مقالات

وحدتِ وجود کے قرآنی دلائل کا تنقیدی جائزہ – ڈاکٹر محمد علی صابری

183 ملاحظات

وحدتِ وجود کے قرآنی دلائل کا تنقیدی جائزہ – ڈاکٹر محمد علی صابری

خلاصہ

مسلم دنیا میں صوفیاء اور عرفاء نے وحدتِ وجود کے نظریے کو ثابت کرنے کے لیے اللہ کی کتاب کی بعض آیات کا سہارا بھی لیا ہے۔ ان اہم ترین آیات میں ”ہُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الْظَّاہِرُ وَ الْبَاطِنُ“ (سورہ حدید، آیت 3)، ” فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ“ (سورہ بقرہ، آیت 115)، ”وَ مَا رَمَيْتَ اِذ رَمَيْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی“ (سورہ انفال، آیت 17)، اور ”وَ ہُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ“ (سورہ حدید، آیت 4) شامل ہیں۔ وہ نمایاں افراد جنہوں نے ان آیات کو وحدتِ وجود پر منطبق کیا، ان میں روزبہان بقلی، ابنِ عربی اور سید حیدر آملی کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ یہ مقالہ مسلم صوفیاء کی تاریخ میں اس طرح کے حوالوں کی مثالیں پیش کرتا ہے اور ان کا تفسیری اصولوں، روایات اور شیعہ و سنی مفسرین کے مشہور نظریات کی روشنی میں جائزہ لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مذکورہ تمام دلائل میں بنیادی خامیاں ہیں اور یہ آیات اس نظریے پر دلالت نہیں کرتیں۔ بلکہ یہ آیات خدا کی ازلیت، ابدیت، علم، قدرت، اور مطلق حاکمیت پر دلالت کرتی ہیں۔

مقدمہ

وحدتِ وجود کا نظریہ صوفیاء اور عرفاء کی جانب سے خدا اور کائنات کے درمیان تعلق کو بیان کرنے کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ وحدتِ وجود کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں صرف ایک ہی حقیقی وجود ہے، اور وہ خدا ہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے، وہ خدا کی ذات کا صرف ایک مظہر اور تجلی ہے۔ ملاصدرا کہتا ہے کہ وجود ایک واحد حقیقت ہے جو عین خدا ہے، اور ماہیتیں اور امکانی اعیان حقیقی وجود نہیں رکھتیں۔ جو کچھ بھی تمام مظاہر اور ماہیات میں ظاہر ہے اور تمام چیزوں اور تعینات میں عیاں ہے وہ حقیقتِ وجود کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ وجود حق کے مظاہر کے فرق، شئون کے تعدد اور حیثیات کے تکثر کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ (اسفارِ اربعہ، 2: 341-339)

بعض اوقات یہ کہا جاتا ہے کہ وحدتِ وجود کے دو نظریے ہیں: ایک وجود کی تشکیکی وحدت کا نظریہ اور دوسرا وجود کی شخصی وحدت کا نظریہ۔ پہلے نظریے میں وجود ایک واحد اور تشکیکی حقیقت ہے جس کے درجات ہیں، اور تشکیک خود وجود کی حقیقت میں ہے۔ جبکہ دوسرے نظریے میں وجود ایک واحد اور شخصی حقیقت ہے، اور تشکیک وجود کے مراتب میں نہیں، بلکہ اس کے مظاہر اور تجلیات میں ہے۔ حسن زادہ آملی لکھتا ہے: ”وحدتِ وجود جس کی بات وجود کے تشکیکی ہونے کے قائل حکماء کرتے ہیں، وہ اس وحدت وجود سے مختلف ہے جس کا ذکر بلند پایہ عرفاء کرتے ہیں۔ اگرچہ دونوں فریق وجود کو ایک ہی حقیقت مانتے ہیں، لیکن عرفاء اسے ایک شخصی حقیقت مانتے ہیں جس کا اختلاف اس کے ظہورات میں ہوتا ہے، جنہیں وہ مراتب کہتے ہیں… مثال کے طور پر عرفان میں کثرتوں کو صرف تصورات اور اعتبارات سمجھا جاتا ہے۔ ہم اسی ایک وجود کو مختلف ظہورات میں دیکھتے ہیں اور بعض جہات، جو کہ وہی تصورات اور اعتبارات ہیں، کی وجہ سے ان کے نام رکھتے ہیں“۔ (ممد الہمم، 156)

تاہم، خود ملاصدرا، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پہلے وہ وحدتِ تشکیکی وجود کا قائل تھا اور بعد میں وحدتِ شخصی وجود کا قائل ہو گیا، کہتا ہے کہ اس نے صرف بحث اور تعلیم کے مقصد سے وجود کے مختلف مراتب کو مدنظر رکھا، اور یہ بات ان کے وجود اور موجود کے ذات اور حقیقت کے اعتبار سے ایک ہونے کے عقیدے سے متصادم نہیں ہے، جسے وہ آگے چل کر ثابت کرے گا۔ (اسفارِ اربعہ، 1: 71) اسی طرح جلال الدین ہمائی کہتا ہے کہ بعض متاخرین فلاسفہ کے نزدیک اگر وجود میں مراتب کے بجائے مظاہر کا اختلاف کہا جائے تو شاید بہتر ہو، اگرچہ فلسفیانہ طور پر مراتب اور مظاہر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ (مولوی نامہ، 1: 203)

یہ بھی پڑھئے: کثرت در وحدت یا تشکیکِ وجود کا عقیدہ درست نہیں ڈاکٹر سید محمود ہاشمی نسب

بہر حال، اس مقالے میں وحدتِ وجود سے مراد وہی وحدت شخصی وجود ہے جس کا اوپر ملاصدرا کے حوالے سے ذکر کیا گیا ہے اور قرآنی آیات کی تفسیر پر بحث کے دوران اسی عقیدے پر مبنی اہلِ عرفان کے اقوال کا حوالہ دیا جائے گا۔

وحدتِ وجود کے اثبات کے لیے اگرچہ عرفاء کی اصلی دلیل اس وحدت کا باطنی شہود ہے (اسفارِ اربعہ، 2: 342) نہ کہ عقلی استدلال یا نقلی دلائل، پھر بھی انہوں نے قرآن کی آیات اور احادیث سے بھی اس نظریے کے لیے دلائل فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس مقالے میں وحدتِ وجود کے ماننے والوں کے چار اہم ترین قرآنی دلائل کا تجزیہ کیا جائے گا۔ ہر آیت کے بارے میں سب سے پہلے، اس سے وحدت وجود کے قائلین کا استدلال اور اس استدلال کی تاریخی ترتیب پیش کی جائے گی۔ اس کے بعد آیت کی مشہور تفسیر نقل کی جائے گی اور وحدتِ وجود کے قائلین کے استدلال پر تنقید کی جائے گی۔ آخر میں ہر آیت کی تفسیر سے متعلق احادیث بیان کی جائیں گی۔

آیت: ”ہُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الْظَّاہِرُ وَ الْبَاطِنُ“

ان آیات میں سے ایک جس کا سہارا وحدتِ وجود کے قائلین نے لیا ہے وہ سورہ الحدید کی تیسری آیت ہے۔ جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”ہُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الْظَّاہِرُ وَ الْبَاطِنُ وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیيْءٍ عَلِيْمٌ“ (حدید: 3)؛ ترجمہ: ”وہی اول اور وہی آخر ہے نیز وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔“

حسن زادہ آملی نے اس آیت کو وحدتِ وجود کے نظریے پر منطبق کرتے ہوئے لکھا ہے: ”اہلِ حقیقت کے نزدیک توحید وجودِ مطلق ہے؛ یعنی مطلق وجود جسے حق کہا جاتا ہے، اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ وسیع کائنات کا پورا نظام ایک ہی صمدی حقیقت ہے، یا دوسرے الفاظ میں، یہی خدا ہے جو خدائی کر رہا ہے۔ یہ توحید ایک دیکھنے کا نام ہے، اور قرآن کریم اس توحید کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: وہی اول اور وہی آخر ہے نیز وہی ظاہر اور وہی باطن ہے، یعنی سب کچھ وہی ہے اور وہ سب کچھ ہے۔ اہلِ عرفان کی زبان میں اس مطلق وجود کو وحدتِ شخصی وجود سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کائنات کا نظام ایک ہی شخص ہے اور وہ خدا ہے جو خدائی کر رہا ہے۔“ (ہزار و یک کلمہ، 5: 74)

وحدتِ وجود کے لیے اس آیت سے استدلال کی تاریخ

روزبہان بقلی نے حلاج (متوفیٰ 309 ہجری) سے ایک قول منسوب کیا ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیت کی تفسیر وحدتِ وجود کے تناظر میں کرتا تھا۔ (عرائس البیان، 3: 365) اسی طرح ثعلبی نے اپنی تفسیر میں واسطی سے نقل کیا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے مخلوق کے لیے کوئی نفس یا وجود باقی نہیں چھوڑا ہے۔ (الکشف و البیان، 9: 229) ثعلبی اسی معنی کا ایک اور قول دو واسطوں سے شبلی (متوفیٰ 334 ہجری) سے نقل کرتا ہے۔ (ایضاً: 230-231)

