مراجع کی تحریریں اور بیانات

وحدت الوجود کی اقسام، اس کے بطلان پر دلائل اور فقہی احکام – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی

1,038 ملاحظات

ڈاؤن لوڈ کریں

غلو کی ایک مثال بت پرستی تھی۔ انہوں نے بتوں کو بلند کرکے معبود کے درجے پر پہنچا دیا۔ دوسری مثال وحدت الوجود کی ہے۔ خدا کو نیچے لا کر امکانی موجودات سے ملا دیا گیا۔ انہوں نے بتوں کو بلند کیا، یہ خدا کو نیچے لے آئے۔

چونکہ وحدت الوجود کا مسئلہ بہت پیچیدہ ہے اور میرے خیال میں کسی کتاب میں اس کی اتنی تفصیل نہیں ہے جو طلباء و فضلاء کیلئے کافی ہو، اس لیے میں نے سوچا کہ دو دروس میں اس پر روشنی ڈالوں۔

اقسامِ وحدت الوجود

وحدت الوجود کے تین معانی بنتے ہیں۔ ایک وحدتِ مفہومی ہے۔ یعنی وجودِ امکانی اور وجودِ واجب کیلئے لفظ وجود کا مفہوم مشترک ہے۔ یعنی وجود مشترک لفظی نہیں ہے، کہ جو وجود امکانی کیلئے الگ استعمال ہوتا ہو اور وجودِ واجب کیلئے الگ، وجود دونوں کیلئے ایک مفہوم رکھتا ہے۔ دونوں اس کے مصادیق ہیں۔ یہ وحدتِ مفہومی کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔

وحدت الوجود کا دوسرا معنی وحدتِ حقیقی ہے۔ حقیقتِ وجود عدم کے مقابلے میں ایک ہے۔ نہ ہونے کے مقابلے میں ہونا، ممکن اور واجب کیلئے برابر ہے۔ وجود بطورِ مشکک کہا جاتا ہے: وجودِ امکانی اور وجودِ واجبی، لیکن ہر دو نورِ وجود ہیں۔ جیسے روشنی کا اطلاق سورج پر بھی ہوتا ہے اور شمع پر بھی ہوتا ہے۔ دونوں نور ہیں۔ ان کی حقیقت ایک ہے۔ لیکن جدا ہیں۔ یہ شمع ہے اور وہ سورج ہے۔ اس میں بھی کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔

لیکن تیسرا مفہوم وحدتِ مصداقی ہے۔ دنیا میں وجود کا صرف ایک ہی مصداق ہے اور وہ خدا ہے۔ جو چیزیں ہم دیکھ رہے ہیں خدا کے سوا کچھ نہیں ہے۔”لا الٰہ الا ہو“ نہیں کہتے، ”لا شیء الا ہو“ کہتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی شیء وجود نہیں رکھتی۔ یہ معنی صوفیوں کے کلام میں صریحاََ آیا ہے۔

صوفیوں کے کلام میں وحدتِ مصداقی کے نمونے

بعض صوفی کہتے ہیں: ”سبحانی ما اعظم شانی“ یعنی: میری شان کتنی بلند ہے۔ میں خداوندِ سبحان ہوں۔ ان کا ایک بزرگ کہتا ہے: ”لیس فی جبّتی الا اللہ“ میری قمیص میں خدا کا غیر نہیں ہے۔ ان کی کتابوں سے حوالے میری کتاب جلوۂ حق میں ہیں۔

بعد میں کہتے ہیں یہ سب شطحیات ہیں۔ جب دماغ گرم ہوجاتا ہے تو یہ الفاظ نکلتے ہیں۔ اب یہ سچ ہے یا جھوٹ، سنجیدہ بات ہے یا مذاق؟ شطحیات یعنی کیا؟ اور وہ ان کا معروف شطحیات نہ کہنے والا شاعر، شاہ نعمت اللہ ولی، کہتا ہے:

موج بحریم و عین ما دریاست
بحر می داند آنکه او از ماست

یعنی: ”ہم اس سمندر کی لہریں ہیں، سمندر ہم ہے۔ سمندر جانتا ہے کہ وہ ہم میں سے ہے۔“

وہ کہتے ہیں: یہ حقیقتِ توحید ہے۔ خدا کے سوا کچھ نہیں۔ بعض اوقات ان باتوں کو اسرارِ پنہانی کہتے ہیں۔ ہر کسی کو مت بتاؤ۔ یہ تمہیں کافر سمجھیں گے۔ یہ راز ہیں۔ صوفیوں کا خفیہ راز وہی وحدت الوجود ہے، اور کچھ نہیں۔ ایک شاعر اس کے بارے میں کہتا ہے:

گفت آن یار کز او گشت سرِ دار بلند
جرمش آن بود کہ اسرار ہویدا میکرد

یعنی منصور حلاج کو اس لیے پھانسی ہوئی کہ اسرار بیان کرتا تھا۔ انا الحق یا انا اللہ کہہ کر وحدت الوجود کے راز کو کھول دیا۔

بعض اوقات دعویٰ کرتے ہیں کہ نا اہل لوگ وحدت الوجود کے معنی کو نہیں سمجھے۔ ہر چیز عینِ ذاتِ حق ہے۔ نااہلوں کو نہ بتاؤ۔ راز ہے۔ ان کے شاعروں کی خاص تعبیرات بھی ہیں۔

ہاتف اصفہانی کے اشعار

یہاں ہاتف اصفہانی کے اشعار پیش کرتا ہوں کہ جو بڑی وضاحت سے وحدت الوجود کو بیان کرتا ہے۔ شعری ادب کے حساب سے بہت اچھے اشعار ہیں۔ وہ وحدت الوجود کو مختلف تشبیہات و عبارات کی مدد سے واضح بیان کرتا ہے۔ کہتا ہے:

