مضامین

نوفلاطونیت کا سراب

47 ملاحظات

مُلا صدرا اثولوجیا کے مصنف فلوطین (فلاطینوس – Plotinus) کو عارفِ الٰہی، بلند معنوی مقامات پر پہنچا ہوا اور کشف و شہود اور علمِ حضوری سے بہرہ مند سمجھتے ہیں۔ (اسفار اربعہ، ج 1، ص 6؛ ج 9، ص 109 تا 111) ملا صدرا اپنے کئی خیالات کو اثولوجیا سے ماخوذ قرار دیتے ہیں۔ مثلاً: تجلی اور فیض و ظہور کا نظریہ کہ جس کے مطابق ممکنات حق کی تجلی کے آئینے ہیں اور حق ظہورِ واحد رکھتا ہے جو کہ واجب الوجود کا تعینات کے قالب میں نزول ہونا ہے (اسفار اربعہ، ج 2، ص 357)، حرکتِ جوہری (اسفار اربعہ، ج 3، ص 111)، عالمِ عقل کی صفات اور عالمِ اعلیٰ کا زندہ اور تام ہونا (اسفار اربعہ، ج 3، ص 340)، اتحادِ عقل و عاقل و معقول (اسفار اربعہ، ج 3، ص 427)، رابطۂ صَنم و مُثل (اسفار اربعہ، ج 6، ص 277)، ہر شے کی صفات کا عقل میں پایا جانا (اسفار اربعہ، ج 6، ص 281)، قاعدۂ بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء (اسفار اربعہ، ج 7، ص 33)، دنیا کا ہیولا اور صورت سے ترکیب پانا (اسفار اربعہ، ج 7، ص 147)، قاعدۂ امکانِ اشرف (اسفار اربعہ، ج 7، ص 244)، قاعدۂ امکانِ اخس (اسفار اربعہ، ج 7، ص 258)، قاعدۂ الواحد لا یصدر منہ الا الواحد (اسفار اربعہ، ج 7، ص 273)، واحد سے چیزوں کا صادر ہونا (اسفار اربعہ، ج 6، ص 278؛ ج 7، ص 272)، وغیرہ وغیرہ۔ (1) ملا صدرا کی سبھی کتابیں فلوطین (فلاطینوس – Plotinus) ہی کے باطل فلسفے کی توجیہ اور تشریح پر مبنی ہیں۔ اس فلسفے پر سید علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب ”روایاتِ فلسفہ“ میں تفصیل سے لکھا ہے۔

اسے بھی پڑھئے: قدیم فلسفیوں کو ملا صدرا کا خراجِ عقیدت

نوفلاطونیت (Neoplatonism) – سید علی عباس جلالپوری

افلاطون اور ارسطو کے ما بعد الطبیعیاتی نظریات میں فلسفۂ یونان معراج کمال کو پہنچ گیا تھا۔ ارسطو نے اپنے استاد کی مثالیت پر معرکہ آراء نقد لکھا تھا جس سے مثالیت پسندی میں حقیقت پسندی کا رجحان پیدا ہوا۔ لیکن سیاسی زوال اور معاشی بدحالی کے باعث اس رجحان کو پنپنے کے مواقع نہ مل سکے اور ارسطو کی ذات پر فکر یونان کا ایک درخشاں دور ختم ہو گیا۔

پریکلیز کے عہد زریں کے بعد جلد ہی سپارٹا والوں نے ایتھنز کو فتح کر کے اُس کی آزادی کا خاتمہ کر دیا تھا۔ لیکن سپارٹا والے بہر حال یونانی تھے۔ ان کے عہد تسلط میں ایتھنز والوں کو ایک حد تک فکر و نظر کی آزادی میسر تھی۔ کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا که فلپ، شاه مقدونیہ، نے جنگ قیرونیہ میں یونانی ریاستوں کی متحدہ فوج کو شکست فاش دے کر انہیں اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔

سکندر کی وفات کے بعد بھی اہل یونان بدستور باہمی نزاعوں اور سازشوں میں محو رہے حتی کہ رومۃ الکبریٰ کے غلبے نے انہیں ابدی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا۔

نوفلاطونیت کا تاریخی پس منظر

تنزل و ادبار کے دور میں اقوام تصوف سے رجوع لاتی ہیں۔ چنانچہ اہلِ یونان نے اس عہدِ انحطاط میں باطنیت اور تصوف کا دامن تھاما۔ لیکن جس تصوف کی طرف وہ متوجہ ہوئے وہ کوئی مَلکی مکتبِ عرفان نہیں تھا بلکہ ان عقائد و افکار کا ملغوبہ تھا جو سکندرِ اعظم کے سپاہی کلدانیہ، بابل، مصر اور ایران و ہند سے اپنے ساتھ لائے تھے۔ جہاں اہلِ یونان نے ان ممالک سے علم‌ِ ہیئت کے اصول اور مساحت و ہندسے کے مبادیات سیکھے تھے وہاں سحر و سیمیائے بابل، نیر نجات کلدانیہ اور عرفانِ ہند و ایران کی تحصیل بھی کی تھی۔