ابنِ عربی (متوفیٰ 638 ہجری) کی طرف سے اس آیت کو وحدتِ وجود پر منطبق کرنے کے متعدد شواہد ملتے ہیں۔ (فصوص الحکم: 112؛ فتوحاتِ مکیہ، 1: 397 اور…) ان میں سے دو واضح مثالیں کافی ہیں۔ وہ فتوحاتِ مکیہ میں اس آیت سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اللہ ہی تمام وجود اور ہستی ہے، لہٰذا اس کے سوا کوئی چیز موجود نہیں: ”قال اللَّہ تعالى‏ ہُوَ الۡاَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاہِرُ وَ الۡبَاطِنُ،‏ تنبيہا أنہ الوجود كلہ فإن ہذا تقسيمہ فليس إلا ہو“۔ (فتوحاتِ مکیہ، 4: 70) ایک اور جگہ وہ اس آیت کی بنیاد پر خدا کو عین اشیاء قرار دیتا ہے، اور یہ عینیت اس کا اسماء و صفات میں ظہور ہے، جو کہ موجودات ہیں۔ (کتاب المعرفۃ: 91)

ابنِ عربی کے بعد اس نظریے کو آیت پر زیادہ صراحت اور تواتر کے ساتھ منطبق کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ اس سلسلے میں نجم الدین دایہ (متوفیٰ 654 ہجری) (مرصاد العباد: 154)، ابوالحسن شاذلی (متوفیٰ 656 ہجری) (الیواقیت والجواہر: 131)، اور سید حیدر آملی (متوفیٰ 794 ہجری) (تفسیر المحیط الأعظم، 4: 355) کے نظریات کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔

آیت کی مشہور تفسیر

صوفیاء اور عرفاء سے ہٹ کر، عام مفسرین اس آیت سے وحدتِ وجود کا مفہوم اخذ نہیں کرتے۔ شیخ طوسی اس آیت کی تفسیر میں دو اقوال نقل کرتے ہیں: پہلے قول کے مطابق، ”اول“ اور ”آخر“ کی تعبیرات اللہ کی مکمل قدرت اور تسلط کی طرف اشارہ کرتی ہیں، اور دوسرے قول کے مطابق، یہ تمام موجودات سے پہلے اس کے وجود اور ان کے فنا کے بعد اس کے باقی رہنے کو بیان کرتی ہیں۔ اسی طرح، ”ظاہر“ اور ”باطن“ کے الفاظ اللہ کے علم یا اس کے ظاہر اور باطن پر مکمل تسلط کو ظاہر کرتے ہیں۔ (التبیان، 9: 518) ابوالفتوح رازی بھی اس آیت کی تفسیر میں مفسرین کے اقوال تفصیل سے بیان کرتے ہیں، لیکن وہ وحدتِ وجودی نقطہ نظر کا کوئی ذکر نہیں کرتے۔ (روض الجنان، 19: 9-12)

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابتدائی صوفیاء میں بھی اس آیت سے وحدتِ وجود کا مفہوم یا تو نقل نہیں ہوا یا بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر، سہل تستری (متوفیٰ 283 ہجری) اپنی تفسیر میں لکھتا ہے: ”معنى الظاہر ظاہر العلو و القدرۃ و القہر، و الباطن الذي عرف ما في باطن القلوب من الضمائر و الحركات“ (تفسیر التستری: 161)۔ ”کشف الاسرار و عدة الابرار“ میں میبدی (متوفیٰ 530 ہجری) بھی اس آیت کی تفسیر میں وحدتِ وجود پر مبنی کوئی بات نہیں کرتا۔ (کشف الاسرار، 9: 476، 478، 486 اور 487)

یہ بھی پڑھئے: وحدتِ عددی کی نفی اور توحید کی معرفت آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

آیت کی وحدتِ وجودی تفسیر کا تنقیدی جائزہ

یہ کہنا ضروری ہے کہ آنے والی احادیث سے قطع نظر، آیت کا ظاہری مفہوم وحدتِ وجود کے نظریے پر دلالت نہیں کرتا۔ آیت یہ نہیں کہتی کہ خدا کائنات کا اول و آخر، ظاہر و باطن ہے یا تمام موجودات کا ہے۔ یہ مضاف الیہ آیت میں موجود نہیں ہے۔

آیت کا ظاہر صرف یہ کہتا ہے کہ خدا اول اور آخر ہے اور ظاہر اور باطن ہے۔ خاص طور پر یہ کہ یہ صفات مفرد صورت میں آئے ہیں، اور یہ نہیں کہا گیا کہ خدا اوائل و اواخر اور ظواہر و بواطن ہے، تاکہ یہ کہا جائے کہ ان سب اولوں، آخروں، ظاہروں اور باطنوں کا مجموعہ تمام موجودات کو شامل کرتا ہے اور آیت ان تعبیرات سے یہ کہنا چاہتی ہے کہ خدا سب اشیاء ہے!

آیت شریفہ میں یہ چار الفاظ اللہ کے لیے اوصاف کے طور پر بیان ہوئے ہیں، اور ان الفاظ سے موجودات کی نفی یا خدا کو ان کے ساتھ عینیت دینا نہیں سمجھا جا سکتا۔ لیکن یہ جاننے کے لیے کہ یہ اوصاف اللہ کے بارے میں کن معنوں میں استعمال ہوئے ہیں جو اس کی ذات کے شایان شان ہوں، ہمیں آئمۂ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔

امامیہ احادیث میں آیت کی تفسیر

معتبر روایات میں اس آیت کے لیے ایک ایسا معنی بیان کیا گیا ہے جو عقل اور توحید کے اصولوں کے مطابق ہے۔ ان روایات میں خدا کے ”اول“ ہونے کا مطلب اس کا قدیم ہونا اور تمام موجودات سے پہلے ہونا ہے، جس میں اس کے حادث اور زمانی ہونے کی نفی ہے۔ اسی طرح خدا کے ”آخر“ ہونے کا مطلب تمام موجودات کے فنا کے بعد بھی اس کا باقی رہنا اور اس میں فنا کا داخل نہ ہونا ہے:

«هُوَ الْأَوَّلُ‏ الَّذِي لَا شَيْ‏ءَ قَبْلَهُ وَ الْآخِرُ الَّذِي لَا شَيْ‏ءَ بَعْدَهُ وَ هُوَ الْقَدِيمُ وَ مَا سِوَاهُ مَخْلُوقٌ مُحْدَثٌ تَعَالَى‏ عَنْ صِفَاتِ الْمَخْلُوقِينَ عُلُوّاً كَبِيراً» (توحیدِ صدوق: 76)

یہ دونوں معانی ”اول“ اور ”آخر“ کے ظاہری الفاظ کے ساتھ بھی مطابقت رکھتے ہیں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ عرفی طور پر بھی خدا کے اول و آخر ہونے کا یہی مطلب ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض روایات میں یہ بھی تاکید کی گئی ہے کہ تبدیلی اور انتقال اور مخلوقات کی دیگر صفات خدا میں نہیں ہیں (اصول کافی، 1: 115)، جو شاید اس نکتۂ نظر کی تردید کی طرف اشارہ ہو کہ خدا کے اول و آخر ہونے کا مطلب اس کا ہر چیز ہونا ہے، جس کے لیے خود خدا کی ذات میں تبدیلی اور تغیر لازم آتا ہے۔

جہاں تک خدا کے لیے ”ظاہر“ اور ”باطن“ ہونے کا تعلق ہے، امام رضا ؑ نے ایک حدیث میں الٰہی صفات کے معانی اور مخلوقات کی صفات سے ان کے فرق کو بیان کرتے ہوئے عربی لغت اور استعمالات کی بنیاد پر خدا کے ظاہر ہونے کا مطلب مخلوقات پر اس کا غلبہ اور قدرت قرار دیا ہے۔ ایک اور رخ یہ ہے کہ خدا کا ظہور اس کی قدرت کے آثار کے ظہور کے معنوں میں ہے، جو خود خدا کے ہونے کو نمایاں کرتا ہے۔ اسی طرح آپ نے خدا کے باطن ہونے کی تفسیر مخلوقات کے باطن کے بارے میں اس کے علم اور تدبیر سے کی ہے اور اس کے لیے عربی لغت سے شواہد بھی پیش کیے ہیں۔ آپ بار بار اس بات پر زور دیتے ہیں کہ الٰہی صفات کے معانی مخلوقات میں ان صفات کے معنوں سے مختلف ہیں۔ (اصول کافی، 1: 122)

آیت: ”فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ“

دوسری آیت جس کا حوالہ وحدتِ وجود کے قائلین نے دیا ہے وہ سورۃ البقرہ کی آیت 115 ہے، جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”وَ لِلّٰہِ الْمَشرِقُ وَ الْمَغرِبُ فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ.“؛ ترجمہ: ”اور مشرق ہو یا مغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں۔ پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے۔ بے شک اللہ احاطہ رکھنے والا اور بڑا علم والا ہے۔“ (بقرہ: 115)

