مراجع کے فتاویٰ

خدا شناسی میں تعمق کی مذمت – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

154 ملاحظات

سوال: عقلی بحثوں کے شوقین حضرات بعض ایسی روایات کا حوالہ دیتے ہیں جو اعتقادی اور الہٰی موضوعات میں گہری کھوج لگانے والوں کی مدح پر مبنی ہیں۔ اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی مدح کی گئی ہے جو عرفانی فلسفے میں مگن ہیں اور مسائلِ تصوف میں مہارت رکھتے ہیں۔ اس معاملے میں آپ کا مؤقف کیا ہے؟

جواب: کہنا تو یہ چاہئے کہ یہ روایت جس سے یہ سوچ کر استناد کیا جا رہا ہے کہ اس میں وجودِ خدا اور ذاتِ الہٰی کی حقیقت کی کھوج لگانے والوں کی مدح کی گئی ہے، اس میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ الٹا ترکِ تعمق کی ترغیب دی گئی ہے اور ذاتِ پروردگار کے کنہ کی جستجو کرنے والوں کی مذمت کی گئی ہے۔
آپ اگر شیخ صدوق کی کتابِ توحید میں اس حدیث کو پڑھیں تو وہاں یہ آیا ہے:

إن الله عز وجل علم أنہ يكون في آخر الزمان أقوام متعمقون فأنزل الله عز وجل (قل ہو اللہ أحد * اللہ الصمد) والآيات من سورة الحديد – إلى قولہ: (وہو عليم بذات الصدور) فمن رام ما وراء ہنالك ہلك.

یعنی بے شک خدائے بزرگ و برتر جانتا تھا کہ آخری زمانے میں گہرائی میں اترنے والا گروہ آئے گا، چنانچہ اس نے سورۂ توحید اور سورۂ حدید کی و ہو علیم بذات الصدور تک کی آیات نازل کیں، پس جو اس سے ماوراء جانے کی کوشش کرے وہ ہلاک ہو گا۔ (1)

اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چونکہ مستقبل اور آخری زمانے میں، مسلمان معاشرے میں یونانی فلسفے کے سرایت کرنے اور نام نہاد عرفانی تخیلات کے رواج سے، الہٰیات میں تعمق کا رجحان جنم لے گا۔

لہذا یہ آیات اسلئے نازل ہوئی ہیں تاکہ مسلمان ان پر اکتفا کریں۔ ایسی بحثوں میں غوطے نہ لگائیں جن کی کوئی تہ نہیں ہے۔

یہ آیات اس لئے نازل ہوئی ہیں کہ مسلمانوں کیلئے درس اور خداشناسی کا نصاب ہوں اور وہ ان میں بیان شدہ حدود کی پابندی میں رہیں۔ جو لوگ ان حدوں کو پامال کریں گے، ان کیلئے ہلاکت ہے۔

اس کے علاوہ بھی بعض روایات میں اللہ کی معرفت کے معاملے میں تعمق کی مذمت کی گئی ہے۔ نہج البلاغہ کے خطبۂ اشباح میں علم میں راسخ لوگوں کا یوں تعارف کرایا گیا ہے:
فَمَا دَلَّكَ الْقُرْاٰنُ عَلَیْهِ مِنْ صِفَتِهٖ فَائْتَمَّ بِهٖ وَ اسْتَضِیْٓءْ بِنُوْرِ هِدَایَتِهٖ، وَ مَا كَلَّفَكَ الشَّیْطٰنُ عِلْمَهٗ مِمَّا لَیْسَ فِی الْكِتَابِ عَلَیْكَ فَرْضُهٗ، وَ لَا فِیْ سُنَّةِ النَّبِیِّ ﷺ وَ اَئِمَّةِ الْهُدٰی اَثَرُهٗ، فَكِلْ عِلْمَهٗ اِلَی اللهِ سُبْحَانَهٗ، فَاِنَّ ذٰلِكَ مُنْتَهٰی حَقِّ اللهِ عَلَیْكَ.

