مراجع کی تحریریں اور بیانات

شیعہ علماء کے لباس میں یونانی تصوف کی ترویج نہ کی جائے۔ آیۃ اللہ سید جعفر سیدان

167 ملاحظات

(یکم جون، 2023ء) حوزہ علمیہ مشہد میں علامہ علی شہرستانی کی کتب کی تقریبِ رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی کے نمائندے آیۃ الله سید جعفر سیدان نے کہا:

”علمِ دین کو کہاں سے ليں؟ فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسانُ إِلى‌ طَعامِهِ (سورہ عبس، آیت 24)۔ امام باقر ؑ سے پوچھا گیا کہ یہاں کھانے سے کیا مراد ہے؟ ظاہری معنی تو واضح ہیں، مگر تاویل کیا ہو سکتی ہے؟ آپ ؑ نے فرمایا: انسان کو دیکھنا چاہئے کہ علم کو کہاں سے لے رہا ہے۔ خیال رکھے علم کو کس سے اخذ کر رہا ہے؟ (الکافی، جلد 1، ص 49)۔

وہ سب اصول جو اہلبیت ؑ کے بجائے کسی اور سے پہنچے ہوں، اور اہلبیت ؑ کے قول سے نہ ملتے ہوں، باطل ہیں۔ (الکافی، جلد 1، صفحہ 399) درست بات وہی ہے جو قرآن و حدیث سے ملے۔ پیغمبر ؐ کی وصیت بھی ثقلین سے تمسک ہے۔ علامہ سید علی شہرستانی کی علمی روش یہی تھی۔ یہ بہت قیمتی چیز ہے (کہ تحقیق کی روش حدیثِ ثقلین کی پابند ہو)۔ علمی مراکز میں اس روش پر تاکید ہونی چاہئے۔

آجکل معارفِ اہلبیت ؑ کا صرف نام لیا جا رہا ہے، اس نام سے جو کہا یا لکھا جا رہا ہے وہ اہلبیت ؑ کے فرامین سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا۔ یہ افسوسناک ہے کہ علمی مراکز میں بھی یہی ہو رہا ہو۔ علامہ شہرستانی نے زیادہ تر فقہی موضوعات پر کام کیا ہے جو اپنی جگہ بہت اہم ہیں۔ نہایت دکھ کی بات ہے کہ اہم ترین موضوعات، یعنی معارفِ الہٰی، میں یہ ہو رہا ہے کہ اہلبیت ؑ کے نام پر چندہ، شہرت اور احترام سمیٹنے کے بعد اہلبیت ؑ کے معارف پر ظلم ہو رہا ہے اور ایسے نظریات، جو اہلبیت ؑ کے معارف کے برخلاف ہیں، اہتمام کے ساتھ نشر کئے جا رہے ہیں۔

میں اس موضوع پر باقاعدہ تقریر نہیں کرنا چاہ رہا، مختصراً خدا کے بارے میں ایسے کچھ انحرافی نظریات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔ جو کچھ وحی سے پہنچا ہے وہ اس (فلسفے) سے مختلف ہے جو بعض اسلامی مدارس کے نصاب میں زبردستی شامل کیا گیا ہے کہ جو نہ پڑھے اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ وحی کی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔ مثلاً:

1۔ وحی کے مطابق خدا و خلق میں سنخیت نہیں ہے۔ مگر ان مراکز میں عموماً خدا و خلق میں سنخیت کو ثابت کرنے کیلئے خدا کو علت اور باقیوں کو معلول کہتے ہیں۔ اور یہ کہ سبب اور مسبب میں سنخیت ہونی چاہئے۔

2۔ اسی طرح قاعدة الواحد میں کہتے ہیں کہ ایک سے ایک ہی نکل سکتا ہے۔ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ خدا سے فقط ایک ہی چیز خلق ہو سکتی ہے کیونکہ وہ بسیطِ حقیقی ہے۔ اس سے ایک ہی نکل سکتا ہے، اس کے علاوہ کچھ صادر ہونا محال ہے۔ قرآن واشگاف الفاظ میں کہتا ہے کہ خدا جو چاہے کر سکتا ہے۔ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ ہے (سورہ البروج، آیت 16)۔ اسی قسم کی کئی آیات و احادیث اسکو ر د کرتی ہیں۔

