تشیع علامہ سید دلدار علی نقوی 1781ء میں نجف سے مقامِ اجتہاد پر فائز ہو کر لکھنؤ واپس آئے تو صوفی حضرات نے مسلمانوں کو ذہنی طور پر مفلوج بنا کر رکھ دیا تھا اور دین کے نام پر وسیع جاگیریں ہتھیا کر عوام کے اذہان کو جہلِ مرکب سے مسموم کر رہے تھے۔ وحدت الوجود کے تصور کے مطابق جسمانی لذتوں کو خدا کی تجلی قرار دیا جا رہا تھا اور خانقاہوں میں مختلف قسم کی نشہ آور چیزوں کا استعمال عام تھا۔
ابنِ عربی (متوفیٰ 1240ء) کی فصوص الحکم اور دیگر کتابوں کے علاوہ مولوی رومی اور جامی وغیرہ کی شاعری پڑھائی جاتی۔ معصوم نوجوانوں کو روحانی ریاضت کے نام پر مختلف قسم کی جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی جاتیں۔ علومِ عقلیہ کے نام پر فلوطین (متوفیٰ 270ء) اور ملا صدرا (متوفیٰ 1641ء) وغیرہ کے خیالات پڑھائے جاتے تھے۔ ملا صدرا نے حرکت جوہری کا نظریہ بھی فلوطین کی اثولوجیا سے لیا ہے۔ (اسفار اربعہ، جلد 3، صفحہ 111، بیروت)
اسی دوران غفران مآب کے استاد علامہ تفضل حسین کشمیری (متوفیٰ 1801ء) نے مسلمانوں کو قدیم فلسفے کی نامعقولات سے نکالنے کیلئے جدید علوم کا ترجمہ شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے نیوٹن (متوفیٰ 1727ء) کی کتاب ”فلسفۂ طبیعت کے ریاضیاتی اصول“ اور کئی دوسری کتب کا عربی ترجمہ کیا۔ نیوٹن نے حرکتِ جوہری کے قدیم تصور کو باطل ثابت کرتے ہوئے یہ واضح کیا تھا کہ حرکت دو حالتوں کے درمیان بیرونی عوامل کی بنیاد پر پیدا ہونے والے توانائی کے عدم توازن کا نتیجہ ہوتی ہے۔ لہٰذا جب توانائی کا فرق صفر ہو جائے تو حرکت ختم ہو جاتی ہے۔
نیوٹن نے اس نئے نظریئے کی ریاضیاتی بنیادیں بھی فراہم کیں اور یوں جدید علم اور صنعت کا انقلاب آیا جس نے فرنگی اقوام کو باقی دنیا پر فیصلہ کن برتری دے دی۔ نیوٹن نے ہی طبیعیات اور فلکیات کو بھی متحد کیا تھا اور اجرام فلکی کی حرکت کو اپنے انہی قوانین کے ذریعے قابل پیش بینی بنایا جو طبیعیات کی دنیا کی تشریح کرتے تھے۔ چنانچہ آج بھی انجینئرز انہی اصولوں کی بنیاد پر مشینیں اور عمارتیں بناتے اور راکٹ خلا میں بھیجتے ہیں۔
مغل سلطنت کے قیام سے پہلے ہی برصغیر کے شیعوں کو اسماعیلی صوفیوں اور شاہ نعمت اللہ ولی کے مریدوں نے تصوف میں مبتلا کر دیا تھا۔ سید دلدار علی کے زمانے میں اودھ کے شیعوں میں صوفیوں کو بہت اثر و رسوخ حاصل ہو چکا تھا۔ شاہ علی اکبر مودودی (متوفیٰ 1795ء) جیسے بظاہر پابندِ شریعت صوفی دربار تک رسائی رکھتے تھے۔
صوفیوں کے کشف و کرامات اور نام نہاد باطنی علوم کے دعوے مشہور تھے اور سیاسی عدم استحکام کے دور میں راجے اپنے اقتدار کی بقا کیلئے ان کی آشیرباد لینا ضروری سمجھتے تھے۔ مختلف درگاہوں کو وسیع جاگیریں عطا کی گئی تھیں۔ مفلوک الحال عوام وجد و حال اور دھمال کی محفلوں میں شرکت کرتے اور خواص ملا صدرا کے فلسفے اور وحدت الوجود کے تصور میں مست رہتے تھے۔ اس دوڑ میں ہندو جوگی اور بابے بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔
1786ء میں غفران مآب امامِ جمعہ مقرر ہوئے تو آپ نے اہلِ تصوف کے عقائد و اعمال کو بھی خطبات کا موضوع بنایا۔ اس وجہ سے صوفی آپ کے دشمن ہو گئے اور اپنے مریدوں کو آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے روکنے لگے۔ جب وہ آپ کے علمی دلائل کا سامنا نہ کر سکے تو سیاسی دباؤ ڈال کر آپ کو روکنے کی کوشش کی۔
البتہ اودھ کی شیعہ سلطنت اکبر بادشاہ کی مرتب کردہ بقائے باہمی کی حکمتِ عملی کا تسلسل جاری رکھے ہوئے تھی اور ہندوستانی معاشرے کی کثیر المذہبی فضاء میں آزادئ فکر پر پابندی کو درست نہیں سمجھتی تھی۔ اسی وجہ سے دارالعلوم فرنگی محل میں سنی علماء بھی مکمل آزادی سے اپنے مسلک کی ترویج کر رہے تھے۔
تمام تر مخالفتوں کے باوجود آپ کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی اور آپ نے عربی زبان میں اس موضوع پر ایک مستقل کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا۔ آپ کے اس علمی جہاد کا ہی اثر تھا کہ ماحول میں واضح تبدیلیاں آنے لگیں اور آپ کی بابرکت زندگی کے انجام تک شیعیانِ حیدر کرار ؑ کی اچھی تعداد نے خانقاہوں سے منہ موڑ لیا۔
الشہاب الثاقب
یہ کتاب فصیح عربی زبان میں لکھی گئی ہے، جو علامہ موصوف کے عربی زبان پر عبور کا اظہار ہے۔ اس کا انتساب وزیراعظم جناب حسن رضا خان کے نام کیا گیا ہے۔
علامہ کا کہنا ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے حاکموں نے تصوف کو مسلمانوں میں اسلئے رواج دیا تاکہ عوام کا معارف الہیٰہ کے حصول کیلئے اہلبیت علیہم السلام کے در پر جانا کم کیا جائے اور اس سلسلے میں آئمہ طاہرین ؑ کا متبادل صوفیوں کو قرار دیا جا سکے۔ وہ اس سلسلے میں خلیفہ مامون عباسی کے دربار میں امام علی رضا ؑ کے مناظرے کی مثال لاتے ہیں۔ وہ آئمہ ؑ کی کچھ احادیث بھی نقل کرتے ہیں جن میں صوفیوں کو شیطان کا پیروکار اور اہلبیت ؑ کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کتاب کے پہلے حصے میں آٹھ ابواب ہیں۔ اس میں صوفیوں، فلسفیوں اور متکلمین کے ہاں وجود کے تصور پر اختلاف کو عقل و منطق کی رو سے پرکھا گیا ہے اور یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وحدت الوجود کا نظریہ عقل کی میزان پر پورا نہیں اترتا۔ وہ اس حصے میں ملا صدرا کی کتاب شواہد الربوبیہ اور جامی کے خیالات پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ وہ تنزلاتِ وجود کی کیفیات پر جرح کر کے صوفیوں کی ذہنی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔
دوسرا حصہ چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔ اس میں سید حیدر آملی (متوفیٰ 1385ء) کے نظریات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے اور سید حیدر آملی اور دیگر صوفیوں کی طرف سے قرآنی آیات کی تفسیر بالرائے کو باطل ثابت کیا گیا ہے۔ آپ نہ صرف عقلی دلائل سے ان کے خیالات کو رد کرتے ہیں بلکہ ان کی نقل کردہ احادیث کی اسناد پر بھی جرح کرتے ہیں اور سید حیدر آملی نے ان احادیث سے جو معنی اخذ کئے ہیں، ان کو بھی دلائل سے نادرست ثابت کرتے ہیں۔
