مراجع کے فتاویٰ

اعادۂ معدوم اور معادِ جسمانی پر فلاسفہ کی الجھنوں کا جواب – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی

421 ملاحظات

سوال: معاد جسمانی ہے یا روحانی؟

جواب: معادِ جسمانی سے مراد یہ نہیں ہے کہ روزِ قیامت صرف جسم دوبارہ لوٹایا جائے گا، بلکہ مراد یہ ہے کہ روح اور جسم دونوں حاضر کئے جائیں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جائے کہ روح کا پلٹنا تو مسلم ہے، صرف جسم کے بارے میں اختلاف اور بحث ہے۔

بعض گذشتہ فلاسفہ ”معادِ روحانی“ پر عقیدہ رکھتے تھے، اور جسم کو ایسی سواری مانتے تھے جو صرف اس دنیا میں انسان کے ساتھ ہے۔ اور انسان مرنے کے بعد اس جسم سے بے نیاز ہو جاتا ہے، جسم کو ترک کر دیتا ہے اور ”عالمِ ارواح“ کی طرف کوچ کر جاتا ہے۔ لیکن بزرگ علمائے اسلام کا عقیدہ یہ رہا ہے کہ معاد روحانی اور جسمانی دونوں پہلوؤں کے ساتھ ہو گی۔

اگرچہ بعض حضرات اس مادی جسم کے پلٹنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ خداوندِ عالم ہماری روح کو ایک (اخروی) جسم عطا کرے گا، کیونکہ انسان کی حقیقت اس کی روح ہوتی ہے اور یہ عطا کردہ جسم اس کا جسم شمار کیا جائے گا۔

جبکہ صاحبانِ تحقیق کا عقیدہ یہ ہے کہ یہی جسم جو خاک میں مل کر ذرہ ذرہ ہوگیا، حکمِ خدا سے اسی مادی جسم کے تمام خلیات جمع ہو جائیں گے اور اس کو ایک نئی زندگی کا لباس پہنایا جائے گا، اور یہی وہ عقیدہ ہے جو قرآنِ مجید کی آیات سے حاصل کیا گیا ہے۔

معادِ جسمانی پر قرآن مجید میں اس قدر شواہد موجود ہیں کہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ جو افراد صرف ”معادِ روحانی“ کے قائل ہوئے ہیں انہوں نے قرآن مجید کی اکثر آیات میں ذرا بھی غور و فکر نہیں کیا ہے۔ ورنہ معادِ جسمانی کے سلسلہ میں قرآن مجید میں اتنی زیادہ آیات موجود ہیں کہ شک و شبہہ کی ذرا بھی گنجائش نہیں رہتی۔

سورہ یٰس کی آخری آیات اس حقیقت کو مکمل طور پر واضح کر دیتی ہیں کیونکہ اس اعرابی شخص کو تعجب اسی بات پر تھا کہ میرے ہاتھ میں موجود اس سڑی ہوئی ہڈی کو کون دوبارہ زندہ کرسکتا ہے؟ قرآن مجید نے اس کے جواب میں واضح طور یہ اعلان کیا:

قُلْ یُحْیِیہَا الَّذِی اٴَنشَاٴَہَا اٴَوَّلَ مَرَّةٍ (سورہ یٰس، آیت ۷۹)

ترجمہ: ”آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے وہی زندہ بھی کرے گا۔“

معاد کے سلسلہ میں تمام مشرکین کو اس بات پر تعجب تھا کہ جب ہم خاک ہوجائیں گے اور ہمارے ذرات بھی اِدھر اُدھر خاک میں پھیل جائیں گے تو پھر ہمیں کس طرح دوبارہ زندہ کیا جاسکتا ہے؟ جیسا کہ انہیں کی زبانی قرآن مجید نے نقل کیا ہے:

وَقَالُوا ءِاذَا ضَلَلْنَا فِی الْاٴَرْضِ ءَاِنَّا لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ (سورہ حٰم سجدہ، آیت ۱۰)

ترجمہ: ”اور یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم زمین میں گم ہوگئے تو کیا نئی خلقت میں پھر ظاہر کئے جائیں گے؟“

یہ لوگ کہتے تھے:

اٴَیَعِدُکُمْ اٴَنَّکُمْ إِذَا مِتُّمْ وَکُنتُمْ تُرَابًا وَ عِظَامًا اٴَنَّکُمْ مُخْرَجُونَ (سورہ مؤمنون، آیت ۳۵)

