مقالات

ملا صدرا کے نظریۂ تشکیکِ وجود کا رد – ڈاکٹر حسین عشاقی

129 ملاحظات

ملا صدرا کے فلسفے کی بنیادوں میں سے ایک تشکیکِ وجود کا مفروضہ ہے، جس کے مطابق وجود اصل میں ایک اکائی یا ایک واقعیتِ یگانہ ہے جس کے مختلف درجات ہیں۔ اس طرح کہ ان درجات میں جو فرق ہے وہی ان کے باہم شریک ہونے کا سبب بھی ہے۔ ہماری رائے میں اگرچہ یہ نقطۂ نظر ابنِ سینا کے نقطۂ نظر سے مختلف ہے، لیکن اصلِ مدعا میں بھی اور اس کے دلائل میں بھی بہت سی خامیاں موجود ہیں جن کی وجہ سے اسے قبول کرنا مشکل ہے۔ اس مقالے میں اس دعوے میں موجود چھ کمزوریوں کو سامنے لایا گیا ہے۔

وجود کی حقیقت اور اس میں تشکیکِ خاصی کا تصور

مشائی فلسفیوں کے برخلاف، جو وجودات کو حقیقت میں ایک دوسرے سے مختلف سمجھتے تھے، ملا صدرا کے مکتب کے فلسفیوں کی نظر میں وجودات متنوع اور گوناگوں نہیں ہیں۔ بلکہ حقیقی وجود اصل میں ایک ہی ہے، جس کی سب جہات ایک ہی سنخ سے ہیں۔ (1) نیز وجود کی یک گونہ حقیقت ، وحدتِ سنخی کے علاوہ وحدتِ شخصی بھی رکھتی ہے۔ (2) یعنی ہستی کے پورے دائرہ کار میں ایک سے زیادہ انفرادی حقیقت نہیں ہے، اگرچہ یہ ذاتی اکائی جداگانہ درجات رکھتی ہے۔ (3) اس کا اعلیٰ ترین درجہ وجودِ واجب بالذات ہے، اور باقی مختلف مراتب و درجات رکھنے والے وجودِ حق کے تنزلات ہیں جو امکانی صورتوں اور جلووں میں ظاہر ہوئے ہیں۔ (4)

اس لیے صدرائی فلسفیوں کی نظر میں وجود ایک یک گونہ حقیقت اور ایک واحد شخصی واقعیت ہے، جو وحدانیت کے ساتھ ساتھ متعدد درجات رکھتی ہے اور اس طرح کہ ان درجات میں جو ما بہ الامتیاز ہے، عین وہی ما بہ الاشتراک بھی ہے۔ اس قسم کی تشکیک کو تشکیکِ خاصی کہا جاتا ہے، (5) کہ وجود ایک ہونے کے ساتھ ساتھ ایسے مراتب کے حساب سے متکثر ہے کہ ان میں جو چیز اشتراک کا سبب ہے وہی ان کو باہم جدا بھی کرتی ہے۔ البتہ تشکیک کا تصور صدرائی فلاسفہ کی بعض تحریروں میں دیگر صورتوں میں بھی آیا ہے جن پر الگ سے مقالہ جات لکھے جائیں گے۔

[عرضِ مترجم: تشکیکِ وجود کو بیان کرتے ہوئے ملا صدرا وغیرہ نے روشنی کی مثال دی ہے (اسفار اربعہ، جلد 1، صفحہ 70)۔ روشنی چونکہ اپنے ذرات، photons، سے مرکب ہوتی ہے لہذا اس میں شدت و ضعف ہوتا ہے لیکن اس کی ماہیت میں یہ تشکیک (intensity) ذرات کی تعداد کے مربع کے راست متناسب ہوتی ہے۔ یہی بات رنگ میں تشکیک کا بھی سبب ہے۔ حرکت کی تیزی و سستی بھی اعداد کی شکل میں ماپی جاتی ہے۔ ان سب کو بسیط سمجھنا درست نہیں ہے اور یہ مثالیں قیاس مع الفارق ہیں۔ تشکیک ہمیشہ ترکیب کے ساتھ ہوتی ہے۔]

 

حقیقتِ وجود میں تشکیک کے مفروضے پر تنقید

ملا صدرا کے مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے فلسفیوں کے ہاں وجود کی حقیقت میں تشکیکِ خاصی کی بابت جو مفروضے پائے جاتے ہیں ان میں ایسی الجھنیں اور مسائل ہیں کہ ان کو درست سمجھنا مشکل، بلکہ محال ہے۔ البتہ یہ مسائل دو سمتوں سے آتے ہیں، ایک اصل مدعا میں، قطع نظر اس کے کہ اس کے حق میں کیا دلائل دیئے گئے ہیں۔ دوسرا اس دعوے کے دلائل کے ناتمام ہونے کی وجہ سے، اور اس مقالے میں ہم صرف پہلی قسم کی الجھنوں کی وضاحت کریں گے اور دلائل پر بحث کو کسی اور موقعے کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔

وجود میں تشکیکِ خاصی کے دعوے پر اعتراضات

پہلا اعتراض: مراتبِ نازلہ کی مرتبۂ واجب الوجودی سے عدمِ مسانخت

’حقیقتِ وجود‘ میں تشکیک جڑ سے ہی محال ہے کیونکہ اگر وجود کی حقیقت میں تشکیک درست ہو تو اس تنزل کی وجہ سے کہ جو وجود کے تنزل یافتہ مراتب واجب الوجود کی نسبت سے رکھتے ہیں، ان سے واجب الوجودی مرتبہ سلب ہونا چاہیئے۔ دوسرے الفاظ میں وجود کے تنزل یافتہ مراتب اپنے مرتبے کے حساب سے وہی مرتبۂ واجب الوجودی نہیں ہیں۔ ایک طرف یہ کہ ہر فرض کئے گئے موضوع میں ارتفاع نقیضین محال ہے۔ جیسا کہ واضح ہے کہ واجب الوجود والے مرتبے کا نقیض عدم کی سنخ سے ہے اور ایسی حقیقت ہے جو عدمی ہے۔ چونکہ نقیضین میں سے ہر ایک وجود کی سنخ سے نہیں ہو سکتے، لہٰذا اس کے نقیض کو لازمی طور پر اَعدام میں سے ہونا چاہیئے۔ اس بنیاد پر کہ مفروض کے تنزل یافتہ مراتب چونکہ اس عدم کے حقیقی اور بالذات مصداق ہیں، لازم ہے کہ وہ سبھی عدم کی سنخ سے ہوں۔ اور اس صورت میں تشکیک ممکن نہ رہے گی کیونکہ جب سبھی تنزل یافتہ مراتب عدم کی سنخ سے ہوں اور اس عدم کا حقیقی اور بالذات مصداق ہوں، تو پھر ان کو وجود کے تشکیکی مراتب میں قرار دینا ممکن نہیں ہو گا کیوں کہ وہ وجود کی سنخ سے ہی نہیں ہیں۔ وجود اور عدم ایک سنخ سے نہیں ہو سکتے، جبکہ کسی تشکیکی حقیقت کے سبھی مراتب کو ایک ہی سنخ سے ہونا چاہیئے۔ پس حقیقتِ وجود میں تشکیک باطل ہے، اور حقیقتِ وجود کو بصورتِ تشکیکی اور متعدد مراتب کے ساتھ متکثر نہیں کہا جا سکتا۔

ایک شبہے کا جواب

شاید یہ کہا جائے کہ مرتبۂ واجب الوجودی کا نقیض تو سنخِ عدم سے ہے لیکن ایک چیز کا عدم دوسری چیز کے وجود کے ساتھ متحد المصداق ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ سفیدی کا عدم سیاہی کے وجود کے ساتھ متحد المصداق ہے۔ اس بنیاد پر وجود کا جو مرتبہ واجب الوجود ہے، اس کے نقیض کے عدم سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ سبھی مراتب عدم کی سنخ سے ہیں۔

اس کا جواب یہ ہے کہ واجب الوجودی درجے کا نقیض وجود سے بہرہ مند ہو ہی نہیں سکتا۔ بلکہ وہ صرف عدم اور خالص نیستی ہے۔ کیوں کہ اگر مرتبۂ واجب الوجودی کا نقیض کسی قسم کا وجود رکھتا ہو تو ویسا وجود، واجب کا معلول ہونا لازم ہے کیوں کہ سبھی موجودات اپنے وجود میں وجودِ واجب سے استناد رکھتی ہیں۔ لہٰذا اگر واجب الوجود کا حقیقی اور بالذات نقیض ایک طرح کا وجود ہو تو وہ واجب الوجود کا معلول ہو گا۔ جبکہ کسی چیز کا نقیض اس کا معلول نہیں ہو سکتا کیوں کہ علت اور معلول ہونے کے معاملے میں اکٹھے ہوتے ہیں اور اجتماعِ نقیضین محال ہے۔ اس لئے واجب الوجود کا نقیض، وجود کا کوئی مرتبہ نہیں بلکہ عدمِ محض اور خالص نیستی ہے۔ عدم کسی وجود کے ساتھ ایک مصداق نہیں رکھ سکتا، ورنہ تناقض لازم ہو گا۔ لہٰذا اس عدمِ محض کا جو بھی مصداق ہو، اسے ہستی سے بے بہرہ اور شیئیتِ وجودی سے محروم ہونا چاہئیے۔ایسی چیز وجود کی سنخ سے نہیں ہو سکتی کہ اس میں تشکیک کا امکان وقوع پذیر ہو سکے۔

دوسرے الفاظ میں چونکہ مرتبۂ واجب الوجودی اپنی ذات میں واجب الوجود ہے، اس کا نقیض ذاتاً محال اور ممتنع بالذات ہو گا۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ اگر نقیضین میں سے ایک کے واقع ہونے کا امکان ہو تو دوسرے نقیض کے وجود کی ضرورت نہیں رہتی کیوں کہ اگر دوسرا نقیض ضرورتِ وجود رکھتا ہو تو لازم ہو گا کہ نقیضِ اول کے وقوع کے ساتھ ساتھ، کہ جو ممکن الوقوع ہے، دوسرا نقیض بھی کہ جس کا ہونا ضروری ہے، وہ بھی وقوع رکھتا ہو۔ اس بنا پر نقیضین وقوع میں اجتماع رکھتے ہوں گے، جو کہ محال ہے۔ پس ’اگر نقیضِ اول ممکن الوقوع ہو تو نقیضِ دوم ضروری الوجود نہیں ہو گا‘۔ اس طرح یہاں چونکہ دوسرا نقیض، یعنی واجب الوجود، ضروری الوجود ہے، لہٰذا پہلا نقیض ممکن الوقوع نہیں بلکہ ممتنع بالذات ہے۔ پس مرتبۂ واجب الوجودی کا نقیض محالِ ذاتی اور ممتنع بالذات ہے۔ اوپر واضح کیا جا چکا ہے کہ وجود کے سبھی تنزل یافتہ مراتب، واجب الوجود کے نقیض ہونے کا مصداق ہیں۔ پس یہ سبھی مراتب ’ممتنع الوجود بالذات‘ کے مصادیق ہیں۔ اور ایسا وجود جو ممتنع بالذات ہو، وہ وجود ہی نہیں رکھتا تو حقیقتِ وجود کا ایک مرتبہ کیسے ہو سکتا ہے؟ پس وجود میں تشکیک نہ صرف منتفی، بلکہ محال ہے، کیوں کہ مرتبۂ اعلیٰ اور باقی مراتب میں سنخیت نہیں پائی جاتی۔