تیسرے حصے میں صوفیوں کے کشف و شہود کے دعوے زیرِ بحث ہیں اور واضح کیا گیا ہے کہ ان میں حق اور باطل کی تمیز کرنا دشوار امر ہے۔ نیز یہ چیزیں کوئی علمی حیثیت اور حجیت نہیں رکھتیں۔
صوفیوں کا یہ دعویٰ بھی غلط قرار دیا گیا ہے کہ وہ کشف کے ذریعے احادیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کو سمجھ سکتے ہیں۔ ابنِ عربی، عبدالرزاق کاشانی اور علاء الدولہ سمنانی کے مختلف اقوال نقل کر کے ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس حصے میں سفیان ثوری، بایزید بسطامی، ابراہیم ادہم، معروف کرخی، عبدالقادر جیلانی، مولانا روم اور حکیم سنائی وغیرہ پر بھی تنقید موجود ہے۔
آگے چل کر صوفیوں کی بدعات اور ان کے عملی انحرافات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ان کی طرف سے موسیقی اور رقص و سرود کی محفلوں کے انعقاد کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان کی رہبانیت، ان کی نوعمر لڑکوں میں رغبت، خرقہ پوشی اور طریقت کے مختلف طریقے کہ جو سب کے سب باطل ہیں، زیر بحث آئے ہیں۔ وہ صوفیوں کے مختلف فرقوں کا زمانی اعتبار سے ذکر کرتے ہیں اور ان کے سنگین اختلافات کا ذکر کر کے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر ان حضرات کو حق کا شہود ہوتا تھا تو ان میں اس قدر اختلاف کیوں ہے؟
چوتھے حصے میں فقہاء پر صوفیوں کے اعتراضات کا جواب دیا گیا ہے۔ خاتمے میں آپ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے واجب ہونے اور اہلِ بدعت سے دوری اختیار کرنے کے اسلامی احکام بیان کرتے ہیں اور دین کے دشمنوں کی پیروی کو ناجائز قرار دیتے ہیں۔ آپ وحدت الوجود اور حلول جیسے نظریات کو ارتداد کا موجب کہتے ہوئے صوفیوں پر لعنت کو جائز قرار دیتے ہیں اور انہیں توبہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
اس کتاب کی خاص بات ملا صدرا کے نظریات پر علامہ محترم کی مضبوط گرفت ہے جس کی ایک کتاب پر انہوں نے حاشیہ بھی لگایا تھا۔ یہ نظری پہلو اس کتاب کو برصغیر میں ردِ صوفیت پر لکھی گئی باقی کتب سے ممتاز کرتا ہے۔
پروفیسر اطہر رضوی کا تبصرہ
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابقہ استاد اور مغلیہ تاریخ کے ماہر پروفیسر سید اطہر عباس رضوی (متوفیٰ 1994ء) لکھتے ہیں:
”مولانا دلدار علی (1753ء – 1820ء) نے صفوی دور کے علمائے شیعہ کے راستے پر چلتے ہوئے تصوف کی شدید مخالفت کی۔ اُن علماء کی طرح وہ بھی اِسے شیعیت کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے الشہاب الثاقب کے عنوان سے صوفی عقائد کی تردید اور معروف صوفیاء کی مذمت میں ایک تفصیلی کتاب لکھی۔
ان کی تنقید کا مرکزی ہدف ابنِ عربی کا عقیدۂ وحدت الوجود ہے۔ مولانا ابتدائی طور پر وجود اور واجب الوجود کے بارے میں علماء، فلسفیوں اور صوفیاء کے درمیان نظریات کے اختلاف کی نشاندہی کرتے ہیں۔ وہ وجودِ مطلق کے صوفی نظریہ کی تفصیل سے وضاحت کرتے ہیں۔ مولانا کے نزدیک صوفیاء کا خیال ہے کہ واجب الوجود، وجودِ مطلق کا جوہر ہے اور یہ جوہر تمام اشیاء میں پایا جاتا ہے۔
