مضامین

تصوف کو مذہب کا جزء سمجھنا فکری مغالطہ ہے – سید علی عباس جلالپوری

45 ملاحظات

لفظ صوفی صوف (اونی کھادی) سے مشتق ہے۔ ابتدائی دور کے زہاد جو دوسری صدی ہجری کے لگ بھگ خراسان، مصر اور عراق میں نمودار ہونے لگے تھے، صوفی کہلاتے تھے کیوں کہ وہ صوف یا اونی کھادی کا لباس پہنتے تھے۔

ابن خلدون، شہاب الدین سہروردی اور سید علی ہجویری کا یہی خیال ہے جس کی تائید نولدکہ نے کی ہے۔ ابوریحان البیرونی لکھتا ہے کہ صوفی کا لفظ یونانی لفظ سوف (بمعنی دانش) سے مشتق ہے اور اس کا معنی دانش مند کا ہے، لیکن یہ خیال قرینِ صحت نہیں ہے۔

قدیم زمانے میں تصوف کو سِرِیَت (Mysticism) یا باطنیت (Esotericism) کے نام دیئے گئے تھے۔ سریت کہنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ساتھ پُر اسرار خفیہ رسوم کی ادائیگی وابستہ تھی۔ قدیم مصر اور یونان میں بعض لوگوں نے خفیہ حلقے بنا رکھے تھے جو عوام کی نظروں سے چھپ کر ایسی رسوم ادا کرتے تھے جن کا مقصد حصولِ بقا ہوتا تھا۔

تاریخ میں یونانیوں کے الیسینی اسرار اور عارفی مت کا ذکر آیا ہے کہ دایونیسیس دیوتا اور دمتیر دیوی کی پرستش خاص طریقوں سے کی جائے تو انسان موت کے بعد بھی زندہ رہ سکتا ہے۔ جیسے دانہ گندم زمین میں بویا جائے تو آکھوا پھوٹ نکلتا ہے۔ روح کی بقا کے لیے جو رسمیں ادا کی جاتی تھیں، وہ آج تک پردہ خفا میں ہیں کہ ان کا ظاہر کرنا حلفاً ممنوع تھا۔ ان اسرار کی تعلیم صرف خواص کو چھپ کر دی جاتی تھی۔

فیثاغورس کے شاگرد دو جماعتوں میں منقسم تھے: اہلِ ظاہر یا (Exoteric) جنہیں ظاہری علوم پڑھائے جاتے تھے اور اہلِ باطن یا (Asoteric) جنہیں باطنی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ لفظ باطنیت مؤخر الذکر ہی سے یادگار ہے۔ یہی حال قدیم ہندو ویدانتوں کا تھا۔ اُپنشد کا لغوی معنی ہے قریب بیٹھنا۔ یعنی گرو خاص چیلوں کو اپنے پاس بٹھا کر باطنی اسرار سکھایا کرتے تھے۔

سریت یا باطنیت کا آغاز مذہب، سائنس اور فنونِ لطیفہ کی ابتدا کی طرح صبحِ تاریخ کے دھندلکوں میں چھپا ہوا ہے۔ اتنا یقینی ہے کہ مذہب کی طرح سریت بھی روح کے قدیم تصور کی پیداوار ہے۔

غاروں کے عہد کا انسان نیند کی حالت میں دیکھتا کہ وہ دور دراز کے جنگلوں میں گھوم پھر رہا ہے یا مرے ہوئے عزیزوں سے ملاقات کر رہا ہے لیکن جاگنے پر دیکھتا کہ وہ تو اپنے غار میں لیٹا ہوا تھا۔ بار بار کے مشاہدے سے اس کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو گئی کہ اس کے اندرون میں کوئی شے ایسی بھی ہے جو جسم کو چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور پھر واپس آ کر اس میں داخل ہو جاتی ہے۔ اسی شے کو بعد میں روح یا آتما کا نام دیا گیا۔

یہ دور انتسابِ ارواح (Animism) کا تھا۔ انسان نے اپنے علاوہ سورج، چاند، ستاروں، جانوروں، درختوں، چٹانوں وغیرہ کو بھی ارواح منسوب کر دیں۔ شدہ شدہ یہ خیال پیدا ہوا کہ انسان کی روح موت کے بعد درختوں یا جانوروں میں چلی جاتی ہے۔ یہی آواگون یا سنسار چکر کا اساسی تصور ہے جو تمام قدیم اقوام میں پایا جاتا تھا۔

ہیروڈوٹس کے بقول نسخِ ارواح کا یہ عقیدہ مصر قدیم سے دوسری اقوام نے اخذ کیا تھا۔ مصری نعش کو ممی کی صورت میں محفوظ رکھتے تھے تاکہ مردے کی روح جانوروں، پودوں وغیرہ کا چکر لگا کر واپس اپنے جسم میں آئے تو اسے صحیح سلامت پائے۔ قدیم یونانی اور ہندی بھی نسخِ ارواح کو مانتے تھے۔

بزرگوں کی ارواح اور اجرامِ سماوی کی پوجا نے ان کے مذہب کو جنم دیا۔ جس کا بنیادی عقیدہ یہ تھا کہ کائنات میں ایسی عظیم ہستیاں موجود ہیں جو نوع انسان کے مقدر پر متصرف ہیں۔ ان کی تالیف قلب کو ضروری سمجھا جاتا تھا۔ فریزر کہتا ہے:

”مذہب ان فوق الطبع قوتوں کی تالیف قلب کا نام ہے جو اہلِ مذہب کے خیال میں انسانی زندگی پر متصرف ہیں۔“

ٹیلر کے خیال میں: ”مذہب فوق الطبع قوتوں پر اعتقاد کا نام ہے۔“

چنانچہ ان فوق الطبع ہستیوں کے استرضا کے لیے پوجا کی رسمیں وضع کی گئیں۔ ان کے لیے عظیم ہیکل تعمیر کئے گئے۔ ان کی مورتیوں کو قیمتی لباس پہنائے گئے اور ہیرے جواہرات سے مرصع کیا گیا۔ انہیں عطریات میں غسل دینے لگے۔ ان کے معبدوں کو بخور کی لپٹوں میں بسایا گیا۔ ان کی قربان گاہوں میں جانور اور انسان بھینٹ چڑھائے جاتے تھے اور ان کی تفریح کے لیے جادور نگاہ عورتیں صبح و شام رقص کرتی تھیں۔ ان رسوم کی ظاہری ادائیگی کو نیکی اور نجات کا موجب سمجھا جاتا تھا۔

ایک گروہ ایسے لوگوں کا تھا جو ظاہری رسومِ عبادت کو چنداں اہم نہیں سمجھتے تھے اور روح کو مادی جسم کی قید سے نجات دلانے کی فکر میں رہتے تھے۔ اس مقصد کے لیے وہ ریاضت اور نفس کشی کو بروئے کار لاتے تھے۔ انہی لوگوں کو اہلِ باطن یا سریت پسندوں کا پیش رو سمجھا جا سکتا ہے۔

جب ہم قدماء یونان یا اپنشدوں کے مؤلفین تک پہنچتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ باطنیت فلسفے میں بھی سرایت کر چکی تھی۔

ویدانت اور فیثاغورسیت، دونوں کا اساسی عقیدہ یہ ہے کہ عالم مادی جسے ہم حسیات سے ادراک کرتے ہیں غیر حقیقی ہے، فریبِ نگاہ ہے، مایا ہے، روح کا زنداں ہے۔ حقیقی عالم اس سے ماوراء ہے۔ اس کا ادراک حواس سے نہیں بلکہ اس باطنی قوت سے ہو سکتا ہے جو مجاہدۂ نفس سے قلبِ انسان میں پیدا ہوتی ہے۔ اس باطنی قوت کو وجدان اور اشراق کے نام دیئے گئے اور اسے کشف و انشراح کا مبداء سمجھا جانے لگا۔

قدیم باطنیت یا عرفان کی دو مشہور روایات ہیں: یونانی اشراق اور ہندی ویدانت۔ ان کے تاریخی جائزے سے سریت یا تصوف کے وہ خدوخال واضح ہو جاتے ہیں جو شروع سے ہی اسے رواجی مذہب سے ممتاز کرتے رہے ہیں اور جن سے اعتنا نہ کرنے کے باعث یہ غلط فہمی عام ہوگئی ہے کہ تصوف مذہب کا جزوِ محض ہے۔

یونانی اشراق کا آغاز باضابطہ طور پر فیثاغورس (440 – 500 ق م) سے ہوا جو عارفی مت کا ایک مصلح تھا۔ عارفی مت کا تعلق شراب اور سرور کے دیوتا دایونیسیس سے تھا۔ جس کے پجاری شراب پی کر عالم کیف و مستی میں رقص کرتے ہوئے جلوس نکالتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس حالت وجد و حال میں دیوتا ان کے اندر حلول کر جاتا ہے۔ اس مت کی ترویج اور اشاعت میں تھریس کے مغنی عارفیوس کا بڑا ہاتھ تھا.