دوسرا اعتراض: تشکیک کی بنیاد پر یا مراتبِ وجودِ امکانی یا مرتبۂ وجودِ واجبی کا متناقض ہونا

اگر حقیقتِ وجود ایک تشکیکی حقیقت ہو کہ اس میں ما بہ الامتیاز ہی ما بہ الاشتراک ہو، تو اس صورت میں ما بہ الاشتراک کے بارے میں دو احتمال قابلِ تصور ہیں کہ یا تو وہ ضروری الوجود ہے، یا ضروری الوجود نہیں ہے۔ کیوں کہ مراتبِ وجود میں ما بہ الاشتراک کسی خصوصیت اور قید کا پابند نہیں بلکہ ہر خصوصیت اور قید سے لا بشرط ہے، کہ بصورت دیگر ما بہ الاشتراک نہیں ہو سکتا۔

اگر ما بہ الاشتراک ضروری الوجود ہو تو لازم ہے کہ اس کا ضروری ہونا بالذات ہو، نہ بالغیر؛ یعنی ما بہ الاشتراک اپنے آپ میں اور علت کی دخالت کے بغیر ضروری الوجود ہو۔ کیوں کہ فرض یہ کیا گیا ہے کہ ما بہ الاشتراک اگرچہ کسی خصوصیت یا قید کا پابند نہیں لیکن ضروری الوجود ہے۔ اس بنیاد پر اگر وہ علت کی ہمراہی کا پابند بھی نہ ہو پھر بھی ضروری الوجود ہے۔ پس اس کی ضرورت بالذات ہے، اور علت کے قبضے میں نہیں، کیوں کہ اگر اس کے وجود کی ضرورت علت کے پاس گروی ہوتی تو وہ ضرورت علت کی ہمراہی کی صورت کی پابند ہوتی، جبکہ ایسا نہیں ہے۔

پس روشن ہوا کہ پہلے مفروضے کا لازمہ یہ ہے کہ ما بہ الاشتراک خود بخود، کسی علت کی مداخلت کے بغیر، ضروری الوجود ہو اور یہ بات امکانی وجود کے مراتب میں تناقض کا سبب بنتی ہے۔ کیوں کہ وجودِ امکانی ایک طرف تو خود بخود ضروری الوجود نہیں ہے بلکہ اسکی ضرورت علت کے واسطے سے ہے، اور دوسری جانب چونکہ مراتب میں ما بہ الاشتراک کا حکم سبھی مراتب، بشمول مرتبۂ وجودِ امکانی، میں جاری و ساری ہے، ہر وجود امکانی کو خود بخود اور کسی علت کی دخالت کے بغیر ضروری الوجود ہونا چاہئیے۔ یہاں سے مراتبِ وجودِ امکانی کو تناقض کا سامنا ہوتا ہے کہ وجودِ امکانی خود بخود ضروری الوجود ہو بھی اور نہ بھی ہو!

اور اگر مراتبِ وجود میں ما بہ الاشتراک، کہ جو کسی خصوصیت اور قید میں مقید نہیں ہے، ضروری الوجود نہ ہو تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس کے وجود کی ضرورت کا نہ ہونا بالغیر نہ ہو بلکہ بالذات ہو۔ یعنی مابہ الاشتراک کا ہونا اپنے آپ میں، کسی بیگانے کی دخالت کے بغیر، ضروری نہ ہو۔ کیوں کہ فرض یہ کیا گیا ہے کہ ما بہ الاشتراک اگرچہ کسی خصوصیت اور قید کا پابند نہیں، اس کا وجود فاقدِ ضرورت ہے۔ پس وہ حتیٰ اگر عدم علت کا مقید بھی نہ ہو، پھر بھی فاقدِ ضرورتِ وجود ہے اور اس کا ہونا لازمی نہیں ہے۔

اس بنا پر اس میں اپنے وجود کی ضرورت کا فقدان خود بخود ہے اور غیر سے مستند نہیں ہے۔ چونکہ اگر غیر کی دخالت کے ساتھ ہوتا تو فقدانِ ضرورتِ وجود کسی شرط کے تحقق کا مقید ہوتا، مثلاً علتِ وجود کا نہ ہونا، لیکن ایسا نہیں ہے۔

پس واضح ہوا کہ دوسرے مفروضے کا لازمہ یہ ہے کہ ما بہ الاشتراک خود بخود، کسی غیر کی مداخلت کے بغیر، فاقدِ ضرورتِ وجود ہو اور اس کا ہونا لازمی نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فقدانِ ضرورت ما بہ الاشتراک کا لازمہ ہے۔ کیوں کہ ما بہ الاشتراک کی ذات کو یوں وضع کرنا کہ کسی خصوصیت اور قید کی پابند نہ ہو، اس بات کیلئے کافی ہے کہ وہ فقدانِ ضرورت کی صفت رکھتی ہو۔ پس ہر حال میں ما بہ الاشتراک فقدانِ ضرورت سے متصف ہے۔ دوسری چیزوں کا ہونا یا نہ ہونا اس کے وجود کے فقدانِ ضرورت پر کوئی اثر نہیں ڈالتا۔