ترجمہ: ”کیا یہ تم سے اس بات کا وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے اور خاک اور ہڈی ہو جاؤ گے تو پھر دوبارہ نکالے جاؤ گے؟“

کفار و مشرکین روزِ قیامت کے سلسلہ میں اس قدر تعجب کرتے تھے کہ اس عقیدہ کے قائلین کو مجنون یا خدا پر بہتان باندھنے والا سمجھتے تھے، جیسا کہ قرآن میں انہیں لوگوں کی زبانی نقل ہواہے:

وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا ہَلْ نَدُلُّکُمْ عَلَی رَجُلٍ یُنَبِّئُکُمْ إِذَا مُزِّقْتُمْ کُلَّ مُمَزَّقٍ إِنَّکُمْ لَفِی خَلْقٍ جَدِیدٍ (سورہ سباء، آیت ۷)

ترجمہ: ”اور کافر کہتے ہیں کیا ہم تمہیں وہ آدمی بتائیں جو تمہیں خبر دیتا ہے کہ جب تم پورے طور پر ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے تو پھر نئے سرے سے پیدا کئے جاؤ گے؟“

معاد کے سلسلہ میں قرآنی دلائل ”معادِ جسمانی“ پر زور دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ قرآنِ مجید نے بارہا اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ تم لوگ روزِ قیامت اپنی قبروں سے نکلو گے (سورہ یٰس، آیت نمبر ۵؛ سورہ قمر، آیت نمبر ۷)۔ ”قبریں“ اسی معادِ جسمانی سے تعلق رکھتی ہیں۔

قرآنِ مجید میں جنت کی بہت سی معنوی اور مادی صفات بیان کی گئی ہیں، جو سب اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ قیامت کے دن جسم کو بھی حاضر کیا جائے اور روح کو بھی، ورنہ نعمتوں کے ساتھ ساتھ حور و غلمان، قصر و محل، بہشتی غذائیں اور مادی لذتیں کیا معنی رکھتی ہیں؟

بہرحال یہ بات ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی قرآنِ مجید کی منطق اور ثقافت سے تھوڑی بہت آشنائی رکھتا ہو اور معادِ جسمانی کا انکار کرے۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ قرآنی فکر کے مطابق سے معادِ جسمانی کا انکار خود اصلِ معاد کے انکار کے برابر ہے۔

اس سلسلے میں قرآن و حدیث میں بیان شدہ دلائل کے علاوہ خود عقلی دلائل بھی موجود ہیں کہ اگر ان کو بیان کرنا چاہیں تو بحث طولانی ہو جائے گی۔ البتہ ہم یہاں پر معادِ جسمانی کے سلسلہ میں ہونے والے اعتراض کو بیان کرتے ہیں جسے ”شبہہ آکل و ماکول“ کہا جاتا ہے۔ (1)

سوال: شبہہ آکل و ماکول کیا ہے؟

جواب: بہت سے مفسرین اور مورخین نے درج ذیل آیت کی تفسیر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک واقعہ لکھا ہے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاہِیمُ رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی (سورہ بقرہ، آیت ۲۶۰)

ترجمہ: ”اور اس موقع کو یاد کرو جب ابراہیم نے التجا کی کہ پروردگار! مجھے یہ دکھادے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے“۔

ایک دن حضرت ابراہیم ؑ دریا کے کنارے سے گذر رہے تھے۔ آپ نے دریا کے کنارے ایک مردار دیکھا، جس کا کچھ حصہ دریا کے اندر اور کچھ باہر تھا۔ دریا اور خشکی کے جانور دونوں طرف سے اسے کھا رہے تھے۔ بلکہ کھاتے کھاتے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے۔

اس منظر نے حضرت ابراہیم ؑ کو ایک ایسے مسئلہ کی فکر میں ڈال دیا جس کی کیفیت کو سب ہی تفصیل سے جاننا چاہتے ہیں اور وہ موت کے بعد مردوں کا زندہ ہونے کی کیفیت ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ سوچنے لگے کہ اگر ایسا ہی انسانی جسم کے ساتھ ہو اور انسان کا بدن جانوروں کے بدن کا جز بن جائے تو اس کو قیامت میں کیسے اٹھایا جائے گا؟ جبکہ وہاں انسان کو اسی بدن کے ساتھ اٹھنا ہے۔

