مراجع کی تحریریں اور بیانات

تحفۂ صوفیہ پر مقدمہ – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو

663 ملاحظات

تصوف کیا ہے؟ فلاسفۂ یونان کے مزعومات، یہودیت کے نظریات، عیسائیت کے معتقدت اور ہندوؤں کے خرافات کے مجموعے کا نام ہے۔ اس کے بنیادی اصول دو ہیں:-

1۔ انسان کا براہ راست خدا سے مکالمہ
2۔ نفسِ انسانی کا حقیقتِ مطلقہ (یعنی خدا) کے ساتھ مل جانا، جسے وصال یا فناء کہا جاتا ہے۔

تصوف کے ساتھ اسلامی کا پیوند لگانا بلا تشبیہ ایسی ہی بےجوڑ اصطلاح ہے جیسے اسلامی شراب خانہ یا اسلامی جوآ خانہ۔ ہر با خبر انسان جانتا ہے کہ جس طرح شراب خانہ یا جوآ خانہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، اسی طرح تصوف کا بھی اسلام سے کوئی ربط نہیں۔ تصوف کا سنگِ بنیاد وحدت الوجود یا ہمہ اوست کے نظریہ پر قائم ہے جو سراسر غیر اسلامی نظریہ ہے۔

نیز اس کا دار و مدار باطنی معنی پر ہے اور اہلِ دانش و بینش جانتے ہیں کہ کسی مذہب یا قوم کے دستور العمل میں باطنی معنی تلاش کرنا یا اس میں باطنی مفہوم پیدا کرنے کی کوشش کرنا دراصل اس دستور العمل کو مسخ کرنے یا اسے منسوخ کرنے کے مترادف ہے۔

اور تصوف، خواہ جس ملک و ملت کا ہو، یہ انحطاطِ قومی و ملی کی نشانی ہے۔ یعنی جو قوم میدانِ عملی میں قدم رکھنے سے ہچکچاتی ہے اور اس میں علمی طور پر زمان و مکان کے مسائل سے عہدہ برآ ہونے کی ہمت نہیں رہتی تو پھر تصوف کی مزعومہ باطنی ولایت و سرمدیت کی اوٹ میں پناہ لینے کی ناکام کوشش کرتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ تصوف سے روحانی ترقی ہوتی ہے۔ حالانکہ قطع نظر تصوف کے اوراد و اذکار کے خلافِ شرع ہونے کے، خود روحانیت ایک ایسا لفظ ہے جو آج تک شرمندۂ معانی نہیں ہو سکا۔ ~ ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معانی نہ ہوا

موجودہ دور میں بعض جدت پسند لوگوں نے تصوف کا نام عرفان رکھ دیا ہے اور بدنامی سے بچنے کیلئے صوفیاء کو عرفاء کا نام دیتے ہیں۔ اربابِ بصیرت جانتے ہیں کہ کسی چیز کا نام بدل دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدلتی۔ آج جن لوگوں کو عرفائے اسلام کا نام دیا جاتا ہے اور بڑے شد و مد سے ان کے حالات و واقعات بیان کئے جاتے ہیں، ان میں سے اکثر و بیشتر وہ ہیں جو مذہبی طور پر مذہبِ حق کے سخت مخالف اور عقیدتاً اس قدر باطل نواز تھے کہ ان کے دور کے فقہائے اسلام اور علمائے اعلام نے ان پر کفر اور زندقہ کے فتوے لگائے اور کئی اپنے کیفر کردار کو پہنچ بھی گئے۔

اور ان کے عرفان کا عالم یہ تھا کہ زندگیاں ختم ہو گئیں مگر ان کو یہ تک معلوم نہ ہو سکا کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پہلے حقیقی جانشین حضرت علی علیہ السلام ہیں یا جناب ابوبکر؟ انا للہ و انا الیہ راجعون
~ قیاس کن زگلستان من بہار مرا

عرفان بافی کے حامی لوگ کہا کرتے ہیں کہ عرفاء کے الفاظ کے ظاہری معنی حجت نہیں بلکہ ان کی اصطلاحات اس قدر پیچیدہ ہیں کہ عام لوگ تو کیا، علماء و فقہاء بھی ان کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ بات عذرِ گناہ بدتر از گناہ کی بدترین مثال ہے۔