عارفیوس اور اس کے پیرو زندگی کو دکھ اور دنیا کو روح کا زنداں خیال کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ انسانی روح پیدا ہوتے ہی جنم چکر میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ اس چکر سے نجات پانے کے لیے تعمق اور وارفتگی کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

فیثاغورس نے عارفیوس کی تعلیمات کو مرتب کیا اور ایک تعلیمی انجمن کی بنیاد رکھی۔ وہ نسخِ رواح کا قائل تھا اور دعویٰ کرتا تھا کہ اسے اپنے گذشتہ جنموں کے واقعات یاد ہیں۔ ایک دن فیثاغورس نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے کتے کو بے دردی سے پیٹ رہا ہے اور کتا بری طرح چیخ رہا ہے۔ فیثاغورس نے اُسے کتے کو مارنے سے منع کیا اور کہا اس کی چیخوں مِیں مَیں نے اپنے ایک مرے ہوئے دوست کی آواز پہچان لی ہے۔

فیثاغورس عقلیت اور عرفان کا جامع سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتا تھا کہ فلسفیانہ تدبر اور عارفانہ وجد و حال سے انسانی روح مادے کی بندشوں سے آزاد ہو جاتی ہے اور انسان جنم چکر سے نجات پا لیتا ہے۔ فیثاغورس کا اعداد کا نظریہ بھی تاریخِ فلسفہ و تصوف میں خاصا اہم ہے۔ وہ عدد کو تمام وجود کی اصل مانتا ہے اور کہتا ہے کہ کائنات میں جو کچھ بھی توافق و تناسب دکھائی دیتا ہے انہی اعداد کی بدولت ہے۔ بعد میں افلاطون نے ان اعداد کو امثال کا نام دیا اور اخوان الصفا نے اعداد کا ایک مستقل فلسفہ مرتب کر دیا۔

اس ضمن میں فیثاغورس کے ایک شاگرد پارمی نائدیس الیاطی کا ذکر بھی ضروری ہے۔ اس نے وجود واحد کا نظریہ پیش کیا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ وجود یا ”ایک“ ہی حقیقتِ کبریٰ ہے جو تمام کائنات کو محیط ہے۔ یہی خیال بعد میں وحدتِ وجود کے نام سے موسوم ہوا۔ پارمی نائدیس کے خیال میں کائنات خدا ہے، زندہ فطرت ہے اور غیر متغیر ہے۔ کثرت فریب ادراک ہے۔

زینو الیاطی نے منطقی استدلال سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اشیاء کی حرکت ناممکن ہے اور کثرت غیر حقیقی ہے۔ ایمپی دکلیس (435 – 495 ق م ) فیثاغورس کی طرح جنم چکر اور نسخ ارواح کا قائل تھا۔ وہ کہتا تھا کہ موت کے بعد انسانوں کی روحیں حیوانات اور نباتات میں چلی جاتی ہیں۔ اسی عہد میں ہیریقلیتس اور اناکساغورس نے Nous اور Logos یا ”آفاقی ذہن“ کے وہ تصورات پیش کیے جو بعد میں مسیحی عرفان اور مسلمانوں کے تصوف میں داخل ہو گئے۔ ان کا ذکر آئندہ اوراق میں تفصیل سے آئے گا۔

یونان کا مشہور فلسفی افلاطون جہاں عقلیت پرستوں اور مثالیت پسندوں کا امام سمجھا جاتا ہے وہاں سریت پسندوں اور اہلِ باطن کا مرشد بھی مانا گیا ہے۔ اس کے فلسفے میں فیثاغورس کی باطنیت، الباطی فلاسفہ کی عقلیت اور جدلیت اور سقراط کی اعلیٰ قدروں کی ازلیت کا لطیف امتزاج ہوا ہے۔ اس کے امثال (Ideas) عالم حقیقی سے تعلق رکھتے ہیں۔ عالم مادی سے ماوراء ہیں، ازلی و ابدی ہیں۔ عالم مادی کی تمام اشیاء ان کے عکس ہیں۔ ان امثال کا ادراک صرف عقل استدلالی سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ عالم حواس غیر حقیقی ہے۔ مادہ ناقص ہے۔

جب امثال مادے میں منعکس ہوتے ہیں تو وہ مسخ ہو جاتے ہیں۔ یہیں سے افلاطون کی باطنیت کی ابتدا ہوتی ہے۔ وہ فیثاغورسیوں کی طرح کہتا ہے کہ ارواح عالم مادی سے آنے سے پہلے اپنے اپنے ستاروں میں مقیم تھیں۔ ان پر مادی عالم کی کشش غالب آئی تو انہوں نے جسم کی قید قبول کر لی۔ ارواح اس قید سے رہائی پا کر دوبارہ اپنے مسکن کو لوٹ جانے کے لیے مضطرب رہتی ہیں۔

افلاطون عارفیوں کی طرح نسخ ارواح کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ موت کے بعد نیک یا بد اعمال کی رعایت سے انسانی روح نئے قالب میں جاتی ہے۔ مثلاً احمق کی روح مچھلی کے قالب میں جاتی ہے اور بدی کرنے والے کی روح عورت کا روپ دھار لیتی ہے۔افلاطون دو قسم کی روحوں کا ذکر کرتا ہے۔ ایک موت کے بعد فنا ہو جاتی ہے دوسری باقی رہتی ہے۔

غار کی مشہور تمثیل میں اس نے یہ خیال پیش کیا ہے کہ عالم مادی یا سایوں کا عالم غیر حقیقی ہے اور نظر کا فریب ہے۔ وہ کہتا ہے ایک غار ہے جس میں چند قیدی اس طرح جکڑے ہوئے بٹھائے گئے ہیں کہ وہ اپنے دائیں بائیں یا پیچھے کی طرف نہیں دیکھ سکتے۔ ان کی پشت پر ایک راستہ ہے جس کے پیچھے آگ کا الاؤ روشن ہے۔ اس راستے پر جو لوگ گزر رہے ہیں، غار میں بیٹھے ہوئے قیدی ان کے عکس اپنے سامنے کی دیوار پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ قیدی صرف عکس ہی دیکھ سکتے ہیں اس لیے گزرنے والوں کی حقیقت سے ناواقف رہتے ہیں۔ اس تمثیل سے افلاطون یہ بات واضح کرنا چاہتا ہے کہ مادی دنیا کے رہنے والے صرف سائے یا عکس ہی دیکھنے پر قادر ہیں۔ اس لیے امثال کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے۔ یہ تمثیل ویدانتوں کے مایا کے تصور کی یاد دلاتی ہے۔

ایک مکالمے ”ایراس“ میں افلاطون نے عشق حقیقی کا وہ نظریہ پیش کیا ہے جس کے اثرات بعد کے مسیحی اور مسلمان صوفیوں پر بڑے گہرے ہوئے۔ وہ کہتا ہے کہ روزِ ازل سے عشق کا تعلق حسنِ ازل سے رہا ہے۔ جب کوئی شخص اس دنیا میں کسی حسین آدمی کو دیکھتا ہے تو معاً اس کے ذہن میں حسنِ ازل کی یاد تازہ ہو جاتی ہے کہ اس آدمی کا حسن، حسنِ ازل کا ہی عکس ہے۔ اس یاد سے حسن کا مشاہدہ کرنے والے پر وجد و حال کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ارسطو نے عالمانہ رنگ میں یہی بات کہی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کائنات کی تمام اشیاء محرک غیر متحرک کی طرف کھنچی چلی جاتی ہیں۔ اس بے پناہ ہمہ گیر کشش و حرکت کے باعث کائنات کا کارخانہ قائم ہے۔

افلاطون کا عرفانی نظریہ سکونی ہے۔ اس میں انسانی جدو جہد یا تگ و دو کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جب امثال کو ازلی و ابدی مان لیا جائے اور کائنات کی اشیاء کو ان کے بے جان عکس یا سائے کہا جائے تو عالم مادی یا سایوں کی دنیا کو سنوارنے یا بہتر بنانے کی تحریک کیسے ہو سکتی ہے؟ افلاطون کے خیال میں انسانی کوششوں کا مقصود محض یہ ہے کہ تفکر و تعمق یا وجد و حال کو بروئے کار لا کر روح کو جسم کے زنداں میں نجات دلائی جائے۔

فلپ، شاہِ مقدونیہ، نے یونانی ریاستوں کی متحدہ فوجوں کو شکست فاش دے کر یونان کی آزادی و خود مختاری کا خاتمہ کر دیا اور اس کے ساتھ یونانی فلسفے میں اجتہادِ فکر کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ رومیوں کے دورِ تسلط میں رواقیت کی اشاعت ہوئی جس کا بانی زینو تھا۔ رواقی فلاسفہ میں مارکس آریلیس، سنیکا اور ایپک ٹیٹس قابل ذکر ہیں۔

رواقیئین مادیت پسند تھے۔ ان کے خیال میں کوئی غیر مادی شے موجود نہیں ہو سکتی اور علم صرف حسیات کے واسطے سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ وہ خدا اور روح کو بھی مادی ہی تصور کرتے ہیں اور وحدت وجود کے قائل ہیں۔ وہ کائنات کو جسم اور خدا کو روح مانتے ہیں۔ خدا کو کائنات سے الگ اور کائنات کو خدا سے الگ تسلیم نہیں کرتے۔ کائنات کو خدا کہہ کر انہوں نے ہمہ اوست یا وحدتِ وجود کے جس نظریے کی اشاعت کی وہ بعد میں صوفیا کی الٰہیات کا سنگ بنیاد ثابت ہوا۔ رواقیئین نے کائنات کو خدا کہہ کر فلسفے کو مذہب سے قریب تر کر دیا تھا۔

اسکندریہ کے نواشراقی فلسفی Plotinus یا فلاطینوس (عرب اسے افلاطونِ الٰہی یا فلاطن کہتے تھے) نے افلاطون کے اشراقی افکار و عقائد کی ترجمانی فیثاغورسی باطنیت کے رنگ میں کی جس سے نواشراقیت یا نوفلاطونیت کا مکتب فکر معرض وجود میں آیا۔ نواشراقیت کو عیسائیت کی روز افزوں مقبولیت اور اشاعت کے خلاف فلاسفۂ یونان کی آخری اضطراری کوشش کہا گیا ہے۔

فلاطینوس کے پیش رو فلو یہودی نے لوگس (لغوی معنی کلمہ، لفظ، نثر)، یا آفاقی ذہن، کو خدا اور کائنات کے درمیان ضروری واسطہ قرار دیا تھا جو کائنات کی تکوین اور نوعِ انسان کی تخلیق کا باعث ہوا۔ یہی تصور بعد میں عیسائی الٰہیات میں کلمہ یا جنابِ مسیح، اور ابنِ عربی کے افکار میں حقیقتِ محمدیہ کی صورت میں نمودار ہوا۔