حضرت ابراہیم ؑ نے کہا: پروردگارا! مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ خداوندِ عالم نے فرمایا: کیا تم اس بات پر ایمان نہیں رکھتے؟ انھوں نے کہا: ایمان تو رکھتا ہوں لیکن چاہتا ہوں کہ دل کو تسلی ہو جائے۔

خداوندِ عالم نے حکم دیا کہ چار پرندے لے لو اور ان کو ذبح کر کے ان کا گوشت ایک دوسرے سے ملا دو۔ پھر اس مجموعی گوشت کے کئی حصے کر دو۔ ہر حصہ ایک الگ پہاڑ پر رکھ دو۔ اس کے بعد ان پرندوں کو پکارو تاکہ میدانِ حشر کا منظر دیکھ سکو۔

انہوں نے ایسا ہی کیا تو انتہائی حیرت کے ساتھ دیکھا کہ پرندوں کے اجزاء مختلف مقامات سے جمع ہو کر ان کے پاس آ گئے اور ان کی ایک نئی زندگی کا آغاز ہو گیا۔

شبہہ آکل و ماکول

مردوں کے زندہ ہونے کے منظر کا مشاہدہ کرنے کا تقاضا حضرت ابراہیم ؑ نے جس وجہ سے کیا تھا اس کی تفصیل بیان ہوچکی ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تقاضا زیادہ تر اس وجہ سے تھا کہ ایک جانور کا بدن دوسرے جانوروں کے بدن کا جزو بننے کے بعد وہ اپنی اصلی صورت میں کیسے پلٹ سکتا ہے؟ علمِ کلام میں اسی بحث کو ”شبہہ آکل و ماکول“ کہا جاتا ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ قیامت میں خدا انسان کو اسی مادی جسم کے ساتھ پلٹائے گا۔ اصطلاحی الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ جسم اور روح دونوں پلٹ آئیں گے۔ اس صورت میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر ایک انسان کا بدن خاک ہوجائے اور درختوں کی جڑوں کے ذریعہ کسی سبزی یا پھل کا جز بن جائے تو پھر کوئی دوسرا انسان اسے کھا لے۔ اور اب یہ اس کے بدن کا جز بن جائے۔

یا مثال کے طور پر قحط سالی میں ایک شخص دوسرے انسان کا گوشت کھا لے تو میدانِ حشر میں کھائے ہوئے اجزاء ان دونوں میں سے کس بدن کے جز بنیں گے؟ اگر پہلے بدن کا جز بنیں تو دوسرا بدن ناقص اور دوسرے کا بنیں تو پہلا ناقص رہ جائے گا۔

شبہے کا جواب

علمِ کلام کے علماء نے اس قدیم اعتراض کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ یہاں پر سب کے بارے میں گفتگو کرنا ضروری نہیں ہے۔ بعض علماء ایسے بھی ہیں جو قابل اطمینان جواب نہیں دے سکے۔ اس لئے انہیں معادِ جسمانی سے متعلق آیات کی توجیہ و تاویل کرنا پڑی اور انہوں نے انسان کی شخصیت کو روح اور روحانی صفات میں منحصر کر دیا۔

حالانکہ انسانی شخصیت صرف روح پر منحصر نہیں ہے اور نہ ہی معادِ جسمانی سے متعلق آیات ایسی ہیں کہ ان کی تاویل کی جا سکے۔ بلکہ جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ وہ کاملاً صریح آیات ہیں۔

بعض لوگ ایک ایسی معاد کے بھی قائل ہیں جو بظاہر جسمانی ہے لیکن معادِ روحانی سے اس کا کوئی خاص فرق بھی نہیں ہے۔

ہم یہاں قرآن کی آیات کے ذریعہ ایک ایسا واضح راستہ اختیار کریں گے جو دورِ حاضر کے علوم (سائنس) کی نظر میں بھی صحیح ہے۔ البتہ اس کی وضاحت کے لئے چند پہلوؤں سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

1: ہم جانتے ہیں کہ انسانی بدن کے خلئے (cells) بچپن سے لے کر موت تک بارہا بدلتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ دماغ کے خلئے اگرچہ تعداد کے لحاظ سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے، پھر بھی اجزاء کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ایک طرف سے وہ غذا حاصل کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی تحلیل ہوتی رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ایک مکمل تبدیلی واقع ہوجاتی ہے۔