سکندرِ اعظم فلسفے کا شیدائی تھا اور ارسطو کا شاگرد تھا، لیکن وہم پرستی کی یہ حالت تھی کہ کلدانی فال گیروں اور کاہنوں کی ایک جماعت اپنے ساتھ رکھتا تھا اور ہر مہم کے آغاز میں ان سے استصواب کرتا تھا۔ یونان کی عقلیت اور مشرق کے تصوف و عرفان کے امتزاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں اہلِ مغرب کو متصوفانہ افکار نے متاثر کیا وہاں اہلِ مشرق نے بھی اپنے مذہبی عقائد کی تاویل کر کے انہیں فلسفیانہ نظریات پر ڈھالنے کی کوشش شروع کی جس سے علم کلام کی داغ بیل ڈالی گئی۔

اس تاثیر و تاثر کا سب سے بڑا مرکز سکندریہ کا شہر تھا جسے سکندر کے ایک جرنیل بطليموس نے مصر کا دارالحکومت بنا لیا تھا۔ اس کے جانشینوں کے زیر نگیں سکندریہ کو بین الاقومی شہرت حاصل ہو گئی۔ مہذب دنیا کے تمام ممالک کا مالِ تجارت بری و بحری راستوں سے اس شہر میں آتا تھا- ایران، ہندوستان اور عرب کے تاجروں نے شہر کے مضافات میں اپنی اپنی بستیاں بسا لی تھیں۔ دن رات کے میل جول اور ربط ضبط سے مختلف اقوام و مذاہب کے لوگ وسیع النظر اور فراخ مشرب ہو گئے۔ اور بے تکلف ایک دوسرے کی مذہبی مجالس میں شرکت کرتے تھے اور ایک دوسرے کے تیوہاروں کو مل کر دھوم دھام سے مناتے تھے۔

بطلیموس ثانی نے سکندریہ میں شہرۂ آفاق میوزیم کی بنیاد رکھی جس میں ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی قائم کیا گیا۔ اس میوزیم میں یونان، روم اور شام کے اہل علم کے علاوہ جو بلینی تہذیب و تمدن کی نمائندگی کرتے تھے، ہندوستان اور ایران کے علم دوست تاجر بھی آپس میں مل بیٹھتے تھے اور مذہبی اور فلسفیانہ موضوعات پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ اس بات کے تاریخی شواہد موجود ہیں کہ ہندوستان کے سینکڑوں بدھ اور جین بھی ان مباحثوں میں حصہ لیتے تھے۔ ان کے علاوہ فلسطین کے یہودی احبار تھے جو سب کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے تھے لیکن اس کے باوجود اپنی کتب مقدسہ کا ترجمہ یونانی زبان میں کر رہے تھے۔ عیسائیت کو شروع شروع میں یہودیت ہی کی ایک شاخ سمجھا جاتا تھا لیکن مسیحی اولیاء (saints) قدیم بت پرست اقوام کے قصص کو اپنے مذہب میں جذب کر کے اسے عالمگیر رواج و قبول بخشنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔

یونان میں افلاطون اور ارسطو کے قائم کئے ہوئے مکاتب میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا لیکن مرورِ زمانہ سے ان کے بانیوں کی تعلیمات میں بہت کچھ تحریف والحاق واقع ہو چکا تھا اور ان مدرسوں کا رجحان تشکک کی جانب ہو گیا تھا۔ پہلی صدی بعد از مسیح میں ایک طرف ایران کے متھرامت کی ہمہ گیر ترویج ہوئی، دوسری طرف فیثاغورس کی عرفانی تعلیمات کا احیاء عمل میں آیا جسے نو فیثاغورسیت کا نام دیا گیا۔ اس میں تناسخِ ارواح، تقشف وریاضت اور نظریۂ فصل و جذب پر خاص طور سے زور دیا جاتا تھا۔

مشرقی مذاہب کے مقابلے میں فلاسفۂ یونان و روم نے بھی اپنے عقائد و افکار کو مذہبی بنیادوں پر منظم کرنے کی کوشش کی۔ رواقیئین نے اس رجحان کو خاص طور پر تقویت دی۔ ان میں پوسی دونیس قابل ذکر ہے۔ بعض مورخینِ فلسفہ نے تو فلاطونیت کا آغاز اسی کی ذات اور تعلیم سے کیا ہے۔ فرینک تھلی کہتے ہیں:

”افلاطون اور ارسطو کے بعد فلسفے کا رجحان رواقیئت کے واسطے سے مذہبیت کی طرف ہو گیا تھا۔ رواقیئین کائنات کو نظام غائی سمجھتے تھے اور اس بات کی دعوت دیتے تھے کہ انسانی ارادے کو کائناتی ارادے کے تحت رکھنا ضروری ہے تاکہ کائنات کی غایت کی تکمیل ہو سکے۔ اس مذہبی تحریک کو اس وقت تقویت پہنچی جب سکندرِ اعظم کے بعد یونانیوں کو کلدانیوں، مصریوں اور یہودیوں سے میل جول کے مواقع ملے۔ سکندریہ کے شہر کو بین الاقوامی حیثیت حاصل تھی۔ اسی شہر میں فیثاغورس کے افکار پر ایک عالمگیر مذہب کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی گئی اور افلاطون کے فلسفے کو مذہبی رنگ دے کر یا اس کے مذہبی رنگ پر مشرقی تصوف کا پیوند لگا کر نو فلاطونیت کی بنیاد رکھی گئی۔“