یہ چیز خود مرتبۂ وجودِ واجب میں تناقض کے واقع ہونے کو مستلزم ہے۔ کیوں کہ وجودِ واجب ایک طرف خود بخود ضروری الوجود ہے اور دوسری طرف چونکہ ضرورتِ وجود کا فقدان ما بہ الاشتراک کا لازمہ ہے، چنانچہ یہ لازم ہو جاتا ہے کہ مرتبۂ وجودِ واجب اپنے آپ میں ضرورتِ وجود نہ رکھتا ہو۔ اس بنا پر مرتبۂ واجب الوجودی کیلئے تناقض پیدا ہوتا ہے کہ ضرورت بالذات رکھتا بھی ہو اور نہ بھی رکھتا ہو۔ پس وجود میں تشکیکِ خاصی کا تصور تناقض کا باعث ہے، یا وہ تناقض مراتبِ وجودِ امکانی میں ہو یا مرتبۂ وجودِ واجب میں ہو۔ یوں یہ تصور باطل ثابت ہوا۔

ایک شبہے کی وضاحت

ممکن ہے اوپر بیان کئے گئے نکات پر یوں اعتراض کیا جائے کہ ہم پہلی بات تو مان لیتے ہیں کہ ما بہ الاشتراک خود بخود اور کسی علت کی مداخلت کے بغیر ضروری الوجود ہے، لیکن یہ نہیں مانتے کہ ما بہ الاشتراک کے ضروری الوجود ہونے کا حکم مرتبۂ وجودِ امکانی میں بھی جاری و ساری ہے تاکہ اس کا ضروری الوجود نہ ہونا تناقض سے بچا لے۔ اور اس بات کی وجہ، کہ ما بہ اشتراک کے ضروری الوجود ہونے کا حکم حقیقت میں وجودِ امکانی میں سرایت نہیں کرتا، یہ ہے کہ ہر حکم کا حقیقی موضوع اس حکم کا ملاک ہوتا ہے۔ یہاں فرض یہ ہے کہ ضرورتِ وجود کے حکم کا موضوع ما بہ الاشتراک ہے نہ اس سے اخص چیز، اس بنا پر اگر ما بہ الاشتراک کے حکم کو کسی فردِ اخص سے نسبت دی جائے تو اس لحاظ سے کہ فردی خصوصیت حکم کے ملاک میں دخالت نہیں رکھتی، یہ نسبت مجازی اور بالعرض ہو گی۔

مثلاً اگر کہا جائے کہ ہر قائمہ زاویہ مثلث کے زاویوں کا مجموعہ 180 ہوتا ہے، تو یہ نسبت مجازی اور بالعرض ہو گی کیوں کہ یہ حکم مثلث کے بارے میں ہے اور مثلث کا قائمۃ الزاویہ ہونا اس حکم میں دخالت نہیں رکھتا۔ پس یہاں حکم کو ایک ایسے موضوع سے نسبت دی گئی ہے جو حقیقی طور پر حکم کا موضوع نہیں ہے۔ یوں یہ حکم مجازی اور بالعرض ہو گا، حقیقی نہیں۔ ہماری بحث میں بھی مسئلہ ایسا ہی ہے۔ وجودِ امکانی کا ذاتی طور پر ضروری ہونا ایک مجازی اور بالعرض حکم ہے۔ کیوں کہ اس کا حقیقی موضوع ما بہ الاشتراک ہے، نہ وجودِ امکانی، اور واضح ہے کہ مجازی ضرورت کا ہونا اور حقیقی ضرورت کا نہ ہونا ایک ساتھ ہوں تو کسی تناقض کا موجب نہیں بنتے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ فرضیے کے مطابق چونکہ تشکیکِ خاصی میں ما بہ الامتیاز عین ما بہ الاشتراک ہے، فردِ اخص عیناً ما بہ الاشتراک کا ملاک رکھتا ہے۔ اس رو سے فردِ اخص پر اسی ملاک سے حقیقت میں ما بہ الاشتراک کا حکم ہی لگے گا۔ یہ نکتہ وجودِ امکانی کے ضروری الوجود ہونے سے ملے تو تناقض پیدا ہوتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں اگر وجودِ امکانی کسی قید اور شرط کا مقید نہ ہو تو یا تو ضرورتِ ذاتی رکھتا ہے، یا نہیں رکھتا۔ لیکن دوسرا احتمال باطل ہے، چونکہ بنیادی مفروضے کے خلاف جاتا ہے یعنی تشکیکِ وجود کی نفی کا باعث بنتا ہے۔ کیوں کہ اگر وجودِ امکانی فاقدِ ضرورتِ ذاتی ہو تو یہ ضرورتِ ذاتی کا نہ ہونا اس کے امکانی وجود کے لوازم میں سے ہونا چاہئیے۔ کیوں کہ فرض یہ کیا گیا ہے کہ وجود امکانی کو ہر قسم کے غیر کے تقید کی ضرورت سے بے نیاز قرار دینا ہی اس کے ذاتاً ضروری نہ ہونے کیلئے کافی ہے۔ اس سے یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وجودِ امکانی مراتب کے مابین ما بہ الاشتراک کی سنخ سے نہ ہو کیوں کہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ ما بہ الاشتراک کا لازمہ ضرورتِ ذاتی ہے اور وجودِ امکانی کا لازمہ عدمِ ضرورتِ ذاتی ہے۔ لازم میں اختلاف ملزوم کی حقیقت اور ذات میں اختلاف کو ضروری بنا دیتا ہے۔ کیوں کہ اگر دو ملزوم ایک سنخ سے ہوں اور ان کی حقیقت ایک ہو تو یہ ممکن نہیں کہ وہ دو متناقض لازمے رکھتے ہوں۔