وحدتِ وجود کے حامی عام طور پر آیت کے دوسرے حصے یعنی ”فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ“ سے استدلال کرتے ہیں۔ حسن زادہ آملی لکھتا ہے: ”عارف وحدتِ شخصیِ وجود کا قائل ہے اور ایک ذرہ بھی اس کے دائرے سے باہر نہیں ہے، اور حق کے سوا سب کچھ اسم بے مسمیٰ ہے؛ یعنی اشیاء کے اسماء حقیقی مسمیٰ کی طرف لوٹتے ہیں… اور حکیم ابوالقاسم فردوسی کے بقول: ندانم چہ‌ ای ہر چہ ہستی تویی (میں نہیں جانتا کہ تو کیا ہے، جو کچھ بھی ہے تو ہی ہے) اور خدا کی وحی کے محکم حکم کے مطابق: فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ“۔ (ہزار و یک کلمہ، 2: 171)

وحدتِ وجود کے پیروکار اپنے اس عقیدے کے ساتھ کہ خدا کا لامتناہی وجود کائنات کو مکمل طور پر گھیرے ہوئے ہے اور غیر کے وجود کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑتا، اس آیت سے ہر جگہ خدا کی ذات کی موجودگی کا مفہوم اخذ کرتے ہیں۔

وحدتِ وجود کے لیے آیت سے استدلال کی تاریخ

ابو حامد غزالی (متوفیٰ 505 ه) اس آیت کو وحدتِ وجود سے جوڑتے ہوئے لکھتا ہے: ”حقیقی نور صرف وہی ہے اور سب کچھ اس کے نور سے ہے، بلکہ صرف اسی کی حقیقت ہے اور اس کے علاوہ کسی کی کوئی حقیقت نہیں مگر مجازی طور پر۔ پس اس کے سوا کوئی نور نہیں اور باقی تمام نور اس کے چہرے کی وجہ سے ہیں نہ کہ اپنی ذات کی وجہ سے۔ پس ہر رخ کرنے والے کا چہرہ – جہاں بھی ہو – اس کی طرف ہے: فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ۔ پس اس کے سوا کوئی ہُو (وہ) نہیں ہے۔“ (مجموعہ رسائل، 278)

عین القضاة ہمدانی (متوفیٰ 525 ه) کہتا ہے: ”صرف اہلِ معرفت ہی اس آیت کا معنی سمجھ سکتے ہیں کہ خدا کی حقیقت ہر موجود کے مساوی ہے، نہ کہ اہلِ عقل، جو خدا کی حقیقت کو صرف صادرِ اول کے مساوق سمجھتے ہیں، دیگر موجودات کے نہیں“۔ (شکوی الغریب: 66)

یہ بھی پڑھئے: ملا صدرا اور پروکلس کے ہاں صادرِ اول کا تصور ڈاکٹر سعید رحیمیان، ڈاکٹر زہرا اسکندری

روزبہان بقلی (متوفیٰ 606 ه) بھی اپنی تفسیر میں لکھتا ہے: ”فَاَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجہُ اللّٰہِ یعنی تم جہاں بھی اپنے اسرار کی آنکھوں سے رخ کرو، وہاں انوار کا مکاشفہ ہے۔ اور اس آیت میں مشہود کو شواہد میں مشاہدہ کرنے کی طرف بھی اشارہ ہے، جیسا کہ اس نے اپنے خلیل پر ظاہر کیا جب انھوں نے دائرۂ کون میں دیکھتے ہوئے کہا: یہ میرا رب ہے…“ (عرائس البیان، 1: 59)۔

یوں روزبہان کے نزدیک حضرت ابراہیم ؑ کا یہ کہنا کہ چاند اور ستارے میرے رب ہیں، مشرکوں کی بات کو ظاہر کر کے بعد میں اسے استدلال سے باطل کرنے کے لیے نہیں تھا، بلکہ حقیقت میں وہ ان نشانیوں میں خدا کو دیکھ رہے تھے؛ لہٰذا ان کا یہ کہنا درست تھا کہ یہ سب میرے خدا ہیں۔

عطار نیشاپوری (متوفیٰ 627 ه) نے کچھ اس طرح کہا ہے:

زہی فرّ و حضور و نورِ آن ذات

کہ بر ہر ذره می تابد ز ذرات

تو را بر ذره ‏ذره راه بينم

دو عالم فَثَمَ‏ وَجْهُ‏ اللَّه بينم

دوئی را نيست ره در حضرتِ تو

ہمہ عالم تُوئی و قدرتِ تو

ز تو بى‏ خود يكى تا صد بمانده

دو عالم از تو، تو از خود بمانده

(اسرار نامہ: 7)

ترجمہ: ”اس ذات کی شان، موجودگی اور نور کس قدر عظیم ہے کہ وہ ہر ذرے میں سے چمک رہا ہے۔ میں تجھے راستے کے ہر ذرے میں دیکھتا ہوں، اور دونوں جہانوں کو فَثَمَّ وَجْهُ اللَّه کا مظہر سمجھتا ہوں۔ تیری بارگاہ میں دوئی کا کوئی راستہ نہیں، سارا عالم تو ہی ہے اور تیری ہی قدرت ہے۔ تیری وجہ سے ایک سے لے کر سو تک سب بے خود ہیں، دونوں جہان تجھ سے ہیں، اور تو خود سے ہے۔“

ابنِ عربی (متوفیٰ 638 ہ) ہمیشہ کی طرح اپنے پیشروؤں سے زیادہ واضح طور پر اس بات کو بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ”اہل دل خدا کو شہود اور ذوق سے پہچانتے ہیں اور اسے ہر مظہر میں دیکھتے ہیں اور ہر شکل و صورت میں اس کا اقرار کرتے ہیں۔ پس وہ حق کے ساتھ چلتے ہیں جہاں بھی وہ چلے، اور اس کے چہرے یعنی اس کی ذات کو ہر منظر میں دیکھتے ہیں۔ کیا خدا نے اپنی کتاب میں نہیں فرمایا: جدھر بھی رخ کرو، وہاں خدا کا چہرہ ہے؟ لیکن اصحاب عقل، چاہے وہ فلاسفہ ہوں یا متکلمین، ایک خاص عقیدے میں مبتلا ہیں، وہی جو خدا کو خاص صورتوں میں محدود کرتے ہیں، جبکہ خدا محدود ہونے سے انکار کرتا ہے۔“ (فصوص الحکم، 2: 149) فصوص الحکم کے ایک معاصر شارح حسن زادہ آملی نے ان عبارتوں پر کسی قسم کی تنقید کئے بنا ان کا ترجمہ اور شرح کی ہے۔ (ممد الہمم: 303)

سید حیدر آملی (متوفیٰ 794 ہ) نے ابنِ عربی کی روش پر چلتے ہوئے اس آیت کو وحدتِ وجود پر منطبق کیا اور خدا کے ”چہرے“ کا معنی اس کی ”ذات“ قرار دیا اور لکھا: ”أينما توجہتم فثمّ‏ وجہ‏ اللّه‏، أي ثمّ ذاتہ و وجودہ، لانّہ المحيط، و المحيط ہذا شأنہ“۔

ترجمہ: ”جدھر بھی رخ کرو وہاں خدا کا چہرہ ہے، یعنی وہاں خدا کی ذات اور وجود ہے، کیونکہ وہ محیط ہے، اور محیط کی یہی شان ہے کہ وہ ہر جگہ ہو۔“ (المقدمات: 95) اس نے ایک اور جگہ بھی اسی بات کو دہرایا ہے۔ (جامع الاسرار: 55)۔

آیت کی مشہور تفسیر

سید مرتضیٰ اس آیت میں ”وجہ“ کے ممکنہ معانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”ممکن ہے اس کا مطلب یہ ہو کہ خدا خود وہاں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کسی جگہ حلول کر گیا ہے، بلکہ اس سے مراد اس کی تدبیر اور علم کا ہونا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ خدا کی رضا اور ثواب وہاں ہے۔ ایک اور امکان یہ بھی ہے کہ وجہ سے مراد جہت ہو اور اضافت ملکیت، تخلیق، ایجاد اور احداث کی ہو، کیونکہ خدا نے فرمایا ہے: مشرق اور مغرب اس کے لیے ہیں۔ لہٰذا، تم جس بھی طرف رخ کرو، وہ خدا کی جہت ہے؛ یعنی تمام جہات خدا کی ملکیت ہیں۔“ (امالی المرتضیٰ، 1: 594)

طبرسی بھی ”مجمع البیان“ میں مفسرین کے قول سے ”وجہ اللہ“ کے لیے تاویلی معانی جیسے قبلہ، قصد و نیت، خدا کا علم و آگاہی اور خدا کی رضا نقل کرتے ہیں۔ (مجمع البیان، 1: 364)

زمخشری آیت کو قبلہ سے متعلق قرار دیتے ہیں اور اس کی تفسیر یوں کرتے ہیں: ”یعنی جب تم مسجد الحرام یا بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے روکے گئے، تو تم زمین پر جہاں چاہو نماز پڑھ سکتے ہو اور اسی جگہ قبلہ کی طرف رخ کر سکتے ہو۔ یہ عمل ہر جگہ ممکن ہے اور کسی خاص مقام کے لیے مخصوص نہیں۔“ (الکشاف، 1: 180)

