مراجع کے فتاویٰ

جوان معرفت اور سیر و سلوک کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں – آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی

786 ملاحظات

سوال: بسم الله الرحمن الرحیم

جناب مرجعِ اعلیٰ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی دام ظلہ!

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

آئے دن کچھ افراد عرفان، صفائے باطن، روحانی مقامات اور قربِ الہٰی کے مبلغ بن کر دینی مدارس کے طلاب اور کالج یونیورسٹی کے جوانوں کے پاس آتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ وہ معاشرے کو اذکار و اوراد سکھا کر اور خاص محفلیں سجا کر معرفت کی طرف دعوت دے رہے ہیں۔ ایسے میں کچھ جوان ان کا یقین کر لیتے ہیں اور کچھ ان چیزوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیا ان کے دعوؤں، باتوں اور ان کے خاص دستور العمل پر اعتبار کرنا درست ہے؟ یا ان سے دوری اور پرہیز کرنا واجب ہے؟

خدا سے آپ کی عزت و سربلندی میں روز افزوں اضافے کیلئے دعاگو ہیں۔

طلابِ مدارسِ دینیہ کا ایک گروہ

آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کا جواب

بسمہٖ تعالٰی

اس میں شک نہیں کہ ہر مومن پر تزکیہ و تہذیبِ نفس، اخلاقی برائیوں سے پرہیز، بری صفات کو ترک کرنا اور اخلاقِ حسنہ اور صفاتِ حمیدہ کو اپنانا واجب ہے تاکہ خداوند تبارک و تعالٰی کی اطاعت اور گناہوں سے دوری کو ممکن بنایا جا سکے۔ اس کا واحد راستہ قرآنِ کریم و سنتِ شریفہ میں آنے والے دستور العمل پر چلنا ہے۔

جیسے کہ موت اور دنیا کے فنا ہونے کو یاد رکھنا۔ آخرت کے مراحل، جیسے برزخ، قبر سے اٹھنے، حشر و حساب، خدا کے حضور انسان کے اعمال کی پیشی کو یاد رکھنا۔ اور اسی طرح جنت کی خوبصورتی اور اسکی نعمتوں اور جہنم کے عذاب اور انسانی اعمال کے اخروی آثار پر غور کرنا۔

یہ چیزیں انسان کو تقوائے الہی اور اطاعتِ خداوند تبارک و تعالٰی کی راہ پر چلنے اور گناہوں اور غضبِ الہٰی سے دور رہنے میں مدد کرتی ہیں۔ جیسا کہ انبیاء ؑ اور اوصیائے الہٰی ؑ نے ان چیزوں سے خبردار کیا ہے اور نسل در نسل آنے والے علمائے ربانی نے ان پر عمل کیا ہے۔ یہ راستہ بڑا واضح اور روشن ہے اور اس میں کوئی خفیہ راز نہیں ہیں۔

کسی شخص کی دینداری اور خدا سے قربت کا اندازہ اس کے اعمال اور کردار کی ان ہدایات کے ساتھ ہم آہنگی اور مطابقت سے ہوتا ہے۔ لوگوں کو حق و حقیقت کے پیمانے پر پرکھنا چاہئے۔ جو حق و حقیقت کو شخصیات کے زاویئے سے سمجھنا چاہے گا، فتنے میں مبتلا ہو کر راہِ راست سے ہٹ جائے گا۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام نے مومنین کو جاہلوں، بے خبروں اور نفس کی خواہشات کے مارے ہوئے علماء نما لوگوں سے، کہ جو اپنے گرد لوگوں کو اکٹھا کر لیتے ہیں، خبردار کیا ہے۔ آپ ؑ فرماتے ہیں:

”فتنوں کے وقوع کا آغاز وہ نفسانی خواہشیں ہوتی ہیں جن کی پیروی کی جاتی ہے اور وہ نئے ایجاد کردہ احکام کہ جن میں قرآن کی مخالفت کی جاتی ہے۔ اور جنہیں فروغ دینے کیلئے کچھ لوگ دین الٰہی کے خلاف باہم ایک دوسرے کے مدد گار ہو جاتے ہیں۔ تو اگر باطل حق کی آمیزش سے خالی ہوتا تو وہ ڈھونڈنے والوں سے پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق باطل کے شائبہ سے پاک و صاف سامنے آتا تو عناد رکھنے والی زبانیں بھی بند ہو جاتیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور دونوں کو آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے۔ اس موقع پر شیطان اپنے دوستوں پر چھا جاتا ہے اور صرف وہی لوگ بچے رہتے ہیں جن کیلئے توفیق الٰہی اور عنایت خداوندی پہلے سے موجود ہو۔“ (نہج البلاغہ، خطبہ 50، ترجمہ: مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ)