یار بی پردہ از در و دیوار
در تجلی است یا اولی الابصار

یعنی خداوند در و دیوار میں نمایاں ہے۔ چلو یہاں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ سب وجودِ خدا کے آثار ہیں۔ پھر کہتا ہے:

چشم بگشا بہ گلستان پس
جلوہ آبِ صاف در گل و خار

یعنی: آنکھ کھولو، باغ میں صاف پانی کا جلوہ پھول اور کانٹے میں ہے۔ یہاں آب صاف سے مراد خدا اور گل و خار سے مراد ممکنات ہیں۔

زِ آب بی رنگ، صد ہزاران رنگ
لالہ و گل نگر در این گلزار

یعنی بے رنگ پانی سے ہزاروں رنگ نکلے، گلزار میں لالہ و گل کو تو دیکھو۔ اب یا یہ اتحاد ہے یا حلول ہے۔

پی بری گر بہ راز شان دانی
کہ ہمین است سرِ اسرار

کہ یکی است و ہیچ نیست جز او
وحدہٗ لا الٰہ الا ہو

یعنی: اگر ان کے راز کو سمجھ لو تو یہی وہ سرِ اسرار ہے کہ ایک وہی ہے اور اس کے سوا کچھ وجود نہیں رکھتا۔ وحدہٗ لا الٰہ الا ہو۔

اب وحدہٗ لا الٰہ الا ہو تو ٹھیک ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ مگر یہ کہنا کہ کچھ اور موجود نہیں، یہ کیا ہے؟ یہ باتیں وہ صراحت کے ساتھ کہتے ہیں۔ یہ چھپا راز کہلاتا ہے اور کہتے ہیں عام لوگوں کو نہ بتایا کرو۔ اس کا کلام کافی طولانی ہے۔ بعض جگہوں پر واضح تر الفاظ میں یہ بات کہتا ہے۔ مثلاََ کہتا ہے کہ رات خدا کے دیدار کی تڑپ میں ادھر ادھر پھر رہا تھا کہ آتشکدے میں پہنچا۔ اور وہاں پیرِ مغاں کو دیکھا جو آگ بھڑکا رہا تھا۔ میں ایک کونے میں بیٹھ گیا تو اس نے کہا اس مسلمان کیلئے جام لے آؤ۔ پھر مجھے جام پلایا۔

چون بخوردم نہ عقل ماند و نہ ہوش
سوخت ہم کفر از آن و ہم ایمان

یعنی جب شراب پی تو نہ عقل رہی اور نہ ہوش رہا، کفر اور ایمان دونوں جل کر بھسم ہوگئے۔

مست افتادم و در آن مستی
بہ زبانی کہ شرح آن نتوان

این سخن می شنیدم از اعضا
ہمہ، حتی الورید و الشریان

کہ یکی است و ہیچ نیست جز او
وحدہٗ لا الٰہ الا ہو

یہاں بھی ہاتف کہتا ہے کہ مست ہوا، سب سے بے خبر ہوا، پھر دیکھا ساری کائنات ایک وجود ہے۔ یوں اس حقیقت وحدت الوجود کو پا لیا۔ یہ وہ بات ہے جو مروجہ عرفان کے شعراء، زعما، بزرگان، چھوٹے بڑے سب نے کہی ہے۔

شیعہ فقہاء کا موقف

یہاں پر سید کاظم یزدی کی عروۃ الوثقیٰ سے ایک عبارت بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہمارے فقہاء کا موقف واضح ہو جائے۔ اس کے بعد اس عقیدے کے بطلان پر قرآنی اور عقلی دلائل پیش کروں گا۔ وہ لکھتے ہیں:

”لا إشکال فی نجاسة الغلاة و الخوارج و النواصب، و أمّا المجسّمة و المجبّرة و القائلین بوحدة الوجود من الصوفیّة إذا التزموا بأحکام الإسلام فالأقوی عدم نجاستهم، إلّا مع العلم بالتزامهم بلوازم مذاهبهم من المفاسد.“ (السيد محمد كاظم اليزدي، العروة الوثقی فیما تعم به البلوی، جزء 1، ص 140)

ترجمہ:”غالیوں، خوارج اور نواصب کے نجس ہونے میں کوئی شک نہیں۔ البتہ جسم الٰہی یا جبر کے قائلین اور وحدت الوجود کے قائل صوفی، اگر احکام اسلامی کے پابند ہوں تو بہتر یہ ہے کہ انکو نجس نہ سمجھا جائے۔ لیکن اگر یہ لوگ اپنے فاسد مذاہب کے لوازمات کے پابند ہوں تو نجس ہیں۔“

ان کے مذہبِ فاسدہ کے لوازم کیا ہیں؟ مثلاََ اگر کہیں کہ جب سب خدا ہے، عابد و معبود الگ نہ رہے تو عبادت کیوں؟ یا مثلاََ معاد کے قائل نہ ہوں، بھلا وجود خود کو خود ہی کیوں اجر یا عذاب دےگا؟ اگر وحدت الوجود کے اعتقادی اور عملی لوازمات کے پابند ہوں تو نجس ہوں گے۔

اگر ان کے اعتقادی اور عملی لوازمات کے پابند نہ ہوں اور باقی مسلمانوں کی طرح اسلامی عقائد و اخلاق و احکام کے پابند ہوں، اور فقط خیالی دنیا میں خود فریبی کا شکار ہو کر وحدت الوجود کے مغالطے میں مبتلا ہوں تو پاک ہیں۔

آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم مستمسک میں نجاستِ کفار کی بحث میں، کہ جہاں عروۃ الوثقیٰ میں وحدت الوجود کی طرف اشارہ موجود ہے، وحدت الوجود کے قائلین کے کچھ اقوال نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

أما القائلون بوحدة الوجود من الصوفية فقد ذكرهم جماعة، ومنهم السبزواري في تعليقته على الاسفار، قال:

«والقائل بالتوحيد إما أن يقول بكثرة الوجود والموجود جميعاً مع التكلم بكلمة التوحيد لساناً، واعتقاداً بها إجمالا، وأكثر الناس في هذا المقام. وإما أن يقول بوحدة الوجود والموجود جميعا، وهو مذهب بعض الصوفية. وإما أن يقول بوحدة الوجود وكثرة الموجود، وهو المنسوب إلى أذواق المتألهين. وعكسه باطل. وإما أن يقول بوحدة الوجود والموجود في عين كثرتهما، وهو مذهب المصنف والعرفاء الشامخين. والأول : توحيد عامي، والثالث : توحيد خاصي، والثاني: توحيد خاص الخاص، والرابع: توحيد أخص الخواص».

