بعض مدارس میں رائج فلسفے کی کتابوں بدایۃ الحکمہ، نہایۃ الحکمہ اور منظومۂ ملا ہادی سبزواری وغیرہ میں تشکیکِ وجود کا نظریہ توحید کی بحثوں کی بنیاد ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ اس پر تحقیق اور غور کیا جائے۔ اس مضمون میں اس نظریہ کو عقلی نقطہ نظر سے دیکھا گیا ہے۔
جناب مصباح یزدی نظریۂ تشکیک کو یوں بیان کرتے ہیں:
”ملا صدرا نے نظریۂ تشکیک کو قدیم ایران کے حکماء سے منسوب کیا ہے اور خود اس نے بھی اسے درست سمجھا ہے اور اسے بیان کرنے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ نظریہ وحدت در عین کثرت کے عنوان سے مشہور ہوا ہے۔
اس کا حاصل یہ ہے کہ وجود کے عینی حقائق ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور اشتراک کے ساتھ ساتھ اختلافات اور امتیازات بھی رکھتے ہیں لیکن ان کا ما بہ اشتراک اور ما بہ الامتیاز ایسا نہیں ہے کہ جو وجودِ عینی کی ذات میں ترکیب کا موجب ہو اور اس کو کسی جنس یا فصل کے معنی میں قابلِ تحلیل بنا دے۔ بلکہ ما بہ الامتیاز کی بازگشت اس کی کمزوری اور شدت کی طرف ہے۔
جس طرح شدید روشنی اور کمزور روشنی میں فرق اس کی کمزوری اور شدت ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ شدید روشنی میں شدت، روشنی کے علاوہ کچھ اور ہے۔ یا کمزور روشنی میں ضعف، روشنی کے علاوہ کچھ اور ہے۔ شدید روشنی بھی روشنی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، اور کمزور روشنی بھی روشنی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ پھر بھی وہ ایک دوسرے سے شدت اور ضعف کی بنیاد پر مختلف ہیں۔ لیکن یہ اختلاف روشنی کی بساطت، جو ان کے درمیان مشترک ہے، کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا۔
دوسرے لفظوں میں عینی وجودات میں اختلافات تشکیکی ہیں، اور ان کا جو ما بہ الامتیاز وہ ما بہ الاشتراک کی طرف پلٹتا ہے۔
البتہ وجود کے مراتب کی روشنی کے مراتب سے تشبیہ صرف تقریبِ ذہن کیلئے ہے وگرنہ مادی روشنی بسیط نہیں ہوتی۔ اگرچہ ماضی کے اکثر فلاسفہ اسے بسیط سمجھتے تھے۔ وجود خاص تشکیک رکھتا ہے جبکہ نور کے مراتب میں تشکیک عام ہے۔
لیکن اس بات کی دو طریقوں سے تفسیر کی جا سکتی ہے۔ ایک یہ کہ ہر وجود کے دوسرے وجود سے اختلاف کو وجودی مرتبے کا اختلاف یوں فرض کیا جائے کہ ایک ماہیت والے یا ہم عرض ماہیتوں والے بھی ایسا اختلاف رکھنے والے مانے جائیں۔
یا یہ کہ اختلافِ مراتب صرف حقیقی علل و معلولات میں فرض کیا جائے۔ اور اگر سبھی موجودات کو خدا کا بے واسطہ یا با واسطہ معلول قرار دیں تو یہ نتیجہ نکالا جائے کہ کائنات ایک مطلق مستقل وجود، کئی وجود ہائے رابط اور بے شمار مستقلات سے تشکیل پائی ہے۔ اور ہر علت اپنے معلول کی نسبت سے ایک نسبی استقلال رکھتی ہے۔ اور اس رخ سے کامل تر اور وجود کے عالی تر مرتبے کی مالک قرار پائے گی۔ اگرچہ ایک ہی عرض والے معلولات، جو آپس میں علیت و معلولیت کا رابطہ نہیں رکھتے، ایسا تشکیکی اختلاف بھی نہ رکھتے ہوں۔ اور ایک نظر سے مکمل ذاتی جداگانگی رکھنے والے معلوم ہوتے ہوں۔
