متفرق شخصیات

آغا جواد نقوی کی طرف سے صوفیت کی حمایت میں جھوٹ کا استعمال

637 ملاحظات

16 مئی 2023ء کو لاہور میں جناب آغا جواد نقوی صاحب نے درگاہ نقیب الاولیاء آستانہ عالیہ قصور روڈ نقیب آباد شریف کا دورہ کیا اور صوفیوں کی حمایت کا اظہار ان لفظوں میں کیا کہ نفرت کی آگ بجھانے میں آستانوں نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔

آغا جواد نقوی کون ہیں؟

آغا جواد نقوی 1962ء میں ہری پور کے ایک گاؤں ٹھپرہ سیداں میں پیدا ہوئے۔ آپ نے قم میں ابنِ عربی کے انحرافی خیالات حسن زادہ آملی صاحب اور جوادی آملی صاحب کی شاگردی میں اپنائے۔ پاکستان واپسی کے بعد انہوں نے شروع میں بدنام زمانہ صوفی سلسلوں کی اعلانیہ حمایت سے گریز کیا لیکن اب وسیع مالی اور انسانی سرمایہ اکٹھا کرنے کے بعد وہ کھلم کھلا پیر پرستی کی حمایت میں اتر آئے ہیں۔

جناب آغا جواد نقوی ہر کچھ عرصے بعد اپنی متلون مزاجی کے سبب کوئی نہ کوئی انوکھا کام کر کے توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

برصغیر میں صوفیت

کسی سے پوشیدہ نہیں کہ برصغیر میں خانقاہیں اور جوگیوں کے آشرم مریدوں کے روحانی اور مالی استحصال کا مرکز رہے ہیں۔ آج بھی صوفیاء کے دربار جرائم پیشہ لوگوں اور منشیات فروشوں کی آماجگاہیں ہیں۔

برصغیر کا خطہ تصوف کے اندھیرے میں اسلام کے ظہور سے بہت پہلے گرفتار ہو چکا تھا اور اسی وجہ سے قرون وسطی میں اس خطے میں کوئی سنجیدہ علمی کام نہیں ہو سکا ہے۔ اپنشاد اور وید جیسے تصوف کے قدیم ماخذ اور ان کی شروح وادئ سندھ میں ہی لکھی گئیں۔ سکندر کے فتحِ مصر و ایران کے بعد صوفیانہ افکار افلاطون کے خیالات کے ساتھ ملے تو مصر میں فلوطین کا مکتب سامنے آیا جس نے مغرب کو ڈارک ایجز میں دھکیلا۔ اسی کا تسلسل ابنِ عربی کے نظریات ہیں اور فلوطین ہی کی کتاب اثولوجیا کو مسلم دنیا میں صدیوں تک ارسطو کی کتاب سمجھا جاتا رہا۔

دوسری طرف بایزید بسطامی کے مرشد ابوعلی سندھی، مسلمان ہونے سے پہلے سندھ کے ایک ہندو جوگی تھے۔ مسلمانوں میں اموی دور میں خراسان سے جو تصوف کا فتنہ اٹھا، اس کی جڑیں بھی ہندوانہ فلسفے میں تھیں۔

صوفیوں کی دہشتگردی

برصغیر کے صوفی آستانے ظلم و ناانصافی میں بادشاہوں کے سہولت کار رہے ہیں۔ بادشاہوں نے بھی ہمیشہ ان جہالت کدوں کو مددِ معاش کے نام پر وسیع جاگیروں سے نوازا ہے۔ غزنویوں نے ملتان پر جو مظالم ڈھائے وہ ان کے درباری پیروں کی حمایت سے ہوئے۔ لاہور کے معروف صوفی علی ہجویری کا تعلق غزنوی دربار سے تھا۔

اہل تصوف نے شیعوں کے خلاف نفرت انگیز کتب بھی لکھیں جن میں شیخ احمد سرہندی (متوفیٰ 1624ء) کی ”ردِ روافض“ کافی معروف ہے اور اس میں وہ شیعہ کشی کی حمایت اور توجیہ کرتے نظر آتے ہیں۔ جدید دور میں اس قسم کی فکر کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