أقول: حسن الظن بهؤلاء القائلين بالتوحيد الخاص والحمل على الصحة المأمور به شرعا، يوجبان حمل هذه الأقوال على خلاف ظاهرها، وإلا فكيف يصح على هذه الأقوال وجود الخالق والمخلوق، والآمر والمأمور والراحم والمرحوم؟! وما توفيقي الا بالله عليه توكلت واليه أنيت. (مستمسک العروة الوثقیٰ، جلد 1، ص 391)

وہ ملا صدرا کی اسفار‌ِ اربعہ پر ملا ہادی سبزواری کے حاشیے کی عبارت نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اگر حُسنِ ظن رکھیں تو کہنا ہوگا کہ ان کی باتوں کے مجازی معنوں کو ترجیح دی جائے۔ ورنہ خالق و مخلوق اور آمر و مامور اور راحم و مرحوم ایک ہو جائیں گے۔

واقعیت یہ ہے کہ سب صوفیوں پر حسن ظن رکھنا ممکن نہیں ہے۔ جب کوئی کہہ رہا ہے کہ ”لیس فی جبتی الّا اللہ“ میری قمیض میں اللہ کے سوا کوئی نہیں۔ یا کہتا ہے: ”سبحانی ما اعظم شانی“ میں کتنا بلند ہوں کہ خدا کے ساتھ متحد ہوں۔ ان کے بارے میں نہ تو حسن ظن رکھا جاسکتا ہے اور نہ ان کو مجازی معنوں میں لیا جا سکتا ہے۔ مگر یہ کہ لفاظی کی جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ منطقی بات کریں۔ لفظوں کے کھیل میں نہیں پڑنا چاہتے۔ عابد و معبود و پرستش و نماز و روزہ و سجود اور ان کے آثار کے ساتھ وحدت الوجود کا کیا رابطہ بنتا ہے؟ اگر کہیں کہ تمام عالم ایک ہستی ہے اور وہ خدا ہے، تو یہ سب معنی کھو دیتے ہیں۔

امام خمینی کا حاشیہ

امام خمینی نے اپنے حاشیے میں لکھا ہے:

إن کانت مستلزمة لإنکار أحد الثلاثة.

کہ اگر وحدت الوجود کا نطریہ ان تین چیزوں میں سے کسی ایک کا منکر بنا دے تو وہ شخص نجس ہو گا: الوہیت، توحید اور رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔ وہ فرماتے ہیں کہ اگر ان تین اصولوں، یعنی خداکا وجود، اس کے ایک ہونے اور رسالتِ خاتم الانبیاء کا انکار نہ کریں اور یہ معاملات اور عبادات میں اسلامی احکام کی پابندی سے ظاہر ہو تو یہ پاک شمار ہوں گے۔

ان جیسی شخصیت نے بھی یہ حاشیہ لگایا ہے۔ دیگر فقہاء نے بھی اس قسم کی بات کی ہے۔ یہاں مراد یہ ہے کہ دل سے انکے پابند ہوں، خالی زبانی اظہار کافی نہیں ہے۔

وحدت الوجود عقل کی میزان میں

اب یہ ان کے عقائد تھے، جو اکثرصوفیوں کے ہوتے ہیں۔ وہ اس قسم کی وحدت الوجود کے قائل ہیں۔ اب ہم ذرا عقلی دلائل کی روشنی میں بحث کرتے ہیں۔

ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات ابدی اور اذلی ہے۔ جیسا کہ خدا شناسی کے درس میں اس کو ثابت کیا ہے۔ وہ ایسی ذات ہے جس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ وہ کمالِ مطلق ہے۔ یعنی اس کے کمال کی کوئی حد نہیں ہے۔ نہ اس میں کچھ اضافہ ہوتا ہے نہ ہی کچھ کم ہوتا ہے۔ ہم عبادت کریں تو اللہ کے جمال و جلال میں کچھ اضافہ نہیں ہوگا۔

وہ لامحدود ہے۔ اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ہماری عبادات سے ہمیں فائدہ ہوتا ہے، اسےنہیں۔ چنانچہ خدا کی ذات ازلی و ابدی ہے۔ لا یتغیر و کمالِ مطلق ہے۔ یہ ایک اصلِ مسّلم ہے۔

دوسری طرف عالمِ امکان کو دیکھتے ہیں کہ ازلی و ابدی نہیں ہے۔ بچہ فلاں روز پیدا ہوا اور فلاں روز مر گیا۔ عمارت کو ایک دن بناتے ہیں اور ایک دن گراتے ہیں۔ ہر چیز کا ایک ماضی ہے، ابتداء ہے، تغیر ہے۔ چیزیں نمو و پرورش پاتی ہیں۔ بچہ اور درخت نمو و پرورش پاتے ہیں۔ رشد کرتے ہیں، لاغر ہوتے ہیں۔ حرکت کرتے ہیں۔ اس جگہ سے اس جگہ جاتے ہیں۔ حس کرتے ہیں۔ کیا یہ صفات اس ذاتِ ازلی و ابدی کیلئے ممکن ہیں؟ ابتداء، انتہاء، تغیر، عوارض، رشد، نمو، زمان، مکان، وہ ذات ان سے بالاتر ہے۔