زیادہ تر غیر صوفی مفسرین کی آراء کا جائزہ لینے اور انہیں جمع کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً تمام مفسرین نقل شدہ شان نزول، اہل بیت علیہم السلام کی احادیث اور صحابہ و تابعین کی آراء کی بنیاد پر آیت کے بارے میں درج ذیل دو میں سے ایک نقطہ نظر کو قبول کرتے ہیں:

الف: آیت نماز میں قبلہ کے حکم سے متعلق ہے، اور یہ قول خود بھی مختلف صورتوں میں نقل ہوا ہے۔ مثال کے طور پر، قبلہ کا بیت المقدس سے مسجد الحرام کی طرف تبدیل ہونا، سواری پر دوران سفر نوافل ادا کرنا، اور کئی دیگر اقوال جنھیں فخر رازی نے نقل کیا ہے۔ (تفسیر کبیر، 4: 18)

ب: آیت قبلہ اور نماز کے بارے میں نہیں ہے، جس کے بارے میں بھی مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں۔ (تفسیر کبیر، 4: 20) لیکن ان تمام اقوال کا مشترکہ مطلب ہر جگہ خدا کی علمی، قدرتی، تدبیری اور حکمی موجودگی ہے۔

آیت کی وحدتِ وجود والی تفسیر پر تنقید

وحدتِ وجود کے قائلین کا یہ قول کہ آیت کا مطلب ہر جگہ خدا کی ذات کی موجودگی ہے، نہ صرف یہ کہ ایک نادر اور بے دلیل قول ہے اور صحابہ، تابعین اور اہل بیت ؑ کی روایات کے بھی خلاف ہے – جو آگے بیان ہوں گی – بلکہ اس میں کچھ بنیادی خامیاں بھی ہیں:

الف: چہرے کا معنی ذات لینا بے دلیل ہے۔ کیونکہ یا تو چہرے کو اس کے ظاہری معنی میں لینا ہو گا، جو خدا کے جسمانی نہ ہونے کے عقلی حکم کی وجہ سے رد ہو جاتا ہے، یا پھر چہرے کی صحیح تاویل کرنی ہو گی۔ صحیح راستہ یہی ہے اور معتبر روایات کی بنیاد پر ان تاویلات تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ب۔ یہ تفسیر خدا کو مکان کا پابند ماننے پر مجبور کرتی ہے۔ وحدتِ وجود کے قائلین کے خیال کے برعکس خدا کی ذات کو ہر جگہ میں موجود سمجھنا، چاہے اسے کسی ایک خاص جگہ میں محدود نہ سمجھا جائے، اسے مکانیت سے پاک نہیں کرتا۔ مکان اور زمان بنیادی طور پر خدا میں داخل نہیں ہو سکتے، خواہ وہ ایک خاص اور محدود جگہ ہو یا لامتناہی جگہ (تمام جگہیں)۔

ج۔ یہ تفسیر آیت کے سیاق سے متصادم ہے، جو مشرکین کی جانب سے مسلمانوں کو مسجد الحرام میں نماز پڑھنے سے روکنے سے متعلق ہے۔

روایات میں آیت کی تفسیر

تفسیر عیاشی میں امام باقر ؑ اور امام صادق ؑ سے روایات نقل ہوئی ہیں جو یہ بتاتی ہیں کہ آیت کا تعلق سفر میں نفل نمازوں کے لیے قبلہ کے رخ سے ہے۔ (تفسیر عیاشی، 1: 56) یہ معنی علل الشرائع میں امام صادق ؑ کی ایک اور روایت میں بھی نقل ہوا ہے۔ (علل الشرائع، 2: 358) اسی طرح، ایک حدیث میں جسے شیخ صدوق نے اپنی سند سے حضرت سلمان فارسی کے واسطے سے امیرالمؤمنین ؑ سے نقل کیا ہے، اس آیت کی تفسیر اس معنی میں کی گئی ہے کہ کوئی چیز خدا سے پوشیدہ نہیں ہے۔ (توحید صدوق، 182)۔

قرآن کے ظاہر اور باطن یا ایک آیت کے متعدد مصادیق کے لحاظ سے یہ دو مختلف معانی ایک دوسرے سے متصادم نہیں ہیں اور دونوں قابل قبول ہیں۔

آیت: ”وَ مَا رَمَيْتَ اِذ رَمَيْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی“

سورہ الانفال کی آیت 17 میں جنگِ بدر کے حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَلَمْ تَقتُلُوۡہُمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ قَتَلَہُمْ وَ مَا رَمَيْتَ اِذ رَمَيْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی وَ لِیُبلِیَ الۡمُؤمِنِيْنَ مِنْہُ بَلَآءً حَسَنًا اِنَّ اللّٰہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ.

ترجمہ: ”پس انہیں تم نے قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا اور (اے رسول) جب آپ کنکریاں پھینک رہے تھے اس وقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ نے کنکریاں پھینکی تھیں تاکہ اپنی طرف سے مومنوں کو بہتر آزمائش سے گزارے۔ بے شک اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔“

اس آیت کا یہ حصہ، ”وَ ما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ“ (اور جب تم نے کنکریاں پھینکیں تو وہ تم نے نہیں پھینکیں)، وحدتِ وجود کے قائلین کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ ان کی دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ یہاں ”رمی“ (پھینکنے) کا فعل پہلے رسول اللہ ؐ سے منسوب کیا گیا ہے (جب تم نے پھینکیں) اور پھر ان سے اس کی نفی کر کے اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے (تم نے نہیں پھینکیں بلکہ اللہ نے پھینکیں)۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ؐ صرف خدا کی ذات کا ایک جلوہ اور مظہر ہیں، یعنی یہ خدا کی ذات ہے جو اس صورت میں ظاہر ہوئی ہے، نہ کہ ان کا کوئی الگ وجود ہے۔ لہٰذا، اگرچہ جلوہ اور مظہر ہونے کی حیثیت سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ رمی کا فعل اس جلوے سے سرزد ہوا، لیکن عینیت اور ذات کی نظر سے دیکھیں تو یہ خدا ہی ہے جس نے یوں جلوہ کیا ہے، اور اس کے سوا کوئی ذات موجود نہیں۔ درحقیقت، رمی خدا کا فعل ہے، رسول ؐ کا نہیں۔

آیت سے استدلال کی تاریخ

شیخ طوسی (متوفیٰ 460 ہجری) اپنی تفسیر ”التبیان“ میں لکھتے ہیں کہ بعض غالی (انتہا پسند) اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ محمد ؐ ہی اللہ ہیں۔ (التبیان، 5: 93)

صوفیانہ لٹریچر میں ابنِ عربی وہ پہلا شخص ہے جس نے صراحت کے ساتھ اس آیت کو وحدتِ وجود پر منطبق کیا۔ وہ فصوص الحکم میں کہتا ہے کہ اللہ ایک واحد ذات ہے جو مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے، اور ان مختلف صورتوں کی خدا سے نسبت وہی ہے جو زید کے اعضاء کی زید سے ہے… اور یہ انسان کے تصور کی طرح ہے جو ایک ہے، لیکن زید اور عمرو وغیرہ کی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ پس انسان کی حقیقت ایک ہی ہے لیکن اس کی صورتیں متعدد ہیں۔ اسی طرح، خدا بھی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کی دلیل آیت ”وَ ما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ“ ہے جو ایک طرف تو رمی کو صورت محمدیہ ؐ کی طرف منسوب کرتی ہے، اور دوسری طرف اس سے اس کی نفی کر کے اللہ کی طرف منسوب کرتی ہے۔ یعنی، صورت محمدیہ ؐ کی طرف سے استقلالی طور پر اس کی نفی کی گئی ہے، لیکن بطور صورت، جو کہ خدا کی ذات کی ایک صورت ہے، اسے ان سے منسوب بھی کیا گیا ہے۔ پس درحقیقت خدا ہی ہے جو پھینکنے والا ہے، لیکن محمدی ؐ صورت میں۔ (فصوص الحکم، 183-185)

جلال الدین ہمائی اس آیت کے بارے میں مولوی رومی کے نقطہ نظر کے بارے میں لکھتا ہے: ”…مولانا نے آیت وَ ما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ کو اس کے لطیف ادبی اور عرفانی مفہوم کے ساتھ، کسی بھی دوسری آیت یا حدیث سے زیادہ اپنی چھ دفتروں کی مثنوی میں اور بعض جگہوں پر بار بار استعمال کیا ہے، اور اسے جبر و اختیار کے مسئلے اور وحدتِ وجود و وحدتِ موجود جیسے دقیق کلامی اور فلسفی مسائل میں استعمال کیا ہے…“ (مولوی نامہ، 1: 26)۔

پھر وہ مثنوی کے کچھ اشعار نقل کرتا ہے جن میں یہ آیت استعمال ہوئی ہے۔ ان اشعار میں سے کچھ، جو وحدتِ وجود کی طرف اشارہ کر سکتے ہیں، یہ ہیں:

ما رميت اذ رميت خواندہ‏ای ليک

جسمی در تجزی ماندہ‏ای

ما رميت اذ رميت آمد خطاب

گم شد او و اللّہ اعلم بالصواب

ما رميت اذ رميت گشتہ‏ای

خويشتن در موج چون کف ہشتہ‏ای

لا شدی پہلوی الا خانہ گیر

ای عجب کہ ہم اسیری ہم امیر

(مولوی نامہ: 27 و 28)