سال 1947ء کے آغاز میں ہی پنجاب کے صوفی پیروں اور سنی علماء نے ہندوؤں اور سکھوں کے قتل، ان کے گھروں کو آگ لگانے اور انکی خواتین کی عصمت دری کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا نتیجہ قیامِ پاکستان کے فوری بعد بھارت کے حصے کے پنجاب میں مسلمانوں کے قتلِ عام کی صورت میں نکلا۔ یوں صوفیوں کی ہوس نے وسیع پیمانے پر فسادات بھڑکائے اور محتاط اندازوں کے مطابق دس لاکھ افراد لقمۂ اجل بنے اور ایک کروڑ افراد کو سرحد سے آر پار ہجرت کرنا پڑی۔ اس طرح بندوق کی نوک پر پنجاب میں مذہبی تنوع کا خاتمہ ہوا۔

قیامِ پاکستان کے بعد شیعوں کے خلاف سب سے پہلی کتاب 1957ء میں چشتی سلسلے کے صوفی پیر خواجہ قمر الدین سیالوی نے لکھی۔ اس کا عنوان ”مذہبِ شیعہ“ ہے اور اس کا جواب آیت اللہ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو نے ”تنزیہ الامامیہ“کے عنوان سے دیا ہے۔ آپ نے ردِ تصوف پر بھی ایک کتاب ”اقامۃ البرہان علی بطلان التصوف العرفان“ کے عنوان سے لکھی ہے۔

برصغیر میں شیعوں کے خلاف حملوں میں مشغول تکفیری گروہ بھی دیوبندی مسلک کے صوفی سلسلوں سے وابستہ ہیں۔ معروف شیعہ دشمن اور گستاخِ امام زمانہ ؑ مولوی اعظم طارق تصوف میں مولوی یوسف لدھیانوی کا خلیفۂ مجاز تھا۔

خانقاہ سراجیہ اور پیر ذوالفقار نقشبندی جیسے کئی دیوبندی آستانے ایسی تنظیموں کے کارکنان کے اذہان کو مسخ کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ حالیہ سالوں میں تحریکِ لبیک کے کارکنان بھی محبانِ اہلبیت کے خلاف نفرت پھیلانے اور عزاداری پر حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ایسے میں کسی شخص کا شیعہ علماء کے لباس میں جھوٹ بولنا افسوسناک ہے۔

اسے بھی پڑھئے: مولانا نعمت علی سدھو نے جواد نقوی صاحب کی طرف سے صوفیت کی حمایت کو گمراہی قرار دیا

 

صوفیاء کے بارے میں علامہ باقر مجلسی ؒ کا نظریہ

علامہ مجلسی (متوفیٰ 1699ء) ”رسالہٴ لیلیہ“ میں اہلِ تصوف کے بارے میں لکھتے ہیں:

”کچھ اہل زمانہ نے بدعتوں کو اپنا دین بنا رکھا ہے جن سے وہ بخیال خویش خدا کی عبادت کرتے ہیں اور انھوں نے اس کا نام تصوف رکھا ہے۔ ان لوگوں نے رہبانیت کو اپنی عادت و عبادت قرار دے دیا ہے، حالانکہ پیغمبرِ اسلام ؐ نے اس کی ممانعت فرمائی ہے اور شادی بیاہ کرنے، لوگوں سے تعلقات و مراسم بڑھانے، جمعہ و جماعت میں حاضر ہونے، اہلِ ایمان کی مجالس و محافل میں شرکت کرنے، ایک دوسرے کو ہدایت کرنے، احکام خداوندی پڑھنے اور پڑھانے، بیماروں کی مزاج پرسی کرنے، جنازوں کی مشایعت کرنے، اہلِ ایمان کی ملاقات وزیارت کرنے، ان کی حاجت برآری میں کدو کاوش کرنے، نیکی کا حکم دینے اور بُرائی سے روکنے اور حدود خداوندی جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔ لیکن ان کی خود ساختہ رہبانیت کا لازمی نتیجہ ان تمام فرائض و مستحبات کا ترک کرنا ہے۔