موجودات امکانی کو گنا جا سکتا ہے۔ کیا یہ دونوں ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ وحدت یعنی کیا؟ یعنی ازلی و غیر ازلی کا ایک ہونا؟ وحدتِ متغیر و لا یتغیر؟ وحدتِ متحرک و غیر متحرک؟ وہ جو زمان و مکان کے محتاج ہیں، ان کا اس سے ایک ہو جانا جو زمان و مکان سے بالاتر ہے؟ یہ وحدت کیسے ہو سکتی ہے؟

اگر خیالی دنیا اور شعر و شاعری کی بات ہو، مثلاََ فلاں شاعر نشے میں بے خبر ہو کر ایسا کہہ رہا ہے، تو اس قسم کی شعر و شاعری اور تخیلات کی اور بات ہے۔ واقعیت میں یہ متغیر اس ثابت سے متحد نہیں ہوسکتا۔ کون سی عقل یہ قبول کرتی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے عین ہوں؟ واحد ہوں؟

کبھی کہتے ہیں کہ یہ ایسے معاملات ہیں جن کی طرف آپ کی توجہ کافی نہیں اور آپ سمجھے نہیں ہیں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو منطق اور عقل کو پسند نہیں ہیں۔ خیالات کو پرے رکھ کے کوئی معقول بات کرنی چاہئے۔ دو اور دو چار کی طرح بتائیں، کیا متغیر اور ثابت ایک ہیں؟ کیا ازلی و ابدی اور غیر ازلی و غیر ابدی ایک ہیں؟ ممکن نہیں کہ ایک ہوں۔

عملی زندگی میں وحدت الوجود کے اثرات پر بعد میں بات کرتے ہیں۔ یہ بہت گہرے اثرات ہیں۔

اس بنیاد پر، اگر ہم آیاتِ قرآنی کو ایک طرف رکھ دیں۔ آدھے سے زیادہ قرآن وحدت الوجود کی مخالفت پر مبنی ہے اور اس پر بعد میں روشنی ڈالیں گے۔ فی الحال صرف عقلی دلائل کی رو سے دیکھتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے۔

الفاظ کا گورکھ دھندہ

کبھی کہتے ہیں موجوداتِ امکانی امورِ اعتباری ہیں۔ امرِ حقیقی خدا کی پاک ذات ہے۔ ہم پوچھتے ہیں امورِ اعتباری سے آپ کی کیا مراد ہے؟ اسے کھول کر بیان کریں۔ کیا یہ بس ایک خیال ہے یا واقعیت ہے؟ میں ایک خیالی چیز ہوں یا ایک حقیقی وجود رکھتا ہوں؟ چاہے ایک کمزور وجود رکھتا ہوں۔ اس شمع کی طرح جس کا آفتابِ عالمِ ہستی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

بالآخر ہمارا ہونا ایک حقیقت ہے یا خیال، اعتبار یعنی کیا؟ اس بات پر توجہ کریں۔ اس قسم کی بحثوں میں ان کا ایک حربہ لفظوں سے کھیلنا ہے۔ اصطلاحات کا کھیل رچاتے ہیں۔ الامور الاعتباریہ، یہ اعتباری امور ہیں۔ یہ مظاہر و تجلیات ہیں۔ مجالی حق ہیں۔

ہمارا سوال ہے، آپ ان الفاظ سے ہٹ کر بتائیں، بالآخر ہم ہیں یا نہیں ہیں؟ صاف بات کریں۔ اگر ہم نہیں ہیں تو یہ سوفسطائیوں والی بات ہوئی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم جو دیکھتے ہیں یہ سب خواب و خیال ہے۔ جیسے خواب میں شکلیں نظر آتی ہیں جن کی کوئی واقعیت نہیں ہوتی۔ موجوداتِ خارجی و عینی کے ہونے منکر ہیں۔ یوں یہ بھی سفسطہ میں پڑ رہے ہیں۔ اگر یہ سب خیالی دنیا ہے تو چلیں مکتب سوفسطائیہ پر بحث کریں۔ اگر یہ چیزیں حقیقی ہیں تو یہ متغیر موجودات اس ثابت ذات سے متحد نہیں ہوسکتے۔ یہ ایک سادہ اور روشن دلیل ہے۔

خدا بہت قریب ہے

یہاں ہم اس بات تک پہنچ جاتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ کی ذاتِ اقدس ہم سے زیادہ ہمارے قریب ہے۔ بعض لوگ یہاں سمجھنے کی غلطی کر جاتے ہیں۔ «و َ ھُوَ مَعَکُم اَینَ مَاکُنتُم» یعنی: تم جہاں بھی ہو، خدا تمہارے ساتھ ہے۔ «وَ نَحنُ اَقرَبُ اِلَیہِ مِن حَبلِ الوَرید» یعنی: ہم شہرگ سے زیادہ انسان کے قریب ہیں۔ «وَاعلَمُوا اَنَّ اللہ َیَحُولُ بَینَ المَرءِ وَ قَلبِہِ» یعنی: اور جان رکھو، اللہ انسان اور اس کے دل کے درمیان ہوتا ہے۔

دوست نزدیک تر از من بہ من است
و این عجب تر کہ من از وی دورم

یہ سب صحیح ہے۔ خدا ہم سے نزدیک تر ہے۔ خدا محیط ہے۔ لیکن خدا عینِ مخلوق نہیں ہے۔ الگ ہے۔ وہ احاطہ الہٰیہ قبول ہے، وہ اس کا ہماری نسبت ہمارے زیادہ قریب ہونا قبول ہے۔ ہمیں مسئلہ وحدت الوجود سے ہے کہ واجب اور ممکن ایک نہیں ہوسکتے۔