ترجمہ: ”تو نے یہ تو پڑھا ہے کہ ما رمیت اذ رمیت، لیکن تیرا جسم تو تجزیہ اور تقسیم (یعنی کثرت) میں الجھا ہوا ہے۔جب یہ آواز آئی کہ ما رمیت اذ رمیت، تو وہ (یعنی پھینکنے والا) تو گم ہو گیا، واللہ اعلم بالصواب۔ تم ما رمیت اذ رمیت بن چکے ہو، گویا تم نے اپنے آپ کو سمندر میں جھاگ کی طرح پھیلا دیا ہے۔ لا ہو کے الا کے پہلو میں آ گئے ہو، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ تم بیک وقت اسیر بھی ہو اور امیر بھی۔“

سید حیدر آملی بھی صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی فاعل اور موجود نہیں ہے، لہٰذا وہ عابد بھی ہے اور معبود بھی۔ مختلف صورتوں میں متعین اور قید ہو جانے کے اعتبار سے وہ عابد ہے، اور ان صورتوں پر اپنے اطلاق اور ان سے تجرد کے لحاظ سے وہ معبود ہے۔ پھر وہ آگے چل کر اس بات کی دلیل کے طور پر زیرِ بحث آیت کا حوالہ دیتا ہے۔ (تفسیر المحیط الأعظم، 5: 240)

آیت کی مشہور تفسیر

عام مفسرین نے اس آیت کی تفسیر وحدتِ وجود کے قائلین سے مختلف انداز میں کی ہے۔ انہوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ یہ افعال (مشرکین کا قتل وغیرہ) انجام دینے کی جسمانی اور روحانی طاقت اللہ کی طرف سے دی گئی تھی، یا یہ کہ اس خاص واقعے میں خدا کی طرف سے خاص مدد (فرشتوں کا نازل ہونا وغیرہ) شامل تھی۔ اس خاص واقعے کے بارے میں مشہور قول یہ ہے کہ اس کا تعلق جنگِ بدر سے ہے، جبکہ دیگر آراء اسے احد یا خیبر سے جوڑتی ہیں۔ شیخ طوسی ”التبیان“ میں لکھتے ہیں: ”مسلمانوں اور نبی ؐ سے قتل اور رمی کی نفی کی گئی اور اسے خدا کی طرف منسوب کیا گیا، حالانکہ حقیقت میں یہ ان کا فعل تھا، اس لئے کہ خدا نے انہیں ان افعال کی طاقت دی، ان کی مدد کی، ان کے دلوں میں شجاعت ڈالی، اور دشمنوں کے دلوں میں خوف پیدا کیا، اور یہ سب دشمن کی شکست اور تباہی کا سبب بنا۔“ (التبیان، 5: 93؛ زمخشری، الکشاف، 2: 207)

یہاں تک کہ بعض ابتدائی صوفیاء بھی مشہور مفسرین کی طرح اس آیت کی صحیح اور معقول تفہیم رکھتے تھے۔ مثال کے طور پر ہجویری اپنی کتاب میں بایزید جیسے صوفیاء کی شطحیات کی توجیہ کرتے ہوئے اور ان سے حلول اور اتحاد کے مفہوم کو رد کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”…جب حق تعالیٰ اپنی سلطنت کی قہریت انسان پر ظاہر کرتا ہے تو اس کے وجود کو اس سے لے لیتا ہے تاکہ یہ الفاظ اس کی زبان سے اس طرح ادا ہوں کہ حق تعالیٰ کا مخلوقات کے ساتھ کوئی امتزاج نہ ہو اور نہ مصنوعات کے ساتھ کوئی اتحاد ہو، اور نہ وہ چیزوں میں حلول کرے۔ اللہ اس سے اور اس چیز سے بہت بلند ہے جس کی ملحدین توصیف کرتے ہیں۔ چنانچہ جب رسولِ اکرم ؐ مستغرق اور مغلوب تھے، تو ان سے ایک فعل سرزد ہوا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو ان سے منسوب نہیں کیا اور کہا کہ وہ میرا فعل تھا، تمہارا فعل نہیں، اگرچہ یہ ظاہری طور پر تمہارا فعل تھا: وَ ما رَمَيْتَ‏ إِذْ رَمَيْتَ‏ وَ لكِنَّ اللَّهَ رَمى…“۔ (کشف المحجوب، 327 و 328؛ مستملی بخاری، شرح التعرف لمذہب التصوف، 3: 1366)

رشید الدین میبدی، جو خود بھی صوفیاء میں سے ہے، مشہور مفسرین کے ساتھ ہم فکر ہو کر اس آیت کا مطلب مٹھی بھر مٹی پھینکنے سے دشمن کی شکست کو معجزہ قرار دیتے ہوئے یوں بیان کرتا ہے: ”اس کا مقصد مصطفیٰ ؐ سے رمی کی نفی کرنا نہیں ہے، بلکہ جَلّ جلالہ یہ خبر دے رہا ہے کہ وہ ایک مٹھی مٹی جو تم نے پھینکی، وہ پھینکنا تمہاری طرف سے تھا، لیکن اسے پہنچانا ہماری طرف سے تھا۔ ورنہ یہ کیسے ممکن اور ممکن العمل ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اتنے بڑے لشکر پر ایک مٹھی مٹی پھینکے اور اس کا ایک ذرہ بھی خطا نہ ہو اور سب کی آنکھوں میں جائے؟ یہ صرف خالق جَلّ جلالہ کی قدرت میں ہے۔“ (کشف الاسرار، 4: 20)

آیت سے وحدت وجود کا معنی نکالنے پر تنقید

اس تفسیر پر تنقید کرتے ہوئے کہا جا سکتا ہے:

یہ تفسیر کلام کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے۔ مثال کے طور پر، جب ایک ماہر استاد اپنے شاگرد کی کسی عمل میں کامیابی پر اس سے کہتا ہے کہ یہ تم نہیں تھے جس نے ایسا کیا اور کامیاب ہوئے، بلکہ میں تھا، تو اہلِ زبان اس تعبیر سے یہ نتیجہ نہیں نکالتے کہ استاد اور شاگرد ایک ہی چیز ہیں، یا شاگرد وہی استاد ہے جو اس کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ بلکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ استاد نے شاگرد کو صحیح تربیت دے کر اور اس میں قابلیت پیدا کر کے اس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا اور شاگرد استاد کے بغیر اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ لہٰذا اصل کامیابی کا سہرا استاد کے سر ہوتا ہے اور وہ کامیابی کو اپنی طرف منسوب کرتا ہے۔ جب یہ تعبیر اور اس طرح فعل کو اعلیٰ مقام کی طرف منسوب کرنا دنیا میں ممکن اور درست ہے، تو بدرجہ اولیٰ اس خدا کے لیے یہ درست ہے جو اپنے بندوں اور ان کی تمام صلاحیتوں کا خالق اور مالک ہے اور جو انہیں تمام کامیابیوں اور مدد سے نوازتا ہے۔

وحدتِ وجود کی تفسیر خود آیت سے متضاد ہے۔ کیونکہ اگر خدا ہی پیغمبر ؐ ہے یا پیغمبر ؐ خدا کا ظہور ہیں، تو پھر خدا کا پیغمبر ؐ سے مخاطب ہونے کا کیا مطلب؟ جب حقیقی طور پر کوئی دوئی نہیں اور صرف ایک ہی چیز ہے جسے دو اعتبارات سے دیکھا جاتا ہے، تو مخاطبہ کا کوئی صحیح معنی نہیں بنتا۔ صوفیوں کی تفسیر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا اپنے آپ سے کہہ رہا ہے: ”جو تم نے پھینکا وہ تم نے نہیں پھینکا، بلکہ میں نے پھینکا“!

اس کے علاوہ، وحدتِ وجود پر مبنی تفسیر کے مطابق، صرف پیغمبر ؐ ہی نہیں بلکہ سب اشیاء خدا کی ذات کی صورتیں ہیں۔ لہٰذا، وہ مومن بھی جنہیں آیت کے آخر میں خدا کی آزمائش کا نشانہ بتایا گیا ہے، درحقیقت خدا کے سوا کچھ نہیں، اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خدا خود کو آزمانا چاہتا ہے۔

یہ تفسیر ماقبل و مابعد کی آیات کے سیاق و سباق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ کیونکہ وہ تمام آیات جنگ، خدا کی مدد، مومنوں کی آزمائش اور ثابت قدمی کے حکم سے متعلق ہیں۔ اگر اس کے درمیان خدا اور رسول ؐ کے ایک ہونے کے بارے میں کوئی جملہ آئے تو اس کا ان مضامین سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔

امامیہ روایات میں آیت کی تفسیر

تفسیرِ عیاشی میں آئمہ اطہار ؑ سے تین روایات نقل ہوئی ہیں جو اس آیت کے بارے میں ہیں۔ ان روایات کے مطابق حضرت علی بن ابی طالب ؑ نے وہ مٹھی بھر مٹی رسول خدا ؐ کو دی اور آپ ؐ نے اسے دشمن کی طرف پھینکا۔ (تفسیر عیاشی، 2: 52)

