مراجع کی تحریریں اور بیانات

اسلام میں تنقیدی سوچ کی اہمیت – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی

84 ملاحظات

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

قرآن کریم میں ارشاد الٰہی ہے:

فَبَشِّرْ عِبَادِ○ الَّذِینَ یَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُونَ اَحْسَنَہٗ اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ ہَدٰىہُمُ اللّٰہُ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمْ أُولُوا الْأَلْبابِ○ (سورہ زمر، آیات 17، 18۔)

ترجمہ: ”میرے ان بندوں کو بشارت دے دو، جو باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے اور یہی عقل مند ہیں۔“

تفسیر

یہ دو آیات جو اسلامی شعار کی صورت میں سامنے آئی ہیں مسلمانوں کی حریتِ فکر (critical thinking) اور مختلف مسائل میں اچھی سے اچھی بات کو انتخاب کرنے کی خوب نشاندہی کرتی ہیں۔

پہلے فرمایا گیا ہے: میرے بندوں کو بشارت دے دے اور اس کے بعد ان خاص بندوں کا اس صورت میں تعارف کروایا گیا ہے: وہ ہر کسی کی بات کو غور سے سنتے ہیں، یہ دیکھے بغیر کہ کہنے والا کون ہے اور کیا نظریہ رکھتا ہے، اور عقل و خرد کی قوت کے ساتھ ان میں سے بہترین کا انتخاب کر لیتے ہیں۔ وہ کسی قسم کا تعصب اور ہٹ دھرمی نہیں کرتے اور کسی قسم کی تنگ نظری ان کی فکر و نظر میں نہیں ہے۔ وہ حق کے متلاشی اور حقیقت کے پیاسے ہیں، وہ جہاں کہیں بھی انہیں ملے لپک کر اس کا استقبال کرتے ہیں اور اس کے صاف چشمے سے بغیر روک ٹوک کے پیتے ہیں اور سیراب ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف حق کے طالب اور اچھی گفتگو کے پیاسے ہیں بلکہ ”خوب“ اور ”خوب تر“ میں سے اور ”نیک“ اور ”نیک تر“ میں سے دوسرے کا انتخاب کرتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ بہترین اور بر ترین کے خواہاں ہیں۔

ہاں! یہی ہے نشانی ایک سچے مسلمان اور حق طلب مؤمن کی!

يستمعون القول (بات کو سنتے ہیں) میں قول سے کیا مراد ہے، اس ضمن میں مفسرین نے گوناگوں تفسیریں کی ہیں۔

بعض نے اس سے قرآن مراد لیا ہے اور جو کچھ اس میں احکام اور مباحات کے سلسلہ میں بیان ہوا ہے وہ ان میں سے احکام کی پیروی کو احسن کی پیروی سمجھتے ہیں۔

بعض دوسروں نے اس کی مطلق اوامر الٰہیہ سے تفسیر کی ہے، چاہے وہ قرآن میں ہوں یا غیر قرآن میں۔

لیکن ان محدود تفسیروں کے لیے کسی قسم کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ آیت کا ظاہری مفہوم ہر قسم کے قول اور ہر بات پر محیط ہے۔ خدا کے با ایمان بندے تمام باتوں میں سے اس بات کو انتخاب کر لیتے ہیں جو احسن ہے اور اس کی پیروی کرتے ہیں اور اپنے عمل میں اسی پر کار بند ہیں۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ قرآن نے مذکورہ بالا آیت میں صاحبانِ ہدایت الہی کو اسی گروہ میں منحصر کر دیا ہے۔ جیسا کہ عقل مندوں کو بھی انہیں میں منحصر قرار دیا ہے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ ظاہری و باطنی ہدایت کا حامل ہے۔ ظاہری ہدایت عقل و خرد کے طریق سے اور باطنی ہدایت نور الٰہی اور امدادِ غیبی کے راستے سے، اور یہ دونوں افتخار اس قسم کے حقیقت کے متلاشی حریتِ فکر (critical thinking) کے حامل لوگوں کے لیے ہیں۔

اسلام اور حریتِ فکر

بہت سے مذاہب اپنے پیروکاروں کو دوسروں کی باتوں کے مطالعے اور تحقیق سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی منطق کی کمزوری کی وجہ سے اس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں پڑھنے والا دوسروں کی منطق قبول نہ کرے اور اس طرح ان کے پیروکار ان کے ہاتھ سے نکل جائیں۔

لیکن جیسا کہ زیرِ بحث آیات میں بیان ہوا ہے، اسلام نے اس بارے میں کھلے دروازوں کی تدبیر اپنائی ہے اور انہی لوگوں کو خدا کے سچے بندے قرار دیتا ہے جو اہل تحقیق ہیں۔ ایسے کہ جو نہ تو دوسروں کی باتوں کو سننے سے گھراتے ہیں اور نہ کسی قید و شرط کے بغیر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں اور نہ ہی کسی وسوسے کو قبول کرتے ہیں۔