بہر حال فلو یہودی استغراق اور مراقبے کی دعوت دیتا تھا اور فیثاغورسیوں کی طرح مادے کو شر کا مبداء خیال کرتا تھا۔ فلاطینوس کا دوسرا اہم پیش رو سکندر افردویسی تھا جو 198ء تا 211ء ایتھنز میں فلسفہ کا درس دیتا رہا۔ سکندر افردویسی نے ارسطو کے افکار کو مذہب کا جامہ پہنانے کی کوشش کرتے ہوئے عین العیون کو خدا کا نام دیا۔

فلاطینوس کی نواشراقیت کی تدوین سے پہلے سِرِیَت اور باطنیت کے جو افکار و عقائد دنیائے علم میں رواج پا چکے تھے ان کی تلخیص درج ذیل ہے۔

1۔ انسان کی روح مادے کی قید میں گرفتار ہے۔ انسانی کوشش کا مقصد واحد یہ ہے کہ اسے اس زنداں سے نجات دلائی جائے۔ اس مقصد کے لیے ترکِ علائق، زاویہ نشینی، استغراق اور نفس کشی ضروری ہے۔

2۔ مادہ شر کا مبداء ہے اس لیے مادی دنیا سے گریز لازم ہے۔

3۔ زندگی دکھ ہے۔ اس دکھ کا باعث جنم چکر ہے جس میں انسان پیدا ہوتے ہی گرفتار ہو جاتا ہے۔

4۔ مادی عالم غیر حقیقی ہے، فریبِ ادراک ہے، عقل و خرد اس کی کنہ کو نہیں پا سکتی۔ اس کے ادراک کے لیے نورِ باطن یا اشراق کی ضرورت ہے۔ جو حالت سکر و وارفتگی میں میسر آتا ہے۔

5۔ کائنات کی تمام اشیاء حسنِ مطلق یا حسنِ ازل کی طرف حرکت کر رہی ہیں۔ عشق یہی حرکت یا کشش ہے۔ حسن جہاں کہیں بھی ہو حسنِ ازل کا پرتو ہے اور عشق کا متقاضی ہے۔

6۔ کائنات میں ہر کہیں آفاقی ذہن کارفرما ہے جو کائنات کے توافق کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ یہ آتشی یا مادی ہے۔

7۔ ”وجود“ یا ”ایک“ ہی حقیقتِ کبریٰ ہے۔ اس کے علاوہ کچھ موجود نہیں ہے۔

8۔ کائنات ہی خدا ہے۔ خدا اور کائنات ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہیں۔

نواشراقیت میں سریت، فیثاغورسیت، عارفیت اور افلاطون کے افکار کا امتزاج ہوا ہے۔ فلاطینوس نے افلاطون کی عقلیت سے قطع نظر کر لی اور اس کے مکالموں قید و جمہوریہ اور سمپوزیم سے فیثاغورسی باطنیت، کشف و شہود اور عشق کے نظریات اخذ کر کے نئے سرے سے ان کی ترجمانی کی۔

افلاطون نے کہا تھا کہ خیرِ محض یا حسنِ ازل یا ذاتِ احد (اس کے ہاں یہ سب مترادفات ہیں) کا ادراک عقلِ انسانی سے ممکن نہیں ہے۔ حسنِ ازل اور کائنات کے درمیان چند ارواح بطور وسائل کے کام کرتی ہیں جن کی نمائندگی لوگس کرتا ہے۔ یہی لوگس کائنات کے تمام مظاہر کا ماخذ ہے۔ حسنِ ازل کائنات سے ماوراء ہے۔ اس کا عرفان نورِ باطن یا اشراق ہی سے ممکن ہے۔

افلاطون کی طرح فلاطینوس بھی انسانی زندگی کا مقصد یہ سمجھتا ہے کہ روح علوی کو جسم اور مادے کی قید سے نجات دلائی جائے۔ استغراق اور مراقبے کی حالت میں روح عالم مادی سے بے تعلق ہو جاتی ہے اور وجد و حال کے عالم میں ذاتِ احد سے واصل ہو جاتی ہے۔

فلاطینوس کا دعویٰ تھا کہ حالت سکر و نشاط میں وہ اپنی زندگی میں کئی بار اس اتصال سے بہرہ ور ہوا تھا۔ فلاطینوس روح کے مقابلے میں پیکر خاکی کو حقیر سمجھتا تھا۔ اس کا شاگرد فرفوریوس لکھتا ہے:

”اسے اس بات سے بھی شرم محسوس ہوتی تھی کہ اس کی روح جسد خاکی میں مقید ہے۔ ایک دن ایک دوست کسی مصور کو لے کر آیا کہ فلاطینوس کی تصویر کھچوائے۔ فلاطینوس نے اسے منع کر دیا اور کہا تم جس شے کی تصویر کھینچنا چاہتے ہو (یعنی ظاہری جسم) وہ تو میرے وجود کا حقیر ترین پہلو ہے۔“

فلاطینوس نے فیثاغورسیوں اور افلاطون کے نظریات میں تجلی کے تصور سے نظم و ضبط پیدا کرنے کی کوشش کی۔ دنیائے فلسفہ میں اسی تصور کو فلاطینوس کی دین سمجھا جاتا ہے۔ فلاطینوس ذاتِ احد کو ذاتِ بحت (ذات محض) کہتا ہے۔ اس کے خیال میں ذاتِ بحت سے بتدریج عقل، روح، ارواحِ علوی وسفلی اور مادے کا اشراق ہوا ہے۔ انسانی روح مادے کی کثافت میں ملوث ہو جاتی ہے اور استغراق و تعمق کی مدد سے نجات پا کر عالم بالا کو لوٹ جاتی ہے۔ اسے فصل و جذب یا تنزل و صعود کا نظریہ بھی کہا جاتا ہے (فصل یعنی جدا ہونا، جذب یعنی ضم ہونا، تنزل یعنی نیچے آنا، صعود یعنی اوپر جانا)۔

فلاطینوس کے خیال میں ذاتِ بحت سے پہلا اشراق عقل کا ہوا۔ عقل سے روح کا اشراق ہوا اور پھر بتدریج مادہ صورت پذیر ہوا۔ فلاطینوس کے استعارے کے پیش نظر ذاتِ بحت کے آفتاب سے جو کرنیں پھوٹتی ہیں وہ عقل، روح اور ارواح سفلی و علوی کو اپنی تابانی سے منور کرتی جاتی ہیں حتیٰ کہ تاریکی آ جاتی ہے۔ یہی تاریکی مادہ ہے۔ انسانی روح مادے کی آلائش سے آزاد ہو کر اصلی مبداء کو صعود کر جاتی ہے۔ یہ نواشراقی نظریہ بعد کے فلاسفہ وجودیہ اور صوفیا کے عقول یا تنزلات ستہ کی شکل میں بار بار سامنے آتا ہے۔

بعض مورخین فلسفہ کے خیال میں فلاطینوس ان بدھوں سے بھی مستفید ہوا تھا جو کثیر تعداد میں سکندریہ میں بود و باش رکھتے تھے۔ انہی کی تقلید میں فلاطینوس نے قربانیوں اور گوشت خوری سے منع کیا تھا۔ اس ضمن میں ایران کے ایک مدعی نبوت مانی کا ذکر بھی ضروری ہے جو بدھ مت کے عقائد سے متاثر ہوا تھا۔

مانی کے ظہور سے صدیوں پہلے بدھ مت کے مہایانا فرقے کی اشاعت افغانستان اور خراسان میں ہو چکی تھی۔ جہاں جا بجا بدھوں کے ستوپ اور چھتریاں قائم تھیں۔ بلخ بدھوں کا بہت بڑا مرکز تھا۔ یہاں کے معبد کے ایک مہا پجاری یا پرمک کی اولاد مسلمان ہو کر بعد میں برامکہ کے نام سے مشہور ہوئی تھی۔ ایران میں صدیوں سے بدھ مت اور مجوسیت کے درمیان تاثیر و تاثر کا سلسلہ قائم تھا۔

مانی نے ترک علائق اور تجرد گزینی بدھوں ہی سے مستعار لی تھی کہ مجوسیت میں اسے ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ مانی فلاطینوس کا معاصر تھا۔ چنانچہ مانویت اور نو اشراقیت کی اشاعت دوش بدوش ہوئی۔ دونوں مادے کو شر کا ماخذ بتاتے تھے اور رہبانیت کی تلقین کرتے تھے۔

ان کی تعلیمات نے ابتدائی دور کے عیسائیوں کو روح کی گہرائیوں تک متاثر کیا تھا۔ یہ معلوم کر کے چنداں تعجب نہیں ہوتا کہ مسیحی رہبانیت کا آغاز مصر ہی سے ہوا۔ آگسٹائن ولی عیسائی ہونے سے پہلے مانوی رہ چکا تھا۔ وہ افلاطون کا ذکر والہانہ شیفتگی سے کرتا ہے۔ عیسائیت کی اشاعت کی ابتدائی صدیوں میں مصر، شام اور خراسان میں نواشراقیت، مانویت، مسیحی رہبانیت اور سمنیت (بدھ مت) کے عقائد پر ہر کہیں بحث و مباحثہ کا بازار گرم تھا۔

دنیائے اسلام میں ان عقائد کی اشاعت اویسہ، خراسان اور گندی شاپور کے مدرسوں کے واسطے سے ہوئی جو عیسائیوں نے شام، ایران اور عراق میں قائم کر رکھے تھے۔ فلاطینوس اور فرفوریوس کی کتابیں اور ان کی شرحیں شامی زبان میں منتقل ہو چکی تھیں اور ان مدرسوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ ان کتابوں میں افلاطون، ارسطو، ایمپی دکلیس اور فیثاغورس کے افکار کی ترجمانی نو اشراقی رنگ میں کر کے ان کی تطبیق عیسائی عقائد سے کی جاتی تھی۔