وَ اعْلَمْ اَنَّ الرَّاسِخِیْنَ فِی الْعِلْمِ هُمُ الَّذِیْنَ اَغْنَاهُمْ عَنِ اقْتِحَامِ السُّدَدِ الْمَضْرُوْبَةِ دُوْنَ الْغُیُوْبِ، الْاِقْرَارُ بِجُمْلَةِ مَا جَهِلُوْا تَفْسِیْرَهٗ مِنَ الْغیْبِ الْمَحْجُوْبِ، فَمَدَحَ اللهُ اعْتِرَافَهُمْ بِالْعَجْزِ عَنْ تَنَاوُلِ مَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِهٖ عِلْمًا، وَ سَمّٰی تَرْكَهُمُ التَّعَمُّقَ فِیْمَا لَمْ یُكَلِّفْهُمُ الْبَحْثَ عَنْ كُنْهِهٖ رُسُوْخًا، فاقْتَصِرْ عَلٰی ذٰلِكَ، وَ لَاتُقَدِّرْ عَظَمَةَ اللهِ سُبْحَانَهٗ عَلٰی قَدْرِ عَقْلِكَ فَتَكُوْنَ مِنَ الْهَالِكِیْنَ.

ترجمہ: جن صفتوں کا تمہیں قرآن نے پتہ دیا ہے (ان میں) تم اس کی پیروی کرو اور اسی کے نور ہدایت سے کسبِ ضیا کرتے رہو۔ جو چیزیں کہ قرآن میں واجب نہیں اور نہ سنت پیغمبرؐ و آئمہؑ ہُدیٰ میں ان کا نام و نشان ہے اور صرف شیطان نے اس کے جاننے کی تمہیں زحمت دی ہے، اس کا علم اللہ ہی کے پاس رہنے دو۔ یہی تم پر اللہ کے حق کی آخری حد ہے۔

اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ و پختہ لوگ وہی ہیں کہ جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی ساری چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے (اور ان پر اعتقاد رکھتے) ہیں، اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے۔
یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پر دوں میں درانہ گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے۔ اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز ان کے احاطہ علم سے باہر ہوتی ہے اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں۔

اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی اس میں تعمق و کاوش کے ترک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے۔ لہٰذا بس اسی پر اکتفا کر و اور اپنے عقل کے پیمانہ کے مطابق اللہ کی عظمت کو محدود نہ بناؤ، ورنہ تمہارا شمار ہلاک ہونے والوں میں قرار پائے گا۔ (2)

سوال: کیا ذات الہٰی میں تفکر سے سبھی افراد کو عمومی طور پر روکا گیا ہے، حتیٰ ان اہلِ دانش کو بھی جو عمیق نظری مباحث میں مہارت سے داخل ہو سکتے ہوں؟ یہ نہی ارشادی ہے یا مولوی؟

جواب: یہ نہی سبھی انسانوں کیلئے ہے۔ وإن الملأ الأعلی یطلبونه کما تطلبونه أنتم. (3) یہ نہی ارشادی بھی ہے اور مولوی بھی، اور دونوں پہلوؤں کی ضمانت دیتی ہے۔ ارشاری ممانعت یوں ہے کہ ذاتِ باری تعالٰی میں تفکر کا نتیجہ علم و معرفت میں اضافے کی شکل میں نہیں نکلتا۔ مولوی ممانعت اس لئے ہے کہ ذاتِ خداوند پر غور کرنا گمراہی کا سبب بن سکتا ہے۔ (4)

حوالہ جات:
1۔ شیخ صدوق، ”التوحید“، باب أدنى ما يجزئ من معرفة التوحيد، صفحہ 283، حدیث 2۔
2۔ نہج البلاغہ، خطبۂ اشباح، 89، صفحہ 229، ترجمہ: مفتی جعفر حسین اعلیٰ اللہ مقامہ، معراج کمپنی، لاہور، 2003ء۔
3۔ بحار الانوار، جلد 66، باب 37۔
4۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”معارفِ دین“، جلد سوم، سوال 2، 3، صفحات 36 تا 38، دفتر تنظیم و نشر آثار آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، قم، 1391 شمسی۔

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button