یہودیت اور مسیحیت میں نئے نظریات

نو فلاطونیت کے آغاز و ارتقاء کا تاریخی جائزہ لینے سے پہلے اس مذہبی رجحان کے دو مشہور ترجمانوں، فلو یہودی اور سکندر افرودیسی کا ذکر از بس ضروری ہے کہ انہیں فلاطینوس (Plotinus) کا پیش رو سمجھا جاتا ہے۔ فلو یہودی 30 قبلِ مسیح سے لے کر 50 قبلِ مسیح تک سکندریہ میں مقیم رہا۔ اس کا بھائی سکندریہ سے روم کو مال تجارت برآمد کرتا تھا۔ فلو اس وفد كا رئيس تھا جسے یہودیوں نے شہنشاہ روم کالی کولا کے دربار میں بھیجا تھا۔

اُس کا عقیدہ تھا کہ یہودیوں کے مذہبی عقائد اور فلاسفہ یونان کے افکار دونوں ازلی و ابدی صداقت کے حامل ہیں۔ اپنے مذہب کی اولیت اور عظمت کے ثابت کرنے کے لیے اس نے یہ دعوی کیا کہ افلاطون اور ارسطو جنابِ موسیٰ ؑ کے پیرو تھے اور تورات کی تعلیمات سے فیض یاب ہوئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بقول فلو، تورات کی تعلیم اور ان کے فلسفے میں بنیادی توافق پایا جاتا ہے۔ اس نے فلسفہ و مذہب یا عقل و نقل کی تطبیق کی کوشش کی۔

اس نے تکوین کائنات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لوگس (لغوى معنى: کلمہ ،لفظ، نثر) خدا اور کائنات کے درمیان وہ ضروری واسطہ ہے جس کے بغیر کائنات کی تخلیق ممکن نہیں تھی۔

لوگس کا لفظ ہیریقلیتس (Heraclitus) یونانی نے عقلِ کل کے مفہوم میں پہلے پہل استعمال کیا اور کہا کہ یہ ہمہ گیر حرکت و ہیجان کائنات میں شعلہ بن کر سرایت کئے ہوئے ہے۔ اناكسا غورس نے اس واسطے کو عقلِ اول کا نام دیا ہے اور اسے عالمگیر ذہن کہہ کر بھی مخاطب کیا ہے جو کائنات میں توافق و تناسب کو برقرار رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ یہودیت میں اسلام کی طرح خدا کا تصور شخصی ہے اور خدا قادر مطلق ہے جو صرف ”کن“ کہنے سے اشیاء کو عدم سے وجود میں لا سکتا ہے۔ فلاسفہ یونان کی اکثریت اس بات کی قائل تھی کہ کوئی شے عدم سے وجود میں نہیں آسکتی۔ اس لیے فلو یہودی نے لوگس کا سہارا لیا اور اپنے مذہبی عقیدے کو فلسفیانہ استدلال پر قربان کر دیا۔

مزید بر آن فلو یہودی نو فیثا غورسیت کے اس نظریے سے متاثر ہوا تھا کہ مادہ شر کا مبداء ہے اور خدا خیر کا، ماده آلایش ہے اس لیے اس سے اجتناب ضروری ہے۔ یہ خیال بھی یہودیت کی تعلیم کے منافی ہے کیوں کہ اس میں دنیا کی لذتوں سے متمتع ہونے کی دعوت دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں فلو استغراق اور مراقبے کی اہمیت کا قائل تھا۔ یہ خیالات بعد میں فلاطینوس کے فلسفے میں داخل ہو گئے۔

سکندر افرودیسی یونانی الاصل تھا۔ 198ء سے 211ء تک وہ ایتھنز میں درس دیتا رہا۔ اسے اپنے زمانے میں شارحِ ارسطو کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ ارسطو کی دوسری کتابوں کی طرح سکندر نے اس کے رسالۂ روح کی شرح بھی لکھی جو بے حد مقبول ہوئی۔ مسلمان عربوں میں اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کا بار بار عربی میں ترجمہ کیا گیا اور متعدد عرب علماء نے اس پر سیر حاصل حواشی تحریر کیے۔ اور اس کے ملخص قلم بند کئے۔ حتیٰ کہ بقول اولتیری، عربی فلسفے کا سنگِ بنیاد قرار پائی۔ اس شرح میں سکندر نے ارسطو کے نظریات کی ترجمانی مذہبی رنگ میں کی تھی اور ارسطو کے ”محرکِ غیر متحرک“ کو الوہیت کا جامہ پہنایا تھا۔ علاوه ازیں اس نے کہا کہ ارسطو انسانی روح کو غیر فانی سمجھتا ہے۔

ارسطو کے ایک اور شارح تھیمسٹیس نے سکندر کے ان خیالات کی تردید میں ایک رسالہ لکھا اور اس پر الزام لگایا کہ اس نے ارسطو کے متن کو ایسے ذاتی معنی پہنا دیے ہیں جو اس سے متبادر نہیں ہوتے۔ چونکہ زمانے کا رجحان عقلیت کے بجائے باطنیت اور مذہبیت کی طرف تھا، اس لیے تھیمسٹیس کے اعتراضات کو نظر انداز کر کے لوگوں نے سکندر کی ترجمانی کو صحیح سمجھ کر قبول کر لیا۔ سکندر افرودیسی کی اس شرح نے نو فلاطونیت کی تشکیل میں اہم حصہ لیا۔