مولانا وحدت الوجود پر صوفیوں کے دلائل کا خلاصہ پیش کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ہر ایک کو رد کرتے ہیں۔ وہ اس بارے میں سید حیدر آملی کے خیالات کو باطل ثابت کرتے ہیں اور شریف جزجانی اور صدرالدین شیرازی (ملا صدرا) کے خیالات کو بھی نادرست قرار دیتے ہیں۔
مولانا کے نزدیک وجودِ مطلق کی تشکیک کا نظریہ گمراہ کن ہے۔ وہ ان قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہیں جو صوفیاء کے نزدیک وحدت الوجود کے عقیدہ کی تائید کرتی ہیں اور دلائل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان آیات کا حقیقی مفہوم صوفیوں کی تفاسیر سے مختلف ہے۔ مولانا ایسی آیات اور احادیث بھی پیش کرتے ہیں جو وحدت الوجود کے صوفی نظریات کو رد کرتی ہیں۔
اس کتاب میں یہ بھی ثابت کیا گیا ہے کہ خدا کی ذات اور صفات کی بہترین معرفت صرف آئمۂ اہلبیت ؑ کے فرامین میں ملتی ہے۔ ان کے مطابق خدا کی ذات زمان و مکان سے ماوراء ہے، جو خود سے ظاہر ہے اور اس کی ذات کا ظہور دنیاوی اشیاء میں نہیں ہوتا۔
کتاب کا ایک باب کشف (صوفی الہامات) کی وضاحت سے متعلق ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس عمل سے حاصل ہونے والا علم ضروری نہیں کہ درست ہو۔ کشف میں حق و باطل کی تمیز ممکن نہیں لہٰذا کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کیلئے کشف کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر ایسا ہو سکتا تو ماضی کے اہلِ کشف معصوم ہوتے۔
اس باب کا ایک حصہ ابنِ عربی (1165ء – 1240ء) کے بعد آنے والے نامور صوفیاء کی غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس میں ابنِ عربی کے حامی عبدالرزاق کاشی اور ابنِ عربی کے مخالف علاء الدولہ سمنانی کے درمیان خط و کتابت کا حوالہ دیا گیا ہے اور اس کے پیروکاروں کے بیانات کی تردید کی گئی ہے جن میں حیدر آملی (1319ء – 1385ء) بھی شامل ہے۔
صوفی حسن بصری (641ء – 728ء) کو اسلام مخالف خانقاہی طریقوں کو دین میں داخل کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ مولانا کے مطابق سید حیدر آملی کا یہ کہنا حسن بصری امام علی ؑ کا معروف صحابی تھا، امامی کتبِ حدیث سے ثابت نہیں ہوتا۔
اسی باب کی تیسری فصل میں سفیان ثوری کو دشمنِ اہلبیت ؑ اور جھوٹی حدیثیں گھڑنے کا ماہر قرار دیا گیا ہے۔ ابو یزید بسطامی (متوفیٰ 874ء یا 877ء) کے مشہور قول، سبحانی ما اعظم شانی (پاک ہے میری ذات، میری شان کتنی عظیم ہے)، کو مولانا نے کفریہ قرار دیا ہے اور ابو یزید کو حلول اور اتحاد پر مبنی نظریات کا پرچارک قرار دیا ہے۔
