متفرق شخصیات

آغا حسن زادہ آملی کے انحرافات – علامہ ڈاکٹر محسن طیب نیا

414 ملاحظات

ڈاون لوڈ کریں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
صلی اللہ علیٰ محمد و آلِہ الطاہرین

حسن زادہ آملی (متوفیٰ 2021ء) کے بارے بہت کچھ کہا جاتا ہے۔ میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ یہاں کچھ حقائق کو سامنے لاؤں چاہے کچھ لوگوں کو برا لگے۔

بہت سے لوگ حسن زادہ آملی صاحب کو علامہ ذوالفنون، چوٹی کا خدا شناس اور روحانیات کا ماہر کہہ رہے ہیں۔ یہ صاحب جب زندہ تھے، ان کی شان میں جلسے منعقد کئے گئے۔ انہیں بے مثل عالم کے طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ ان کی مخالفت بھی ہوئی اور کہا گیا کہ یہ اہلبیت ؑ کی توحید سے دور تھے۔ میں نے چونکہ کئی سال اہلبیت ؑ کے نظریۂ توحید پر تحقیق کی، میرے استاد اور باقی ہم عقیدہ افراد کیلئے واضح ہے کہ حسن زادہ آملی نے توحید اور معارف کے بارے ستر سال جو کچھ کہا وہ خدا کی وحی سے بالکل کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ اسلام اور ادیانِ الہٰی میں بیان کی گئی توحید نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھئے: جناب حسن زادہ آملی کی ریاضی اور علوم میں مہارت کے غلو پر مبنی افسانے – ڈاکٹر حمید رضا نیاکی

جو خیالات ان صاحب نے ساٹھ ستر سال پھیلائے اور اب ان کے شاگرد جس چیز کی ترویج کر رہے ہیں، تصوف ہے۔ صوفیوں کی توحید، وحدت شخصئِ وجود یا وحدت وجود و موجود، ہی کو یہ لوگ پھیلا رہے ہیں۔ شیخ صدوق ؒ سے علامہ مجلسی ؒ تک، اورمحقق حلی ؒ سے علمائے معاصر تک نے اس کے بارے جو کہا اسے پڑھیں۔ وحدت وجود کو توحید کی ضد قرار دیا گیا ہے۔ اس کا وحی کی روشنی سے کوئی تعلق نہیں!

وجود کی وحدتِ شخصی یہ ہے کہ کائنات میں مطلق طور پر ایک ہی وجود ہے جو اتر کر مخلوقات کی شکل میں بٹ گیا ہے۔ وہ مخلوقات کی صورت میں متنزل و متعین ہوا ہے۔ یعنی وجودِ مطلق مرحلوں اور تعینات سے دوچار ہوتا ہے، محدود ہوتا ہے تاکہ بصورتِ اشخاص و اشیاء جلوہ گر ہو۔

انہوں نے اپنے تئیں جو بہترین مثال دی ہے وہ سمندر کی لہروں کی ہے۔ کہتے ہیں سمندر کو دیکھو، اس کی امواج عین سمندر ہی ہیں (جبکہ ہر دو مرکب ہیں)۔ اسی طرح مظاہرِ فطرت بھی امواج ہیں جو ذاتِ الہٰی سے پھوٹی ہیں۔ یہ بس ہمارا گمان ہے کہ یہ خدا سے مختلف ہیں، گوناگوں ہیں۔ یہ ظاہراً ایسی ہیں لیکن ایک عرفانی اور عمیق نگاہ سے دیکھیں تو جیسےموج خود سمندر ہی ہے، سبھی اشیاء عینِ خدا ہیں۔

وحدتِ شخصئ وجود میں خدا کے مرحلۂ تنزل، جو تجلی یا ظہور ہے، میں خدا اپنی ذات کو موجودات کی شکل میں متعین کرتا ہے اور کوئی موجود ایسا نہیں جو خدا کی ذات میں حصہ دار نہ ہو۔

لیکن وحی میں بیان شدہ معارف کے مطابق خدا خالق ہے، ایجاد کرتا ہے۔ عدم سے، لا من شئ خلق کرتا ہے۔ نہ کہ اپنی ذات کو مخلوقات کی شکل میں کائنات میں بکھیرے۔

حسن زادہ آملی کے مطابق اس کی غیرت کا تقاضا ہے کہ اس کائنات میں اس کا غیر موجود نہ ہو، پس وہ خود جملہ اشیاء ہو گیا۔ غیرتِ خدا اس کا موجب بنی کہ اس کے سوا دنیا میں کچھ نہ ہو۔ یہ عقیدہ سبھی عقلی دلائل اور شرعی نصوص کے خلاف ہے۔