اسلام ایسے ہی لوگوں کو بشارت دیتا ہے جو باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان میں سے جو بہت اچھی ہیں انہیں انتخاب کر لیتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ اچھی باتوں کو بری باتوں پر ترجیح دیتے ہیں بلکہ پھولوں میں سے بھی جو پھول بہتر ہوتا ہے اسے انتخاب کرتے ہیں۔

قرآن ان بے خبر جاہلوں کی شدید مذمت کرتا ہے جو پیامِ حق سنتے وقت کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اور سر پر کپڑا ڈال لیتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے ارشادات میں ایسے لوگوں کی بارگاہِ پروردگار میں شکایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:

وَ اِنِّی کُلَّمَا دَعَوتُہُم لِتَغفِرَ لَہُم جَعَلُوا اَصَابِعَہُم فِی اٰذَانِہِم وَ استَغشَوا ثِیَابَہُم وَ اَصَرُّوا وَ استَکبَرُوا استِکبَارًا ۚ○ (سورہ نوح، آیت 7۔)

ترجمہ: ”خداوندا! جب بھی میں نے انہیں بلایا تاکہ تو انہیں بخش دے تو انہوں نے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں اور اپنے اوپر کپڑا ڈال لیا، اپنی گمراہی پر اصرار کیا اور بہت تکبر کیا۔“

اصولی طور پر وہ مکتب جو قوی منطق رکھتا ہے، اس کے لیے دوسروں کی باتوں سے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے مسائل کے پیش ہونے پر اسے خوف کھانے کی ضرورت ہے۔ ڈرنا تو انہیں چاہیے جو کمزور اور بے منطقی ہیں۔

یہ آیت ایسے لوگوں کو جو ہر بات کو بغیر کسی قید و شرط کے قبول کر لیتے ہیں اولو الالباب اور ہدایت یافتہ افراد شمار نہیں کرتی۔ ان کی مثال ان بھیڑوں کی سی ہے جو کسی سبزہ زار میں چرتے وقت کوئی تحقیق نہیں کرتیں۔ آیت ان دو اوصاف کو ایسے لوگوں کے ساتھ مخصوص کرتی ہے جو نہ تو بے قید و شرط تسلیم کے افراط میں گرفتار ہیں اور نہ ہی خشک اور جاہلانہ تعصبات کی تفریط میں۔

چند سوالوں کا جواب

ممکن ہے یہاں یہ سوال پیش کیا جائے کہ اسلام میں کتبِ ضلال کی خرید و فروش کیوں منع ہے؟ قرآن کو کفار کے ہاتھوں میں دینا کیوں حرام قرار دیا گیا ہے؟

جو شخص کسی مطلب کو جانتا ہی نہیں وہ اس میں سے انتخاب کیسے کرے گا اور اچھے کو برے سے کس طرح جدا کرے گا؟ کیا اس بات سے دور لازم نہیں آتا؟

پہلے سوال کا جواب واضح ہے۔ کیونکہ زیرِ بحث آیات میں ایسی باتوں کے متعلق بحث ہے جن میں ہدایت کی امید ہو۔ جب غور و فکر اور تحقیق کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہو کہ فلاں کتاب گمراہ کرنے والی ہے تو پھر وہ اس حکم کے موضوع سے خارج ہو جائے گی۔ اسلام کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ لوگ ایسے راستے میں قدم رکھیں جس کا نادرست اور غلط ہونا ثابت ہو چکا ہے۔

البتہ جب تک یہ امر کسی پر ثابت نہ ہوا ہو اور وہ صحیح دین قبول کرنے کے لیے مختلف مذاہب کے بارے میں تحقیق کر رہا ہو، اس وقت تک ان تمام کتابوں کا مطالعہ اور تحقیق کر سکتا ہے، لیکن مطلب ثابت ہو جانے کے بعد اس کو ایک زہریلے مادہ کی طرح ہر کسی کی دسترس سے باہر رکھنا چاہیے۔

باقی رہا دوسرے سوال کے بارے میں تو اس صورت میں قرآن غیر مسلم کے ہاتھ میں دینا جائز نہیں ہے جب کہ یہ اس کی ہتک اور بے حرمتی کا باعث ہو۔ ورنہ اگر ہمیں معلوم ہو کہ غیر مسلم واقعاً اسلام کے بارے میں تحقیق کی فکر میں ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ قرآن کا اس مقصد کے لیے مطالعہ کرے تو نہ صرف یہ کہ قرآن اسے دینے میں کوئی حرج اور رکاوٹ نہیں ہے بلکہ شاید اسے دینا واجب ہو، اور جنہوں نے اسے حرام قرار دیا ہے ان کی مراد اس صورت کے علاوہ دوسری صورت ہے۔