خلاصہ یہ کہ دس سال سے کم عرصے میں انسانی بدن کے سابقہ خلیوں میں سے کچھ باقی نہیں رہ جاتا، لیکن توجہ رہے کہ پہلے خلئے جب موت کی وادی کی طرف روانہ ہوتے ہیں تو اپنے تمام خواص اور آثار نئے اور تازہ خلیوں کے سپرد کرجاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ انسانی جسم کے تمام خصوصیات رنگ اور شکل و صورت سے لے کر دیگر جسمانی کیفیات تک زمانہ گزرنے کے باوجود اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ پرانی صفات نئے خلیوں میں منتقل ہوجاتی ہیں۔ (غور کیجئے)

اس بنا پر ہر انسان کے بدن کے آخری خلئے جو موت کے بعد خاک میں تبدیل ہو جاتے ہیں وہ سب ان صفات کے حامل ہوتے ہیں جو اس نے پوری عمر میں کسب کی ہوتی ہیں۔ اور یہ صفات انسانی جسم کی تمام عمر کی سرگذشت کی بولتی ہوئی تاریخ ہوتی ہیں۔

2: انسانی شخصیت کی بنیاد روح سے ہوتی ہے۔ لیکن توجہ رکھنی چاہئے کہ روح کی پرورش جسم کے ساتھ ہوتی ہے اور جسم کے ساتھ ہی روح تکامل و ارتقاء کی منزل طے کرتی ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

جیسے ایک جیسے دو جسم تمام جہات سے ایک دوسرے سے شباہت نہیں رکھتے، دو روحیں بھی تمام پہلوؤں سے ایک دوسرے سے مشابہ نہیں ہوتی ہیں۔

اسی بنا پر کوئی روح اپنے جسم سے مکمل اور وسیع مطابقت اور اس کی کارکردگی کے بغیر باقی نہیں رہ سکتی جس کے ساتھ اس نے پرورش پائی ہو اور تکامل و ارتقاء حاصل کیا ہو۔

لہٰذا ضروری ہے کہ قیامت میں وہی سابق جسم لوٹ آئے، تاکہ اس سے وابستہ ہو کر روح عالی ترین مرحلے میں نئے سرے سے اپنی فعالیت کا آغاز کرے اور اپنے انجام دیئے ہوئے اعمال کے نتائج سے فیضیاب ہو۔

3: انسانی بدن کا ہر خلیہ اس کے تمام جسمانی مشخصات کا حامل ہوتا ہے۔ یعنی اگر واقعاً ہم کسی بدن سے ایک خلیہ لے کر اس سے ایک مکمل انسان بنا لیں تو وہ انسان اس شخص کی تمام صفات کا حامل ہوگا جس کا جزو لیا گیا تھا ۔ (یہ امر بھی قابل غور رہے)

ابتداء میں انسان ایک خلئے سے زیادہ نہ تھا۔ پہلا خلیہ والدین کے نطفوں سے بنا تھا۔ اسی میں انسان کی تمام صفات موجود تھیں۔ تدریجاً وہ تقسیم ہوا اور دو خلیے بن گئے۔ پھر دو سے چار ہوئے اور رفتہ رفتہ انسانی بدن کے تمام خلئے وجود میں آ گئے۔

اسی بنا پر انسانی جسم کے تمام خلئے پہلے خلئے کی طرح ہیں اگر ان کی بھی پہلے خلئے کی طرح پرورش ہو تو ہر ایک ہر لحاظ سے ایک پورا انسان ہوگا۔ جو بعینہٖ پہلے خلئے سے وجود میں آنے والے انسان کی سی صفات کا حامل ہوگا۔

ہمارے بیان سے واضح ہو جاتا ہے کہ ایسے بدن سے معادِ جسمانی کے مسئلہ پر کوئی اعتراض پیدا نہیں ہوتا اور جن آیات میں اس مفہوم کی صراحت کی گئی ہے ان کی کوئی توجیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (2)

یہ بھی پڑھئے: عرفانِ نظری اور تفسیر بالرائے – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی

حوالہ جات:

1۔ تفسیر نمونہ، جلد ۱۸، صفحہ ۴۸۷۔

2۔ تفسیر نمونہ، جلد ۲، صفحہ ۲۲۳۔

 

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button