پس اگر وجودِ امکانی ضرورتِ ذاتی نہ رکھتا ہو تو ما بہ الاشتراک کی سنخ سے نہیں ہو سکتا، اور یہ وجود کے تشکیکی ہونے کے مفروضے کو باطل کر دیتا ہے۔لہٰذا اس مفروضے کے تحفظ کیلئے وجودِ امکانی کو ضروری الوجود قرار دینا پڑے گا اور یہ بات وجودِ امکانی کے ضروری الوجود نہ ہونے کے ساتھ تناقض میں ہے۔ پس مرتبۂ وجودِ امکانی کا تناقض آمیز ہونا باقی رہے گا۔

ایک اور شبہے کی وضاحت

ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ ہم اوپر بیان کئے گئے مطالب میں آنے والے دو فرضیوں میں سے دوسرے کو قبول کرتے ہیں اور مانتے ہیں کہ ما بہ الاشتراک خود بخود اور کسی علت کی دخالت کے بغیر ضروری الوجود نہ ہو۔ لیکن اس کو نہیں مانتے کہ ما بہ الاشتراک کا ضروری الوجود نہ ہونا، واجب الوجود کے ضروری الوجود نہ ہونے کو لازمی بنا دے تا کہ اس کا ضروری الوجود ہونا تناقض کا سبب ہو۔ کیوں کہ ممکن ہے کہ حکم مابہ الاشتراک کے بجائے فردِ اخص پر لاگو ہو۔ مثلاً یہ کہ حیوان، حیوانات کی انواع میں ما بہ الاشتراک کے طور پر محکوم بہ ضحک نہیں، لیکن انسان فردِ اخص کے طور پر محکوم بہ ضحک ہے۔

جواب یہ ہے کہ وجودِ واجب دو حیثیتوں، ما بہ الاشتراک اور ما بہ الامتیاز، کا مرکب نہیں ہے بلکہ اس کی ذات کی تمام حقیقت وہی وجود تشکیل دے رہا ہے کہ جو سبھی وجودات میں ما بہ الاشتراک ہے۔ فرض یہ ہے کہ ما بہ الاشتراک خود بخود اور کسی علت کی مداخلت کے بغیر ضروری الوجود نہیں ہے لیکن دوسری طرف وجودِ واجب خود بخود اور بدونِ دخالتِ علت ضروری الوجود ہے۔ پس ایک وجود کسی اضافی حیثیت کے بغیر ضرورتِ ذاتی رکھتا بھی ہو اور نہ بھی رکھتا ہو تو یہ کھلا تناقض ہے۔ لیکن انسان اور حیوان کی مثال میں معاملہ ایسا نہیں ہے کیوں کہ انسان میں حیوانیت سے تمیز کرنے والی چیز ناطق ہونا ہے جو ما بہ الاشتراک میں اضافہ کرتی ہے اور یہ موضوع اور حکم میں اختلاف کا سبب بن کر تناقض کو دور کر دیتی ہے۔

تیسرا اعتراض: تشکیکِ وجود کے ساتھ واجب الوجود کے تعدد کا لازم آنا

وجود کے مراتب میں جو ما بہ الاشتراک ہو گا، اس کے بارے یہ تین احتمال ہی دئیے جا سکتے ہیں: یا یہ خود بخود ضرورتِ وجود رکھتا ہے یا نہیں رکھتا، اگر خود بخود ضرورتِ وجود نہیں رکھتا تو یا خود بخود ضرورتِ عدم رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔ پہلی صورت میں ما بہ الاشتراک واجب الوجود بالذات ہے، دوسری صورت میں ممتنع الوجود بالذات ہے اور تیسری صورت میں ممکن الوجود بالذات ہے۔

ان تین احتمالات میں دوسری صورت باطل ہے کیوں کہ اگر مراتبِ وجودی میں مابہ الاشتراک ممتنع الوجود بالذات ہو تو لازم آتا ہے کہ کوئی وجود، حتیٰ واجب الوجود بھی موجود نہ ہو۔ پس اس احتمال کا باطل ہونا آشکار ہے۔ تیسری صورت بھی باطل ہے کیوں کہ اگر مابہ الاشتراک ممکن الوجود بالذات ہو تو لازم آتا ہے کہ واجب الوجود بالذات بھی ممکن الوجود بالذات ہو۔ کیوں کہ واجب الوجود دو حیثیتوں، ما بہ الاشتراک اور ما بہ الامتیاز، کا مرکب نہیں ہو سکتا۔ بلکہ اسکی تمام حقیقتِ ذات کو موجودات میں مابہ الاشتراک کو ہی تشکیل دینا چاہیے جو ”وجود“ ہی ہو گا۔ اب چونکہ مفروضہ یہ ہے کہ یہ ما بہ الاشتراک ذاتی طور پر ممکن الوجود ہے، تو واجب الوجود بالذات کو ممکن الوجود بالذات ہونا چاہئے، جو کہ محال ہے۔

دوسرے اور تیسرے احتمال کے باطل ہونے کے بعد یہ ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ حقیقتِ وجود میں تشکیکِ خاصی کے تحقق پا جانے کی صورت میں سبھی وجودات کا مابہ الاشتراک ذاتاً واجب الوجود ہونا چاہیے۔ اب یہاں دو احتمالات قابلِ تصور ہیں: یا تو یہ مابہ الاشتراک متعدد مراتبِ وجودی میں سے ہر ایک میں عینِ ما بہ الامتیاز ہے، یا نہیں ہے۔ اگر ما بہ الاشتراک عین ما بہ الامتیاز نہ ہو تو وجود کی تشکیکِ خاصی محقق نہیں ہو گی کیوں کہ اس کی بنیاد پر ما بہ الاشتراک کو عین ما بہ الامتیاز ہونا چاہئیے۔ یوں وجود کو ایک حقیقتِ تشکیکی قرار دینے والا مفروضہ باطل ہو جاتا ہے۔