شیخ صدوق کی کتاب ”خصال“ میں امیرالمؤمنین ؑ سے ایک طویل روایت نقل ہوئی ہے جس میں حضرت ؑ نے اپنے فضائل بیان کیے ہیں۔ ان میں سے ایک فضیلت جنگِ بدر میں آپ ؑ کا کردار ہے اور آپ ؑ نے رسول اکرم ؐ کے حکم پر ان تک وہ کنکریاں پہنچانے کا حوالہ دیا ہے۔ (الخصال، 2: 576)

آیت: ”وَ ہُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ“

سورہ الحدید کی چوتھی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”ہُوَ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرۡضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی الْعَرۡشِ یَعۡلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرۡضِ وَ مَا یَخرُجُ مِنْہَا وَ مَا یَنْزِلُ مِنَ السَّمَآءِ وَ مَا یَعرُجُ فِيْہَا وَ ہُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعمَلُوْنَ بَصِيْرٌ.“

ترجمہ: ”وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر مستوی ہوا۔ وہ جانتا ہے جو کچھ زمین میں داخل ہوتا ہے، جو کچھ اس سے نکلتا ہے، جو کچھ آسمان سے نازل ہوتا ہے اور جو کچھ اس میں بلند ہوتا ہے۔ تم جہاں کہیں بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔“

وحدتِ وجود کے قائلین اس آیت میں معیت (ساتھ ہونا) کی تفسیر ذاتی طور پر ساتھ ہونے کے معنی میں کرتے ہیں اور خدا کی ذات کو مخلوقات کے ساتھ اور ان پر محیط سمجھتے ہیں۔ اسے وہ ”معیتِ قیومی“ کہتے ہیں۔ ان میں سے بعض نے صراحت کے ساتھ اس معیت کو خدا اور مخلوقات کی عینیت اور ان کے ایک ہونے کے معنی میں لیا ہے، اور اس کا مطلب خدا کے وجود کے سوا کسی اور کے وجود کی نفی کیا ہے۔ جس کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا۔

آیت سے استدلال کی تاریخ

روزبہان کے بقول حلاج نے کہا ہے کہ مخلوقات نہ تو خدا سے جدا ہیں اور نہ ہی متصل ہیں۔ پھر اس نے زیرِ بحث آیت کو بطور دلیل پیش کیا اور کہا کہ اس آیت میں موحدین کے لیے (خدا اور مخلوقات کے) اتحاد کی طرف اشارہ ہے۔ (عرائس البیان، 3: 394)

ابنِ عربی لکھتا ہے: ”واعلم أن الماہيات صور كمالات الحق تعالى، و مظاہر أسمائہ و صفاتہ… فتكثر بحسب الصور و ہو على وحدتہ الحقيقيۃ … فإذا علمت أن الوجود ہو الحق تعالى علمت سرّ قولہ تعالى: وَ ہُوَ مَعَکُمْ اَيْنَ مَا کُنْتُمْ.  وَ نَحْنُ اَقرَبُ اِلَيْہِ مِنْ حَبلِ الۡوَرِيْدِ“.

ترجمہ: ”جان لو کہ ماہیات خدا کے کمالات کی صورتیں اور اس کے اسماء و صفات کی مظاہر ہیں۔ ۔ ۔ پس خدا صورتوں کے اعتبار سے متعدد ہے، جبکہ وہ حقیقی وحدت پر قائم ہے۔ ۔ ۔ پس جب تم یہ جان لو کہ وجود وہی حق تعالٰی ہے، تو تم خدا کے اس قول کا راز جان لو گے: وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو، اور: ہم اس کی رگِ گردن سے زیادہ اس کے قریب ہیں۔“ (کتاب المعرفۃ، 91)

وہ یہ بھی لکھتا ہے: ”فالعدد كلہ واحد. لو نقص من الألف واحد (ل) انعدم اسم الألف و حقيقتہ، و بقيت حقيقۃ أخرى و ہي تسع مائۃ و تسعۃ و تسعون. (و ہي أيضا) لو نقص منہا واحد، لذہب عينہا. فمتى انعدم الواحد من شي‏ء عدم، و متى ثبت (الواحد) وجد ذلك الشي‏ء. ہكذا التوحيد إن حققتہ: و ہو معكم‏ أينما كنتم“.

ترجمہ: ”اعداد سب کے سب ایک ہی ہیں۔ اگر ایک ہزار میں سے ایک نکال دیا جائے تو ایک ہزار معدوم ہو جائے گا اور پیچھے نو سو ننانوے دوسرے رہ جائیں گے۔ پس اگر کسی عدد سے ایک کو حذف کر دیا جائے تو وہ عدد ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر خدا کو کسی بھی ذات سے حذف کر دیا جائے تو وہ ذات ختم ہو جاتی ہے۔ یعنی خدا کی ذات تمام ذاتوں میں ہے اور ہر چیز کی اصل ہے، اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو کا یہی مطلب ہے۔“ (فتوحاتِ مکیہ، تصحیح: عثمان یحیی، 1: 284)۔

ایک اور جگہ وہ اس آیت کی بنیاد پر کہتا ہے: ”جو اس طرح اشیاء کے ساتھ ہے، اس کی طرف توبہ اور واپسی کا کوئی معنی نہیں ہے۔ وہ خود ہی ہے – کوئی اور نہیں – جو اپنی طرف واپس لوٹتا ہے۔“ (فتوحاتِ مکیہ، تصحیح: عثمان یحیی، 13: 301-303)۔

سید حیدر آملی بھی خدا کے مخلوقات کے ساتھ ہونے کو ذاتی طور پر ساتھ ہونا سمجھتا ہے۔ وہ لکھتا ہے: ”فالوجود الحقيقي حينئذ لا يكون إلّا للحقّ و يكون له المعيّۃ معهم معيّۃ وجوديّۃ ذاتيّۃ لقولہ: وَ هُوَ مَعَكُمْ‏ أَيْنَ‏ ما كُنْتُمْ…“

ترجمہ: ”اس وقت حقیقی وجود صرف حق کا ہے، اور اس کا ان کے ساتھ ہونا ذاتی اور وجودی طور پر ہے، کیونکہ اس کا قول ہے: وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو….“ (تفسیر المحیط الأعظم، 2: 367)۔

وہ اگلے مرحلے میں اس بنیاد پر کہ خدا کے سوا کسی وجود کا قائل نہیں، خدا کے مخلوقات کے ساتھ ہونے کا مطلب تمام مخلوقات کی خدا کے ساتھ عینیت لیتا ہے، جبکہ وہ موجودات درحقیقت موجود نہیں ہیں، اور کہتا ہے: ”فعرفنا أنّہ ليس لشي‏ء (غيرہ) وجود حقيقۃ، بل اعتبارا و اضافۃ، و الوجود الحقيقىّ ہو وجودہ فقط، كما أشار تعالى اليہ‏: كُلُّ شَيْ‏ءٍ ہالِكٌ إِلَّا وَجْہَہُ. فيكون معناہ مثل الذي تقدّم، أعنى لا يقال لنفس الشي‏ء أنّہ أقرب إليہ أو أبعد منہ، لانّه ہو ہو. و كلّ ہذا إشارۃ إليہ أي، إلى انّ الوجود واحد، و ليس لہ حلول في شي‏ء، و لا خروج عن شي‏ء، كما أشار تعالى ہو بنفسه اليہ إِنَّہُ بِكُلِّ شَيْ‏ءٍ مُحِيطٌ. و أشار اليہ بقولہ‏ وَہُوَ مَعَكُمْ‏ أَيْنَ‏ما كُنْتُمْ، لانّ الاحاطۃ و المعيّۃ مع الأشياء، بدون الذي قررناہ، يلزم‏ (عنہما) الثنويّۃ والغيريّۃ والحلول والتباعد وغير ذلك، وہذا غير جائز. فما بقي إلّا أن‏ يكون ہو عين كلّ شي‏ء، ومع كلّ شي‏ء، و نفس كلّ شي‏ء…“

ترجمہ: ”پس ہم نے جان لیا کہ اس کے سوا کسی چیز کا حقیقی وجود نہیں ہے، بلکہ ان کا وجود صرف اعتباری اور اضافی ہے۔ حقیقی وجود صرف اسی کا وجود ہے، جیسا کہ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے: اس کے چہرے کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ پس اس کا معنی وہی ہے جو پہلے بیان ہوا، یعنی یہ نہیں کہا جائے گا کہ کوئی چیز اس سے قریب یا دور ہے، کیونکہ وہ وہی ہے۔ یہ سب اس کی طرف اشارہ ہے، یعنی وجود ایک ہے، اور وہ کسی چیز میں حلول نہیں کرتا اور نہ کسی چیز سے باہر ہے۔ جیسا کہ اللہ نے خود اس کی طرف اشارہ کیا ہے: وہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔ اور اس کا اشارہ اس کے اس قول سے بھی ہے: وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو۔ کیونکہ احاطہ اور اشیاء کے ساتھ ہونا، اس معنی کے بغیر جو ہم نے طے کیا ہے، دوئی، غیر ہونے، حلول اور دوری جیسی چیزوں کو لازم کرتا ہے، اور یہ درست نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ وہ ہر چیز کی عینیت ہے، ہر چیز کے ساتھ ہے، اور ہر چیز کا نفس ہے…”۔ (جامع الاسرار: 311)