3۔ وحی میں آیا ہے کہ علم اور ارادہ ایک نہیں، یہ ا نکو ملانے پر بضد ہیں۔

4۔ حدوث اور قدمِ عالم کے مسئلے میں عالم کے قدیم ہونے پر اصرار ہے۔ جبکہ وحی میں حدوثِ عالم پر زور دیا گیا ہے۔ كَانَ اللَهُ وَ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ شَيْءٌ، خدا تھا اور کوئی نہ تھا۔

میں نے خدا کے فضل سے کم از کم تیس ایسے بنیادی نکات جمع کئے ہیں جن میں دقیق تحقیق سے معلوم ہوا کہ انکے یہ اصول وحی کے خلاف ہیں۔ وحی میں جو کچھ آیا ہے اس کو ایک کونے میں لگایا جا چکا ہے۔ انکو ترک کر دیا ہے اور معمول سے نکال دیا گیا ہے۔ یہ بڑا دکھ ہے۔

علامہ علی شہرستانی کی روش، درست طریقے کا احیاء کرتی ہے۔ یعنی کتاب اور عترت ؑ کی اساس پر صحیح مفاہیم کو بیان کیا۔ اور دینی مدارس کو اسی راستے پر آگے بڑھنا چاہئے۔ وگرنہ اہلبیت ؑ کی یہ مظلومیت سماج اور حوزے کیلئے زوال کا سبب بنے گی، کہ انکے اقوال پر توجہ نہ دی گئی۔ جبکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان ؑ کی احادیث پر توجہ دی جاتی۔

اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے یہ حدیث آپ کو سنانا چاہوں گا۔ امام باقر ؑ نے سلمی ابن کہیل اور حکم ابن عتیبہ سے فرمایا:
شَرِّقا وغَرِّبا لَن تَجِدا عِلما صَحيحا إلّا شَيئا يَخرُجُ مِن عِندِنا أهلَ البَيتِ. (الکافی، جلد 1، ص 399)

یہ نہیں ہونا چاہئے کہ مکتبِ اہلبیت ؑ کے نام پر دوسروں کے نظریات بیان کئے جائیں۔ یہ بہت دردناک ہے۔ میں جذبات کی شدت کی وجہ سے خود کو روک نہ سکا اور اس مجلس میں ذرا معمول سے ہٹ کر گفتگو کر دی۔ تاکہ اس عظیم الشأن محقق جناب علامہ شہرستانی کی طرز پر یہ باتیں آپکی خدمت میں پیش کر دوں۔

ایک اور حدیث میں تاکید ہوئی ہے:
كَذَبَ مَنْ زَعَمَ أَنَّهُ يَعْرِفُنَا وَ هُوَ مُتَمَسِّكٌ بِعُرْوَةِ غَيْرِنَا. (وسائل الشیعہ، ج27، ص 119)۔

ڈھکے چھپے الفاظ استعمال کرتے ہوئے اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ ایسی کتابوں کی ترویج اور اشاعت ہو رہی ہے کہ جن میں مکتبِ اہلبیت ؑ کے نظریے کہ خدا کے سوا کوئی لامتناہی نہیں ہے اور اس کی طرف جانا چاہئے، کے خلاف یہ کہا جا رہا ہے کہ اے انسان بے نہایت ہو جا!

کہنا کہ لامتناہی ہو جاؤ، یہ مکتبِ اہلبیت ؑ کے مخالف ہے۔ پھر بھی ان باتوں کی ترویج ہوتی ہے۔ عرفانی لہک میں جماد سے حيوان اور وہاں سے سب چیزوں سے ہوتے ہوئےخود خدا ہو جانے کا کہتے ہیں۔“

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button