مضامین

اسلام میں رہبانیت کی مذمت

111 ملاحظات

جو لوگ دوسروں کو ذہنی غلام بنانا چاہتے ہوں ان کا پہلا ہدف ان کی عقلوں کو خراب کرنا ہوتا ہے۔ کیونکہ کسی شخص کا فکری استقلال ہی اسے ذہنی غلامی سے بچا سکتا ہے۔ جب اس ڈھال کو چھین لیا جائے تو پھر اسے کلٹ (cult) کا حصہ بنا کر اس سے ہر کام لیا جا سکتا ہے۔ وہ ایک سدھائے ہوئے جانور کا روپ اختیار کر لیتا ہے جس کا ذہن حقیقی علم کی روشنی اور تحقیق کے جذبے سے محروم ہو چکا ہو۔ انا توڑنے کے نام پر اسکی خود اعتمادی اور نفسیاتی استقلال کا خاتمہ ہو چکا ہو۔ پھر اسے جہلِ مرکب میں مبتلا کیا جا سکتا ہے۔ یہ سادہ لوح نوجوانوں پر ظلم ہے۔ یہ زیادتی بدعتی ریاضتوں اور مرشد کی اطاعت کے نام پر صوفیا کی خانقاہوں میں ہوتی رہی ہے۔

تربیت یا اذیت؟

جامعہ عروۃ الوثقیٰ لاہور، پاکستان، کے مدیر سید جواد نقوی صاحب نے اپنے خطبے میں صوفیاء کے ہاں انا توڑنے کی مشقوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ:

”صوفیاء کے ہاں، صوفی جو شروع کرتے ہیں، تصوف صَرف سے شروع نہیں ہوتا، علمِ صَرف سے۔ علماء جب بنتے ہیں، علم کا سفر، قرآن نے نہیں رکھا ہوا کہ علمِ دین علمِ صَرف سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ہمارے اساتید نے، بزرگان نے، ان لوگوں نے یوں بنایا ہے کہ، ترتیب یہ رکھی ہے کہ پہلے عربی پڑھے، عربی گرامر پڑھے، صَرف پڑھے پھر نَحو پڑھے۔ پھر آہستہ آہستہ ادبی علوم پڑھتے جائیں۔ جب قرآن کی باری آئے تو سند لے کے مدرسے سے باہر چلے جائیں۔ پھر جا کے کہیں خطیب بن جائیں، امام بن جائیں۔ چونکہ صَرف نَحو تو پڑھ لی ہم نے، باقی قرآن میں کیا ہے، صَرف نَحو ہی ہے، وہ ہم نے پڑھ لی۔

تصوف میں جو درس شروع ہوتا ہے، وہ جب کسی شاگرد کو قبول کرتا ہے، مربی، صوفی، جب اپنی شاگردی میں، سب سے پہلے اسے، اس کی اَنا توڑتا ہے۔ پہلا درس یہ ہے، پہلا قدم یہ ہے۔ اگے کچھ بھی نہیں بتاتے اس کو، کیوں کہ جس کے اندر اَنانیت ہے اس کو صَرف پڑھانا بھی جرم ہے، اس کو نَحو پڑھانا بھی جرم ہے۔ چونکہ یہ سب اس کی اَنانیت کے اندر مواد جا رہا ہے۔ جس کے اندر اَنا ہے، خود پرستی، خود بینی ہے، تو موٹی ہوتی جائے گی اَنا، اور زیادہ طاقت ور ہوتی جائے گی۔ یہ ایک بڑا اَنا پرست بنا رہے ہیں آپ، اسلئے وہ یہ غلطیاں نہیں کرتے۔

اہلِ مدرسہ اَنانیت کو نہیں دیکھتے۔ اہلِ مدرسہ صِرف دیکھتے ہیں کہ اس میں پڑھنے کی صلاحیت ہے، رٹنے کی صلاحیت ہے۔ شروع کر دیتے ہیں پڑھانا، بلکہ بعض اوقات جتنا اَنانیت ہوتی ہے اتنا لائق شاگرد سمجھا جاتا ہے۔ کہ یہ زیادہ اَناپرست ہے۔ لیکن صوفی ایسا نہیں کرتے۔ سب سے پہلی چیز اس کی یہ ہے، اس کی اَنا توڑتے ہیں۔ تشخیص دیتے ہیں پہلے، اَنانیت کے کس درجے پر فائز ہے، پھر اس کو توڑنے کیلئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات غیر شرعی کام بھی شروع کر دیتے ہیں۔