اسے بھی پڑھئے: شیعہ علماء کے لباس میں یونانی تصوف کی ترویج نہ کی جائے۔ آیۃ اللہ سید جعفر سیدان

فلاسفۂ یونان خدا کے شخصی تصور سے نا آشنا تھے۔ چنانچہ افلاطون کے ”خیرِ محض“ اور ارسطو کے ”محرکِ لا متحرک“ کو ان معنوں میں خدا نہیں کہا جاسکتا۔ فلاسفۂ یونان مذہباً کثرت پرست تھے۔ افلاطون اور ارسطو بھی، جن کے نظریات میں ایک عالمگیر اصولِ اول کی جھلک دکھائی دیتی ہے، اپنے ملکی دیوتاؤں کو مانتے تھے۔ ارسطو ستائیس سے باون دیوتاؤں کا قائل تھا۔ افلاطون کے مکالمات میں بھی کئی دیوتاؤں کا ذکر آتا ہے۔ مرورِ زمانہ سے جب فلسفہ محض شرح و ترجمانی تک محدود ہو کر رہ گیا تو لوگوں نے فلاسفۂ قدیم کی اصل تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ترک کر دیا۔

افلاطون کی اکیڈیمی میں کھلم کھلا تشکک کی تعلیم دی جانے لگی۔ اسی طرح ارسطو کے شارحین اس کے افکار کی تاویل کرکے ان کی تطبیق رائج الوقت نظریات سے کرنے لگے۔ ان لوگوں میں سکندر افرودیسی کی شرح سب سے زیادہ مقبول ہوئی۔ اس نے ارسطو کے رسالے روح کی جو مذہبی ترجمانی کی تھی وہ دنیائے علم میں حرف آخر سمجھی جانے لگی۔ اس کے بعد ابنِ رشد کے زمانے تک کسی فلسفی نے ارسطو کی اصل تعلیمات کو معرض بحث میں لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

یہ وہ زمانہ تھا جب روحِ عصر تصوف و عرفان کی دعوت دے رہی تھی۔ ایک طرف تو فیثاغورسی، مشرقی مذاہب اور فیثاغورس کے نظریات کی آمیزش سے ایک نئے مذہب کی بنیاد رکھنے کی فکر میں تھے۔ دوسری طرف متھرا مت چاروں طرف سرعت سے پھیلتا جا رہا تھا۔ عیسائیت کی اشاعت بڑے جوش و خروش سے کی جا رہی تھی۔ عیسائیت میں عوام کے لیے بے پناہ کشش کا سامان تھا کیونکہ اس نے شریعتِ موسوی، ختنہ اور سبت، کو منسوخ کر کے بت پرسوں کے رسوم و شعائر اخذ کر لیے تھے اور رواقئین کے عالمگیر اخوت کے اصول کو اپنا لیا تھا۔

یونانی اور رومی فلاسفہ کو بخوبی معلوم تھا کہ اس نئے مذہب کا مقابلہ کرنا بڑا کٹھن ہے اس لیے انہوں نے قدماء کے فلسفیانہ افکار اور مشرق کے صوفیانہ اصولوں کے امتزاج سے ایک ایسا مذہب مرتب کرنے کی اضطراری کوشش کی جو عیسائیت کا سدباب کر سکتا۔ اسی کوشش کا دوسرا نام فلسفۂ نوفلاطونیت ہے جسے گلبرٹ مرے مذہب یونان کے آخری مرحلے سے تعبیر کرتا اور جسے سٹیس فلسفۂ یونان کی آخری اضطراری کوشش قرار دیتا ہے جو مشرقی تصوف و عرفان کے خلاف کی گئی اور ناکام رہی۔ اس کشمکش میں فتح بالآخر عیسائیت ہی کی ہوئی۔ لیکن جس طرح یونان کی روحِ تمدن نے رومی فاتحین کو مسخر کر لیا تھا، اسی طرح نوفلاطونی نظریات عیسائیوں کے فکر و نظر میں ایسے ذخیل ہوئے کہ آج ان کے تار و پود کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جائے تو عیسائیت کا وجود باقی نہیں رہے گا۔

فلوطین اور اس کے پیروکار

فلاطینوس (Plotinus) 203ء یا 205ء میں مصر کے ایک شہر لکوپالس میں پیدا ہو۔ وہ رومن نژاد تھا اور ایران کے مشہور مجددِ مذہب مانی کا ہم عصر تھا۔ اس کے شاگرد فرفوریوس نے اس کی ایک مختصر سی سوانح حیات لکھی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اوائل عمر میں تحصیل علم کے لیے سکندریہ بھیج دیا گیا جہاں اس نے امونیس سکاس سے تعلیم پائی۔ بعض اہل تحقیق کا خیال ہے کہ نوفلاطونیت کا بانی بھی سکاس ہے۔ فلاطینوس نے صرف اتنا کیا کہ اس کی تعلیمات کو قلم بند کر لیا جیسے افلاطون نے اپنے استاد سقراط کے افکار کو اپنے مکالمات میں محفوظ کر لیا تھا۔ سکاس نے جوانی میں عیسوی مذہب قبول کر لیا تھا لیکن بعد میں اسے ترک کر دیا اور اس کے خلاف تقریریں کرنے لگا۔ شاید اسی وجہ سے فلاطینوس اور اس کے شاگرد شروع ہی سے عیسائیت کی مخالفت کو اپنا فرض اولین سمجھتے تھے۔