مخلوقات حقیقی موجودات ہیں

ممکن خیال نہیں، وجود رکھتا ہے۔ واقعیت ہے، لیکن یہ واقعیت اس واقعیت سے بالکل الگ ہے۔ خدا و خلق کی صفات متضاد ہیں۔ مخلوقات زمان و مکان رکھتی ہیں۔ امکانی موجودات اجزاء سے مرکب ہیں۔ یہ اجسام اجزاء پر مشتمل ہیں۔ خدا مرکب نہیں ہے۔

«قُل ھُوَ اللہُ اَحَد» یعنی: کہہ دو وہ اللہ ایک ہے۔ اللہ کے اجزاء نہیں ہیں۔ «لیسَ کَمِثلِہِ شیءُ» یعنی:کوئی چیز اس کی مثل نہیں ہے۔ «وَ لَم یَکُن لَہُ کُفُوَاَ اَحَد» یعنی: کوئی اس کا ہمسر نہیں ہے۔ آپ کہتے ہیں وہ ہمہ چیز ہے اور سب چیزیں وہ ہیں۔ اس بات کو ان آیات کے ساتھ کیسے ملایا جا سکتا ہے۔

سوفسطائی نہ بنیں!

یہاں اس بحث کو ختم کرتے ہوئے کہوں گا کہ الفاظ کے ساتھ کھیلنا بند کریں۔ سیدھی بات کریں۔ سوفسطائی سوچ کو، کائنات کے وجود کے انکار کو پرے رکھ دیں۔ پھر بیٹھ کر گفتگو کریں۔ یہ وجودِ واجب ان صفات کا مالک ہے، یہ وجودِ ممکن ان صفات کا مالک ہے۔ ہم ممکنات کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کے تغیرات کو دیکھ رہے ہیں۔ ان کے زوال، حدوث، نمو اور فنا کو دیکھ رہے ہیں۔ کہتے ہو یہ اور وہ ایک ہیں؟

یہ عقل سے سازگار نہیں ہے۔ یوں ہم نے مکتبِ وحدت الوجود، بمعنی وحدتِ موجود و وحدتِ مصداقی، کے بطلان پر عقلی دلیل قائم کی۔ یہ کہنا کہ دنیا میں ایک ہی وجود ہے، سب اسی سمندر کی امواج ہیں، عقلی دلیل سے غلط ثابت ہو گیا۔

خدا پاک اور منزہ ہے

ہم ان وجوداتِ خارجی میں درندے، آلودگی، گندگی وغیرہ بھی دیکھتے ہیں۔ کیسے ان کو خدائے پاک سے متحد کہہ دیں؟ شر پسند، دہشت گرد، قاتل، شراب خور لوگ، گندی، آلودہ اور متعفن چیزیں، سب کو ذات خدا سے متحد قرار دیں؟

اگر کوئی ہمیں کہہ دیں وہ گندگی در اصل تم ہو، تو ہم کتنے ناراض ہوجائیں گے۔ جب ایک انسان ایسی نسبت دینے سے اتنا ناراض ہو جاتا ہے تو کیا یہ صحیح ہے کہ اسی چیز کی نسبت ذاتِ پاکِ حق کی طرف دی جائے۔ اور یہ کہا جائے کہ وہ ان سب موجودات سے بلا استثناء متحد ہے۔ یہ عجیب بات ہے۔

وحدت الوجود قرآن کی میزان میں

اب نقلی دلائل اور قرآنی آیات کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ اب آیاتِ قرآنی کی طرف جا کر دیکھتے ہیں کہ کیسے ان آیات پر یقین رکھتے ہوئے وحدتِ وجود کو ماننا محال ہے؟

اگر قرآنی آیات پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ آیات قرآنی کسی صورت میں وحدتِ الوجود سے سازگار نہیں ہیں۔ تقریباََ آدھے سے زیادہ قرآن اس خیال کی نفی کرتا ہے۔ میں نے ان آیات کے دس گروہ ترتیب دیئے ہیں۔ یہ ایک نمونہ ہیں، ان کے علاوہ بھی آیات ہیں۔ خود فیصلہ کیجئے کہ ان آیات کا وحدت الوجود کے عقیدے سے کوئی تعلق بنتا ہے؟

1۔آیاتِ خلقت:

قرآن مجید میں یہ آیات بہت زیادہ ہیں۔ خلقتِ آسمان، زمین، انواعِ موجودات، انسان، درخت، وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔ «وَ مِنْ آیاتِهِ أَنْ خَلَقَکُمْ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ إِذا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ» (سورۃ روم، آیت20) یعنی: اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے آپ کو مٹی سے پیدا کیا پھر انسان کی صورت میں آپ پھیل گئے۔ خلقت آدم، خلقت نطفہ، جنین وغیرہ۔ سورہ زمر کی چھٹی آیت میں ہے: «یَخلُقُکُم فِی بُطونِ اُمَھاتِکُم خَلقاَ مِن بَعدِ خَلقِ فِی ظُلَمَاتِ ثَلاثِ»، خدا نے آپ کو ماؤں کے شکم میں خلق کیا اور تین ظلمتوں میں رکھا۔ پیٹ، رحم اور نال کے اندھیروں میں بچہ رہتا ہے۔ خداوند نے ایک کے بعد ایک خلقت قرار دی ہے۔ اچھا اگر ہم معتقد ہوں کہ ایک ہی وجود ہے، پھر خالق کا کیا مطلب ہوا؟ خاک سے انسان بنانا کیا ہوا؟ جنین کیا ہے؟ حمل کے دوارن تبدیلیوں کا کیا کریں؟ ان کا کیا مفہوم رہ جائے گا؟ ایک ذات ہے، باقی کچھ نہیں؟ یہ قرآن کی ان اصطلاحات کے ساتھ کھلا تضاد ہے۔