سیکڑوں احادیث میں آیا ہے کہ خدا کائنات سے الگ ہے۔ عالم مخلوق ہے جسے اللہ نے لا من شئ خلق کیا ہے۔ اگر کائنات ذاتِ پروردگار کا نزول اور تعین ہو، اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ذاتِ خدا متجزی ہے، مرکب ہے۔ خدا کو مرکب کہنا اصل میں اللہ کا انکار ہے۔ علمائے شیعہ نے اس غیر توحیدی، بلکہ ضدِ توحید تفکر کی مخالفت کی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ملا صدرا کے نظریۂ تشکیکِ وجود کا رد – ڈاکٹر حسین عشاقی

کچھ لوگ ان صاحب کی مدح سرائی کرتے ہوئے انہیں توحید کی بلندی پر پہنچا ہوا کہہ رہے ہیں۔ میں ان صاحب کی بعض باتیں یہاں بیان کرتا ہوں، آپ خود فیصلہ کریں۔ یہ آخری دم تک ابنِ عربی کے مرید رہے۔ میں نے اپنی کتاب ”ابنِ عربی از نگاہی دیگر“ میں سیکڑوں صفحات ابنِ عربی کے انحرافات پر لکھے ہیں۔

ابنِ عربی فصِ موسویہ میں فرعون کو خودِ خدا قرار دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ فرعون کا یہ کہنا کہ انا ربکم الاعلی، صحیح تھا۔ قرآن اس بات کو باطل کہتا ہے لیکن ابنِ عربی کہتا ہے کہ فرعون کا ظاہر انسانی تھا لیکن اس کی ذات اور ہویت اور واقعیت خود خدا تھی۔

«فصحّ قوله – أنا ربّکم الأعلی – و إن کان عین الحق فالصورة لفرعون» (1)

حسن زادہ آملی نے اپنی کتاب ”ممد الہمم“ میں اس کی تائید کی۔ ابنِ عربی فصوص الحکم کی فصِ موسویہ میں کہتا ہے کہ فرعون کی جان پاکی کی حالت میں نکالی گئی، جب اس میں کوئی خباثت باقی نہ رہی تھی اور وہ ایمان کی حالت میں تھا۔

«فَقَبَضَهُ طاهِراً مُطَهَّراً لَیسَ فیهِ شَیئٌ مِنَ الخُبثِ لِاَنَّهُ قَبَضَهُ عِندَ ایمانِهِ قَبلَ اَن یَکتَسِبَ شَیئاَ مِنَ الاثامِ.» (2)

خدا کہتا ہے کہ فرعون کافر مرا۔ یہ قرآن کے خلاف کہتا ہے۔ حسن زادہ آملی ممد الہمم میں قرآن کے بجائے ابنِ عربی کے کفر آمیز موقف کی حمایت کرتے ہیں۔ (3)

ان لوگوں کے نزدیک انسان کسی چیز کو بھی مان کر اس کی عبادت کرنے لگے تو ایسا کرنا درست ہے۔ ابنِ عربی فتوحاتِ مکیہ میں کہتا ہے کہ:

عقد الخلائق فی الاله عقائداً
و انا اعتقدت جمیع ما اعتقدوا (4)

یعنی خلائق معبود کے بارے گوناگوں عقائد رکھتے ہیں۔ کوئی بت، کوئی سورج، تو کوئی گائے کی پوجا کرتا ہے۔ کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ یہ سب ٹھیک کر رہے ہیں کیوں کہ کائنات میں خدا کے سوا کچھ ہے ہی نہیں!

قرآن بت پرستی کو باطل قرار دیتا ہے۔ محمود شبستری گلشنِ راز میں کہتا ہے کہ مسلمان اگر جانتا کہ بت کیا ہے تو سمجھتا کہ دین بت پرستی میں ہے۔

مسلمان گر بدانستی که بت چیست
بدانستی که دین در بت پرستی است

شارحین کہتے ہیں کہ خدا زمین پر بت کی صورت میں ظاہر ہوا۔ بت کی پوجا ان کی نظر میں عین خدا پرستی ہے۔ کیا دین یہ کہتا ہے؟ یہ دین کا انکار اور تمسخر نہیں تو کیا ہے؟