مثلاً ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسے، بے شک کسی امیر گھرانے کا ہو، شریف گھرانے کا ہو، باعزت گھرانے کا ہو، پہلا درس اس کو یہ دیتے ہیں کہ تم گدا بن جاؤ۔ آپ کے پاس کھانے کیلئے اپنا ذاتی پیسہ ہے۔ لینڈ لارڈ ہو، زمین دار ہو، دکان، کاروبار، سب کچھ ہے۔ مانگ کے کھانا ہے۔ ہاتھ پھیلاؤ دوسروں کے سامنے، پیسہ ہے، ضرورت کی وجہ سے نہیں، تربیت کیلئے! وہ کہتے ہیں کہ ہاتھ پھیلانے میں کیا فائدہ ہے؟ تیری اَنا ٹوٹے گی۔ تیری اَنا کا بت ٹوٹے گا۔ اور وہ اس طرح سے پرورش کرتے تھے۔“

دیکھئے: سید جواد نقوی کا صوفی ریاضتوں پر بیان

قرآن میں رہبانیت کی مذمت

تفسیر الکوثر میں آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی ؒ نے سورہ الحدید کی ستائیسویں آیت کے ذیل میں رہبانیت کے خلاف اسلام کا موقف واضح کیا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:

ثُمَّ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیۡنَا بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ ۬ۙ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ رَاۡفَۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا ۚ فَاٰتَیۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡہُمۡ اَجۡرَہُمۡ ۚ وَ کَثِیۡرٌ مِّنۡہُمۡ فٰسِقُوۡنَ.

ترجمہ: ”پھر ان کے بعد ہم نے پے در پے اپنے رسول بھیجے اور ان سب کے بعد عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور انہیں ہم نے انجیل دی اور جنہوں نے ان کی پیروی کی ہم نے ان کے دلوں میں شفقت اور رحم ڈال دیا اور رہبانیت (ترک دنیا) کو تو انہوں نے خود ایجاد کیا، ہم نے تو ان پر رہبانیت کو واجب نہیں کیا تھا سوائے اللہ کی خوشنودی کے حصول کے، لیکن انہوں نے اس کی بھی پوری رعایت نہیں کی، پس ان میں سے جنہوں نے ایمان قبول کیا ہم نے ان کا اجر انہیں دیا اور ان میں بہت سے لوگ فاسق ہیں۔“ (سورہ الحدید، آیت 27)

تشریحِ کلمات

قَفَّیۡنَا: ( ق ف و ) پیچھے چلنا۔ قفیتہ میں نے اس کے پیچھے چلایا۔

رَاۡفَۃً: ( ر ء ف ) شفقت ہمدردی کے معنوں میں ہے۔

رَہۡبَانِیَّۃَۨ: ( ر ھ ب ) خوف کو کہتے ہیں۔ اصطلاح میں خوف خدا کی وجہ سے ترک دنیا کو رہبانیت کہتے ہیں۔

تفسیرِ آیات

۱۔ ثُمَّ قَفَّیۡنَا: نوح و ابراہیم علیہما السلام کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا اور کسی قوم کو ہدایت سے محروم نہیں رکھا۔

۲۔ قَفَّیۡنَا بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ: ان کے بعد عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو مبعوث فرمایا اور ان پر انجیل نازل ہوئی۔

۳۔ وَ جَعَلۡنَا فِیۡ قُلُوۡبِ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُ: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہایت رحم دل تھے۔ اس کا اثر ان پر ایمان لانے والوں میں پیدا ہوا اور یہ رحمدلی صرف ان لوگوں میں تھی جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروی کرتے تھے۔ مسیحیت میں تحریف اور انحراف آنے سے پہلے تعلیمات مسیح علیہ السلام کے پابند لوگوں میں رحمدلی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہر عصر کے درندہ صفت لوگوں میں بھی یہ صفت موجود ہے۔