اس گروہ نے رہبانیت میں کچھ خود ساختہ عبادات (اور اوراد و وظائف) بھی اختراع کر رکھے ہیں۔ منجملہ انکے ایک ذکرِ خفی ہے۔ یہ ان کا ایک خاص عمل ہے جو مخصوص ہیئت و کیفیت کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کے متعلق نہ کوئی نص وارد ہے اور نہ ہی قرآن وسنت میں اس کا کہیں کوئی نام و نشان پایا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی ہی چیز کو بلا شک و شبہ بدعت کہا جاتا ہے جو کہ حرام ہے۔ جناب رسولِ خدا ؐ فرماتے ہیں: ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا راستہ سیدھا جہنم کی طرف جاتا ہے۔

دوسرا ذکرِ جلی ہے جس میں یہ لوگ اشعار گاتے اور گدھے کی طرح ہینگتے ہیں۔ اور کفارِ مکہ کی طرح سیٹیاں اور تالیاں بجا کر خدا کی عبادت کرتے ہیں۔ ان کا گمان ہے کہ ان دو خود ساختہ ذکروں کے سوا اللہ کی کوئی عبادت ہی نہیں ہے۔ ان اذکار کے علاوہ وہ تمام نوافل وسنن کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ہاں البتہ جس طرح کوا ٹھونگے مارتا ہے اس طرح برائے نام صرف نمازِ فریضہ ادا کر لیتے ہیں۔

اور اگر ان کو علماء کا خوف دامن گیر نہ ہو تو یہ نمازِ فریضہ بھی ترک کر دیں۔ پھر یہ لوگ، کہ خدا ان پر لعنت کرے، صرف انہی بدعتوں پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ اصولِ دین میں تحریف و تغییر بھی کرتے ہیں اور وحدۃ الوجود کا باطل عقیدہ رکھتے ہیں۔ اس کے جو معنی اس زمانہ میں مشہور ہیں اور اس گروہ کے بزرگوں سے سننے میں آئے ہیں، وہ سراسر کفر و شرک ہے۔ نیز یہ فرقہ عقیدۂ جبر اور تمام عبادات کے ساقط ہونے اور اس قسم کے دوسرے بعض باطل عقائد و نظریات کا قائل ہے۔

اے برادرانِ اسلامی، ڈرو ان سے، اور ان شیطانوں کے وسوسوں اور شبہوں سے اپنے دین و ایمان کو بچاؤ۔ اور خیال رکھو، مبادا کہیں ان کے ظاہری اور مصنوعی اخلاق و اطوار سے، جو جاہلوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں، کہیں دھوکہ نہ کھا جانا۔“ [1]

آگے چل کر فرماتے ہیں:

”صوفیوں کی بد اخلاقی کا یہ حال ہے کہ کوئی ان سے بات نہیں کر سکتا۔ ان میں تکبر اور اکڑ اتنی ہے کہ خود کو انبیاؑ سے بھی بلند سمجھتے ہیں۔ یہ سب کو کمتر سمجھتے اور لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ یہی زوال ان کی باقی اقدار پر بھی آیا ہے لیکن اس کا احساس اُسے ہوتا ہے جو اِن کے ساتھ کچھ وقت گزار لے۔“[2]

حوالہ جات

1. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو، اعتقاداتِ امامیہ، ترجمہ رسالۂ لیلیہ، صفحات 32 تا 36، مکتبۃ السبطین، سرگودھا، 2006ء۔

2. علامہ باقر مجلسی، ”العقائد“، صفحہ 100، مؤسسۃ الہدیٰ للنشر والتوزیع، تہران، 1999ء۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button