لیکن پہلی تفسیر بہت دور کی کوڑی معلوم ہوتی ہے، بلکہ غیر قابلِ قبول ہے۔ اگرچہ ملا صدرا اور اس کے پیروکاروں کے بعض اقوال اس پر دلالت کرتے ہیں۔“ (1)
(عرضِ مترجم: یہاں جناب مصباح یزدی نے روشنی کی مثال دے کر قاری کے ذہن کو مغالطے میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے۔ تشکیک کیلئے ترکیب لازم ہے۔ روشنی اپنے ذرات سے مرکب ہوتی ہے اور اس میں شدت و ضعف کا تعلق ذرات کی تعداد سے ہوتا ہے۔ تشکیکِ وجود کے اثبات کیلئے روشنی یا کسی اور مرکب چیز کی مثال دینا ذہن کو واقعیت کے قریب لے جانے کے بجائے گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔)
تشکیکِ وجود کا نظریہ معقول نہیں
پہلی دلیل
وجود میں تشکیک کے قائلین معتقد ہیں کہ وجود حقیقت میں ایک اور بسیط ہے اور اس میں مراتب کی وجہ سے اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ شدید مرتبہ واجب الوجود ہے اور ضعیف مرتبہ عالمِ مادی ہے۔ واجب الوجود اور ممکن الوجود اپنی ذات اور حقیقت، یعنی وجود، میں اشتراک رکھتے ہیں۔
لیکن با خبر لوگوں سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ اس بات سے تناقض لازم آتا ہے۔ کیونکہ ممکن الوجود وہ چیز ہے جس کیلئے وجود ضروری نہیں جبکہ واجب الوجود کیلئے وجود ضروری ہے۔ نظریۂ تشکیکِ وجود کا لازمہ یہ ہے کہ ایک ہی موضوع، حقیقتِ وجود، اعلیٰ مرتبے یعنی واجب الوجود کیلئے ضرورتِ وجود رکھتا ہو اور ادنیٰ مرتبے یعنی ممکن الوجود کیلئے ضرورتِ وجود نہ رکھتا ہو۔ حقیقتِ وجود کے ایک ہی موضوع میں وجود کے ضروری ہونے اور نہ ہونے کو اکٹھا کرنا اجتماعِ متناقضین ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ حقیقتِ وجود میں مرتبے کا اختلاف اس کا سبب بنتا ہے کہ اجتماع متناقضین لازم نہ آئے کیونکہ ضرورتِ وجود کا حکم اعلیٰ مرتبے کیلئے ہے اور ادنیٰ مرتبے پر عدمِ ضرورتِ وجود کا حکم لگتا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اختلافِ مرتبہ بھی موضوع کے تعدد کا سبب نہیں بنتا۔ حقیقتِ وجود کو ایک فرض کیا جائے تو لامحالہ متناقض چیزوں کے اکٹھے ہونے کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ شدت و ضعف سے ممکن و واجب میں ذاتی اشتراک کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ ذات اور حقیقت کے اشتراک کے مفروضے کے ساتھ یہ کہنا معقول نہیں کہ ذاتِ واحد دو متناقض حکم رکھتی ہے۔
دوسری دلیل
تشکیکِ وجود کے قائلین یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خارج میں حقیقتِ وجود ایک واحد اور بسیط امر ہے اور اس کی خصوصیات میں تفاوت شدت اور ضعف کی وجہ سے ہے۔ مرتبۂ شدید واجب الوجود ہے اور مرتبۂ ضعیف ممکنات ہیں۔ ملا صدرا کے بقول:
«أن الوجود بسيطۃ واقعۃ في الخارج بجميع اشخاصہ وخصوصياتہ والتفاوت بين اشخاصہ و خصوصياتہ يكون بالتأكد والضعف والتقدم والتأخر». (2)
یہاں یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ حقیقتِ وجود اگر واحد اور بسیط ہو اور ممکنات اس کے تنزلات ہوں اور اعلیٰ مرتبے میں مرتبۂ امکانی سے خارج ہو کر ایسے درجے پر پہنچیں جہاں یہ منقلب ہو کر واجب الوجود بن جائیں تو یہ حقیقت کا اپنے خلاف جا کر مکمل بدل جانا ہے جو عقلاً محال ہے۔