ابنِ عربی فصوص الحکم کی فصِ ہارونیہ میں لکھتا ہے کہ موسیٰ ؑ جب غائب ہوئے اور پھر واپس آئے اور دیکھا کہ لوگ گوسالہ پرست ہو چکے ہیں، تو اپنے بھائی ہارون ؑ سے اس لئے ناراض ہوئے کہ انہوں نے گوسالہ پرستی سے روکا تھا۔ وہ سامری کی تائید اور مدح کر کے ہارون ؑ کی مذمت کرتا ہے۔ اس حد تک قرآن میں معنوی تحریف کرتا ہے۔ آیتِ قرآن کا مفہوم پوری طرح الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ موسیٰ ؑ اس لئے ہارون ؑ سے ناراض ہوئے کہ انہوں نے معرفت نہ رکھنے کی وجہ سے بچھڑے کی پوجا کا انکار کیا تھا۔ (5)

آغا حسن زادہ آملی اپنی کتاب ممد الہمم میں اس بات کی تائید کرتے ہیں اور اسے ولایت کا راز قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ: «جمیع عبادت ہا، عبادت حق تعالٰی است»۔ (6) سبھی عبادتیں، اللہ کی عبادتیں ہیں۔ کیا ایسا ہی ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ شیخ ابنِ عربی ولایت کے اسرار بیان کر رہا ہے۔ کیا بت پرستی ولایت کا راز ہے۔ ولایت کا مذاق بنا رکھا ہے۔

قرآن یہ کہتا ہے کہ موسیٰ ؑ اس لئے غصے میں آئے کہ وہ گمان کر رہے تھے کہ بھائی نے میرے پیچھے کوتاہی کی ہے۔ اور اس وجہ سے لوگ بچھڑے کی پوجا میں پڑ گئے ہیں:

«قَالَ یٰہٰرُوۡنُ مَا مَنَعَکَ اِذۡ رَاَیۡتَہُمۡ ضَلُّوۡۤا. اَلَّا تَتَّبِعَنِ ؕ اَفَعَصَیۡتَ اَمۡرِیۡ.» (7)

ترجمہ: ”موسیٰ نے کہا: اے ہارون! جب آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ لوگ گمراہ ہو رہے ہیں، تو میری پیروی کرنے سے آپ کو کس چیز نے روکا؟ کیا آپ نے میرے حکم کی نافرمانی کی؟“

ایسا نہیں کہ سامری کا کام درست تھا اور ہارون ؑ نے لوگوں کو گوسالہ پوجنے نہ دیا، کچھ کو روک لیا۔ کیا قرآن یہ کہہ رہا ہے؟ ان کے خیال میں سب کچھ حق ہے، شیطان بھی خدا کی ذات کا حصہ ہے۔ اسے تو سید الموحدین قرار دیتے ہیں۔ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی!

آغا حسن زادہ آملی الٰہی نامہ میں صراحت سے لا الٰہ الا اللہ کی نفی کرتے ہیں، جو انبیاء ؑ کا بلند ترین شعار تھا۔ خدا نے خود لا الٰہ الا اللہ کی شہادت دی ہے: «شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ»۔ (8) حدیث میں آیا ہے کہ خدا فرماتا ہے: کلمۂ لا الٰہ الا اللہ میرا قلعہ ہے، جو اس میں داخل ہو گیا، میرے عذاب سے بچ گیا۔ (9)

الٰہی نامہ میں ہے کہ:

«الهی از گفتن نفی و اثبات شرم دارم که اثباتیم؛ لا اله الا الله را دیگران بگویند، الله را حسن.»

الٰہی! نفی اور اثبات سے شرماتا ہوں، کیونکہ اثباتی ہوں۔ لوگ کہیں لا الٰہ الا اللہ، حَسن کہے، اللہ۔ گویا دوسرے لوگ معرفت نہیں رکھتے اسلئے لا الٰہ الا اللہ کہیں۔ میں وحدت وجود کو مانتا ہوں، دنیا میں خدا کے سوا کچھ نہیں۔ یہ شیطان اور نجس چیزوں کو بھی عینِ خدا کہتے ہیں، معاذ اللہ!۔ یہ کوئی الزام تراشی نہیں، ان کے ہزاروں اقوال شاہد ہیں۔

لا الٰہ الا اللہ کے مطابق اللہ ہے، باقی موجودات بھی ہیں۔ سب موجودات میں صرف اللہ لائقِ عبادت ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ سبھی موجودات خدا ہیں۔ اس کا غیر کوئی نہیں۔ پس باقی لوگ کہیں لا الٰہ الا اللہ، کیونکہ وہ معرفت نہیں رکھتے۔ یہ عارف صاحب صرف اللہ کہیں گے۔ اس سے بڑھ کر لا الٰہ الا اللہ کا انکار کیا ہو گا؟

آغا حسن زادہ آملی الٰہی نامہ ہی میں کہتے ہیں:

«إلهی، تا به حال می گفتم (لا تأخُذُهُ سِنَةٌ و لا نَوم – بقره/255.) اکنون مرا هم.»

