متفرق

قاضی طباطبائی: پیر نہیں اڑتے، مرید اڑاتے ہیں

77 ملاحظات

اہلسنت مولوی صاحبان کی طرف سے عبدالقادر گیلانی (متوفیٰ 1166ء) کی مضحکہ خیز کرامات سنا کر عوام کے ذہنوں کو ناکارہ بنانے کا سلسلہ کافی عرصے سے چلا آ رہا ہے۔ انہیں غوث پاک یا غوث اعظم کہا جاتا ہے۔ گیارہویں شریف انہی سے منسوب ہے۔ شیخ مرتضٰی مطہری نے بھی انہیں چھٹی صدی کے عارفوں میں گنا ہے۔ اردو میں شائع ہونے والی کتاب ”سیر و سلوک“ میں لکھا ہے:

”عبد القادر گیلانی: دنیائے اسلام کی اختلافی شخصیت ہیں۔ صوفیہ کا سلسلہ قادریہ انہیں سے منسوب ہے۔ ان کی قبر بغداد میں مشہور و معروف ہے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جن سے اول اول بلند بانگ دعوے نقل کیے گئے۔ ساداتِ حسنی میں سے ہیں۔ یہ 560 یا 561 ہجری میں فوت ہوئے۔“

البتہ گذشتہ تیس چالیس سالوں میں برصغیر میں شیعہ علماء کا لباس پہنے ہوئے ایسے آغا صاحبان منبر پر آئے ہیں جو جہالت میں ذاکرین سے کم نہیں ہیں۔ یا تو یہ منبر سے ایرانی اخباروں کے کالمز اور حالات حاضرہ کے تجزئیے سناتے رہتے ہیں، یا پھر مختلف جھوٹی کہانیاں سنا کر بانیانِ مجالس سے بھاری نذرانے لیتے ہیں۔ ان لوگوں نے آغا قاضی طباطبائی (متوفیٰ 1947ء) اور ان کے سلسلے کے عارفوں کی جھوٹی کرامات سنانے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یوں قاضی صاحب تصوف زدہ شیعوں کیلئے گیارہویں والا پیر اور غوث پاک بن چکے ہیں۔ مثال کے طور پر آغا علی مرتضٰی زیدی فرماتے ہیں:

”ایک شخص ان کا شاگرد بنا جو خود بڑا کوئی کرامات دکھانے کا ماہر انسان تھا۔ قاضی ایک جگہ چل رہے تھے، وہ ساتھ ساتھ چلنے لگا اور کہنے لگا کہ میں نے آپ کا بہت نام سنا ہے۔ اب اتنی عمر گزار دی ہے تو چاہتا ہوں کہ آپ میری تربیت کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں میں تربیت تو کرتا ہوں۔ اب یہ بالکل فری سٹائل میں کام کرنے والے آدمی تھے۔ لنگڑے تھے، لاٹھی ہاتھ میں ہوتی تھی۔ کوئی ان کا حال حلیہ دیکھے تو شاید سلام بھی نہ کرے۔

اتنی عجیب حالت میں رہے زندگی بھر، اور اسی حالت میں سب کچھ جاننے والے تھے۔ وہ ساتھ ساتھ چل رہے ہیں، ساتھ ہی ایک نہر چل رہی ہے جو نجف سے کربلا کے راستے میں پڑتی ہے۔ وہ جو نیا شاگرد بننا چاہتا تھا، عمر رسیدہ آدمی، اب یہ جانتے ہیں یہ آدمی کون ہے۔ کہنے لگے، بتاؤ کماتے کہاں سے ہو؟ اس نے کہا کہ اس کا کیا ذکر ہے؟ کہا میری تربیت میں جو بھی رہتا ہے تو جب تک وہ حلال نہیں کماتا، اور اپنی محنت سے نہیں کماتا، میں اس کو اپنا شاگرد نہیں بناتا۔

