متفرق

وحدتِ وجود پر ایک وہابی سے مناظرے کی روداد – آیۃ اللہ علامہ سید قاسم علی احمدی

136 ملاحظات

میں حج کیلئے گیا تو وہاں جنت البقیع میں ایک وہابی مولوی دیکھا جو کہہ رہا تھا کہ آپ شیعہ لوگ مشرک اور کافر ہیں۔ میں نے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا آپ لوگ کہتے ہو کہ اہلبیت ؑ، انبیاؑء سے افضل ہیں۔ میں نے آیتِ مباہلہ پڑھی:

فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ

ترجمہ: ”آپ کے پاس علم آ جانے کے بعد بھی اگر یہ لوگ (عیسیٰ ؑ کے بارے میں) آپ سے جھگڑا کریں تو آپ کہہ دیں: آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ، ہم اپنی بیٹیوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنی بیٹیوں کو بلاؤ، ہم اپنے نفسوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو بلاؤ، پھر دونوں فریق اللہ سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔“ (سورہ آل عمران، آیت 61)

پھر بتایا کہ یہ لوگ مخلوق میں سے پیغمبر ؐ کے قریب ترین ہیں۔ اس نے کہا، نہیں! آپ سمجھتے ہو کہ امیر المؤمنین علی ؑ حقیقتاً نفسِ پیغمبر ؐ ہیں۔ میں نے کہا واضح ہے کہ ہمارا موقف یہ نہیں ہے۔ بلکہ وہ مثلِ پیغمبر ؐ ہیں۔ حقیقتاً نہیں بلکہ تنزیلاً ان جیسے ہیں!

آخرکار اس نے کہا کہ آپ لوگ وحدتِ وجود کے قائل ہیں۔ آپ کے بعض مولویوں نے خدا کو عینِ خلق قرار دیا ہے۔ یہ کالی پگڑی پگڑی والے افغانی مولویوں میں سے ایک تھا جو بقیع میں ملا۔

میں نے کہا، نہیں! ہم وحدتِ وجود کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ یہ باطل عقائد میں سب سے بڑھ کر باطل ہے، اس پر کوئی نص نہیں!

اسے بھی پڑھئے: وحدت الوجود کی اقسام، اس کے بطلان پر دلائل اور فقہی احکام – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی

ہمارے مسلک کے مسلمات میں یہ ہے کہ اگر خالق اور مخلوق میں سنخیت کا سوال ہو تو ہم اگر کسی آیت اور حدیث کو پیش نہ کریں پھر بھی کہہ سکتے ہیں کہ مخلوقات زمان و مکان کی پابند ہیں، اجزاء میں تقسیم ہو سکتی ہیں، حقیقی طور پر حادث ہیں۔ مخلوقات تصور اور توہم میں آتی ہیں، ان میں دخول و خروج ہوتا ہے۔

ایک ایسی حقیقت جو ہر لحاظ سے ان سے الگ ہو، زمان و مکان سے بالاتر ہو، ابتداء و انتہاء سے فراتر ہو، دخول و خروج سے پاک ہو، تصور و توہم میں نہ آتی ہو۔ جب ہم دو مختلف حقائق کے اس اختلاف کو سمجھ جائیں تو سنخیت کا سوال ہی نہیں رہتا!

ہم خالق و خلق کی سنخیت اور عینیت کو باطل سمجھتے ہیں۔ ہم ان کا عقیدہ نہیں رکھتے۔ نقلی دلائل کی تو کمی نہیں ہے۔ اس بارے میں احادیث تواتر سے بڑھ کر ہیں۔ آیات کو دیکھیں تو لَيْسَ كَمِثْلِہ شَيْءٌ (سورہ شوریٰ، آیت 11)، اس کی مطلق نفی ہے۔ احادیث میں:

یَا مَنْ دَلَّ عَلٰی ذَاتِہِ بِذَاتِہِ، وَتَنَزَّہَ عَنْ مُجَانَسَةِ مَخْلُوقَاتِہِ، وَجَلَّ عَنْ مُلائَمَةِ کَیْفِیَّاتِہِ

ترجمہ: ”اے وہ جس نے اپنی ذات پر اپنی ذات کو دلیل بنایا۔ جو اپنی مخلوقات کا ہم جنس ہونے سے پاک اور اسکی کیفیتوں کی آمیزش سے بلند ہے۔“ (دعائے صباح)

كُنْهُهُ تَفْرِيقٌ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ خَلْقِهِ

ترجمہ: ”اس کی اصلیت اس کے اور خلق کے درمیان فرق ہے۔“ (شیخ صدوق ؒ، کتاب التوحيد، صفحہ 36)