سکندریہ میں فلاطینوس کو ایران اور ہندوستان کے باشندوں سے میل جول کے مواقع ملتے رہے۔ یہ لوگ اکثر تجارت پیشہ تھے۔ فلاطینوس کی دلی خواہش تھی کہ وه ایران اور ہندوستان جا کر وہاں کے حکماء سے استفاده کرے۔ اتفاق سے انہی دنوں شہنشاهِ روم گاردیان دوم نے ایران پر فوج کشی کی۔ اس موقع کو غنیمت جان کر فلاطینوس اس کی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ لیکن زیادہ دن نہیں گزرنے پائے تھے کہ شہنشاہ گاردیان کو قتل کر دیا گیا اور فلاطینوس نے بھاگ کر انطاکیہ میں پناہ لی۔ وہاں کچھ مدت قیام کرنے کے بعد وہ روم چلا گیا اور وہاں اس نے اپنی درس گاہ قائم کی۔

اس کی صحت اکثر مخدوش رہتی تھی لیکن اس کی شخصیت میں بلا کی کشش تھی۔ اس کے عادات و خصائل ایسے شستہ و رفتہ تھے کہ جو شخص چند دنوں کے لیے اس کے حلقہ تدریس میں شامل ہو جاتا وہ عمر بھر کے لیے اس کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ فلاطینوس طبعاً تنہائی پسند تھا اور ہمیشہ تعمق و تفکر میں ڈوبا رہتا تھا۔ یہی استغراق بعد میں اس کے مسلک کا لازمی جزو بن گیا۔ فلاطینوس کی خوش قسمتی سے اس کی ذات کے گرد قابل شاگردوں کا جمگھٹ ہو گیا تھا جن میں امیلوس، اسٹوکیس اور فرفوریوس نے شہرت حاصل کی۔ فلاطینوس کو اپنے عقاید و افکار کی اشاعت میں نمایاں کامیابی ہوئی۔ حتیٰ کہ شہنشاہ روم گیلئس اور اس کی ملکہ سلوینیا بھی اس کے مداحوں کی صف میں شامل ہو گئے۔ فلاطینوس کی دلی آرزو تھی کہ وہ کمپینیا میں ایک شہر ”فلاطون آباد“ کے نام سے بسائے جہاں اس کے پیرو اور ہم خیال باہم مل جل کر زندگی گزاریں اور جہاں ایک دارالمصنفین بھی کھولا جائے۔ شہنشاہ اور اس کی ملکہ نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا لیکن فلاطینوس کی زندگی نے وفا نہ کی اور یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔

فرفوریوس نے فلاطینوس کے 54 رسائل کو چھ چھ کی اینئڈز (Enneads، لغوی معنی: نو) میں تقسیم کیا۔ نو کے عدد کو فیثاغورس کے مسلک میں مقدس و کامل سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے بطور تبرک و تفاول یہ ترتیب عمل میں آئی۔ ان رسائل کی چوتھی اینئڈ میں روح کے مسئلے پر بحث کی گئی ہے اور اس کا ایک حصہ (ساتواں رسالہ) بقائے روح کی بحث کے لیے وقف کیا گیا ہے۔ اس کا شمار فلاطینوس کے اہم ترین رسائل میں ہوتا ہے۔

فلاطینوس کے رسائل میں رطب و یابس بہت ہے لیکن صوفیانہ اور ادبی نقطۂ نظر سے بعض مقامات ایسے اعلیٰ و ارفع ہیں کہ بقول برٹرنڈ رسل، ”ذوقِ جمال کے لحاظ سے دنیائے ادب میں صرف دانتے کی فردوس کے کچھ حصے ہی ان کے مقابلے میں پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اور لطف یہ ہے کہ یہ بھی فلاطینوس ہی سے ماخوذ ہیں“۔

فلاطینوس کی وفات کے بعد اس کے شاگرد فرفوریوس نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سے نوفلاطونیت کا دوسرا دور شروع ہوا۔ فرفوریوس (متوفیٰ 300ء) کا اصل نام مالخوس تھا اور وہ سامی النسل تھا۔ وہ فلاطینوس کا محض مقلد ہی نہیں تھا بلکہ اس نے اپنے نامور استاد کی تعلیمات میں اضافے بھی کئے۔ برٹرنڈ رسل کے خیال میں اس نے فلاطینوس کے افکار کو ما بعد الطبیعیاتی رنگ دیا جو اس کے استاد کی تحریروں سے نہیں جھلکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فلاطینوس کی بہ نسبت فیثاغورس سے زیادہ متاثر ہوا تھا۔