دوسرے لفظوں میں عقل اس کا تقاضا کرتی ہے کہ ممکن الوجود، جو حقیقتِ وجود کا ضعیف مرتبہ ہے، اگر شدید ہو تو اسے ایک شدید تر امکانی وجود بن جانا چاہئے نہ یہ کہ اپنی امکانی ذات کی حقیقت کو کھو کر واجب الوجود بن جائے جس کا ہونا ضروری ہو۔ کیونکہ یہ وہی «انقلاب الشئ عما ہو علیہ» ہے کہ عقل کے نزدیک مستحیل ہے۔
تیسری دلیل
تشکیکِ وجود کی بنیاد فلسفے کی علیت پر ہے۔ خالق تعالٰی اور مخلوق پر فلسفے کے تصورِ علیت اور اس کے احکام کی تطبیق درست نہیں۔ کیونکہ فلاسفہ کے ہاں معلول کا علتِ تامہ سے عدمِ انفکاک اور علت و معلول کا تقارن و تعاصر ایک مسلم امر ہے۔ لہٰذا جب معلول نہ رہے تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ علت بھی نہ رہی۔
اس صورت میں اگر کائنات میں کوئی شے معدوم ہو جائے تو کہنا پڑے گا کہ اس کی علت بھی معدوم ہو گئی۔ اور یوں علتوں کی کڑیاں ملاتے ملاتے حق تعالٰی، جسے یہ لوگ علت العلل کہتے ہیں، تک پہنچیں گے اور، معاذ اللہ، یہ ماننا ہو گا کہ ذاتِ علت العلل کا ایک حصہ منتفی ہو گیا اور یوں وہ اپنے معلول کے معدوم ہونے کا سبب بنا۔ یہ امر عقلی اور نقلی دلائل سے مردود ہے اور اس کا بطلان ایک بدیہی امر ہے۔
چوتھی دلیل
ملا صدرا کا یہ عقیدہ ہے کہ حقیقتِ وجود خارج میں ممکنات پر منبسط ہو گئی ہے: «حقيقتہ (أي: الوجود) أمر بسيط منبسط على الممكنات»۔ (3) حقیقتِ وجود سے اس کی مراد ذاتِ حق تعالٰی ہے: «المشہد الأول في الاشارة إلى حقيقۃ الوجود وأنہا عين ذات المعبود»۔ (4)
اگر ذاتِ حق ممکنات پر منبسط ہوئی ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ یا ذاتِ حق تعالٰی کی بساطت ممکنات کے ترکب و تبعض کے محو ہونے کی موجب بن جائے اور وہ بھی بسیط ہو جائیں۔ کہ یہ بات وجدان (common sense) کے مطابق مردود ہے کیونکہ کائنات میں ترکب و تبعض ہمارے روزمرہ کے مشاہدے سے واضح ہے۔
یا ذاتِ حق تعالٰی ممکنات کے ترکب و تبعض کو خود میں قبول کرے، جو کہ عقلی و نقلی دلائل کے ہوتے ہوئے عقلاً مستحیل ہے۔
یہ کہنا عقلمندی نہیں کہ ذاتِ حق تعالٰی کے ممکنات پر انبساط کو فرض کرنے سے طرفین میں سے کسی پر بھی کوئی اثر نہ پڑے۔ کیونکہ ایسی صورت میں یہ کہنا ہو گا کہ اصلاً کوئی انبساط ہی درمیان نہیں اور یہ بات تشکیکِ وجود کے مفروضے کے خلاف ہے۔ لہٰذا ملا صدرا خود بھی معترف ہے کہ نظریۂ تشکیک علمِ حصولی کی جہت سے مجہول ہے:
«شمول الوجود للأشياء ليس كشمول الكلى للجزئيات، بل شمولہ من باب الانبساط والسريان على ہياكل الماہيات سرياناً مجہول التصور فہو مع كونہ أمراً شخصياً متشخصاً بذاتہ ومشخصاً لما يوجد بہ من ذوات الماہيات الكلي» (5)
کیسے معقول ہو سکتا ہے کہ حقیقتِ وجود ممکنات پر منبسط اور ان میں ساری ہو اور ان کو تشخص دیتی ہو، لیکن اس سب کے باوجود طرفین میں سے کسی پر دوسرے کا کوئی اثر نہ پڑے؟ نہ ذاتِ حق تعالٰی اشیاء کے ترکب و تبعض سے متاثر ہو اور نہ ممکنات حق تعالٰی کی بساطت سے کوئی تاثیر قبول کریں۔ جبکہ طرفین کی ذات و حقیقت ایک ہو اور حقیقتِ وجود میں مشترک ہوں۔ پس یہ کہنا ہو گا کہ کوئی انبساط اور سریان سرے سے ہے ہی نہیں!