قرآن میں دو گانگی ہے۔ ایک طرف وجودِ واجب ہے اور ایک طرف وجودِ ممکن۔ خالق اور مخلوق ہیں۔ خدا خالق، انسان مخلوق، دورانِ حمل تبدیلیوں سے گزرتا ہوا جنین مخلوق ہے۔ وحدتِ وجود ناممکن ہے۔

2۔ آیاتِ عبادت

آیاتِ قران سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی عبادت کی دعوت دی ہے۔ «وَ ما خَلَقتَ الجِنَّ وَ الاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُونِ»، یعنی: ہم نے جن اور انسان کو صرف عبادت کیلئے خلق کیا ہے۔ اس کے علاوہ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ اور ان کے اثرات پر آیات ہیں۔ اب کیا وجودِ واحد خود اپنی پرستش کرتا ہے؟ اگر عابد و معبود متحد ہیں تو گویا خود اپنی عبادت کرتا ہے۔ خود اپنے لئے نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

3۔آیاتِ رزق

آیات کا تیسرا گروہ رزق کے بارے میں ہے۔ اس موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات آئی ہیں۔ جیسے کہ سورہ سبا کی آیت نمبر 24 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

«قُل مَن یَرزُقُکُم مِنَّ السَّمٰواتِ وَالاَرضِ قُلِ اللہُ» کہہ دو تمہیں کون آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہے؟ کہو اللہ۔ قرآن جواب کا انتظار بھی نہیں کرتا۔ رزق والی آیات کے ساتھ شکر و کفران والی آیات کو بھی ملا دیں۔ «لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزیدَّنَّکُمْ» تم شکر کرو اللہ آپ کو اور دے گا۔ اگر عالمِ ہستی میں ایک وجود ہے تو پھر رازق کون ہے اور مرزوق کون ہے؟ خدا اپنی ذات کو روزی دیتا ہے؟ کیا خداوند شکر کرتا ہے اور کفران کرتا ہے؟ «وَلَئِنْ کَفَرْتُم ْاِنَّ عَذابی لَشَدید» اگر تم کفر کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔ کیا خدا یہ بات اپنے آپ کو کہہ رہا ہے؟ یہ اصلاً مہمل ہے۔ قرآن کے راستے پر چلیں تو وحدت الوجود کا کوئی مفہوم نہیں رہتا۔ توجیہ ممکن نہیں رہتی۔

4-آیاتِ اطاعت

چوتھا گروہ آیات اطاعت و معصیت ہیں۔ سورۃ محمد آیت نمبر 33 میں ہے: «یَا اَیُھَا الَذِیْنَ آمَنُوا اَطِیعُوااللہ وَ اَ طِیعُوا الرَسُولَ وَلَاتُبْطِلُوا اَعْمَالَکُمْ» یعنی: اے ایمان والو، اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کرو۔ کفر، ارتداد اور ریاکاری کی وجہ سے اعمال ضائع نہ کرو۔ اور سورۃ طٰہ کی آیت نمبر121میں ہے:

«وَعَصَیٰ آدَمُ رَبَّہُ فَغَویٰ» یعنی آدم نے اپنے رب کی نصیحت پر عمل نہ کیا تو راحت کے راستے سے بے راہ ہوگیا۔ وہ اطاعت کی آیت اور یہ عصیان کی آیت، کون کس کی اطاعت کرتا ہے؟ کون کس کی نافرمانی کرتا ہے؟ اگر وحدت حقیقی ہے تو پھر اطاعت و عصیان کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ اپنی اطاعت اور اپنی نافرمانی کا کیا مطلب ہے؟

اطاعت و عصیان کا تصور تب ہی کیا جا سکتا ہے جب ذاتِ واجب اور ممکنات الگ الگ ہوں۔ خالق، مخلوق، عابد، معبود، واجب، ممکن، اطاعت اور جس کی اطاعت ہونی ہے سب موجود ہیں۔ لیکن اگر ایک وجود کی اصالت پر انحصار کریں تو یہ سب مفاہیم ضائع ہو جائیں گے۔ آدھے سے زیادہ قرآن، بلکہ جہاں سے پڑھیں، اس وحدتِ مصداقی سے سازگار نہیں ہے۔

5-آیاتِ بعثت

سورۃ النساء آیت نمبر 165 میں ہے: «رُسُلاَ مُبَّشِرِینَ وَمُنْذرین َلِئَّلَا یَکُونَ لِلنَاسِ علیٰ اللہ حُجَّۃ بَعْدَالرُسُلِ وَکَانَ اللہ عَزیزاَ حَکِیمَاَ» یعنی: ہم نے رسول بھیجے جو مطیع لوگوں کو خوشخبری دیتے تھے اور گنہگاروں کو ڈراتے تھے تاکہ لوگوں پر حجت تمام ہو۔ یہ نہ کہیں کہ خداوندا، اگر تم نے رسول بھیجے ہوتے تو ہم تیری اطاعت کرتے۔ ہم نے بھیج کر اتمام حجت کیا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وجود واحدِ حقیقی ہے، ہر رُخ سے، تو ارسالِ رسل کا کیا مقصد ہے؟ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے لیے رسول بھیجتا ہے کہ اسے خوشخبری سناتے ہیں اور اسے انذار کرتے ہیں؟ اس پر اتمام حجت کرتے ہیں؟ کیسی اتمام حجت؟ کیسی بشارت؟ کیسا انذار؟ ارسال رسل کیسا؟ کتابوں کا نزول کیسا؟