انّ اللّه تبارك و تعالى، خلو من خلقه وخلقه خلو منه

ترجمہ : ”اللہ تبارک و تعالٰی حقیقتِ خلق سے خالی ہے اور خلق، حقیقتِ خدا سے خالی ہے۔“ (شیخ صدوق ؒ، کتاب التوحيد، صفحہ 105)

قَالَ يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ كَتَبْتُ إِلَى أَبِي الْحَسَنِ الرِّضَا ع سَأَلْتُهُ عَنْ آدَمَ هَلْ كَانَ فِيهِ مِنْ جَوْهَرِيَّةِ الرَّبِّ شَيْ‏ءٌ فَكَتَبَ إِلَيَّ جَوَابَ كِتَابِي لَيْسَ صَاحِبُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةِ عَلَى شَيْ‏ءٍ مِنَ السُّنَّةِ زِنْدِيقٌ.

ترجمہ: ”یونس بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے امام علی رضا ؑ سے پوچھا کہ کیا حضرتِ آدم ؑ میں جوہرِ رب سے کچھ ہے؟ امام نے کہا نہیں، ایسا کہنے والے کا عقیدہ سنت کے مطابق نہیں اور وہ زندیق ہے۔“ (شیخ طوسی ؒ، اختيار معرفۃ الرجال الکشی، النص، ص: 495)

لا يَجري عَلَيهِ السُّكونُ و الحَرَكَةُ، و كَيفَ يَجري عَلَيهِ ما هُوَ أجراهُ

ترجمہ: ”حرکت و سکون اس پر طاری نہیں ہو سکتے، بھلا جو چیز اس نے مخلوقات پر طاری کی ہو وہ اس پر کیونکر طاری ہو سکتی ہے؟“ (مفتی جعفر حسین ؒ، ترجمۂ نہج البلاغہ، خطبہ 184)

پھر اس نے کہا آپ کا محیی الدین ابنِ عربی اس کا قائل ہے۔ میں نے کہا، ابنِ عربی ہمارا نہیں، آپ میں سے ہے۔ فصوص الحکم کی ہر فص میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ہے جو ہمارے مسلک کی مسلمات کے خلاف ہے۔

ابنِ عربی کہتا ہے کہ رسول اللہ ؐ نے جانشین مقرر کئے بنا وفات پائی: مات رسول الله صلى الله علیه و سلم و ما نص بخلافه عنه إلى أحد. و لا عینه (فصوص الحکم، فص داؤدی، جلد 1، صفحہ: 163)

اسے بھی پڑھئے: ابنِ عربی کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں – آیۃ اللہ العظمیٰ میلانی

توحید پر تو اس کی بہت سی خرافات ہمارے عقائد کے خلاف ہیں۔ چنانچہ بزرگ علمائے شیعہ نے اس کا رد کیا ہے۔ ملا فیض کاشانی ؒ لکھتے ہیں کہ ابنِ عربی ایک خبطی آدمی تھا۔ ملا رازی ؒ، ملا حبیب خوئی ؒ، ملا خوانساری ؒ وغیرہ نے جو لکھا ہے اس کے بیان کا یہاں وقت نہیں ہے۔ یہاں علمی دلائل کا ذکر کرنے پر ہی توجہ مرکوز رہے گی۔

ابنِ عربی کے بارے کسی کے قول کے بجائے خود اس کا اپنا کلام دیکھیں:

ولوکان للهمه أثر ولابد، لم یکن أحد أکمل من رسول الله صلی الله علیه و سلم و لا أعلی و لا أقوی همّـه منه، و ما أثَّرتْ فی إسلام أبی طالب عَمِّهِ.

ترجمہ: ”کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمت میں اکمل اور افضل اور اعلیٰ اور اقویٰ نہیں ہے اور اُن کے ساتھ بھی، ان کے چچا ابو طالب کے اسلام میں ہمت نے اثر نہ کیا۔“ (فصوص الحکم، صفحہ 130؛ ترجمۂ فصوص الحکم، ص: 402، مترجم بابا ذہین شاہ تاجی)

ایسی باتیں ایک، دو، پچاس، سو، نہیں، بہت زیادہ ہیں۔ میں نے ایک زمانے میں بازار میں عین الحیات پر ایک معاصر، جو فصوص الحکم اور فتوحاتِ مکیہ پڑھاتا ہے، کا حاشیہ دیکھا۔ یہ کتاب بازار میں ہے۔ وہ وہاں پر یہ جھوٹ لکھتے ہیں کہ علامہ مجلسی ؒ فرماتے ہیں کہ روافض کو خنزیر کی شکل میں دیکھنے والی بات اسماعیلی شیعوں کے بارے کہی گئی ہے۔