حیدر آملی کا خیال ہے کہ خدا کے مخلوقات کے ساتھ ہونے کی اس کے سوا کوئی اور تفسیر کرنا کہ خدا اور مخلوقات ایک ہیں اور درحقیقت خدا ہے اور کوئی دوسری چیز نہیں ہے، دوئی، حلول اور خدا کے مخلوقات سے دور ہونے کا باعث بنتا ہے۔

آیت کی مشہور تفسیر

عام مفسرین نے اس آیت میں بیان کردہ معیت (ساتھ ہونا) کو غیر ذاتی معنی میں لیا ہے اور اس سے مراد خدا کا بندوں کے بارے میں علم یا ان پر اس کی قدرت اور تسلط لیا ہے۔

شیخ طوسی لکھتے ہیں: ”وَ ہُوَ مَعَكُمْ يعني بالعلم لا يخفى عليہ حالكم“؛

ترجمہ: ”وہ تمہارے ساتھ ہے، یعنی اپنے علم کی وجہ سے، تمہارے حالات اس سے پوشیدہ نہیں ہیں۔“ (التبیان، 9: 520) طبرسی نے بھی یہی کہا ہے۔ (مجمع البیان، 9: 347)

ابوالفتوح رازی بھی اس تعبیر کے کنائی ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ”وَ ہُوَ مَعَكُمْ، وہ تمہارے ساتھ ہے، جہاں بھی تم ہو، اس کا مطلب علم ہے؛ یعنی وہ تمہارے حالات سے واقف ہے اس طرح کہ اس پر کچھ بھی پوشیدہ نہیں رہتا، جیسے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ساتھ ہو اور اس سے چھپا ہوا نہ ہو۔“ (روض الجنان، 19: 14)۔

ابنِ شہر آشوب لکھتے ہیں: ”و قولہ وَ ہُوَ مَعَكُمْ‏ أَيْنَ‏ ما كُنْتُمْ‏ المراد بہا الإخبار عن كونہ سبحانہ عالما أبدا بخفي أحوالنا و أسرارنا“.

ترجمہ: ”اور اس کے قول: وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو، کا مطلب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیشہ ہمارے پوشیدہ حالات اور رازوں سے واقف ہے۔“ (متشابہ القرآن و مختلفہ، 1: 65)۔

وہ ایک اور جگہ معیت کا مطلب مدد اور نصرت لیتے ہیں اور اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ”مع“ کا حقیقی معنی جو جہت اور مکان میں ساتھ ہونا ہے، وہ خدا کے لیے درست نہیں ہے۔ (متشابہ القرآن و مختلفہ، 1: 72)

فخر رازی متکلمین کی جانب سے ایک اور ممکنہ مفہوم پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "قال المتكلّمون: ہذہ المعيۃ إما بالعلم و إما بالحفظ و الحراسۃ، و على التقديرين فقد انعقد الإجماع على أنہ سبحانہ ليس معنا بالمكان و الجهۃ و الحيز، فإذن قولہ: وَ هُوَ مَعَكُمْ لا بد فيہ من التأويل“.

ترجمہ: ”متکلمین نے کہا ہے کہ یہ معیت یا تو علم کی وجہ سے ہے یا حفظ و نگہبانی کی وجہ سے ہے۔ بہرحال، اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی مکان، جہت اور جگہ کے اعتبار سے ہمارے ساتھ نہیں ہے، لہٰذا اس کے قول، وہ تمہارے ساتھ ہے، میں تاویل ضروری ہے۔“ (تفسیر کبیر، 29: 449)۔

آیت کی یہ غیر وحدت وجودی تفسیر ابتدائی صوفیاء میں بھی رائج تھی۔ قشیری لکھتا ہے: ”وَ ہُوَ مَعَكُمْ‏ أَيْنَ‏ ما كُنْتُمْ‏ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ. وَ ہُوَ مَعَكُمْ بالعلم و القدرۃ“.

ترجمہ: ”وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھ رہا ہے۔ وہ علم اور قدرت کے ذریعے تمہارے ساتھ ہے۔“ (لطائف الاشارات، 3: 534)

میبدی بھی معیت کی تفسیر کو خدا کے علم سے متعلق قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ قدیم و جدید علماء اس پر متفق ہیں: ”وَ ہُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ اتّفق العلماء قديما و حديثا أن معناہ علمہ معكم“۔ (کشف الاسرار، 9: 478) وہ ایک اور جگہ اس آیت کے مفہوم میں قدرت کو بھی شامل کرتا ہے۔ (کشف الاسرار،  9: 283)

حسن زادہ آملی لکھتا ہے: ”نفخت فیہ من روحی آدم کی اپنے رب سے نسبت پر دلیل ہے، ہوبہو ویسی جیسی جزء کو کل اور فرع کو اصل سے ہوتی ہے۔ اور ہر کل اپنے جزء سے لگاؤ رکھتا ہے اور ہر اصل اپنی فرع سے، کہ یوں طرفین میں دوطرفہ رابطہ حاصل ہوتا ہے جس میں ہر ایک دوسرے کا محب بھی ہے اور محبوب بھی۔“ (ممد الہمم، ص 600)

آیت سے وحدت وجودی تفسیر پر تنقید

اس تفسیر پر تنقید کرتے ہوئے درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:

1۔ ابن عربی اور سید حیدر آملی کی مخلوقات کے بارے میں غلو پر مبنی تفسیر کے مطابق اگر خدا اور مخلوقات باہم عینیت رکھتے ہیں اور واقعیت میں صرف خدا کا وجود ہے اور موجودات نمائش اور تجلی، یا حسن زادہ آملی کے واضح تر الفاظ میں، اسی ذات کے اجزاء ہیں، تو ”وہ“ (ہُو) اور ”تم“ (کُم) جیسے الفاظ کا استعمال بے معنی اور غیر حقیقی ہو جاتا ہے۔ ”اُس“ اور ”ہم“ کا جداگانہ وجود ہی نہیں رہتا۔ صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وہ وہی ”وہ“ (ہُو) ہے۔ جب صرف ایک ہی موجود ہو تو اس کا ان چیزوں کے ساتھ ہونا یا نہ ہونا جو سرے سے موجود ہی نہیں ہیں، ایک بے بنیاد بات ہے۔ یہ محمول کو موضوع سے سلب کرنا ہے۔

2۔ ان لوگوں کے گمان کے برعکس جنہوں نے ان دوسروں سے اختلاف کرتے ہوئے اس آیت سے خدا و خلق کی عینیت مراد لی ہے جو معیت کو خدا کے ذاتی احاطے یا ہمراہی کے معنی میں لیتے ہیں لیکن عینیت کی صراحت نہیں کرتے، یہ کہنا ضروری ہے کہ خدا کی ذات کی مخلوق کی ذات کے ساتھ جس طرح کی ہمراہی بھی تصور کی جائے وہ خدا کی ذات کی مخلوق کے ساتھ ذاتی سنخیت اور خدا کو مخلوق کی صفات سے متصف قرار دینے کو لازم بنا دے گی۔ اگر ایک ذات کسی مکان رکھنے والی ذات کے ساتھ اور اس کے قریب ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ذات بھی مکان رکھتی ہے اور ایسی ذات خدا نہیں ہو سکتی، بلکہ وہ بھی مکان کی محتاج ایک مخلوق ہے۔

3۔ یہ تفسیر آیت کے سیاق و سباق سے میل نہیں کھاتی۔ زیر بحث آیت سے پہلے زمین اور آسمان میں داخل ہونے اور نکلنے والی چیزوں کے بارے میں خدا کے علم کا ذکر ہے، اور اس کے بعد بندوں کے اعمال کے بارے میں خدا کی بصیرت کا ذکر ہے۔ اس کے درمیان اچانک خدا کی مخلوقات کے ساتھ عینیت یا ذاتی طور پر ساتھ ہونے کی بحث کا آنا ماقبل و مابعد سے غیر مربوط ہے۔

4۔ ”أَيْنَ ما كُنْتُمْ“ کے الفاظ اس تفسیر کے خلاف ہیں۔ اگر ذاتی معیت ہوتی تو ”جہاں بھی تم ہو“ کا اظہار اضافی ہوتا۔ کیونکہ اگر خدا ذاتی طور پر ہمارا عین ہے یا ہمارے ساتھ ہے، تو یہ تعلق ذاتی اور ہمیشہ کا ہے اور اس کا ہمارے مقام اور جگہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہٰذا ”جہاں بھی تم ہو“ پر زور دینا بے محل ہے۔ لیکن مشہور رائے کے مطابق، جو معیت کو علمی معیت سے تعبیر کرتی ہے، یہ قید بالکل بجا ہے۔ یعنی یہ مت سمجھو کہ اگر تم نے کسی خفیہ جگہ اور دوسروں کی نظروں سے دور کوئی گناہ کیا ہے، تو خدا اس سے واقف نہیں ہے۔ بلکہ یہ جان لو کہ جہاں بھی تم ہو، خدا تمہارے بارے میں مکمل علم اور آگاہی رکھتا ہے، جیسے کوئی ہر جگہ تمہارے ساتھ ہو۔ دوسرے الفاظ میں، تمام مقامات پر زور دینا (جہاں بھی تم ہو) معیت کے ظاہری معنی (وحدت وجود پر مبنی تفسیر) کے برعکس کنائی معنوں (مشہور تفسیر) کے لئے بالکل درست اور مناسب ہے۔