دوسری صورت میں اگر وجود کے متعدد مراتب میں ما بہ الاشتراک عین ما بہ الامتیاز بھی ہو تو واجب الوجود کا تعدد لازم آتا ہے۔ کیوں کہ مراتب میں ما بہ الاشتراک، جو کہ واجب الوجود بالذات فرض کیا گیا ہے، مابہ الامتیاز کے متعدد مصادیق کا عین ہونے کی وجہ سے ان پر صادق آتا ہے۔ پس ما بہ الامتیاز کا ہر ایک مصداق ذاتاً واجب الوجود کا بھی مصداق ہو گا۔ لہٰذا ہر ایک ما بہ الامتیاز کے لیے ایک واجب الوجود تحقق پائے گا۔ اس بنیاد پر وجود کی تشکیکِ خاصی کا لازمہ واجب الوجود کا تعدد اور تکثر ہے، جو کہ ناقابلِ قبول اور باطل ہے۔ پس وجود کی تشکیکِ خاصی بھی باطل ہے۔

یہ بھی پڑھئے: وحدتِ عددی کی نفی اور توحید کی معرفت – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

چوتھا اعتراض: وجودِ امکانی کے مراتب میں ما بہ الاشتراک اور ما بہ الامتیاز کا یکساں نہ ہونا

پچھلے اعتراض کے بیان میں یہ نکتہ واضح ہو گیا ہے کہ مراتبِ وجود میں ما بہ الاشتراک کے لیے لازم ہے کہ واجب الوجود ہو، لیکن ایسا ہونا ما بہ الامتیاز کیلئے صحیح نہیں ہو گا۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ مراتبِ امکانی کا ما بہ الامتیاز یا خود بخود ضرورتِ وجود رکھتا ہے، یا نہیں رکھتا۔ اگر خود بخود ضرورتِ وجود نہیں رکھتا تو یا خود بخود ضرورتِ عدم رکھتا ہے یا نہیں رکھتا۔ پہلی صورت میں ما بہ الامتیاز ذاتاً واجب الوجود ہے، دوسری صورت میں ذاتاً ممتنع الوجود ہے اور تیسری صورت میں ذاتاً ممکن الوجود ہے۔

ان تین صورتوں میں پہلا احتمال محال اور باطل ہے کیوں کہ وجوداتِ امکانی کا ما بہ الامتیاز مراتبِ امکانی کی تعداد کے برابر متعدد ہے۔ اس بنیاد پر اگر وجودِ امکانی کا ما بہ الامتیاز اپنی ذات میں واجب الوجود ہو تو اس کا لازمہ واجب الوجود کا متعدد ہونا ہے کہ جو واجب الوجود کی توحیدِ ذاتی کے براہین کی روشنی میں باطل اور غیر قابلِ قبول ہے۔ اب پیچھے دوسرے دو احتمالات رہ جاتے ہیں۔ یعنی مراتبِ وجودِ امکانی کا ما بہ الامتیاز یا تو ممتنع الوجود بالذات ہو یا ممکن الوجود بالذات، اور ہر دو صورت میں ما بہ الامتیاز عین ما بہ الاشتراک نہیں ہو سکتا، کیوں کہ ما بہ الاشتراک ذاتاً واجب الوجود ہے۔

اس کی توضیح یہ ہے کہ ما بہ الاشتراک اور ما بہ الامتیاز کی عینیت کی صورت میں کم از کم ان دونوں کے بیچ سنخیت اور یکسانی ہونی چاہیے۔ لیکن ان کے لوازم کے اختلاف کی وجہ سے ان میں سنخیت اور ہم آہنگی منتفی ہے۔ در حقیقت وجوبِ ذاتی کی باقی دو، یعنی امکانِ ذاتی اور امتناعِ ذاتی، کے ساتھ مکمل نا سازگاری ہے۔ لوازم میں مکمل جدائی ملزومات میں مکمل جدائی اور اختلاف کو ضروری بنا دیتی ہے۔ اگر ان میں سنخیت ہوتی تو ان کے لوازم میں اختلاف اور جدا گانگی نہ ہوتی۔ اسی وجہ سے مراتبِ وجودِ امکانی کے ما بہ الاشتراک اور ما بہ الامتیاز میں کوئی سنخیت اور یکسانی نہیں پائی جاتی لہٰذا وجود میں تشکیکِ خاصی کو قبول نہیں کیا جا سکتا جس کا تقاضا ما بہ الاشتراک اور ما بہ الامتیاز کی مسانخت اور عینیت ہے۔

پانچواں اعتراض: ہر مرتبۂ وجود کی باقی مراتب سے جدائی

وجود کی تشکیکِ خاصی میں سبھی مراتبِ وجود آپس میں ایک دوسرے کی مانند اور مسانخ ہونے چاہئیں کیوں کہ تشکیک کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ایک حقیقت ایسی ہے جو شدید یا ضعیف اور کامل یا ناقص ہو جاتی ہے۔ اس بنا پر ایسی ذوات جو کسی ایک مرتبے کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہیں انہیں ان ذوات کا عین ہونا چاہئیے جو دوسرے مراتب کی حقیقت کو تشکیل دیتی ہیں۔ لیکن اس لازمی شرط کا تحقق وجود کی تشکیکِ خاصی میں امکان پذیر نہیں کیوں کہ اگر ہر مرتبہ مثلاً اپنے سے عالی تر مرتبے سے اصلیت میں جدا نہ ہو تو عالی کا عالی رتبہ ہونا اور ادنیٰ کا پست ہونا کسی حقیقی سبب کی بنا پر نہیں ہو گا، اور یہ باطل اور نا قابلِ قبول بات ہے۔ لہٰذا ایسی خصوصیت کا ہونا ضروری ہے کہ جو ہر مرتبے کے تشکیکی رتبے کو معین کر کے اس کو دوسرے مراتب سے الگ کرے۔