اسی لیے عظیم اسلامی معاشرے اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ قرآن کا دنیا کی زندہ زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے اور دعوت اسلامی کی نشر و اشاعت کے لیے اسے حق طلبوں اور حقائق کے پیاسوں تک پہنچانا چاہیے۔

تیسرے سوال کے سلسلے میں اس نکتے پر توجہ کرنا چاہیے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان ذاتی طور پر کسی کام سے عہدہ بر آ نہیں ہو سکتا، البتہ جب کوئی دوسرا اسے انجام دے لیتا ہے تو پھر وہ بھی اچھے اور برے میں تشخیص کر سکتا ہے اور عقل و خرد کی قوت اور وجدان کے سرمائے سے ان میں سے بہترین کا انتخاب کر سکتا ہے۔

مثلاً ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے ہوں جو فنِ معماری اور تعمیر کے کام سے آگاہ نہ ہوں، یہاں تک کہ وہ اینٹیں بھی صحیح طریقے پر ایک دوسرے پر نہ رکھ سکیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایک اچھی عمارت کی اعلیٰ کیفیت میں اور ایک قبیح، بے ڈھنگی اور ناموزوں عمارت میں تمیز کر سکیں۔

بہت سے افراد کو ہم پہچانتے ہیں جو خود تو شاعر نہیں ہیں لیکن بزرگ شعراء کے اشعار کے وزن میں تمیز کر سکتے ہیں اور انہیں بے وقعت تکلفاً کہنے والے شعراء کے اشعار سے جدا کر سکتے ہیں۔ کچھ لوگ خود تو کشتی نہیں لڑتے لیکن کشتی لڑنے والوں کے درمیان فیصلہ اور ان میں سے اچھے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: جدید دور میں عرفانی فلسفے کی ساکھ ختم ہو چکی ہے

حریتِ فکر اور اسلامی روایات

احادیثِ اسلامی میں جو زیرِ بحث آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں یا مستقل طور پر منقول ہوئی ہیں اس امر پر بہت زور دیا گیا ہے۔

ان میں سے ایک حدیث امام موسی بن جعفر علیہما السلام سے منقول ہے کہ آپ نے اپنے ایک دانش مند صحابی ہشام بن حکم سے فرمایا:

يا ہشام ان اللہ تبارک وتعالى بشر اہل العقل والفہم في كتابہ، فقال فبشر عباد الذين يستمعون القول فيتبعون احسنہ. (اصولِ کافی، جلد 1، کتاب العقل، حدیث 12۔)

ترجمہ:”اے ہشام! خداوند تعالیٰ نے اہلِ عقل و فہم کو اپنی کتاب میں بشارت دی ہے اور فرمایا ہے: میرے ان بندوں کو بشارت دے دو جو باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور ان میں سے بہترین کی پیروی کرتے ہیں، وہ ایسے لوگ ہیں جن کی خدا نے ہدایت کی ہے اور وہ صاحبانِ عقل و فکر ہیں۔“

ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے زیرِ بحث آیت کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا:

ہو الرجل يسمع الحديث فيحدث بہ كما سمعہ لا يزيد فيہ ولا ينقص. (نور الثقلین، جلد 4، صفحہ 482، حدیث 24۔)

ترجمہ: ”یہ آیت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو حدیث سنتے ہیں اور بے کم و کاست اور بغیر کمی بیشی کے دوسروں کے لیے نقل کرتے ہیں۔“

البتہ اس حدیث سے مراد فيتبعون احسنہ کی تفسیر ہے کیونکہ بہترین باتوں کی پیروی کرنے کی ایک نشانی یہ ہے کہ انسان اپنی طرف سے ان میں کوئی اضافہ نہ کرے اور بعینہٖ دوسروں تک پہنچا دے۔

نہج البلاغہ میں امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے کلماتِ قصار میں ہے کہ:

الحكمۃ ضالۃ المؤمن فخذ الحكمۃ ولو من اہل النفاق. (نہج البلاغہ، کلمات قصار، کلمہ 80۔)

ترجمہ: ”حکمت آمیز باتیں مومن کی گم شدہ چیز ہے، پس وہ حکمت کو لے لے چاہے وہ منافق کے پاس سے ملے۔“

مآخذ: تفسیرِ نمونہ، جلد 11، صفحات 64 تا 68، ترجمہ: علامہ سید صفدر حسین نجفی، مصباح القرآن ٹرسٹ، لاہور۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button