مامون الرشید کے زمانے میں بیت الحکمت کے علماء نے ان کتابوں کے ترجمے عربی میں کئے جن سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد میں ہلچل مچ گئی اور متکلمین نو اشراقی افکار کی مطابقت مذہب کے عقائد سے کرنے لگے۔ فیثاغورسی اور نو اشراقی افکار کی اشاعت کے باعث مذہب اسلام سیکڑوں فرقوں میں منقسم ہو گیا اور نسخ ارواح، سریان، امتزاج، تجسیم، حلول اور اوتار کے نو اشراقی آریائی افکار اسلامی تعلیمات میں نفوذ کر گئے۔ مسلمانوں کے فلسفے اور علم کلام کی طرح تصوف بھی انہی افکار کی اشاعت سے صورت پذیر ہوا تھا۔

تصوف کی الٰہیات وہی ہے جو اخوان الصفاء، الکندی، فارابی اور ابنِ سینا کے نظریات میں دکھائی دیتی ہے۔ فنا فی اللہ، فصل و جذب، تجلی، سریان وغیرہ کے نواشراقی افکار سب سے پہلے اخوان الصفا نے مرتب کیے تھے۔ انہی کی خوشہ چینی بعد کے اہلِ فکر و نظر نے کی۔ ڈی بوئر اپنی تالیف تاریخ فلسفہ اسلام میں لکھتے ہیں:

”اخوان الصفا نے بھی فنا فی اللہ کا نظریہ پیش کیا ہے۔ روح مادے کی آلائش سے رہائی پا کر پاک ہو جاتی ہے اور اپنے مبدائے حقیقی میں دوبارہ جذب ہو جاتی ہے۔ انسانی روح ترک علائق اور ریاضت شاقہ ہی سے عرفان نفس اور معرفت الہٰیہ حاصل کر سکتی ہے۔“

”اخوان الصفا نے حروف و اعداد کا فیثاغورسی تصور پیش کیا ہے۔ ایک کا عدد ان کے خیال میں وجود کا ماخذ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقلیدس اور ریاضی کا مطالعہ انسان کو حیات کی بندشوں سے نجات دلا کر اسے روحانیت سے آشنا کراتا ہے۔ منطق کا تعلق بھی ریاضی سے ہے۔ ان کے خیال میں خدا سے عالم مادی و روحانی کا صدور تجلی سے بتدریج ہوا ہے۔ یہ مدارج اس طرح کے ہیں۔

خدا سے روح فعال، روح فعال سے روح منفعل یا روح عالم، اس سے مادہ عالم طبیعی، جسد مطلق اور عالم بروج کا بتدریج صدور ہوا۔ عناصر عالم مادی اور جمادات، نباتات، حیوانات جو ان عناصر سے بنے ہیں ان سب میں ذات خداوندی طاری و ساری ہے۔ ان کے خیال میں روح انسانی، روح عالم سے نکلی ہے۔“

تنزلات ستہ یا عقول کا سریانی نظریہ الکندی، فارابی اور ابن سینا نے تفصیل سے پیش کیا ہے۔ کندی کی عقول اسکندر افرودیسی کی تالیف ”روح سے متعلق“ کی دوسری جلد سے ماخذ ہیں۔ الکندی کہتا ہے کہ ذاتِ احد سے عقلِ فعال کا صدور ہوا۔ عقلِ مستفاد یا عقلِ انسانی، عقلِ فعال سے صادر ہوئی۔ فارابی عقولِ اربعہ کا ذکر کرتا ہے۔ عقلِ ہیولائی جس کی مدد سے انسان محسوسات سے معقولات کو اخذ کرتا ہے۔ عقل بالفعل وہ فکری صلاحیت ہے جو اس قبول و اخذ میں معاون ہوتی ہے۔ عقلِ فعال جو خارج یعنی خدا سے صادر ہوتی ہے، اور عقلِ مستفاد انسانی ذہانت ہے۔ ہمہ اوست یا وحدتِ وجود کا نظریہ بھی اس سے مماثل ہے۔ عقلِ فعال ذاتِ احد سے صادر ہوئی۔ عقلِ فعال سے روحِ کُل، رُوحِ کُل سے روح اور روح سے مادے کا صدور ہوا۔ اس طرح تمام مادی عالم میں خدا کی ذات طاری و ساری ہے۔

ابن رشد نے بعد میں کہا کہ عقلِ انسانی یا عقلِ منفعل جسمِ انسان میں مقیم و مشخص ہے۔ موت کے بعد صرف عقلِ فعال باقی رہے گی۔ عقلِ انفرادی جسم کی فنا کے ساتھ فنا ہو جائے گی۔ اس طرح اس نے حیات بعد موت اور حشر اجساد سے انکار کیا ہے۔

شیخ شہاب الدین سہروردی مقتول نے، جنہیں شیخ الاشراق کہا جاتا ہے، حکمت الاشراق میں نور کا جو نظریہ پیش کیا ہے وہ بھی سریانی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نورِ مطلق یا نورِ قاہرہ تمام کائنات میں نفوذ کئے ہوئے ہے۔ مادہ تاریکی ہے اور نورِ مطلق کا سایہ ہے۔ شر مادے کی طرف میلان کا نام ہے۔

شیخ الاشراق افلاطون کو صاحبِ نعمات و انوار کہتے ہیں اور خدا کو نور الانوار واجب لذاتہ کہتے ہیں۔ نور منقسم ہے دو حصوں میں: نور فی نفسہ لنفسہ (نور اپنی ذات کے لیے، جو نور محض ہے) اور نور فی نفسہ لغیرہ (نور اپنی ذات میں غیر کے لیے، جو عارض ہے)۔ انسان کے اندر جو انوار ہیں انہیں وہ الانوار الجردة المدبرة کہتے ہیں۔ ان کے خیال میں تاریکی اور اس کے تمام مظاہر عیون کے سائے ہیں۔ جمیع الحيات الظلمانيه ظلال للحيات العاقله۔

ان کا ادعا یہ ہے کہ نظریۂ نور کا آغاز ایران کے فلاسفہ جاماسپ، فرشاوشتر اور بزرجمہر کے افکار سے ہوا۔ حکمت الاشراق میں لکھتے ہیں:

”جو شعاع پہنچتی ہے نور الانوار سے نورِ اول کو، وہ کامل تر ہے بہ نسبت اس شعاع کے جو نورِ ثانی کو پہنچتی ہے۔ ثابت ہوا کہ پہلا حاصل نور الانوار سے ایک ہے اور وہ نور قریب تر ہے نور الانوار سے، اور عظیم ہے۔ حکیمِ فاضل زردشت کا یہ مزعوم ہے کہ اول جو چیز خلق ہوئی موجودات سے وہ بہمن ہے، پھر اردی بہشت، پھر شہر پور، پھر اسفندادند، پھر خورداد ہے، پھر امرداد ہے۔ اور ایک دوسرے سے پیدا کئے گئے، جیسے چراغ سے چراغ بغیر اس کے کہ کچھ اول سے کم ہو جائے۔ اور زردشت نے ان انوار کو دیکھا اور ان سے علومِ حقیقی کا استفادہ کیا۔“

ظاہراً شیخِ اشراق کے اس نظریئے میں فلاطینوس کا نظریۂ تجلی اور زردشت کی نور اور ظلمت کی دوئی ممزوج ہو گئی ہے۔ فلاطینوس کی ذاتِ بحت ان کے ہاں نور الانوار بن گئی ہے، جس سے بتدریج انوار کا صدور ہو رہا ہے۔ یہ خیال کہ پہلا حاصل نور الانوار سے ایک ہے، ابنِ سینا سے ماخوذ ہے۔ جو کہتا ہے کہ خدا واحد بالذات ہے اور جو چیز واحد بالذات ہو اس سے بالذات صرف ایک ہی چیز صادر ہو سکتی ہے۔ چنانچہ خدا سے عقلِ اول کا صدور ہوا۔ الواحد لا يصدر عنہ الا الواحد۔

صوفیا نے تنزلات ستہ کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں فلاطینوس کے نظریۂ تجلی و صدور کی جھلک صاف صاف دکھائی دیتی ہے۔ میر ولی الدین لکھتے ہیں:

”نزول کے بے شمار منازل ہیں لیکن کلی اعتبار سے ان کا چھ میں حصر کیا جا سکتا ہے۔ انہیں صوفیا تنزلاتِ ستہ کہتے ہیں۔ ان میں پہلے تین میں احدیت، وحدیت، وحدانیت، مراتبِ الٰہیہ ہیں۔ باقی تین مراتب کونیہ ہیں، روح، مثال، جسم۔ ان سب کے بعد انسان کا درجہ ہے یعنی احدیت، وحدیت، واحدیت، روح، مثال، جسم اور انسان۔ ان میں احدیث خدا کی ذاتِ محض ہے۔“

فلاطینوس کے نظریہ صدور کی اس متصوفانہ ترجمانی کا آغاز قشیری سے ہوا تھا۔ عشق کا نواشراقی تصور ہمیں فارابی، ابن سینا، شیخ اشراق وغیرہ کے ہاں واضح صورت میں دکھائی دیتا ہے۔

فارابی کہتا ہے کہ خدا خود عشق ہے اور تکوین عالم کا سبب بھی عشق ہے جس کے سبب اجرام سماوی ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ عشق کی مدد ہی سے انسان معرفتِ الٰہیہ حاصل کرتا ہے اور اپنے روحانی کمال کو پہنچتا ہے۔