علاوہ ازیں فرفوریوس نے فلاطونیت میں ارسطو کی منطق کو داخل کیا اور اس کی تعلیمات کو فلاطینوس کے عقائد میں گھلا ملا دیا۔ اس کا یہ علمی اقدام تاریخی لحاظ سے بڑا اہم ہے کیونکہ دورِ عباسیہ کے عرب حکماء کے پاس افلاطون اور ارسطو کی جو تعلیمات سریانی ترجموں کے ذریعے سے پہنچیں وہ فرفوریوس کے اسی نظریے کی حامل تھیں کہ افلاطون اور ارسطو کے نظریات میں کسی قسم کا بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ فلاطینوس نے ارسطو کے مقالات عشرہ پر سخت تنقید کی تھی۔

فرفوریوس اور اس کے متبعین نے دوبارہ ارسطو کی طرف رجوع کیا۔ مسلمانوں کی طرح بلکہ ان کی پیروی میں دورِ وسطیٰ کے عیسائی متکلمین نے اپنے فکر و نظر کی بنیاد اشراقیت اور مشائیت کی اسی مفاہمت پر استوار کی تھی۔ فرفوریوس کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے ارسطو کی قانون کی تمہید لکھی تھی۔

وہ اپنے استاد سے زیادہ رہبانیت پر زور دیتا تھا اور اس معاملے میں متشدد تھا۔ مانی کی طرح اس کا خیال تھا کہ تزکیۂ نفس کے لیے گوشت خوری اور اختلاط جنسی کا ترک لازم ہے۔ لیکن اس نے مانی کے اس عقیدے کی تردید کی کہ خواہش شر کی تخلیق کرتی ہے اس لیے ترکِ خواہش ہی سے روح نجات پا سکتی ہے۔ عیسائیت کے رد میں اس نے بہت کچھ لکھا۔ اس کے خیال میں عیسائیوں کی کتب مقدسہ الہامی نہیں ہیں بلکہ چند کم علم لوگوں کی تالیفات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعد میں عیسائی حکومتوں نے بارہا فرفوریوس کی کتابوں کو نذرِ آتش کیا۔ فرفوریوس کا ایک شاگرد جملیقس تھا جس نے افلاطون اور ارسطو کی کتابوں پر محققانہ شرحیں لکھیں جو اب نایاب ہیں۔ تحصیلِ علم سے فارغ ہو کر وہ اپنے وطن شام کو چلا گیا اور وہاں نوفلاطونیت کا درس دینے لگا۔

اپنے استادوں کی طرح اسے بھی فیثاغورس کے افکار میں گہرا شغف تھا اس موضوع پر اس نے رسالے بھی تالیف کئے۔ فیثاغورس کے نظریات نے اس کے نوفلاطونی عقائد کو متاثر کیا۔ وہ مافوق الطبع پر اعتقاد رکھتا تھا۔ فیثاغورس کی طرح وہ مادے کو شر کا مرکز و محور خیال کرتا تھا اور ترکِ لذات پر زور دیتا تھا۔ اس نے عیسائیوں کے اس عقیدے کی سخت مخالفت کی کہ خدا نے جنابِ مسیح کے جسم میں حلول کیا تھا۔ مرورِ زمانہ سے نوفلاطونی نظریات میں تحریف ہوتی گئی اور اس میں توہمات اور خوارقِ عادات کا شمول ہوگیا۔

نوفلاطونیت کا آخری علم بردار پروکلس بازنطینی (415ء تا 485ء- Proclus) کو سمجھا جاتا ہے۔ اس نے یونانیوں کی کثرت پرستی کے جواز میں کتابیں لکھیں۔ وہ عیسائیت سے سخت متنفر تھا اور ساری عمر اس کے خلاف تقریریں کرتا رہا۔ اس لئے اسے نوفلاطونیت کا مبلغ کہنا چاہئے۔ اس کے بعد کوئی قابلِ ذکر نوفلاطونی پیدا نہیں ہوا۔ جو نوفلاطونی نظریات شام کے عیسائیوں اور مسلمانون تک پہنچے اور جنہیں صوفیہ نے اپنایا وہ اکثر و بیشتر پروکلس کے نظریات ہی تھے۔

اسے بھی پڑھئے: ملا صدرا اور پروکلس کے ہاں صادرِ اول کا تصور

529ء میں شہنشاہ جسٹینین نے یونانی فلسفے کی تدریس کو ممنوع قرار دیا اور تمام مدر سے بند کر دیئے۔ نوفلاطونی حکماء بھاگ کر ایران چلے گئے جہاں خسرو انوشروان نے ان کی بڑی خاطر تواضع کی اور گندی شاپور کے طبی مدرسے میں انہیں تدریس کا کام تفویض کیا۔ لیکن یہ فلاسفہ نئے ماحول سے برگشتہ خاطر ہو کر واپس چلے گئے۔ اور بقول برٹرنڈ رسل، ”گمنامی کے کہرے میں غائب ہو گئے۔“

فلسفۂ فلوطین کے بنیادی تصورات

فلاطینوس کے فلسفے کا سنگ بنیاد تجلی (Emanation) کا تصور ہے۔ اس کا عقیدہ تھا کہ ذاتِ احد سے بتدريج عقل، روح، روح انسانی، اور مادہ کا نزول (Descent) ہوتا ہے۔ تعمق و تفکر کے طفیل روح انسانی مادے کے تصرف سے آزاد ہو کر دوبارہ اپنے مبداء حقیقی سے جا ملتی ہے۔ اسے صعود (اوپر جانا – Ascent) کہتے ہیں۔ عربی زبان میں اس نظریے کو فصل و جذب، ذات احد سے جدا ہو کر دوبارہ اس میں جذب ہو جانا، کہتے ہیں۔