گویا ہر حقیقت کا لازمی خاصہ ان دو صورتوں میں سے ایک میں تحقق پاتا ہے: وہ یا تو اس حقیقت کا ذاتی خاصہ ہوتا ہے یا اس کی ذات سے مستند ہوتا ہے۔ کیوں کہ ہر شے کا لازمہ یا اس کے اندر ہوتا ہے یا اس کا بیرونی عرض ہوتا ہے۔ اگر اندرونی ہے تو وہ لازمہ اس کا ذاتی ہونا چاہئیے، اور اگر بیرونی عرض ہے تو یہ کسی علت کا معلول ہونا چاہئیے۔ اس عرض کی علت، جو مفروضے کی رو سے معروض کا لازمہ شمار ہو گی، کے بارے میں دو احتمال دئیے جا سکتے ہیں: یا علت معروض کے اندر ہے یا اس سے باہر ہے۔ البتہ دوسرا احتمال باطل ہے کیوں کہ اگر عرضِ لازم کے تحقق کی علت معروض سے باہر ہو تو اس معروض کا تحقق اپنے لازمے کے تحقق کیلئے کافی نہ ہو گا۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہو گا کہ علتِ بیرونی بھی تحقق رکھتی ہو، اور اس کا معنی یہ ہے کہ معروض کا لازمہ، اس کا لازمہ نہیں ہے (یعنی مفروضے کا الٹ ثابت ہوتا ہے)۔ لہٰذا عرضِ لازم کی علت کو اندرونی اور ذاتی ہونا چاہئیے۔

پس ایک معروض کا لازمہ یا خود اس معروض کا ذاتی خاصہ ہے یا اگر عرض ہے تو معروض کی اندرونی ذات سے سند پاتا ہے۔ لیکن دوسری صورت میں اس بات پر توجہ رہے کہ یہ اندرونی ذات اس مرتبۂ معین کے ساتھ مخصوص ہونی چاہئیے کیوں کہ وہ ذات جو مراتب میں مشترک ہو، وہ اس مرتبے کے خاص لازمے کے تحقق کا سبب نہیں بن سکتی۔ وگرنہ کسی مرتبے کو بلا وجہ ترجیح دینا لازم آتا ہے کیوں کہ اگر عیناً یہی سبب دوسرے مراتب میں بھی محقق ہو تو اس مرتبے میں اس کی سببیت اور دیگر مراتب میں عدم سببیت بدون مرجح ہو گی۔ لہٰذا وہ ذاتِ درونی جو ایک لازم اور مرتبۂ خاص سے مخصوص عرض کا سبب قرار پائی ہے، ایک ایسی ذات ہونی چاہئیے جو اس مرتبے سے مخصوص ہو۔

یہاں تک ثابت ہوا کہ ہر مرتبے کے لیے ضروری ہے کہ ایک تو ایک معین خصوصیت رکھتا ہو جو اس مرتبے کا لازمہ ہو، دوسری بات یہ کہ یہ خاصہٴ لازم یا اس مرتبے کا ذاتی خاصہ ہو یا کسی معین ذات سے مستند ہو کہ جو اس مرتبے سے مخصوص ہو۔ ہر صورت میں یہ بات ثابت ہوئی کہ ہر مرتبۂ وجود میں ایک ذات کا تحقق ضروری ہے جو اس مرتبے سے مخصوص ہو تاکہ اس مرتبے کے تشکیکی رتبے کو معین کر کے اس کو باقی مراتب سے ممتاز کرے۔ اور اس امر کا لازمہ یہ ہے کہ ہر مرتبہ ایک مخصوص ذات پر مشتمل ہو کہ جو خود اس سے مخصوص ہو اور دوسرے مراتب اس سے فاقد ہوں اور یوں یہ چیز اس مرتبے کی باقی سب مراتب سے عدم سنخیت اور اصالت میں ایک دوسرے سے الگ ہونے کا موجب ہے۔

اس بنا پر سنخیتِ مراتب کبھی بھی محقق نہیں ہو سکتی کیوں کہ ہر فرض کیا ہوا مرتبہ ایک ایسی اندرونی ذات رکھتا ہے جو دوسرے نہیں رکھتے۔ پس وجود کی تشکیکِ خاصی نا ممکن ہے اور کبھی واقعیت کا لباس نہیں پہن سکتی۔

چھٹا اعتراض: تنزلِ حقیقتِ وجود کی وجودِ متنزل کی اصالت سے نا سازگاری

تشکیکِ وجود میں ایک اور اعتراض بھی پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ تصور اصالتِ وجود سے بھی نا سازگار ہے۔ کیوں کہ اگر حقیقتِ وجود مرتبۂ واجب الوجودی سے تنزل نہ کرے تو وجود کے مختلف مراتب صورت پذیر نہیں ہو سکتے اور اس کے خلاف واقع ہوتا ہے۔ اور اگر مرتبۂ واجب الوجودی تنزل کر کے حقائقِ امکانی تک پہنچے تو اس صورت میں ان حقائقِ امکانی کے بارے میں دو احتمال قابلِ تصور ہیں: یا تو یہ حقائقِ وجودی، وجود کی سنخ سے ہیں یا نہیں ہیں۔ اگر حقائقِ امکانی وجود کی سنخ سے نہ ہوں تو وجودِ واجب اور حقائقِ امکانی میں سنخیت اور ہمگونی ہی برقرار نہیں ہو گی، تشکیکِ وجود تو دور کی بات ہے۔ تشکیکِ وجود کے لئے لازم ہے کہ سبھی مراتب میں ایک طرح کا ذاتی تعلق ہو۔