پیغمبر آئے ہیں کہ انسانوں کی تربیت کریں۔ ضروری ہے کہ مربی الگ ہو، تربیت پانے والا الگ ہو۔ اگر سب ایک ہے تو خود اپنی تربیت کر رہا ہے؟ رسول بھیجنے کی آیات متعدد ہیں۔ قرآن میں 25 پیغمبروں کا نام لیا گیا ہے اور بعض دیگر کا نام نہیں آیا ہے۔ انکی بعثت کا مقصد کیا تھا؟ وجودِ واحد کا تصور ان مسائل کے ساتھ بالکل سازگار نہیں ہے۔

6-آیاتِ امتحان

سورہ بقرہ کی آیت نمبر 155 تو آپ جانتے ہیں: «وَ لَنَبْلُوَّنّکُمْ بِشَیءِ مِنَ الْخَوفِ وَ الْجوعِ وَ نَقْصِ مِن َالْاَمْوالَ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَراتِ وَ بَشِّرِ الصَابِرِین» یعنی اے پیغمبر ان سے کہہ دیں کہ ہم تمہارا امتحان لیں گے وحشت، بھوک، نقصانِ اموال، قحط اور پھلوں سے۔ پھلوں کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے اس سے مراد روحانی پھل ہیں، جیسے کہ: اولاد و شاگرد وغیرہ۔ صبر کرنے والوں کو بشارت دو کہ امتحان میں کامیاب ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ آیاتِ امتحان بھی قرآن میں کم نہیں ہیں۔ امتحان کون لے رہا ہے؟ خود اپنا امتحان کر رہا ہے؟ خود بھوک، خوف و نقصانِ اموال و ثمرات سے اپنا امتحان لے رہا ہے؟ خود کو صبر کی بشارت دے رہا ہے؟ واقعاً ان باتوں کا کوئی مفہوم نہیں ہے اگر ہم وحدتِ حقیقی کے قائل ہوں، وحدتِ مصداقی، کہ وجود کے ایک سے زیادہ مصادیق نہیں ہیں، کہ جس کے اکثر صوفی قائل ہیں۔ پہلے عرض کیا ہے کہ صوفی تب تک صوفی نہیں ہوتا جب تک اس کا قائل نہ ہو۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر ان آیات کا کیا کریں؟ کوئی معنی نہیں رہتا۔

7- آیاتِ معاد

ساتواں گروہ وہ آیات ہیں جوحشر و نشر اور قیامت میں سوال کئے جانے اور فنائے دنیا پر دلالت کرتی ہیں۔ سورۃ یاسین آیت نمبر 51 کو دیکھیں: «وَ نُفِخَ فی الصُورِ فَاِذا ھُمْ مِنَ الْاَجْداثِ اِلَیٰ رَبِّھِم یَنْسَلُونَ» یعنی: اور پھر جب صور پھونکا جائے گا تو سب کے سب اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف چل کھڑے ہوں گے۔

جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو انسان قبروں سے اٹھ کر خدا کی عدالت کی طرف حرکت کریں گے۔ اب یہ آیات جو معاد کے حالات پر ہیں، سوال، حشر و نشر، قبروں سے نکل کر میزان الٰہی کا سامنا کرنا، ہاتھ میں نامۂ اعمال لے کر سوالوں کا سامنا کرنا، ان کو وحدت الوجود کے ساتھ کیسے ربط دیا جائے گا؟ کیسا نامۂ اعمال؟ کس کا نامۂ اعمال؟ جو سوال کر رہا ہے وہ خود سے کر رہا ہے؟ وہ خود قبروں سے بہ سوئے عدالتِ محشر چلے گا؟ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ وہ اعتقاد ان باتوں کے سامنے کس قدر لایعنی ہو جاتا ہے۔

یہاں ہم ایک اہم نکتے کی جانب متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ وحدت الوجود کا عقیدہ ضرور اسلام کے باہر سے آیا ہے۔ اسلام سے پہلے بعض یونانی فلسفیوں میں تھا۔ بعض صوفیوں میں تھا، جو اسلام سےپہلے بھی ہوتے تھے۔ یہ مختلف شکلوں میں ہوتا تھا۔ مثلاً قدیم ہندوستان میں تھا۔ جب مختلف قومیں مسلمان ہوئیں تو یہ بھی داخل ہوگیا۔ یہ تفکر درآمد ہوا ہے۔ باہر سے آیا ہوا یہ خیال اسلامی تعلیمات کے بر عکس ہے۔ یہ صوفی مسلمان ہوئے تو اسے بھی اسلام کا حصہ بنانا چاہا۔ ایسی چیز جس کا کوئی ربط نہیں بنتا۔

اگر کہتے ہیں کہ وحدت الوجود مجازی ہے تو ہم کہتے کہ چلو خیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حقیقی وحدت ہے اور اس بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں ہے۔ صریحاً کہتے ہیں کہ حقیقت ایک ہی ہے۔ اگر وہ کہیں کہ مجازی طور پر کہہ رہے ہیں تو خیال بافی کا میدان تو کھلا ہے۔ عیب یہ ہے کہ وحدتِ حقیقی کہتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کثرت مجازی ہے۔ کہتے ہیں کہ یہ جو آپ دیکھ رہے ہیں سب خیال ہے۔ کثرت خیال، توہم اور مجاز ہے۔ خارج میں وحدت ہے۔ خارج میں ایک وجودِ واحد ہے۔ تاہم ہم اپنے تخیل سے اسے کثرت میں تقسیم کرتے ہیں۔ صوفی کثرت کو مجازی سمجھتے ہیں۔