تحقیق یہ ہے کہ وجود میں تشکیک کا دعویٰ عقل کی میزان پر پورا نہیں اترتا، اور اسے ماننے والے صرف کشف اور شہود کے زور پر مانتے ہیں، جو کوئی حجت نہیں رکھتے۔ ملا صدرا نے بھی اس بات کا ذکر کیا ہے:
«…. ان الوجود بسيطۃ واقعۃ في الخارج بجميع اشخاصہ وخصوصياتہ والتفاوت بین اشخاصہ وخصوصياتہ يكون بالتأكد والضعف، والتقدم والتأخر …. و شمولہ و انبساطہ على ہياكل الممكنات على نحو آخر لا یعلمہ إلا الراسخون في العلم» (2)
یہاں «الراسخون في العلم» سے ملا صدرا کی مراد صوفیوں کے پیر بابے ہیں جو اہلِ کشف و شہود ہیں۔ وہ متعدد مقامات پر ان کو یہ لقب دیتا ہے۔ مثلاً:
«طريقۃ الراسخين في العلم والعرفان و مسلک المتألہين من أہل الكشف والايقان» (6)
پانچویں دلیل
نظریۂ تشکیک کے مطابق حقیقتِ وجود خارج میں ایسا واحد اور بسیط ہے کہ جو مراتب رکھتا ہے اور سبھی مراتب حقیقتِ وجود میں مشترک ہیں، جو ان کی ذات اور ہویت ہے۔
یہ دعویٰ اس اساس پر استوار ہے کہ سبھی مراتب میں مسانخت اور مناسبتِ تامہ برقرار ہے۔
اس صورت میں یہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اعلیٰ مرتبہ اور ادنیٰ مرتبہ ذات اور حقیقتِ وجود میں مشترک ہوں اور ایک دوسرے سے مناسبت اور مشابہت رکھتے ہوں، تو ان کے احکام بھی ایک ہی ہونے چاہئیں اور احکام میں تفاوت صرف شدت و ضعف کا ہونا چاہئے۔ یعنی اعلیٰ مرتبے کا حکم شدید تر اور ادنیٰ مرتبے کیلئے وہی حکم ہو مگر ضعیف تر ہو۔ کیونکہ عقل یہ کہتی ہے کہ: «حكم الأمثال فيما يجوز وفيما لا يجوز واحد»۔
لیکن عقل تو یہ پاتی ہے کہ اعلیٰ مرتبے، واجب الوجود، کے احکام اور ادنیٰ مرتبے، ممکن الوجود، کے احکام میں تضاد یا تناقض ہے۔
مرتبۂِ اعلیٰ کے احکام یہ ہیں: قدیم و ازلی، ابدی مجرد، بسیط، ضروری الوجود اور ذات میں غنی، امکان کے شائبوں سے خالی!
لیکن مرتبۂِ ادنیٰ کے احکام یہ ہیں: مسبوق بہ عدم، مرکب، متجزی، فانی، مادی، ضرورتِ وجود نہ رکھنے والا، فقیر بالذات!
واجب اور ممکن کے احکام میں تضاد یا تناقض سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ان دو کا تفاوت مرتبے کا نہیں بلکہ ان کی حقیقت اور ذات کا ہے۔ کیونکہ اگر واجب اور ممکن اپنی حقیقت اور ذات میں وحدت و اشتراک رکھتے تو ان کے احکام کا مشترک ہونا بھی لازم آتا اور احکام میں تفاوت بھی مرتبے کی شدت و ضعف کا ہوتا۔ چونکہ یہ معقول نہیں کہ موضوعِ واحد، یعنی حقیقتِ وجود، متضاد اور متناقض احکام سے محکوم ہو۔
دوسرے لفظوں میں تشکیک کے عقیدے کی بنا پر کائنات اپنی علت، حق تعالٰی، کا ہی نیچے اترا ہوا اور کمزور ہو چکا ہوا وجود ہے۔ اگر یہ درست ہو تو لازم ہو گا کہ کائنات ضعیف اور نازل طور پر اپنی علت کے احکام رکھتی ہو۔ یعنی بساطت، عدمِ تغیر، عدم فناء و زوال، عینیتِ صفات و ذات وغیرہ۔ جبکہ ہم کائنات کے سب اجزاء میں تغیر، ترکیب، فناء و زوال کا واضح طور پر مشاہدہ کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ملا صدرا کے نظریۂ تشکیکِ وجود کا رد – ڈاکٹر حسین عشاقی
حوالہ جات:
1۔ مصباح یزدی، آموزشِ فلسفہ، جلد 1، صفحہ 340 تا 341، سازمانِ تبلیغاتِ اسلامی۔
2۔ ملا صدرا، مجموعه رسائل فلسفی صدر المتألهین، ص 287، انتشاراتِ حکمت۔
3۔ ملا صدرا، مبداء و معاد، صفحہ 110، انتشارات حکمت و فلسفۂ ایران۔
4۔ ملا صدرا، مفاتيح الغيب، صفحہ 321، انتشارات مؤسسۂ تحقیقاتِ فرہنگی۔
5۔ ملا صدرا، شواہد الربوبیہ، صفحہ 7، المرکز الجامعی للنشر۔
6۔ ملا صدرا، مبداء و معاد، صفحہ 427، انتشارات حکمت و فلسفۂ ایران۔