ابنِ سینا نے حصولِ کمال کی کوشش کو عشق کا نام دیا ہے۔ افلاطون کی طرح وہ کہتا ہے کہ کائنات حسنِ ازل کی طرف بے پناہ کشش محسوس کر رہی ہے۔ یہی کشش عشق ہے۔ کائنات کی اشیاء اس کشش کے باعث حسنِ ازل کی طرف حرکت کر رہی ہیں اور بتدریج کمال کو پہنچ رہی ہیں۔ یہ کشش جمادات سے شروع ہو کر نباتات، حیوانات اور انسان کو بتدریج اعلیٰ ترین مقامات کی طرف لے جاتی ہے۔ ابنِ سینا نے کہا ہے کہ حقیقتِ مطلق حسنِ ازل ہے جو عالمِ ظواہر میں اپنے حسن و جمال کی تجلیاں دیکھ رہی ہے۔

شیخ الاشراق کہتے ہیں کہ نیچے کے ہر نور کو اپنے سے بلند تر نور کا عشق ہے۔ یہ عشق ان انوار کو نور الانوار، یعنی خدا، تک لے جاتا ہے۔ خدا حسنِ کامل ہے، اس لیے وہ اپنے ہی عشق میں محو ہے۔ وہ خود ہی عاشق ہے اور خود ہی اپنا معشوق بھی ہے۔

افلاطون کی طرح صوفیا بھی خدا کو حسنِ ازل مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حسن اپنے اظہار پر مجبور ہوتا ہے اور عشق کا طالب ہوتا ہے۔ یہی اظہارِ حسن کی تمنا کائنات کی تخلیق کا باعث ہوئی۔ صوفیا حسنِ مطلق یا حُسنِ ازل کو جمال کہتے ہیں اور دوسری ہر قسم کی ظاہری خوبصورتی کو حسن کا نام دیتے ہیں۔ عشقِ مجازی کا آغاز ظاہری انفرادی حسن سے ہوتا ہے۔ اس سے اگلا مرحلہ عشق حقیقی کا ہے، جس میں حُسنِ ازل کی تجلیات کا ورود ہونے لگتا ہے۔

صوفیا نے نواشراقی افکار کی عملی تعبیر کی کوشش کی۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، نو اشراقیت کا آغاز مصر سے ہوا تھا جو مسیحی رہبانیت کا مرکز بن گیا۔ خراسان صدیوں سے بدھ مت کا گڑھ تھا چنانچہ مسلمانوں میں اہلِ عرفان کا ظہور مصر سے ہوا اور زہاد خراسان میں نمودار ہوئے۔

815ء میں اسکندریہ میں صوفیا کی ایک جماعت دکھائی دینے لگی جن کے رئیس عبد الرحمن صوفی تھے۔ ذوالنون مصری (متوفیٰ 861ء) نے سب سے پہلے معرفت کا تصور مسلمانوں کے تصوف میں داخل کیا۔ انہوں نے اور رابعہ بصری نے اپنے اشعار میں پر جوش عشق حقیقی کا اظہار کیا ہے۔ ابو سعید الخزاز البغدادی (متوفیٰ 890ء)، ذوالنون مصری کے مرید تھے۔ انہوں نے فنافی اللہ کا جو نظریہ پیش کیا وہ واضح طور پر قدیم عارفیوں اور نواشراقیوں سے ماخوذ ہے۔ مصر کی یہ روایت بغداد اور بصرہ میں بڑی مقبول ہوئی۔

خراسان کے مکتب تصوف کا آغاز ابراہیم بن ادھم سے ہوا۔ اس مسلک کی اشاعت میں ان کے مرید شفیق بلخی (متوفیٰ 810ء) پیش پیش تھے۔ مکتب خراسان کے صوفیا نے جس زاویہ نشینی، ذکر و فکر اور تجرد گزینی کی تبلیغ کی وہ صدیوں سے خراسان کے بدھوں کے توسط سے رواج پا چکی تھی۔ مسلمانوں کے تصوف میں ان دونوں روایتوں کا امتزاج عمل میں آیا ہے۔

فضیل بن عیاض (متوفیٰ 883ء) مرو کے رہنے والے تھے۔ ان کا ارشاد ہے:

”مجھے خدا سے عشق ہے اس لیے میں اس کی عبادت کرتا ہوں۔“

احمد بن خضرویہ بلخ کے باشندے تھے۔ کہتے ہیں:

”اپنی روح کو فنا کرو تا کہ وہ زندگی کو پا لے۔“

ابوالحسن نوری خراسانی (متوفیٰ 907ء) فرماتے ہیں:

”تصوف ہے ہی دنیا سے دشمنی اور خدا سے دوستی۔“

یحییٰ بن معاذ بلخی کا قول ہے:

”زاہد اس جہان کے لذات کو ترک کر دیتا ہے۔ صوفی آخرت کے لذات کو بھی خیر آباد کہہ دیتا ہے۔“

بایزید بسطامی خراسانی فرماتے ہیں:

”میرے جبے کے نیچے خدا ہے۔ میں ہی ساقی ہوں، میں ہی پیالہ ہوں، میں ہی مے خوار ہوں۔“

اور

”میں خدا کی طرف گیا۔ میرے اندرون سے آواز آئی، اوتم میں۔“

سبحانی ما اعظم شانی: ”میں پاک ہوں، میری شان کس قدر عظیم ہے۔“

جنید نہاوندی کا ارشاد ہے:

”تیس برس تک خدا جنید کی زبان سے بولتا رہا اور کسی کو خبر نہ ہوئی۔“

”صوفی ظاہر میں انسان ہے باطن میں خدا ہے۔“

ابو بکر شبلی خراسانی کہتے ہیں:

”تصوف حواس پر قابو پانے اور حبس دم کا نام ہے۔“

”صوفی دنیا میں ایسے رہے جیسے وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔“

ان کے خیال میں جہنم اللہ تعالیٰ کا فراق ہے اور جنت اس کے دیدار کا نام ہے۔ مشہور صوفی شاعر جلال الدین رومی کہتے ہیں:

با مریداں آں فقیر محتشم!!
بایزید آمد که نک یزداں منم
گفت مستانہ عیاں آں ذوفنون
لا الله الا انا ہا فاعبدون

ترجمہ: ”وہ پر شوکت فقیر بایزید اپنے مریدوں کے سامنے آئے اور بولے دیکھو میں خدا ہوں۔ اس با کمال نے مستانہ وار کہا کوئی معبود نہیں مگر میں۔ پس میری عبادت کرو۔“

رومی تنزل و صعود اور فنا فی اللہ کا نظریہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔

صد ہزاراں حشر دیدی اے عنود
تاکنون ہر لحظہ از بدو وجود
از جمادی بے خبر سوئے نما
وزنمائے سوئے حیات و ابتلا
باز سوئے عقل و تغیرات خویش
باز سوئے خارج این پنج و شش
تالب بحر ایں نشان پایماست
پس نشان پا درون بحر لاست

ترجمہ: ”اے سرکش تو نے اپنے آغاز و پیدائش سے اب تک لاکھوں حشر دیکھے ہیں۔ تو جمادات سے نما کی طرف آیا۔ نما سے حیواناتی زندگی اور پھر انسانی آزمائش میں پڑا۔ پھر عقل و تمیز کی طرف۔ اس کے بعد حواس خمسہ اور جہات ستہ سے نکل کر مقام حقیقت پر فائز ہوا۔ ان وجودی تغیرات کے نشاناتِ پا کنارِ دریا تک ہیں۔ اور ذات باری تعالی کے سمندر میں داخل ہو کر یہ نشانِ پا معدوم ہو گئے۔“

فلاطینوس کی عقل اور روح کا جنہیں بعد میں عقلِ اول، عقلِ فعال، روحِ عالم، عقلِ کُل، نفسِ کُل کے نام دیئے گئے، ان الفاظ میں ذکر کرتے ہیں۔

عقلِ کُل و نفسِ کُل مرد خداست
عرش و کرسی رامدان از وی جداست
عقلِ جزوی عقل را بد نام کرد
کام دنیا اوئے را نا کام کرد

روحِ انسانی مادی علائق کی اسیر ہو کر اپنے اصل مبداء کو بھول جاتی ہے۔

سالہا ہم صحبتی و ہمدمی
با عناصر داشت جسم آدمی
روح او خود از نفوس و از عقول
روح اصل خویش را کرده نقول

از نفوس و از عقول با صفا
نامہ می آید بجان کاے باوفا
یارگان پنج روزه یافتی
روز یاران کہن بر تافتی

ترجمہ: ”آدمی کا جسم برسوں عناصر کے ساتھ صحبت و رفاقت رکھتا ہے۔ اس کی روح خود عالم نفوس و عقول سے ہے مگر اپنے اصل سے اعراض کئے ہوئے ہے۔ ان پاک نفوس اور عقول کی طرف سے روح کی طرف نامہ و پیام آتا ہے کہ اے بے وفا تو نے دنیا میں پانچ دن کے یار پا لئے ہیں۔ ان میں مل کر پرانے یاروں سے رخ پھیر لیا ہے۔“

تمام حسن و جمال محبوبِ ازلی کے حسن ہی کا عکس ہے۔

خوب رویاں آئینہ خوبی او
عشق ایشان عکس مطلوبی او
ہم باصل خود رود این خدوخال
دائما در آب کے ماند خیال
جملہ تصویر است عکس آبِ جوست
چوں بماں چشم خود خود جملہ اوست

ترجمہ: ”تمام حسین اس کے حسن کے آئینے ہیں۔ ان کی معشوقی، اس کی مطلوبی کا عکس ہے۔ یہ عکس ہیں، وہ اصل ہے۔ یہ سب خدو خال اپنے اصل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ ہمیشہ پانی میں عکس کب رہتا ہے۔ یہ مظاہر کی سب صورتیں آبِ جو کے عکس ہیں۔ اگر تم اپنی آنکھ ملو تو معلوم ہو کہ سب وہی خود ہے۔“

رومی کے علاوہ عراقی، سنائی، عطار اور جامی نے بھی فصل و جذب اور ہمہ اوست کے ان نواشراقی افکار کو شاعری کے روپ میں پیش کیا ہے۔