8-آیاتِ مکافات

آیات کا آٹھواں گروہ مکافات، عذاب اور جہنم کے ذکر پر مبنی ہے۔ سورہ فاطر کی آیت نمبر37 میں ہے: «وَ ھُمْ یَسْطَرِخُونَ فِیھا رَبَّنا اَخْرِجْنَا نَعمَل صالِحاَ غَیرَ الَذی کُنَّا نَعمَلُ» یعنی: جہنم والے فریاد کریں گے کہ اے اللہ ہمیں یہاں سے نکال تا کہ ہم نیک اعمال کریں۔ اچھا اب عذاب کے بارے غور کریں۔ جہنم میں کون رو رہا ہے؟ یہ جہنم ہے کیا؟ العیاذ باللہ کیا یہ عینِ ذات خدا ہے؟ جہنمی وہ خود، اور آتشِ جہنم بھی وہ خود ہے؟ فریاد و نالہ بھی وہی ہے؟ مجھے واپس لوٹا دو تاکہ نیک اعمال کروں، یہ وہ خود کہہ رہا ہے؟ یہ جڑ سے ایک مجہول اور غلط بات ہے۔

9- آیاتِ بہشت

نواں گروہ جنت کے متعلق آیات ہیں۔ سورہ دہر کی آیت نمبر 5 میں پڑھتے ہیں: «اِنَّ الْاَبْرارَ یَشْرَبُونَ مِنْ کَاس کانَ مِزاجُھا کافُورا» نیک لوگ خوشبودار جام پئیں گے۔ خدا نے بارہا قرآن میں جنت اور اس کی نعمتوں کا ذکر کیا ہے۔ سب منفرد اور خاص اثر و لذت رکھتی ہیں۔ نیک و پاک لوگ جنت میں تکیہ لگائے آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ خوبصورت لڑکے ان کی خدمت پر مامور ہوں گے۔ اس قسم کی چیزوں کی کثرت ہے۔ سوال اب یہ ہے کہ کیا جنت عینِ ذاتِ خدا ہے؟ تکیے بھی وہ ہیں؟ کیا پیالےبھی اور وہ سب نیک لوگ بھی خدا ہیں؟ جتنا بھی حساب لگائیں یہ سب باتیں نامفہوم ہیں۔

10-آیاتِ شفاعت

اور دسواں گروہ شفاعت کی آیات ہیں۔ آیت الکرسی میں آتا ہے: «مَنْ ذَالذی یَشْفَعُ عِنْڈَہُ اِلّٰا بِاِذْنِہِ» یعنی: کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے؟ بعض وہابی شاید شفاعت کا بھی انکار کر دیں۔ یہ قرآن میں سے صرف مطلب کی آیات اٹھاتے ہیں۔

اس آیت میں آیا ہے کہ کون ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر شفاعت کرے؟ یعنی اللہ کے اذن کے ساتھ شفاعت کا مفہوم بنتا ہے۔ آیات‌ِ شفاعت بہت ہیں۔ یہاں یہ دیکھنا چاہتے ہیں کون کس کی شفاعت کر رہا ہے؟ کیوں کر رہا ہے؟ وہ وجود جو ایک ہے، ازلی و ابدی ہے، لایتغیر ہے، خود شفاعت کروا رہا ہے؟ خود شفاعت کر رہا ہے؟ کیا وہ خود شافع بن کر اپنے گناہوں کو خود بخش دے گا؟

تتمہ

یہ آیاتِ قرآن کے دس گروہ تھے جو پیش کئے۔ اصلاً ان کا وحدت الوجود سے کوئی جوڑ نہیں ہے۔ یہ تفکر اسلام میں دوسروں نے داخل کیا ہے۔ تعلیماتِ اسلام کی روح سے ان کی بالکل کوئی سنخیت نہیں ہے۔

ان دس گروہوں کے علاوہ دس گروہ اور بھی قرآنی آیات کے ڈھونڈے جا سکتے ہیں جو اس تفکر کے ساتھ بالکل سازگار نہ ہوں۔

آخر میں پھر آیت اللہ العظمیٰ حکیم کی بات دہراؤں گا کہ اگر حسن ظن رکھیں، صوفیوں سے نہیں بعض مسلم فلاسفہ کے بارے میں حسن ظن رکھنے کی بات کر رہے ہیں، تو ان کی باتوں کے ظاہری معنوں کی جگہ مجاز مراد لینا ہوگا۔ اگر ظاہری مطلب کو ہی ان کا مراد سمجھا جائے تو یہ تفکر اصلاً اسلام کےساتھ میل نہیں کھاتا۔ جو اس کے قائل ہوں ان کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں؟

اب آخری نکتہ بیان کر کے درس کو ختم کرتا ہوں۔ اگر کوئی مذہبِ وحدت الوجود کے لوازمات کا پابند ہو تو وہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔ ملتزم بہ لوازمات وحدت الوجود ہونے کا مطلب جنت و جہنم کا منکر ہونا، عابد و معبود کا منکر ہوجانا، عذاب و پاداش الہیٰ کا منکر ہوجانا ہے۔

فاسد مذہب کے لوازمات کا قائل ہونا یہی ہے۔ یعنی یہ آیات اس کے سامنے رکھی جائیں اور وہ ان کو نہ مانے۔ کہے یہ سب مجاز ہے۔ حقیقت وحدت الوجود ہے۔ اگر وحدت الوجود کے لوازمات کا قائل ہو تو ان سب ضروریات اسلام و قرآن کا انکار لازم آتا ہے۔ اس وقت ممکن نہیں ہے کہ ہم اسے مسلمان سمجھیں۔

امید ہے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ وحدت الوجود کے فاسد ہونے کا کیا مطلب ہے اور یہ کیوں فاسد ہے۔ یہاں تین دلائل عرض کئے ہیں، ایک عقلی، ایک عقلائی اور ایک نقلی، والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔

مزید دیکھئے: آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی، ”مبانی تفسیر قرآن“، صفحات 194 تا 213، انتشارات امام علی ابن ابی طالب (ع)، ۱۳۹۵.

ڈاؤن لوڈ کریں: مبانی تفسیر قرآن

یہ بھی پڑھئے: خدا شناسی میں تعمق کی مذمت – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

یہ بھی پڑھئے: ہم ابنِ عربی کے عرفان کی تائید نہیں کرتے – آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button