یعنی الٰہی، پہلے میں یہ کہتا تھا کہ اللہ کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، اب مجھے بھی نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند!

آئمہ ؑ نے کب ایسی بات کہی ہے؟

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ صاحب اپنی عمر کے آخری سات آٹھ سالوں میں ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔ بشر کی کیا حیثیت ہے کہ یہ کہے کہ مجھے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند!

یہ لوگ ٹیڑھی راہ پر چل نکلے ہیں اور ان کے شاگرد زمانِ ظہور تک نجانے کتنے لوگوں کو منحرف کریں گے۔ انکے برجستہ ترین شاگرد آغا صمدی آملی کی ایک کتاب ہے، مراتبِ طہارت، یہ کتاب خرافات کا مجموعہ ہے۔ طہارتِ نفس کے نام پر فضول باتوں کا طومار باندھا گیا ہے۔

مثلاً صفحہ 194 سے 297 تک پڑھیں۔ کہتے ہیں کہ کافر خدا کی آیات کا خزانہ ہوتا ہے۔ اسے ہاتھ لگانے سے پہلے باشعور ہونا ضروری ہے۔ پہلے جاؤ وضو کرو، پھر کافر کو چھونا! وحدت الوجود کے مطابق کافر بھی خدا کی ذات کا حصہ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے انہی آغا صمدی آملی کی ایک خفیہ محفل میں گفتگو کی ریکارڈنگ سامنے آئی تھی جس میں کہہ رہے تھے کہ یزید اور شمر ہم سے پہلے جنت جائیں گے کیوں کہ یہی امام حسین ؑ کے نیک راستے پر چل کر شہید ہونے کا سبب ہوئے۔ اور یہی لوگ ہماری عزاداری کی علت بنے ہیں۔ اس سے بڑھ کر دین کا تمسخر کوئی کیا اڑا سکتا ہے؟

ابنِ عربی فتوحاتِ مکیہ میں کہتا ہے کہ جنتی لوگ حور العین اور بہشت کی غذاؤں سے جو لذت پائیں گے اتنی ہی لذت جہنمی لوگ سانپوں کے ڈنگ سے حاصل کریں گے۔

فلم يبق إِلا صادق الوعد وحده
وما لوعيد الحق عين تعَايَن

وإِن دخلوا دار الشقاء فإِنهم
على لذة فيها نعيم مباين

نعيمَ جنان الخلد فالأمر واحد
وبينهما عند التجلي تباين

يسمى عذاباً من عذوبة طعمه
وذاك له كالقشر والقشر صاين (10)

حسن زادہ آملی صاحب نے بھی اس بات کی تائید کی ہے۔ (11) کیا یہ لوگ عالمانِ ربانی ہیں؟ میری یہ ذمہ داری تھی کہ یہ سب بیان کر دوں۔ یہ صاحب تصوف کی راہ پر تھے۔ ان کو بڑی شخصیت بنا کر پیش کرنا خلافِ واقع ہے۔ ان کے بارے میں ان کے مرید جو من گھڑت باتیں بناتے اور پھیلاتے ہیں، وہ سب تصوف کی دنیا سے تعلق رکھتی ہیں۔

وہابی حضرات جان لیں کہ ان کی باتوں کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

شیعہ جوان بھی ان کے دھوکے میں نہ آئیں۔ آپ راہِ اہلبیت ؑ پر چلنا چاہتے ہیں تو ان لوگوں سے دور رہیں۔ یہ دین کے راستے کے ڈاکو ہیں جو کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔ میری یہ ذمہ داری ادا ہوئی۔ یہ سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ ان شاء اللہ جوان مزید تحقیق کریں گے۔

درود و سلام ہو حضرت محمد ؐ اور ان کی پاک آل ؑ پر!

یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی کی حضرت مریم پر تہمت

حوالہ جات:

فصوص الحکم، ج‏ 1، ص 211۔
فصوص الحکم، ج‏ 1، ص 201۔
3۔ ممد الہمم، ص 586، وزارت فرہنگ و ارشاداسلامی، تہران۔
4۔ فتوحات مکیہ، ج 3، ص 132۔
5۔ فصوص الحکم، فص ہارونیہ، ص 295۔
6۔ ممد الہمم، ص 514، وزارت فرہنگ و ارشاداسلامی، تہران۔
7۔ سورہ طٰہٰ، آیات 92، 93۔
8۔ سورہ آل عمران، آیت 18۔
9۔ اعیان الشیعہ، ج 2، ص 18۔
10۔ فصوص الحکم، ص 94، فص اسماعیلیہ۔
11۔ ممد الہمم، ص 210، وزارت فرہنگ و ارشاداسلامی، تہران۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button