حسین بن منصور حلاج (858ء تا 922ء) نے حلول یا اوتار کا نظریہ تصوف میں شامل کیا۔ کتاب الطواسین میں وہ ناسوت، ملکوت، جبروت، لاہوت اور ہاہوت کے عوالم کا ذکر کرتے ہیں۔ ناسوت تاریکی کا عالم ہے جس میں انسان بستے ہیں۔ ملکوت فرشتوں کا مسکن ہے۔ جبروت میں نور جلال جلوہ فگن ہے۔ لاہوت نورِ جمال کی منزل ہے اور ہاہوت خاص حق کا مقام ہے۔ حلاج کہتے ہیں کہ ھو ھو (روحِ یزدانی جو جناب رسالت مآب ؐ میں ظاہر ہوئی) تکوینِ عالم اور تخلیقِ آدم سے پہلے موجود تھی۔ منصور کے اشعار میں سریان اور حلول کے مضامین ملتے ہیں۔ کہتے ہیں۔

سبحان من اظهر ناسوته
سوسنا لا هوته الثاقب
ثم بداني خلعة ظاهراً
في صورة الاكل والشارب
حتى تعد عانيه خلقه
كلخطة الحاجب بالحاحب

ترجمہ: ”کیا پاک وہ ذات جس نے ناسوت میں اپنے چمکتے ہوئے لاہوت کو ظاہر کیا۔ پھر اپنی مخلوق میں کھانے پینے والوں کی شکل میں ظاہر ہو گیا۔ یہاں تک کہ اس کی مخلوق نے صاف صاف اس کا معائنہ کیا۔“

ایک شعر میں کہا ہے:

بینی و بینک انی الیازعنی
فارفع بلطفک اني من البين

ترجمہ: ”میرے اور تیرے درمیان ‘مَیں’ حائل ہو کر جھگڑ رہا ہے۔ اپنے لطف و کرم سے اس مَیں کو درمیان سے نکال دے۔“

آخر ”میں“ کا پردہ اٹھ گیا۔ حلاج نے ”انا الحق“ کا نعرہ بلند کیا اور سولی پر گاڑ دیئے گئے۔

شیخ اکبر محی الدین ابن عربی نے اپنی مشہور کتاب فصوص الحکم میں وحدت الوجود یا ہمہ اوست کو نہایت شرح وبسط سے پیش کیا ہے۔ وہ منطقی استدلال کے ساتھ کشف و اشراق کو بھی بروئے کار لاتے ہیں۔ اپنی قطبیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”جب اللہ تعالیٰ نے آدم ؑ سے لے کر محمد ؐ تک تمام انبیاء اور رسل کے ذوات مجھے دکھا دیئے تو میں ایک مقام و مشہد میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ واقعه شہر قرطبہ میں 586 ہجری میں ہوا۔ اس جماعتِ انبیاء میں سے کسی نے مجھ سے گفتگو نہیں کی مگر ہود ؑ نے، ہود ؑ نے تمام انبیاء کے جمع ہونے کی وجہ بیان کی کہ شیخ ابن العربی کو قطبیت کی مبارک باد دیں۔“ (فصوص الحکم، فص ہودیہ)

اسی طرح ایک مکاشفے کا بیان یوں کرتے ہیں کہ میں نے حالت کشف میں دیکھا کہ کتاب فصوص الحکم رسولِ خدا ؐ نے مجھے دی اور اسے ظاہر کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔

برسبیل تذکرہ شیخ احمد سرہندی نے شیخِ اکبر کے ہمہ اوست کی تردید کی تو انہوں نے بھی یہ دعویٰ کیا کہ حالت کشف میں اُن پر یہ حقیقت القا ہوئی تھی کہ ہمہ اوست غلط نظریہ ہے۔ اس بات کا فیصلہ کون کر سکتا ہے کہ دونوں بزرگوں میں سے کس کا کشف صحیح تھا؟

بہر حال شیخ اکبر کے نظریہ وحدت الوجود کا حاصل یہ ہے کہ موجود بالذات خدا کے سوا کوئی نہیں۔ سب ماسوا اللہ موجود بالعرض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صفات ذات کی عین ہیں۔ کائنات صفات کی تجلی ہے۔ اس لیے کائنات بھی عین ذات ہے۔ آسان زبان میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ کائنات سے علیحدہ خدا کا وجود نہیں ہے۔ ابنِ عربی رب اور بندے کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں سمجھتے۔ فتوحاتِ مکیہ کے ابتدائی اشعار میں فرماتے ہیں:

الرب حق والعبد حق
ياليت شعر من المكلف
ان قلت عبد فذاك ربا
او قلت رب اني يكلف

ترجمہ: ”رب بھی خدا ہے اور بندہ بھی خدا ہے۔ پھر مکلف کون رہا؟ کوئی بھی نہیں۔ اگر تم کہتے ہو عبد تو وہی رب بھی ہے۔ جسے تم رب کہتے ہو وہ مکلف کیسے ہو گا؟“

اس عقیدے کی رو سے تکالیفِ شرعی ساقط ہو جاتی ہیں۔ ابن عربی نے علمائے ظاہر کے خوف سے جابجا مذہبی زبان میں اپنے عقائد کو پیش کیا ہے اور ان کی تشریح میں قرآنی آیات بھی لکھ گئے ہیں۔ لیکن ان کے اصل عقائد چھپے نہ رہ سکے اور علماء نے سخت گرفت کی۔ ابنِ تیمیہ نے وحدتِ وجود کو صریح کفر و زندقہ قرار دیا۔ اس موضوع پر انہوں نے ایک رسالہ تالیف کیا جس کا نام ”حقیقت مذہب الاتحادیین“ ہے۔ اس میں صاف صاف لکھتے ہیں کہ ابنِ عربی کا نظریہ وحدت الوجود کفر ہے اور ابنِ عربی کا یہ کہنا کہ وجود عین وجود خالق ہے اور وجود عین اعتبار سے واحد ہے کھلا ہوا الحاد ہے۔

ابنِ عربی نے وہ نتائج قبول کر لئے جو ان کی سریانی الٰہیات سے متبادر ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کائنات کا نہ کوئی آغاز ہے نہ انجام ہوگا۔ وہ عدم سے وجود میں آنے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ زندگی کو فریب ادراک مانتے ہیں اور ایسے شخصی خدا کے قائل نہیں ہیں جو عالمِ مادی سے علیحدہ موجود ہو اور اس کی تنظیم کر رہا ہو۔ وہ لا الہ الا اللہ کی بجائے لا موجود الا اللہ کہتے ہیں۔

شیخِ اکبر نے نواشراقیوں کا صدور یا تجلی کا نظریہ پیش نہیں کیا۔ لیکن ان کے اعیانِ ثابتہ افلاطون کے امثال ہی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں۔ ابنِ عربی کے خیال میں اعیان‌ِ ثابتہ حقیقتِ مطلق اور عالمِ ظواہر کے درمیان ضروری واسطے ہیں جنہیں وہ مفاتیح الغیب بھی کہتے ہیں۔

شیخِ اکبر نے حقیقتِ محمدیہ کے تصور کی شکل میں فلاسفہ یونان کا لوگس کا مشہور و معروف نظریہ پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ ان کی حقیقتِ محمدیہ جناب رسالت مآب ؐ کی شخصیت نہیں ہے بلکہ یزدانی قوت ہے جو تکوینِ عالم اور تخلیقِ آدم کا باعث ہوئی ہے۔ اور حلاج کے ھو ھو سے ملتی جلتی ہے۔ ابن عربی کے روحانی شاگرد مولانا روم جناب رسالت مآب ؐ کی زبانی فرماتے ہیں:

نقش تن را نا فتاد از بام طشت
پیش چشمم کل آت آت گشت
بنگرم در غوره می بینم عیاں
بنگرم در نیست شے بینم عیاں
بنگرم سر عالمی بینم نہاں
آدم و حوا نرستہ از جہاں
من شما را وقت ذرات الست
دیدہ ام پابستہ و منکوس واست
از حدوث آسمان بے عمد
آنچہ دانستہ بدم افزون نشد
من شما را سرنگوں مے دیدہ ام
پیش ازان کز آب و گل بالیده ام

ترجمہ: ”انسانی وجود کی صورت ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی کہ میری آنکھ کے سامنے ہر وجود میں آنے والی شے موجود ہو گئی۔ کچے انگوروں پر نظر کرتا ہوں تو ان کے اندر صاف طور سے شراب دیکھ لیتا ہوں۔ میں معدوم کے اندر نگاہ ڈالتا ہوں تو شے کو صاف موجود پاتا ہوں۔ میں بعید کی بات پر نگاہ ڈالتا ہوں اور اس وقت ایک مخفی عالم کو دیکھ رہا ہوں جب کہ آدم اور حوا جہان میں پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔ میں نے تم کو الست کے دن یعنی یوم میثاق میں ذرات کی سی مخلوق ہونے کے وقت سے قیدی اور سرنگوں اور مغلوب دیکھا ہے۔ جو کچھ مجھے مخلوقات کے ظہور سے پہلے معلوم ہو چکا تھا۔ اس بے ستون آسمان کے پیدا ہونے سے اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا۔ جو کچھ اب موجود ہے وہی مجھے پہلے سے معلوم تھا۔ قبل اس کے کہ میں آب و گل سے پیدا ہوا میں نے تم کو قید میں سرنگوں دیکھا۔“

ایک اور جگہ جناب رسالت مآب ؐ ہی کی زبانی فرماتے ہیں:

گر بصورت من ز آدم زاده ام
من زمعنی جد جد افتاده ام
کز برائے من بدش سجدہ ملک
وز پے من رفت بر ہفتم فلک
پس زمن زائید در معنی پدر
پس زمیوه زاد در معنی شجر
اول فکر آخر آمد در عمل
خاصہ فکرے کاں بود وصف ازل