امامیہ روایات میں آیت کی تفسیر

شیخ صدوق نے اپنی کتاب ”توحید“ میں امیرالمؤمنین ؑ سے ایک طویل روایت نقل کی ہے جس میں آپ ؑ نے ایک ایسے شخص کے شبہات کا جواب دیا جو بعض قرآنی آیات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے قرآن کی حقانیت کے بارے میں شک میں تھا۔ اس روایت کے ایک حصے میں امام قرآن کی آیات کی درست تاویل پیش کرتے ہیں۔ ان آیات میں جن کے ظاہری معنی خدا کے مکانی ہونے پر دلالت کرتے ہیں، آپ ؑ آیت ”و ہُو معکم اینما کنتم“ کا ذکر بھی کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں: ”اللہ اس سے بہت بلند ہے کہ اس میں مخلوقات کی صفات پائی جائیں۔“ اس کے بعد آپ ؑ نے عرش پر مستوی ہونے جیسی باتوں کی تفسیر خدا کے علم اور تدبیر کے احاطہ سے کی ہے۔ (توحید صدوق: 265)

یہ تفسیر ظاہر کرتی ہے کہ ایسی آیات کا ظاہری معنی نہیں لینا چاہیے اور انہیں تاویل کی ضرورت ہے۔

”مکارم الاخلاق“ میں بھی رسول خدا ؐ کی ایک حدیث آئی ہے جس میں آپ ؐ نے گناہوں سے منع کرنے اور یہ بیان کرنے کے بعد کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے، قرآنی آیت ”وہ تمہارے ساتھ ہے…“ سے استدلال کیا ہے (مکارم الاخلاق: 454)، جو مفسرین کی تاویل کی صحت کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی خدا کا بندوں کے ساتھ ہونا ان کے بارے میں اس کی مکمل آگاہی کے معنی میں ہے۔

نتیجہ

اس مقالے میں وحدتِ وجود کے اہم ترین قرآنی دلائل کے طور پر جن چار آیات کا جائزہ لیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بھی اس نظریے کی واضح دلالت یا اس کا عرفی مفہوم نہیں رکھتی۔ ان آیات کی مشہور تفاسیر کا خلاصہ یہ ہے:

الف) آیت ”ہُوَ الْأَوَّلُ وَ الْآخِرُ“: اس سے مراد اللہ کی ازلیت اور ابدیت، نیز اس کی قدرت اور علم ہے۔

ب) آیت ”فَأَيْنَما تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللَّہِ“: اس کا تعلق نماز کے قبلہ سے ہے، یا پھر اس سے مراد ہر جگہ اللہ کی علمی، قدرتی، تدبیری اور حکمی موجودگی ہے۔

ج) آیت ”وَ ما رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَ لکِنَّ اللَّهَ رَمى“: اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس خاص واقعے میں ان افعال (مشرکوں کا قتل وغیرہ) کو انجام دینے کی جسمانی اور روحانی طاقت عطا کی، یا اس کی طرف سے الٰہی مدد (فرشتوں کا نزول وغیرہ) شامل تھی۔

د) آیت ”وَ ہُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ ما كُنْتُمْ“: اس سے مراد اللہ کا بندوں کے بارے میں مکمل علم، یا ان پر اس کی قدرت اور تسلط ہے۔

یہ بھی پڑھئے: وحدت الوجود کی اقسام، اس کے بطلان پر دلائل اور فقہی احکام – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی

منابع

1۔ ابن بابویہ، محمد بن علی، (1398ہ)، التوحید، قم، انتشارات اسلامی۔

2۔ ابن بابویہ، محمد بن علی، (1362)، ‏الخصال، علی اکبر غفاری، قم، انتشارات اسلامی۔

3۔ ابن بابویہ، محمد بن علی، (1385ہ)، علل الشرائع، قم، کتابفروشی داوری۔

4۔ ابن شہر آشوب، محمد بن علی، (1410ہ)، متشابہ القرآن و مختلفہ، قم، بیدار۔

5۔ ابن عربی، محمد بن علی، (بے تا)، الفتوحات المکیہ، بیروت، دار الصادر۔

6۔ ابن عربی، محمد بن علی، (1944م)، الفتوحات المکیہ، تصحیح عثمان یحیی، بیروت، دار احیاء التراث العربی۔

7۔ ابن عربی، محمد بن علی، (1946م)، فصوص الحکم، قاہرہ، دار إحیاء الکتب العربیۃ۔

8۔ ابن عربی، محمد بن علی، (2003م)، کتاب المعرفۃ، دمشق، دار التکوین۔

9۔ ابوالفتوح رازی، حسین بن علی، (1408ہ)، روض الجنان و روح الجنان فی تفسیر القرآن، مشہد، بنیاد پژوہش‌ ہای اسلامی۔

10۔ آملی، سید حیدر، (1422ہ)، تفسیر المحیط الأعظم، تہران، وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی۔

11۔ آملی، سید حیدر، (1368)، جامع الأسرار و منبع الأنوار، تہران، علمی فرہنگی۔

12۔ آملی، سید حیدر، (1352)، المقدمات من کتاب نص النصوص، تہران، قسمت ایران شناسی انستیتو ایران و فرانسہ پژوہش‌ ہای علمی در ایران۔

13۔ بقلی شیرازی، روزبہان، (2008م)، تفسیر عرائس البیان فی حقائق القرآن، بیروت، دار الکتب العلمیۃ۔

14۔ تستری، سہل بن عبداللہ، (1423ہ)، تفسیر التستری، تصحیح محمد باسل عیون السود، بیروت، دار الکتب العلمیۃ۔

15۔ ثعلبی نیشاپوری، احمد بن ابراہیم، (1422ہ)، الکشف و البیان عن تفسیر القرآن، بیروت، دار إحیاء التراث العربی۔

16۔ حسن زادہ آملی، حسن، (1378)، ممد الہمم در شرح فصوص الحکم، تہران، وزارت ارشاد اسلامی۔

17۔ حسن زادہ آملی، حسن، (1381)، ہزار و یک کلمہ، قم، بوستان کتاب۔

18۔ دایہ رازی، نجم الدین محمد بن شاہاور، (1322ہ)، مرصاد العباد، تہران، بے نا۔

19۔ رازی، فخر الدین محمد بن عمر، (1420ہ)، التفسیر الکبیر (مفاتیح الغیب)، بیروت، دار احیاء التراث العربی۔

20۔ زمخشری، محمود، (1407ہ)، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، بیروت، دار الکتاب العربی۔

21۔ سید رضی، محمد بن حسین، (1406ہ)، تلخیص البیان فی مجازات القرآن، محمد عبدالغنی حسن، بیروت، دار الاضواء۔

22۔ سید مرتضیٰ، علی بن حسین، (1998م)، امالی المرتضیٰ (غرر الفوائد و درر القلائد)، قاہرہ، دار الفکر العربی۔

23۔ شعرانی، عبدالوہاب، (1418ہ)، الیواقیت و الجواہر فی بیان عقائد الاکابر، بیروت، دار احیاء التراث العربی- مؤسسۃ التاریخ العربی۔

24۔ طبرسی، حسن بن فضل، (1412ہ)، مکارم الاخلاق، قم، شریف رضی۔

25۔ طبرسی، فضل بن حسن، (1372)، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، تہران، ناصر خسرو۔

26۔ طوسی، محمد بن حسن، (بے تا)، التبیان فی تفسیر القرآن، بیروت، دار احیاء التراث العربی۔

27۔ عطار نیشاپوری، فریدالدین، (1298)، اسرار نامہ، تہران، بے تا۔

28۔ عیاشی، محمد بن مسعود، (1380ہ)، التفسیر، تہران، مطبعۃ العلمیہ۔

29۔ عین القضاۃ ہمدانی، عبداللہ بن محمد، (1962م)، شکوی الغریب، پیرس، دار بیبلیون۔

30۔ غزالی، ابو حامد محمد، (1416ہ)، مجموعۃ رسائل الامام الغزالی، بیروت، دار الفکر۔

31۔ قشیری، ابوالقاسم، لطائف الاشارات، (1981م)، قاہرہ، الهيئۃ المصريۃ العامۃ للكتاب۔

32۔ کلینی، محمد بن یعقوب، (1407ہ)، الکافی، علی اکبر غفاری، تہران، دار الکتب الاسلامیۃ۔

33۔ مستملی بخاری، اسماعیل، (1363)، شرح التعرف لمذہب التصوف، تہران، اساطیر۔

34۔ ملاصدرا شیرازی، محمد بن ابراہیم، (1981م)، الحكمۃ المتعالیۃ فی الاسفار العقلیۃ الاربعہ، بیروت، دار احیاء التراث۔

35۔ میبدی، ابوالفضل رشید الدین، (1371)، کشف الأسرار و عدۃ الأبرار، تہران، امیرکبیر۔

36۔ ہجویری، ابوالحسن علی، (1375)، کشف المحجوب، تہران، طہوری۔

37۔ ہمائی، جلال الدین، (1385)، مولوی نامہ، تہران، ہما۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button