اچھا یہ اپنے ہر شاگرد سے یہ کہتے تھے کیا؟ نہیں! تو اس سے کیوں کہہ رہے تھے؟ اس نے خود بعد میں بتایا۔ کہنے لگا اصل میں انہوں نے مجھے اسلئے کہا تھا کہ بہت عرصے سے میرے اندر ایک کرامت آ گئی تھی۔ جو میں سوچتا تھا، وہ مجھے مل جاتا تھا۔ میں سوچتا تھا کہ آج دوپہر مجھے مچھلی کھانی ہے، تو پھر مچھلی نے آنا ہے۔ میں نے سوچا کہ جب خود ہی خدا بھیج رہا ہے تو مجھے کمانے کی ضرورت ہی نہیں۔ میں کوئی حرام کام نہیں کروں گا، صرف سوچوں گا کہ یہ چاہئے، مل جائے گا۔ بلاوجہ کمانے کی کیا ضرورت ہے؟ اپنا وقت عبادتوں پہ لگاتا تھا۔

انہوں نے پہلا سوال اس سے یہ کیا، کماتے کہاں سے ہو؟ اس نے ٹالنے کی کوشش کی کیوں کہ اسے بھی سمجھ آ گیا تھا کہ ان کو پتا چل گیا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ کہنے لگے کہ جب تک کوئی حلال نہیں کماتا تو میں اسے ساتھ نہیں رکھتا۔ اب وہ کیا کرتا؟ اس نے یوں اپنے استاد کو دیکھا اور ایک مچھلی کود کر دونوں کے سامنے گر گئی۔ کہا ایسے کماتا ہوں۔

جو چاہتا ہوں ہوتا ہے۔ دیکھیں ابھی میں نے چاہا مچھلی آئے، مچھلی کود کے سامنے آ گئی۔ انہوں نے مچھلی ہاتھ میں اٹھائی، پانی میں ڈالا اور کہا کہ اگر ہمارے ساتھ چلنا ہے تو نہیں ہو پائے گا۔ کہتا ہے میں سارے راستے کوشش کرتا رہا کہ دوبارہ مچھلی آئے، نہیں آئی!“

یہ بھی پڑھئے: حضرت غفران مآب کی کتاب ”الشہاب الثاقب“ کا تعارف

آغا نصرت بخاری فرماتے ہیں:

”آیت اللہ قاضی طباطبائی، جو علامہ طباطبائی کے استاد ہیں، آیۃ اللہ بہجت کے استاد ہیں، انہیں چالیس سال کوئی مکاشفہ نہیں ہوا۔ چالیس سال کے بعد کچھ کھلا تو اتنا کھلا کہ خود توحید کے پہاڑ بن گئے۔ جب بھی کوئی مولائے کائنات ؑ کے حرم میں سوال کیلئے آتا تھا تو اندر سے جواب آتا تھا قاضی کے پاس جاؤ۔ اس مقام پہ پہنچے۔ آپ نجف اشرف جائیں تو وادئ سلام میں ان کی مرقدِ مبارک ہے۔ جن کو زیارت کی توفیق ہوئی ہے وہ جانتے ہوں گے۔

یہ آج کے زمانے کے ہیں، عزیزانِ محترم! ان کا ذکر کیوں کرتا ہوں؟ کیوں کہ بعض اوقات ہم کہتے ہیں کہ ہم آئمہ ؑ جیسے تو نہیں ہو سکتے، ان کے اصحاب جیسے تو نہیں ہو سکتے، تو آج کے علماء جیسے تو ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی اسی زمانے کے لوگ تھے۔

آیت اللہ قاضی طباطبائی کیلئے مشہور ہے کہ ان کی والدہ نے کہا کہ تمہاری زوجہ کی بہن کا رشتہ آیا ہے، تمہاری نظر میں وہ کیسی ہے؟ کہا میں نے اسے کبھی دیکھا نہیں۔ کہا اٹھارہ سال سے ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھا رہے ہو، تم نے اسے دیکھا نہیں؟ جب سڑک پہ چلتے تھے، کوئی نامحرم آئے تو خود بخود راستہ مڑ جاتا تھا۔

عزیزانِ محترم! خود مکاشفے میں کہتے ہیں کہ میں نے گلی کے کونے پر ایک بوڑھے شخص کو دیکھا۔ محاسن، داڑھی اس کی، سفید تھی۔ کہتے ہیں کہ میں پہچان گیا کہ یہ شیطان ہے، ابلیس ہے۔ میں نے اسے بولا کہ میرا پیچھا چھوڑ دو۔ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ شیطان نے اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کیا اور کہا ادھر دیکھو۔ وہاں دیکھا کہ ایک پہاڑی ہے جس کی چوٹی پر میں کھڑا ہوں۔ یعنی اونچائی پر، کمال تک، پہنچا ہوا ہوں۔ شیطان نے اشارہ کیا کہ اس چوٹی کے برابر میں کھائی ہے۔ اگر اب بھی تم نے ذرا سی غفلت کی، میں تمہیں نیچے پھینک دوں گا۔ اور ہم لوگ؟ ہمیں تو پتا بھی نہیں کہ شیطان ہے بھی یا نہیں!“