ترجمہ: ”اگرچہ بظاہر میں آدم سے پیدا ہوں لیکن حقیقت میں دادے کا دادا ہوں کیوں کہ میرے لیے ہی ان کو فرشتوں نے سجدہ کیا اور میرے لیے ہی وہ ساتویں آسمان پر گئے۔ پس حقیقت میں باپ مجھ سے پیدا ہوا۔ پس حقیقت میں درخت میوے سے پیدا ہوا۔ تجوتیر میں آنے والی چیز وجود میں پیچھے آتی ہے۔ خصوصاً وہ چیز جو ازل صفت ہو۔“

ابنِ عربی کی حقیقتِ محمدیہ، جو ازلی و ابدی قوتِ یزدانی ہے، مولانا روم کے افکار میں شخصیت کی صورت میں نمودار ہوگئی ہے۔ ابن عربی نے حقیقتِ محمدیہ کو حقیقت الحقائق، عقلِ اول، العرش، قلم الاعلیٰ، انسانِ کامل، اصول العالم، آدمِ حقیقی، البرزخ، اکہیولا اور قطب الاقطاب کے نام بھی دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق حقیقتِ محمدیہ کائنات کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی تخلیقی قوت بھی یہی ہے۔ الحق المخلوق به

عیسائیوں نے جناب عیسی ابن مریم ؑ کو کلمہ (لوگس کا لغوی معنی کلمہ ہی ہے) کہا اور انہیں الوہیت کا جامہ پہنا دیا۔ ابنِ عربی نے حقیقتِ محمدیہ کی صورت میں لوگس کا تصور پیش کیا۔ بعد میں الجیلی کے انسانِ کامل اور مجددیہ کے قیم (جو کائنات کو قائم رکھے ہوئے ہے) کی صورت میں یہ تصور قائم و برقرار رہا۔

ابنِ عربی پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ابلیس اور فرعون کو اپنے استاد مانتے تھے۔ ان کے خیال میں ابلیس کی نافرمانی فی الاصل خدا کی فرماں داری تھی کہ اس نے غیر اللہ کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا عقیدہ تھا کہ فرعون نجات پائے گا۔

وہ جنت اور دوزخ کے معروف عقیدے کے بھی قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ جنت سے مراد یہ ہے کہ جس میں تمام کثرت چھپ جائے گی۔ اسی طرح وہ وحی اور الہام کو تخیل کی کارفرمائی سمجھتے ہیں اور افلاطون کے خیرِ محض، فلاطینوس کی ذاتِ بحت اور اسلام کے اللہ کو مترادفات مانتے ہیں۔ فلاسفہ یونان کی حقیقتِ کبریٰ کو انہوں نے الوجود المطلق اور الوجود الکلی کے نام دیئے ہیں۔

ابنِ عربی تصوف و عرفان کے سب سے بڑے مفکر اور محقق تھے۔ ان کی تعلیمات کے اثرات ہمہ گیر اور دور رس ہوئے۔ صدر الدین قونوی، عراقی، ابن الفارض، عبدالکریم الجیلی اور مولانا روم نے وحدت الوجود کی تبلیغ بڑے جوش و خروش سے کی اور دنیائے تصوف میں اس نظریئے کو بے پناہ رواج و قبول حاصل ہوا۔

غزالی نے تصوف کو شریعت میں ممزوج کر دیا۔ جس سے اہلِ ظاہر نے بھی اس کی مخالفت ترک کر دی۔ بارہویں صدی عیسوی میں صوفیہ کے معروف حلقے قادریہ، سہروردیہ، مولویہ، چشتیہ، نقشبندیہ وغیرہ قائم ہو گئے۔ فارسی کے شعرا نے عشقِ مجازی کے پیرائے میں عشق حقیقی کا ذکر اس لطافت اور ندرت سے کیا کہ تصوف کے افکار نے عوام کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا۔ چودھویں صدی میں تصوف ہر کہیں رائج ہو گیا۔

سریان و اتحاد کی دوسری معروف روایت ہندوستان سے شروع ہوئی تھی۔ یہ روایت پریشان افکار کی صورت میں اپنشدوں میں موجود تھی۔ بعد میں ویدانتوں نے اسے نظامِ فکر بنا دیا۔ چھاند وگیہ اپنشد میں ہے:

”یہ تمام کائنات بالجوہر وہ ہے، وہ صداقت ہے، وہ آقا ہے اور وہ تو ہے۔“

اپنشدوں کی تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ برہمن (روح کائنات) اور آتما (انسانی روح) واحد الاصل ہیں۔ برہمن سے کائنات کے صدور کو فلاطینوس کی طرح استعاروں کی صورت میں واضح کیا گیا ہے۔ کائنات برہمن سے اس طرح صادر ہوئی جیسے مکڑی سے جالا یا سورج سے شعاعیں صادر ہوتی ہیں۔ لفظ برہمن برہ سے مشتق ہے جس کا معنیٰ ہے پھیلنا، نشو و نما پانا۔ گویا وہ حقیقتِ کبریٰ جو پھیلتی ہے وہ ہر کہیں محیط ہے۔

آتما کا لغوی معنی جیسا کہ رگ وید میں آیا ہے، ہوا کے جھونکے پھیلنے یا سانس لینے کا ہے۔ اس طرح برہمن اور آتما نوعی لحاظ سے ایک ہی وجود کے دو پہلو ہیں۔ آتما بر ہمن ہے برہمن آتما ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آتما موضوع اور برہمن معروض ہے۔ مایا یا اودّیا (جہالت) کا تصور اپنشدوں میں جا بجا ملتا ہے۔ چھاند وگیہ اپنشد کے باب پنجم میں عالمِ کثرت کو غیر حقیقی قرار دیا گیا ہے۔ شوتیا شوتر اپنشد میں پہلے پہل اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ مادی دنیا فریبِ نگاہ ہے جسے برہمن نے مداری کے کھیل کی طرح ہماری نظروں کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔

یاد رہے کہ اپنشدوں کا برہمن ہندومت کے شخصی خدا ایشور سے مختلف ہے۔ جیسے فلاطینوس کی ذاتِ بحت عیسائیوں کے خدا سے یا ابنِ عربی کا وجودِ مطلق مسلمانوں کے شخصی خدا سے مختلف ہے۔ اسے نرگن نرا کار (بے چون و بے چگوں) اور انتریامی (کائنات میں طاری و ساری) کہا گیا ہے۔ اس کی تعریف ممکن نہیں ہے۔ کوئی اس کی ماہیت کے متعلق سوال پوچھے تو جواب ہوگا نیتی نیتی (وہ یہ نہیں، وہ یہ بھی نہیں)۔ اپنشدوں کی تعلیم کی رو سے ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ جیو آتما (انفرادی روح) کا انکشاف کرے (معرفت نفس حاصل کرے) اور پھر اسے اپنے اصل ماخذ برہمن میں فنا کر دے۔

ویدانت سوتر میں اپنشدوں کی تعلیمات مرتب و مدون صورت میں پیش کی گئی ہیں۔ ویدانت کو برہما میمانسا (برہمن سے متعلق تحقیق)، ادویت داد (احدیت کا نظریہ)، برہم سوتر (برہم یا برہمن کا نظریہ) بھی کہا جاتا ہے۔ اور ویدانت سوتر کو ویاس جی اور باوارائن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کی ترجمانی شنکر اور رامانج نے اپنے اپنے نقطہ نظر سے کی ہے۔ شنکر کی ترجمانی سریانی اتحادی ہے اور رامانج کی ترجمانی میں وحدانیت کا رنگ پایا جاتا ہے۔

ویدانت سوتر کے چار باب ہیں جن میں برہم ودیا (برہمن کی معرفت کا علم) کے حصول کے طریقے بتائے گئے ہیں۔ اس کی رو سے برہمن تمام کائنات میں طاری و ساری ہے۔ وہ عالم کی مادی علت بھی ہے اور فاعلی بھی۔ کائنات برہمن اور برہمن کائنات ہے۔ کائنات برہمن سے ایسے پیدا ہوئی جیسے آگ سے حرارت پیدا ہوتی ہے۔ تکوین عالم خود برہمن کی اپنی ذات کے اندرون سے ہوئی، جیسے حرارت آگ کے اندرون سے پیدا ہوتی ہے۔ ظاہری عالم مایا ہے، فریب ادراک ہے۔ نمود بے بود ہے، سراب ہے۔

ترشنا (پیاس، خواہش) کے تحت روح سمجھتی ہے کہ وہ اس کا ادراک کر سکتی ہے۔ لیکن یہ اودّیا (جہالت) کا نتیجہ ہے۔ حقیقت معلوم ہونے پر فریب ادراک رفع ہو جاتا ہے۔ حسیات غلط فہمیوں کا باعث ہوتی ہیں اور رسی کو سانپ سمجھ لیتی ہیں۔

شنکر گووند کا شاگرد تھا۔ اس کی اودیتا (دو نہ ہونا) یا احدیت (Monism) منطقی استدلال پر مبنی ہے۔ شنکر نے مایا کے تصور کو ویدانت کا اصل اصول قرار دیا اور کہا کہ اودّیا کے باعث آتما سنسار چکر میں پھنس جاتی ہے اور دکھ بھوگتی ہے۔ اودّیا کو دور کرنے سے وہ دکھ سے نجات پا لیتی ہے۔ اس کے خیال میں وہی شخص نجات (موکش) پر قادر ہو سکتا ہے جو برہمن اور آتما کی وحدت نوعی کا عرفان حاصل کر لیتا ہے۔ انفرادیت کرم (عمل) کا ثمرہ ہے اور کرم اودّیا (جہالت) کا حاصل ہے۔ ظواہر عالم ہمارے فریب حواس کی تخلیق ہیں۔ موکش آتما کو برہمن سے متحد کرنے ہی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے ترک علائق، زاویہ نشینی اور رہبانیت ضروری ہے اور عقلی استدلال کی بجائے دھیان (مراقبہ) زیادہ مفید مطلب ثابت ہوتا ہے۔ جس شخص پر یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ تمت توم اسی (تو وہ ہے) وہ جان لیتا ہے کہ اہم برہم اسی (میں خدا ہوں) اور اسے تمکین (شانتی) میسر آ جاتی ہے۔ یہ اودیتیم یا کامل احدیث ہے۔