۴۔ وَ رَہۡبَانِیَّۃَۨ ابۡتَدَعُوۡہَا: رہبانیت یعنی ترک دنیا کو مسیحیوں نے خود گھڑ لیا ہے۔ اللہ نے ترک دنیا کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مسیحیوں نے اللہ کے ہاں بلند درجہ حاصل کرنے کے لیے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے لیے جنگلوں اور پہاڑوں میں پناہ لینے کا ایک رواج ڈال دیا۔

۵۔ مَا کَتَبۡنٰہَا عَلَیۡہِمۡ اِلَّا ابۡتِغَآءَ رِضۡوَانِ اللّٰہِ: اللہ نے انہیں اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کا حکم دیا تھا اللہ کی خوشنودی کے حصول میں حیاتِ دنیا حائل نہیں ہے بلکہ حبِ دنیا حائل ہے۔ حیات دنیا جائز اور حلال طریقوں سے بہتر اور صحت مند رکھنے سے اللہ کی رضا جوئی آسان ہو جاتی ہے۔

حضرت علی علیہ السلام دعائے کمیل میں فرماتے ہیں:

قو علی خدمتک جوارحی.

ترجمہ: ”اے اللہ! اپنی عبادت کے لیے میرے اعضاء میں قوت عنایت فرما۔“

حدیث نبوی ہے:

لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ. ( مستدرک الوسائل ۱۴: ۱۵۵)

ترجمہ: ”اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں ہے۔“

دوسری حدیث میں فرمایا:

اِنَّمَا رَہْبَانِیَّۃُ اُمَّتِی الْجِھَادُ فِی سَبِیلِ اللّٰہِ. ( مستدرک الوسائل ۲: ۴۰۱)

ترجمہ: ”میری امت کی رہبانیت فی سبیل اللہ جہاد ہے۔“

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:

الاِتِّکَائُ فِی الْمَسْجِدِ رَہْبَانَِّیۃُ الْعَرَبِ اِنَّ الْمُوْمِنَ مَجْلِسُہُ مَسْجِدُہُ وَ صَوْمَعَتُہُ بَیْتُہُ. ( الکافی ۲: ۶۶۲)

ترجمہ: ”عربوں کی رہبانیت مسجد میں بیٹھنا ہے مومن کی جگہ اس کی مسجد ہے اور اس کا صومعہ اس کا گھر ہے۔“

واضح رہے کہ نماز ہائے نوافل کا گھر ہی میں پڑھنا بہتر ہے۔ لیکن مسیحیت نے ایک ایسی رہبانیت کو رواج دیا جس سے انہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے جو رحمدلی اور ہمدردی وراثت میں ملی تھی وہ شقاوت اور سنگدلی میں تبدیل ہو گئی۔ ان کے ہاں فرقہ بندی میں عدم برداشت اور مخالفین کی قتل و غارت اور ایذا رسانی میں یہی راہب لوگ پیش پیش رہے ہیں۔ راہبوں کے انسانیت سوز مظالم سے ان کی تاریخ اٹی ہوئی ہے۔

۶۔ فَمَا رَعَوۡہَا حَقَّ رِعَایَتِہَا: ان لوگوں نے ترکِ دنیا کے اصول کی رعایت بھی نہیں کی اور اپنے مفاد کی خاطر رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر ایمان نہیں لائے۔

۷۔ فَاٰتَیۡنَا: ان مسیحیوں میں سے جو لوگ ہمارے رسول پر ایمان لے آئے ان کو تو اجر ملے گا۔ مگر ان میں سے کثیر تعداد میں لوگوں نے اپنی مفاد پرستی کو نہیں چھوڑا۔

اہم نکات:

۱۔ مسیحیوں نے ترکِ دنیا کے روپ میں دنیا طلبی کی۔

۲۔ اسلام میں ترکِ دنیا کا تصور نہیں ہے۔

منبع: آیت اللہ شیخ محسن علی نجفی، الکوثر فی تفسیر القران، جلد 9، صفحہ 68۔

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button