شیطان کی طرف سے کسی سے ملاقات کر کے اسے نیکی کی نصیحت کرنے کی ایک من گھڑت داستان فارسی کے معروف شاعر رومی نے بھی لکھی ہے:

در خبر آمد که آن معاویه
خُفته بُد در قصر، در یک زاویه

قصر را از اندرون در بسته بود
کز زیارت های مردم خسته بود

ناگهان مَردی وَرا بیدار کرد
چَشم چون بگشاد، پنهان گشت مَرد

گفت: اندر قصر کس را رَه نبود
کیست کین گستاخی و جرأت نمود

کرد برگشت و طلب کرد آن زمان
تا بیابد ز آن نهان گشته نشان

از پَسِ در مُدبِری را دید کو
در در و، پرده نهان می کرد رُو

گفت: هَی کیستی؟ نام تو چیست؟
گفت: نامم فاش، ابلیس شقی است

گفت: بیدارم چرا کردی به جِد؟
راست گو با من، مگو بر عکس و ضِد

گفت: هنگامِ نماز آخر رسید
سویِ مسجد زود می باید دوید

عَجّلوا الطّاعاتِ قبلَ الموت گفت
مُصطفی چون دُرِ معنی می بِسُفت

ترجمہ: ”کہا گیا ہے کہ معاویہ صاحب اپنے محل کے ایک کونے میں مزے سے سو رہے تھے۔ محل کے دروازے اندر سے بند تھے کیونکہ وہ کسی سے ملنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ گہری نیند میں تھے کہ اچانک ایک شخص نے جگا دیا۔ معاویہ صاحب اٹھے اور کہا کہ محل میں کسی کو اندر آنے کی اجازت نہ تھی، کون ہے یہ گستاخ؟ پھر اس شخص کو سارے کمرے میں ڈھونڈا، یہاں تک کہ اس چھپے شخص کا پتہ چل گیا جو پردے سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھا۔ اس سے کہا، تو کون ہے، تیرا نام کیا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ میرا نام سب کو پتا ہے، میں ابلیس ہوں۔ پوچھا کہ تو نے مجھے کیوں جگایا، سچ سچ کہو، جھوٹ مت بولنا۔ اس نے کہا حضرت! نماز با جماعت کا وقت ختم ہونے کو ہے، آپ کو مسجد جانا چاہئے۔ خود حضرت محمد مصطفٰی ؐ نے فرمایا ہے کہ عبادت میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وقت نکل جائے۔“

حقیقت کیا ہے؟

حوزہ علمیہ قم کے استاد آیۃ اللہ رحمتی سے ایک طالب علم نے پوچھا کہ علماء کے بارے میں جو کرامات سنائی جاتی ہیں، بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب خود ساختہ کہانیاں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ بالکل من گھڑت ہیں۔ جیسا کہ آغا قاضی طباطبائی کی کرامات، یہ جناب مرشدی عتبات میں ہمارے ساتھ تھے۔ وہاں ایسی کوئی بات نہیں سنی۔ لیکن جب ہم ایران آئے تو دیکھا کہ ان کو عرشِ اعلیٰ پر پہنچا دیا گیا ہے۔ غلو پر مبنی عجیب و غریب قصے بنا دیئے گئے ہیں۔

آیۃ اللہ رحمتی کی ویڈیو ڈاؤنلوڈ کریں

یہی معاملہ آغا محمد علی شاہ آبادی کا بھی ہے۔ ان کے بارے میں بھی صوفیانہ جھوٹ پھیلائے جاتے ہیں لیکن ان کے فرزند جناب نصر اللہ شاہ آبادی نے ان کی کرامات کا انکار کیا ہے۔

جناب نصر اللہ شاہ آبادی کی ویڈیو ڈاؤنلوڈ کریں

یہ بھی پڑھئے: شیعہ علماء کے لباس میں یونانی تصوف کی ترویج نہ کی جائے ۔ آیۃ اللہ سید جعفر سیدان

 

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button