اگر حقائقِ امکانی وجود کی سنخ سے ہیں اور وجود اصالت رکھتا ہے، تو ان حقائقِ امکانی کو موجود بالذات ہونا چاہئیے۔ لیکن اصالتِ وجودِ امکانی ان حقائق کے امکانی ہونے کے ساتھ سازگار نہیں ہے اور اس کا لازمہ تناقض اور وجودِ ممکن کے امکانی ہونے سے تخلف ہے۔ ملا صدرا نے بھی یہ بات آشکارا بیان کی ہے اور کہا ہے کہ: فاِنّ الممکن اذا کان فی ذاتہ مصداقاً لصدق الموجودیۃ علیہ لکان الوجود ذاتیاً لہ فلم یکن ممکناً بل واجبا۔ (6)

اس کی توضیح یہ ہے کہ اصالتِ وجود کا مطلب وجود کا بالذات موجود ہونا ہے۔ یعنی موجودیت کا وجود پر آنا کسی عرضی واسطے یا کسی قید کی پابندی کا محتاج نہیں۔ بلکہ وضع ذاتِ وجود ہی اس پر «موجود» کے حمل کیلئے کافی ہے۔ اس بنیاد پر وجودِ امکانی کی اصالت کا مطلب اس کا موجود بالذات ہونا ہے۔ یعنی وجودِ امکانی پر «موجود» کا حمل عروض اور حیثیتِ تقییدی میں کسی واسطے کا محتاج نہیں ہے۔ بلکہ وجودِ امکانی کی ذات کا وضع ہی اس پر «موجود» کے حمل کیلئے کافی ہے۔ گویا ہر شے کی ذات کا اپنے لیے ثبوت غیر سے وابستہ نہیں اور کسی کے جعل کرنے یا کسی علت کی تاثیر کا محتاج نہیں، کیوں کہ ہر شے کا اپنے لیے ثبوت ممکن نہیں بلکہ ضروری اور واجب ہے، لہٰذا کسی شے کو اس سے سلب کرنا امتناعِ ذاتی رکھتا ہے اور ضرورت علت سے بے نیاز کر دیتی ہے۔

اس بنا پر اگر وجودِ امکانی اصیل اور موجود بالذات ہو تو اپنے ہونے کے ثبوت میں علت اور جعل کا محتاج نہیں ہے، کیوں کہ اس کی موجودیت عین اس کی ذات ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ وجودِ امکانی، امکانی نہ رہے۔ کیوں کہ ممکن الوجود کا موجود ہونا علت اور جعل سے وابستہ ہے۔ پس وجودِ امکانی کے موجود بالذات ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ موجودیت میں علت سے وابستہ نہ ہو۔ (7) لیکن امکانی ہونے کا لازمہ یہ ہے کہ موجودیت میں علت سے وابستہ ہو اور یہاں سے تناقض جنم لیتا ہے جو اسے محال کر دیتا ہے۔

اس بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر حقیقتِ وجود مرتبۂ واجب الوجودی سے حقائقِ امکانی تک تنزل کرے تو اس تنزل یافتہ کیلئے وجود ہونا ممکن نہیں ہے، ورنہ ہم تناقض سے دو چار ہوں گے۔ پس وجودِ ضعیف یا وجودِ ناقص وغیرہ کی کوئی واقعیت نہیں ہے۔ اور اس بات کا مطلب وجود میں تشکیکِ خاصی کی نفی ہے۔ کیوں کہ یہ ممکن نہیں کہ حقیقتِ وجود کیلئے متفاضل مرتبے صورت پذیر ہوں۔

یہ بھی پڑھئے: اصالتِ وجود پر آیت اللہ جواد تہرانی کی تنقید – ڈاکٹر حسین سُہیلی

نتیجہ

ملا صدرا کی حکمتِ متعالیہ سے تعلق رکھنے والے فلسفیوں کے حقیقتِ وجود میں تشکیکِ خاصی کے بارے میں خیالات ایسے مسائل اور مشکلات میں گرفتار ہیں کہ ان کا صحیح ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔

حوالہ جات

1. ملاصدرا، اسفار اربعہ، ج ۱، ص ۱۲۰ و ۲۵۵؛ ج ۷، ص ۲۶۳؛ ملاہادی سبزواری، شرح المنظومۃ، ج ۴، ص ۱۳۲۔
2. ملاصدرا، اسفار اربعہ، ج ۲، ص ٣٠٠، قم، مکتبۃ المصطفوی، ١٣٦٨۔
3. ایضاً، ج ۱، ص ۷۱؛ ملا صدرا، الشواہد الربوبيۃ، تعليقات ملاہادی سبزواری، ص ۳۹۴۔
4. ملاصدرا، الحكمۃ المتعاليۃ، ج ۱، ص ۴۷؛ ج ۲، ص ۳۰۰ و ۳۳۹؛ ملا صدرا، الشواہد الربوبيۃ، ص ۵۰۔
5. ملاہادی سبزواری، شرح المنظومۃ ، ج ۱، ص ۱۲۷، تہران، ناب، ١٣٦٩۔
6. ملا صدرا، الشواہد الربوبيۃ، تعليقات ملاہادی سبزواری، ص ۷۵، تہران، مرکز نشر دانشگاہی، ١٣٦٠۔
7. ملاصدرا، المبدأ و المعاد، ص ١٢، تہران، انجمن حکمت و فلسفہٴ ایران، ١٣٥٤۔

مآخذ: حسین عشاقی، ”تشکیک در «تشکیک وجود» حکمت صدرایی“، معرفت فلسفی، سال ہشتم، شمارہ اول، پاییز، ١٣٨٩، ١١ – ٢٤۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button