انہوں نے سید مرتضیٰ الرازی کا حوالہ دیا جنہوں نے عبداللہ ابن سبا کا ابو یزید سے موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حیرت کی بات ہے کہ اہل سنت نے عبداللہ ابن سبا کی مذمت کی کیونکہ اس نے امام علی ابن ابی طالب ؑ سے خدائی صفات منسوب کی ہیں، لیکن ابو یزید کے خلاف کوئی اعتراض نہیں کیا جو خود کو خدا سے برتر سمجھتا تھا۔ اس فصل میں منصور حلاج (متوفیٰ 922ء) کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ منصور کے لیے ایک الگ فصل بھی لکھی گئی ہے جس میں اسے زندیق، بدعتی اور دین سے خارج قرار دیا گیا ہے۔
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ قاضی نور اللہ شوستری (1549ء – 1610ء) اور بہاؤالدین عاملی (1547ء – 1621ء) جیسے علماء کی طرف سے بعض صوفیوں کی حمایت میں جو لکھا گیا، اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ علماء وحدت الوجود کے عقیدے کی حمایت کرتے ہیں۔
غزالی (متوفیٰ 1111ء) کے بارے میں مصنف نے لکھا ہے کہ وہ ایک متعصب شخص تھا جس کی زندگی کا مقصد اہل بیت ؑ سے دشمنی کی جڑیں مضبوط کرنا تھا۔ مولانا نے کہا ہے کہ غزالی کی طرف سے یزید کا دفاع نامعقول ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ امام حسین ؑ سے کوئی عقیدت نہیں رکھتا تھا۔ غزالی کا یہ دعویٰ بھی کہ شیعوں کا عقیدہ باطل ہے، محض ذاتی کشف اور لغو دلائل پر مبنی تھا۔
مولانا کا کہنا ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی (متوفیٰ 1166ء) شیعہ دشمنی کے معاملے میں اپنے پیشروؤں سے بھی بڑھا ہوا تھا۔ گیارہویں والے پیر کا عقیدہ یہ تھا کہ روزِ عاشور سوگ کا نہیں بلکہ خوشی کا دن ہے، کیونکہ اسلام کی آمد سے پہلے یہ دن کچھ انبیاء ؑ کے لیے بابرکت ثابت ہوا تھا۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کے مطابق جنابِ عائشہ تمام عورتوں سے افضل ہیں اور شیعوں کے عقائد یہودیوں سے ملتے ہیں۔
مولوی رومی سے مختص حصے میں مولانا نے اس کی مثنوی سے اشعار کا حوالہ دے کر ثابت کیا ہے کہ رومی ایمان اور کفر کے درمیان امتیاز نہیں کرتا تھا اور وہ توہین آمیز تشبیہات اور استعارات کا استعمال بھی کر لیتا تھا۔ مولانا مزید فرماتے ہیں کہ عطار، سنائی اور دوسرے صوفی شعراء کی شاعری بھی غیر شرعی اور گمراہ کن مطالب رکھتی ہے۔
آخری سے پہلے باب میں صوفیانہ طریقت کی مذمت کی گئی ہے اور اس کو اسلامی تعلیمات کے بنیادی اصولوں کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔ مولانا کے نزدیک صوفیوں کے مراقبے، موسیقی کی محفلیں، ریاضتیں اور نوجوان لڑکوں کے ساتھ معاشقے شریعت کی حدود سے تجاوز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صوفیوں کا اونی لباس، آواز کے زیر و بم کے ساتھ ذکر، بیعت کا نظام اور خرقہ پوشی، کجروی اور بدعات ہیں۔
آخری باب ایسے صوفی سلسلوں سے متعلق ہے جو مولانا کی رائے میں سراسر لادین، گستاخ اور دنیا طلبی اور بے حیائی کی طرف دعوت دینے والے ہیں۔“ [1]
کتاب ”الشہاب الثاقب“ کا عربی مخطوطہ ڈاؤنلوڈ کریں
یہ بھی پڑھئے: عقلی اور نقلی دلائل سے صوفیاء کے اقوال کا رد – سید العلماء آیۃ اللہ سید حسین علیین مکان