صحیح السند روایت میں ہے کہ شیطان نے عرش بنا رکھا ہے اور اپنے اولیاء کو اس کی سیر کراتا ہے۔ ابنِ عربی کہتا ہے کہ: صوفیوں کی ایک جماعت رجب والی ہے، وہ امیر المؤمنین ؑ کے شیعوں کو خنزیر کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ كشف الروافض من أهل الشيعة سائر السنة فكان يراهم خنازير (ابنِ عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد 2، صفحہ 8)۔ ادھر فتوحات اور فصوص کا معروف مدرس لکھتا ہے کہ روافض سے ابنِ عربی کی مراد چھ اماموں کو ماننے والے ہیں۔

میں نے آیۃ اللہ مرعشی کے کتابخانے میں فتوحات کا پرانا نسخہ دیکھا۔ وہاں اس قسم کی بات آئی ہے کہ جو شخص پہلے دوخلفاء کے بارے سوءِ ظن رکھتا ہو اسے خنزیر کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ جونہی کوئی حسنِ ظن پیدا کرتا، انسان کی شکل میں ظاہر ہوتا۔ یہ ان کا حال ہے جو اس مذہبِ شنیع پر عقیدہ رکھتے ہیں۔

ابنِ عربی فتوحات میں حضرت عمر کی عصمت کا دعویدار ہے: و من أقطاب هذا المقام، عمر بن الخطاب و أحمد بن حنبل. و لهذا قال – ص!- فی عمر بن الخطاب، یذکر ما أعطاه الله من القوه: یا عمر! ما لقیک الشیطان فی فج إلا سلک فجا غیر فجک – فدل (هذا) على عصمته، بشهاده المعصوم. و قد علمنا أن الشیطان ما یسلک، قط، بنا إلا إلى الباطل. و هو غیر فج عمر بن الخطاب. فما کان عمر یسلک إلا فجاج الحق بالنص. فکان ممن لا تأخذه، فی الله، لومه لائم، فی جمیع مسالکه. – و للحق صوله! (فتوحات مکیہ، جلد 3، صفحہ 252)

یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی اور شیخین کے بارے میں غلو

یہ عبارت تو معروف ہے جس میں کہتا ہے کہ اقطاب میں سے کچھ خلافتِ ظاہری کے ساتھ خلافتِ باطنی بھی رکھتے ہیں۔ جیسے ابوبکر و عمر و عثمان، پھر حضرت علی ؑ کو چوتھے نمبر پر گن کر متوکل عباسی تک کو ظاہری و باطنی قطب قرار دیتا ہے۔ (فتوحاتِ مکیہ، جلد 2، صفحہ 6)

یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی کا متوکل عباسی کو خلیفۃ اللہ قرار دینا

متوکل وہ شخص ہے جس نے امام حسین ؑ کی قبرِ مطہر کو مٹانا چاہا۔ اس نے سترہ مرتبہ سید الشہدا ؑء کی قبر کو توڑا اور ہل چلوائے۔ ابنِ عربی کے فکری انحرافات ایک دو، یا دس بارہ نہیں ہیں۔

فصوص الحکم کے شروع میں ہی گویا کہتا ہے کہ رسول اللہ ؐ کو خدا کا پیغام فرشتے کے واسطے سے ملا، اور اسے بلاواسطہ ملا۔ ان لایعنی باتوں کو دیکھ کر اس کے ذہنی توازن پر شک ہوتا ہے۔ کسی ایک باب کا مسئلہ نہیں، ہر فصل میں غلطیوں کی بھرمار ہے۔

وہ اس بات کا قائل ہے کہ انبیاؑء کو خاتم الأنبياء ؐ سے ضیاء ملتی ہے اور خاتم الأنبياء ؐ خود خاتم الأولياء سے روشنی لیتے ہیں (معاذ اللہ)۔ اور اگر خاتم الاولیاء شریعت کی روشنی نبی ؑ سے لیتا ہے تو یہ کوئی بڑا نقص نہیں، رسالت کا درجہ ولایت سے کم ہے۔ قیصری کا کہنا ہے کہ ابنِ عربی خود کو خاتم الأولياء کہتا ہے، اس نے دس سے زیادہ مرتبہ خاتم الأولياء کا ذکر کیا ہے۔ اس قسم کی فضول باتوں سے یہ کتاب بھری ہوئی ہے۔

المختصر! میں نے اس شخص سے کہا کہ ابنِ عربی ہم میں سے نہیں بلکہ آپ میں سے ہے۔ ہم وحدتِ وجود کے قائل نہیں ہیں۔ خدا اور خلق بالکل مختلف ہیں۔ قرآن میں اول سے آخر تک عابد و معبود، خدا و خلق الگ الگ ہیں۔ قرآن حقیقی موجودات کی طرف بھیجا گیا۔ وحدت الوجود کا ہمارے مکتبِ فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھئے: فلاسفہ کا رد – سید العلماء آیۃ اللہ سید حسین علیین مکان

ویڈیو ڈاؤن لوڈ کریں

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button