جن لوگوں میں مندرجہ ذیل علامات پائی جائیں ان کے معرفت کے دعوے باطل ہیں:

تزکیۂ نفس میں خدا کی ہدایت کے برخلاف غلو کرنا، دوسروں کو بھی اس میں غلو کی تلقین کرنا، احکامِ شرعی کے اخذ کرنے میں فقہائے جعفریہ کے ہاں معروف روش پر چلنے کی ضرورت محسوس نہ کرنا، باطنی طریقوں سے احکامِ اسلام اور ان کے ضوابط کی سمجھ بوجھ کے دعوے کرنا، لازمی اہلیت پیدا کئے بنا فتوے دینا اور ابتدائی درجے کے طالب علموں کی معصومیت سے ناجائز فائدہ اٹھانا!

جو ان کے ساتھ چل پڑیں، یہ لوگ ان کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں، اور جو کوئی ان کے جتھے سے الگ ہو، اس پر بدترین تہمتیں، افتراء اور گندے الزامات لگاتے ہیں۔

یہ خوابوں پر یقین رکھتے ہیں۔ مکاشفوں اور خاص روحانی حالت میں مشاہدات ہونے کے قائل ہوتے ہیں۔ عام روش سے ہٹ کر لباس پہننا بھی ایسے لوگوں کی ایک نشانی ہو سکتی ہے۔ یہ لوگ بعض روایات کا سہارا لے کر بھی یہ کام کرتے ہیں لیکن ان امور میں دوسرے پہلوؤں سے غافل ہوتے ہیں جو فقہاء کے موردِ نظر ہیں۔

ان کی مزید علامات میں دین میں بدعت کو شامل کرنا اور خاص ریاضتیں بجا لانا ہیں جن کا انبیاء ؑ اور اوصیاء ؑ کے قول و فعل میں کوئی معتبر مدرک نہیں ہوتا۔ یہ حضرات ادلۂ سنن میں تسامح کے قاعدے کا بہانہ بنا کر اپنے دعوؤں میں ایسی چیزوں کو بنیاد بناتے ہیں کہ جن کا کوئی معتبر مآخذ نہیں ہوتا۔

یہ دوسرے ادیان و اقوام کے زیرِ اثر موسیقی، غناء اور نامحرموں کے میل جول کے احکام میں نرمی پیدا کرتے ہیں۔ ایسوں کی ایک نشانی نامعلوم مالی ذرائع یا کسی سے خفیہ اور مشکوک رابطے بھی ہوسکتی ہے۔ بہرحال ان کے احوال سمجھدار مومنین سے مخفی نہیں رہتے۔

عام مؤمنین، کہ اللہ انہیں اپنی نیک مرادیں پانے میں کامیاب کرے، کو ہماری نصیحت یہ ہے کہ ایسے دعوے کرنے والوں سے جلدی متاثر نہ ہوا کریں۔ دین کا معاملہ اللہ کے ہاتھ ہے۔ جو کوئی ہدایت کے امام ؑ کی اتباع کرے، اسے کے ساتھ محشور ہو گا اور اس کا راستہ جنت کی طرف جا رہا ہے۔ جو گمراہوں کی پیروی کرے گا وہ ان کے ساتھ اٹھایا جائے گا اور آگ میں ڈالا جائے گا۔

پس سبھی پر واجب ہے کہ اپنے سے پچھلوں کے حالات پر غور کریں تاکہ جان سکیں کہ کیسے کثیر تعداد میں لوگ اس قسم کے افراد کی پیروی میں گمراہ ہوئے۔

خداوند تبارک و تعالٰی سے دعا ہے کہ سب کو اہلِ بدعت کی پیروی اور نفسانی خواہشات کے شر سے محفوظ رکھے اور علمائے ربانی کی پیروی میں شریعت کے سیدھے راستے پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

انہ ولی التوفیق

والسلام عليكم وعلي جميع اخواننا المؤمنين ورحمة الله وبركاته

28 ربيع الاول 1432 هـ

علی الحسینی السیستانی

ہم ابنِ عربی کے عرفان کی تائید نہیں کرتے – آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button