فلاطینوس کی تثلیثِ ذات احدیث، عقل، روح پر مشتمل ہے اور عیسوی تثلیث سے مختلف ہے۔ عیسوی تثلیث کی طرح اس کے ارکان کا مقام ایک جیسا نہیں ہے۔ ذاتِ احد سب سے ارفع و اعلیٰ ہے۔ اس کے بعد عقل کا مقام ہے اور اس کے بعد روح کا درجہ ہے۔ اس تثلیت کے تیسرے رکن یعنی روح سے آفتاب، قمر اور دوسرے اجرام فلکی کا ظہور ہوا۔ روح سے انسان کی روح علوی پھوٹی۔ انسانی روح جب مادے کی طرف مائل ہوئی تو وہ اپنے مقام سے گر گئی اور روحِ سفلی کا نام پایا۔ مادے کے تصرف سے نجات پانے کے لیے وہ پیہم کشمکش کرتی ہے اور اپنے مبدائے حقیقی کی طرف پرواز کر جانے کے لیے بے قرار رہتی ہے۔

اس بے قراری کو فلاطینوس نے عشق کا نام دیا جو بعد میں ابنِ سینا کے تصورِ عشق اور صوفیہ کے عشقِ حقیقی کی صورت میں نمودار ہوا۔ پرواز یا صعود کی کوشش میں روح انسانی کو ناکامی ہو تو اسے کسی دوسرے آدمی یا جانور کے جسم میں حلول کرنا پڑتا ہے اور مادے کی آلائش سے آزاد ہو جائے تو وہ روح کل میں جذب ہو کر نشاط جاوداں کی حق دار ہو جاتی ہے۔

نظریۂ تجلی کی وضاحت کرتے ہوئے فلاطینوس نے آفتاب کی تمثیل سے کام لیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ذاتِ احد سے عقل اور روح کا بہاؤ ایسے ہوتا ہے جیسے آفتاب سے نور چھلک پڑتا ہے۔ لیکن جس طرح نور کے انعکاس سے سرچشمۂ آفتاب متاثر نہیں ہوتا، ایسے ہی عقل کے بہاؤ سے ذاتِ احد اثر پذیر نہیں ہوتی۔

مادہ وہ تاریکی ہے جہاں آفتابِ حقیقت کی شعاعیں نہیں پہنچنے پاتیں۔ کائنات کی تمام اشیاء کا ہیولیٰ یہی مادہ ہے۔ روح اسے صورت شکل عطا کرتی ہے۔ انسان کی روحِ علوی کا رابطہ روحِ کل سے بدستور قائم رہتا ہے۔ روحِ سفلی جو مادے سے قریب تر ہے، گناہ کا سرچشمہ اور ہوا و ہوسِ نفسانی کا مرکز ہے۔

اس ما بعد الطبیعیات سے جو دستور اخلاق مرتب کیا جاسکتا ہے وہ ظاہر ہے۔ جب ماده شر اور گناہ کا مرکز ٹھہرا تو بدیہی طور پر اس سے کنارہ کش ہونا بڑے گا تا کہ روحِ انسانی پاک اور منزہ ہو کر روح کل کی طرف پرواز کر سکے۔ نتیجتاً ایک نوافلاطونی کا فرض اولین یہ ہوگا کہ وہ عالمِ حواس سے منہ موڑ کر شبانہ روز مراقبے میں غرق رہے تاکہ اس کی روح میں پرواز کی صلاحیت پیدا ہو جائے۔ اس طرح نوفلاطونیت اخلاق و عمل میں زاویہ نشینی اور رہبانیت کی تلقین کرتی ہے۔

فلاطینوس مرتے دم تک اپنے عقائد پر کاربند رہا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ مراقبے کی حالت میں اسے کئی بار روحِ کل میں جذب ہونے کا تجربہ ہوا۔ لیکن از خود رفتگی کی یہ کیفیت گریز پا ثابت ہوئی اور مادے کی کشش نے روح کو دوبارہ عالمِ سفلی میں کھینچ لیا۔ شاید اسی بنا پر فلاطینوس کی موت کے بعد اس کے پیروؤں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اسے الہام ہوتا تھا اور اس سے معجزات کا صدور بھی ہوا تھا۔ ایک مرتبہ ایک مصور نے فلاطینوس کی تصویر کھینچنے کی خواہش کی۔ فلاطینوس نے انکار کرتے ہوئے کہا میرا جسم میرے وجود کا ایک غیر اہم حصہ ہے، اس کی تصویر کھینچنا بے سود ہے۔

بعض اہل علم نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر فلاطینوس کے مسلک کو نوفلاطونیت کا نام کیوں دیا گیا ہے اور افلاطون کے افکار سے اس کا رابطہ تعلق کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ صحیح معنوں میں نوفلاطونیت کو افلاطون کے فلسفے کا احیاء نہیں کہا جاسکتا۔ کیوں کہ اس میں افلاطون کے فلسفے کا صرف وہ پہلو پیش کیا گیا ہے جس کا تعلق اشراق، تصوف اور خوارقِ عادات سے ہے۔