ہندوستان کے صوفیہ پر ویدانت کے گہرے اثرات ہوئے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مقبولیت صوفیہ چشتیہ کی تعلیمات کو ہوئی کیوں کہ ان کے وحدۃ الوجود اور ویدانت کے اودیتم اساسی طور پر ایک تھے۔ البیرونی نے اس فکری وحدت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ دارا شکوہ نے اپنشدوں کا ترجمہ فارسی زبان میں کرایا اور وجودی عقائد کی تطبیق اودیتم سے کرنے کی کوشش کی۔ شستری اس تاثیر و تاثر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ویدانت اور تصوف میں مندرجہ ذیل باتوں کا اشتراک ہے:

1۔ دونوں حبس دم (پرانا یام) کرتے ہیں۔
2۔ دونوں دھیان (مراقبہ) کرتے ہیں۔
3۔ دونوں گرو (مرشد) کی خدمت کو اہم سمجھتے ہیں۔
4۔ دونوں تپ (ریاضت) اور فاقہ کرتے ہیں۔
5۔ دونوں مالا (تسبیح) جپتے ہیں اور ذکر اذکار میں محو رہتے ہیں۔
6۔ دونوں انسانی آتما (روح) کے برہمن (وجود مطلق) میں جذب و اتحاد کے قائل ہیں۔
7۔ دونوں دوسرے مذاہب کے پیروؤں سے رواداری کا سلوک کرتے ہیں۔

بھگتی کی تحریک صوفیہ اور ویدانتوں کے اشتراکِ احساس و فکر کا سب سے روشن ثبوت ہے۔ بھگتی (عشقِ حقیقی) کی اس تحریک نے گووند، سورداس، میراں، چنڈی داس وغیرہ کی شاعری کو ذوقی فیضان بخشا تھا۔

بھگت شاعروں کے کلام میں رادھا (آتما) جس وارفتگی اور سپردگی سے کرشن (برہمن) کے گیت گاتی ہے اسی والہانہ اضطراب سے خواجہ غلام فرید کی کافیوں میں سسی (روح) اپنے پنوں (محبوبِ ازلی) کے فراق میں نالہ کناں ہے۔

تصریحات مندرجہ بالا کا حاصل یہ ہے کہ صوفیہ نے فلاسفۂ یونان سے لوگس کا تصور لیا جو منصور حلاج کے هُوَ هُوَ، ابن عربی کی حقیقتِ محمدیہ، قطب الاقطاب، الجيلی کے انسانِ کامل اور مجددیہ کے قیم کی صورت میں بار بار ابھرتا رہا۔ پارمی نائدیس کا وجود اور افلاطون کی حقیقی اور ظاہری عالم کی دوئی، حسنِ ازل اور عشقِ حقیقی کا تصور، فیثاغورس کا مادے کو شر کا مبداء سمجھنے کا خیال، نواشراقیت (neoplatonism) کے واسطے سے تصوف میں داخل ہوا۔ فلاطینوس (Plotinus) سے کامل احدیت، فصل و جذب، تجلی و اشراق، عقول و نفوس، تنزل و صعود، اشراق و کشف اور عقل پر وجدان کی فوقیت کے تصورات لیے گئے۔ مجوسیوں کا نظریۂ نور شیخ الاشراق کے واسطے سے تصوف میں شامل ہوا۔ بدھ مت اور مانویت سے رہبانیت، زاویہ نشینی، نفس کشی، نفی خودی، قبر پرستی، تبرکات پرستی، گرو اور چیلے کا ادارہ اور مالا جپنے کا طریقہ لیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ تصوف کی الٰہیات و اخلاقیات اور مذہب کی الٰہیات و اخلاقیات میں کیا فرق ہے۔ یاد رہے کہ اخلاقیات لازماً متعلقہ الٰہیات ہی سے متفرع ہوتی ہے۔

تصوف کی الٰہیات و اخلاقیات مذہب کی الٰہیات و اخلاقیات
1۔ ذاتِ بحت، برہمن، حقیقتِ کبریٰ یا تاؤ کائنات میں طاری و ساری ہے۔ اسے کائنات سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ 1۔ خدا، یہواہ، ایشور یا شان گنی کائنات سے ماوراء ہے، علیحدہ ہے۔
2۔ ذاتِ بحت غیر شخصی ہے۔ 2۔ خدا شخصی ہے۔
3۔ کائنات کا ذاتِ بحت سے اس طرح صدور ہوا جیسے آفتاب سے شعاعیں صادر ہوتی ہیں۔ 3۔ خدا نے کائنات کو عدم سے تخلیق کیا۔
4۔ ماده ذاتِ بحت سے علیحدہ موجود نہیں ہے۔ 4۔ مادہ خدا سے علیحدہ موجود ہے۔
5- روحِ انسانی یا آتما، برہمن یا روحِ کل کا جزو ہے جو مادے کی قید میں اسیر ہے۔ وہ معرفتِ نفس حاصل کر کے دوبارہ اپنے ماخذِ حقیقی میں جذب ہو جاتی ہے۔ 5۔ روحِ انسانی خدا کی مخلوق ہے۔ موت کے بعد روح اپنا مستقل وجود برقرار رکھتی ہے۔
6۔ جنت دوزخ یا سورگ اور نرک مذہبی مفہوم میں موجود نہیں ہے۔ انسانی روح کا ارتقاء فنا فی اللہ پر ختم ہو جاتا ہے۔ 6۔ جنت دوزخ ظاہری مفہوم میں موجود ہیں۔ انسان اپنے اعمال کی رعایت سے ان میں جائے گا۔
7۔ ماده شر کا مبداء ہے اس لیے طالبِ حق تمام مادی اشیاء سے نفور ہوتا ہے۔ 7- ماده شر کا ماخذ نہیں ہے۔ مادی لذائذ سے متمتع ہونا جائز ہے۔
8۔ حقیقت باطنی ہے، اہلِ ظاہر اسے نہیں پا سکتے۔ 8۔ شریعت ظاہر ہے اس کا کوئی باطن نہیں ہے۔
9۔ انسان مجبور محض ہے۔ 9۔ انسان فاعلِ مختار ہے۔ اسی قدر و اختیار کے باعث وہ سزا و جزا کا مستحق و مستوجب ہوتا ہے۔
10۔ حسنِ ازل سے عشق کر کے انسان نفی خودی اور فنا فی المحبوب پر قادر ہوتا ہے۔ 10۔ نیک اعمال کے لیے خوفِ خدا ضروری ہے۔ خدا کو انسان کی اطاعت اور بندگی چاہئے، وہ اس کے عشق سے بے نیاز ہے۔
11۔ وقت کی گردش دو لابی ہے۔ کائنات کا نہ آغاز ہے نہ انجام ہوگا۔ 11۔ وقت کی حرکت مستقیم ہے۔ کائنات کا آغاز بھی ہوا اور انجام بھی ہوگا۔
12۔ انسانی کوششوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ روح کو مادے کے شر اور آلودگی سے نجات دلائے۔ اس کے لیے نفی خودی، نفس کشی، فاقہ، مراقبہ، استغراق اور تزکیہ نفس ضروری ہیں۔ پاک باطن کے بغیر ظاہری اعمال بے مصرف ہیں۔ 12۔ انسانی کوششوں کا مقصد واحد یہ ہے کہ شرعی احکام کی پابندی کر کے خدا کی رضا حاصل کی جائے تا کہ موت کے بعد جنت یا سورگ میسر آ جائے۔ جو شخص شرعی احکام کی ظاہری پابندی کرتا ہے وہ نیک ہے اور نجات کا مستحق ہے۔ ظاہری نیک اعمال داخلی نیکی کے شواہد ہیں۔

ظاہر ہے کہ مذہب کی الٰہیات و اخلاقیات اور تصوف کی الٰہیات و اخلاقیات میں بعد المشرقین ہے۔ تصوف ایک مستقل نظام فکر و عمل ہے جسے مذہب کا جز نہیں سمجھا جا سکتا۔ نظرِ غور سے دیکھا جائے تو مفہوم ہوگا کہ تصوف مذہب سے زیادہ فلسفے سے قرین ہے۔ وجودِ مطلق اور ذاتِ بحت کے تصورات یونانی مثالیت سے ماخوذ ہیں۔ مثالیت پسندوں اور صوفیوں میں شروع ہی سے اتحادِ فکر و نظر رہا ہے۔ دونوں میں فرق محض یہ ہے کہ مثالیت سراسر نظریاتی اور عقلیاتی ہے جس میں وجودِ مطلق کے اثبات کے لیے منطقی دلائل دیئے جاتے ہیں۔ جب کہ تصوف ذاتِ احد یا وجودِ مطلق کے ساتھ ذوقی و قلبی اتحاد و اتصال قائم کرنے کا نام ہے۔ فیثاغورس، پارمی نائدیس اور افلاطون سے لے کر لائب نٹز، شوپنہائر، شیلنگ، ہیگل، برگساں اور وائٹ ہیڈ تک مثالیت پسندوں نے کسی نہ کسی صورت میں کائنات کو باشعور مانا ہے۔ اور اس شعور کو سریانی سمجھا ہے۔ صوفیہ بھی اسی ہمہ گیر کائناتی شعور میں کھو جانے کی کوششیں کرتے رہے ہیں۔

منبع: سید علی عباس جلالپوری، ”عام فکری مغالطے“، صفحات 93 تا 118، تخلیقات، لاہور، 2013ء۔

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button