علمائے اصول نے ناقابلِ تردید دلائل سے ثابت کیا ہے کہ قرآن و سنت کے ظواہرِ الفاظ حجت ہیں۔ لہٰذا خدا و رسولؐ اور آئمۂ ہدیٰ ؑ کے کلامِ حق ترجمان کا ظاہر تو حجت ہو اور اسے علماء و فقہاء سمجھ بھی سکیں، مگر صوفیہ اور عرفاء کے کلام کا نہ ظاہر حجت ہو نہ اسے کوئی سمجھ سکے۔ پھر یہ کلام ہے یا کوئی لغز و معما؟
~ بسوخت عقل زحیرت کہ این چہ بوالعجبی است

اسلام میں تصوف کس طرح آیا اور اس کی بارگاہ میں کس طرح بار پایا ہے، یہ ایک تاریخی حادثہ ہی نہیں کہا جا سکتا بلکہ اسلام میں تصوف کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ تصوف اور اسلام دو ایسے متضاد عقائد و نظریات ہیں جو ہرگز یکجا ہو ہی نہیں سکتے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ اسلام میں تصوف آیا اور بڑی شد و مد سے آیا۔

حکومتوں کی سرپرستی میں آیا اور اس برق رفتاری کے ساتھ آیا کہ اس سے ان لوگوں کا دامن بھی اس کی آلودگی سے محفوظ نہ رہ سکا جن کے پیشواؤں کی مقتدائی اور پیشوائی کو ختم کرنے کیلئے اس کو مشرف بہ اسلام کیا گیا تھا۔ یعنی شیعوں میں بھی تصوف گھس آیا جو ایک قومی المیہ ہے۔

اس اجمال کی بقدرِ ضرورت تفصیل یہ ہے کہ بنی امیہ نے خاندانِ رسالتؐ سے ظاہری و دنیوی اقتدار سلب کرنے کے بعد سوچا کہ اب لے دے کے ان کے پاس صرف روحانی و دینی اقتدار و وقار رہ گیا ہے۔ اسے کس طرح ختم کیا جائے؟ یا کم کیا جائے؟ گہری سوچ بچار کے بعد نظریۂ تصوف کو اسلام میں داخل کیا اور بڑے اہتمام سے صوفیوں کی سرپرستی کی۔ اور ان کے کشوف و کرامات کا چرچا کیا۔

تاکہ لوگوں کو رشد و ہدایت یعنی خاندانِ رسالتؐ سے ہٹا کر ان کی طرف متوجہ کیا جا سکے۔ اس کد و کاوش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر لوگ کچھ اپنے طبعی تقاضوں ”یمیلون مع کل ناعق“ کے تحت اور کچھ ”کل جدید لذیذ“ کے تحت اور کچھ سہل پسند تصوف کی آزاد روی کے تحت کہ ”رند کے رند رہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی“، ان کے دامِ تزویر میں پھنس گئے۔ پھر ان صوفیہ نے بھی حقِ نمک ادا کرتے ہوئے عقیدہ و عمل سے خاندانِ نبوتؐ کی خوب مخالفت کی۔ اور اسلامی اصول و فروع کو مسخ کرنے اور ان کی بیخ کنی کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔

انہی حقائق کی بنیاد پر آئمہ اہلبیت ؑ نے ہر دور میں صوفیہ کی شدید مذمت فرمائی اور ان کے مکروہ چہروں سے نقاب کشائی فرمائی۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: ”الصوفیۃ کلہم من اعدائنا“، سب صوفی ہمارے دشمن ہیں۔ (مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 323؛ سفینة البحار، ج 2، ص 57۔)

مگر کچھ بموجب ”ہر کفر کہ کہنہ شود، مسلمانی شود“ اور عجم کی جدت پسندی اور کچھ شعراء کی بزلہ سنجی و نکتہ آفرینی کی وجہ سے تصوف نے ایران کے دربار میں بھی بار پا لیا۔ بالآخر صفوی سلاطین، جو بنیادی طور پر صوفی پیر صفی الدین کی نسل سے تعلق رکھتے تھے، کے دو سو سالہ طویل دورۂ حکومت میں یہ پودا پھلا پھولا اور پروان چڑھا، بلکہ اس قدر پھیلا کہ اسے ہی حقیقی اسلام اور اس سلسلے سے منسلک لوگوں کو عرفائے اسلام کہا جانے لگا۔ سچ ہے
تھا جو ناخوب، بتدريج وہي خوب ہوا
کہ غلامی ميں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمير

یہیں سے تشیعِ علوی اور تشیعِ صفوی میں جو فرق ہے وہ نمایاں ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ گو آج شاہانِ صفویہ، قاچاریہ اور آریا مہر کا خاتمہ ہو چکا ہے اور ان کی جگہ بفضلہٖ تعالٰی اسلامی انقلاب آ چکا ہے اور چھا چکا ہے۔ دعا ہے کہ خداوند عالم اسے اپنے مقصد میں مزید کامیابی و کامرانی عطا فرمائے تاکہ ساری دنیا پر کلمۂ اسلام چھا جائے اور حق کا بول بالا ہو جائے اور باطل مٹ جائے اور اس کا منہ ہمیشہ کیلئے کالا ہو جائے۔ مگر ظاہر ہے کہ راتوں رات کئی سو سالہ حکومتوں کے غلط اثرات ختم تو نہیں ہو سکتے۔ اس کیلئے وقت درکار ہے۔

آج بھی ایران میں جو عرفان بافی کا رجحان پایا جاتا ہے اور صوفیوں کے متعلق جو حسنِ ظن پایا جاتا ہے وہ اس دور کی باقیات میں سے ہے۔ اس کا ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کچھ لوگ جو ایران کی ہر چیز کو اسلامی ایران کی پیداوار جانتے ہیں، اور سابقہ دور کی باقیات اور اسلامی انقلاب میں جو فرق ہے اسے نہیں سمجھ سکتے، وہ بے تحاشا تراجم، مضامین اور رسائل کی شکل میں تصوف کو عرفان کے نام سے درآمد کر رہے ہیں اور سادہ لوح اہلِ ایمان کو ٹیکے لگا رہے ہیں۔

یہ خیال دامن گیر تھا کہ اس موضوع پر قلم اٹھایا جائے اور ایک مفصل کتاب لکھ کر ان حقائق کو آشکار کیا جائے مگر اپنی گوناگوں مصروفیات سے فرصت نہ مل سکی۔ اس طرح یہ خیال حقیقت کا لباس نہ پہن سکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس میدان میں سبقت کا مجد و شرف کاتبانِ قضا و قدر نے ہمدردِ قوم و ملت فاضل نوجوان عزیز القدر مولانا نعمت علی سدھو قمی آف فیصل آباد کے حصہ میں لکھ دیا تھا۔ جنہوں نے تحفہ شیخیہ کے طرز رسالہ شریفہ و عجالہ منیفہ تحفہ صوفیہ لکھ کر بڑی محنتِ شاقہ اور بڑی عرق ریزی کیساتھ اکابرِ صوفیہ کی اپنی کتابوں سے نہ صرف انکے خرافات و سطحیات بلکہ انکے مخالف اسلام نظریات و معتقدات کو بلا کم و کاست انہی کے الفاظ میں یکجا فرما کر اور منظرِ عام پر لا کر حقیقتِ حال کو الم نشرح کر دیا اور تصوف کو اس کے حقیقی خدوخال کے ساتھ قارئینِ محترم کے سامنے پیش کر دیا۔ نیز شیعہ علماءِ اعلام کی مستند کتابوں سے آئمہ طاہرین علیہم السلام کے وہ ارشادات و فرمودات جو انہوں نے تصوف و صوفیہ کی مذمت و منقصت میں ارشاد فرمائے تھے، مزید اتمامِ حجت کیلئے درج کر دیئے ہیں تاکہ کسی حقیقت پسند آدمی کے لئے کسی قسم کی چوں چراں کی گنجائش باقی نہ رہ جائے۔ اور پوری طرح اتمامِ حجت ہو جائے۔ يہلك من ہلک عن بينة و یحی من حی عن بینه۔

دعا ہے کہ خداوند عالم ہماری قوم و ملت کو قرآن اور سرکار محمد و آل محمد علیہم السلام کے بیان کردہ جادۂ مستقیمہ پر چلنے اور ہر قسم کے اعتقادی و عملی انحراف سے محفوظ رہنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔

مآخذ: مولانا نعمت علی سدھو، ”تحفہ صوفیہ“، طبع اول، صفحات 12 – 15، مکتبۃ الثقلین، فیصل آباد۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button