افلاطون کی تحریروں سے نظریۂ امثال، مکالمه فیدو کے متصوفانه افکار، مکالمہ جمہوریہ اور سمپوزیم سے عشق کی بحث ماخوذ ہے۔ اور افلاطون کی سیاسی دلچسپیوں، خیر کی مختلف صورتوں کی بحث، اس کے ریاضیاتی افکار، اس کے اسلوب کی شگفتگی اور ڈرامائیت کو فلاطینوس نے نظر انداز کر دیا ہے۔

اپنی عمر کے اواخر میں افلاطون فیثاغورس کے نظریات سے بڑا متاثر ہوا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے فیثاغورس کا نظریہ اعداد بھی اخذ کیا اور اخلاق میں اسی کی طرح رہبانیت اور گوشہ نشینی کی طرف مائل ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس دور کے مکالمات میں وہ فلسفیانہ مسائل کو عقلی استدلال کی روشنی میں دیکھنے کی بجائے ان کی وضاحت کرتے ہوئے استعاروں اور اساطیر سے کام لیتا ہے۔

فلاطینوس نے فلسفۂ افلاطون کے اسی اشراقی پہلو کو اس کی تعلیم کا اصل اور حاصل سمجھا اور اس پر مشرقی باطنیت کا پیوند لگا کر فلسفۂ نوفلاطونیت کی تشکیل کی۔

فلاطینوس کا تجلی کا نظریہ بھی افلاطون سے ماخوذ ہے۔ افلاطون نے ذاتِ احد کو خيرِ محض یا حسنُ ازل کا نام دیا تھا۔ اس کے خیال میں خیر اور حسن کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ ذات احد لامحدود اور مطلق محض ہے۔ انسانی عقل اس کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ وہ کائنات سے ماوراء ہے، کیوں کہ اگر وہ کائنات پر عمل فرما ہوگی تو اس ماورائیت میں فرق آجائے گا۔

نظام کائنات کو برقرار رکھنے کے لئے چند ارواح ہیں جو ذاتِ احد اور کائنات کے مابین رابطے اور واسطے کا کام دیتی ہیں۔ لوگس ان ارواح کا نمائندہ ہے جو ذاتِ احد کی تجلی ہے اور کائنات کے مظاہر اس سے پھوٹتے ہیں۔ چونکہ ذاتِ احد زمان و مکان سے بالاتر ہے، اس لیے عقل انسان کی رسائی اس تک نہیں ہو سکتی۔ البتہ نورِ باطن (اشراق) سے اس کی معرفت حاصل کی جاسکتی ہے۔

عالمِ سفلی و مادی، امثال (Ideas) کا عکس ہے، سایہ ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے افلاطون نے غار کی مشہور تمثیل پیش کی۔ اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی یہ عالم حواس محض فریب نگاہ ہے۔ حقیقی عالم وہی ہے جو امثال کا مسکن ہے۔

افلاطون ذاتِ احد کو اس کائنات سے اس قدر بے تعلق اور ماوراء سمجھتا تھا کہ اس کے لیے ایک کا لفظ استعمال کرنا بھی نامناسب خیال کرتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ایک کا تصور کثرت کے تصور کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ یعنی صرف ایک کہہ دینے سے کثرت لازم آجاتی ہے۔

فلاطینوس نے اس عقدے کو عقلی استدلال سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ عقیدةً مان لیا کہ ذات باری ایک ہے اور کثرت سے ماوراء ہے۔ اس سوال نے اسے پریشان نہیں کیا کہ ایک کثرت سے ماوراء کیوں کر ہو سکتا ہے۔ اور اگر وہ کثرت سے ماوراء ہو تو کثرت اس سے متفرع کیسے ہوگی۔ جب ذات احد اور کائنات کے مابین کسی نوع کا تعلق نہیں ہوگا تو وہ کائنات تخلیق کیسے کر سکے گا۔

اس دقت کو عقلاً رفع کرنے کے بجائے فلاطینوس نے شعراء اور صوفیہ کی طرح استعاروں سے کام لیا اور کہا کہ کائنات ذات باری سے ایسے متفرع ہوئی جیسے آفتاب سے شعاعیں یا جیسے برف سے سردی یا جیسے مکڑی سے جالا وغیرہ۔

افلاطون کی طرح فلاطینوس کے ہاں بھی انسانی زندگی کا مقصد واحد یہ ہونا چاہئے کہ وہ مادی اور حواس کی دنیا سے بے تعلق ہونے کی کوشش کرے۔ اس کوشش میں انسان کو سب سے پہلے اپنی روحِ علوی کو جسم اور حواس کی قید سے آزاد کرانا ہوگا۔ اس عمل کو وہ تصفیہ (Katharsis) کا نام دینا ہے۔ اس کے بعد تفکر و تدبر کو بروئے کار لانا ضروری ہے۔

جب استغراق اور مراقبے کے طفیل روح کی توجہ عالم سفلی سے یکسر ہٹ جائے گی تو روح تفکر و تدبر سے بھی بے نیاز ہو جائے گی اور بلا واسطہ عقلِ اول (Nous) سے رابطہ استوار کر لے گی۔ اس مرحلے پر روح پر وجد و کیف کی حالت طاری ہو جائے گی اور اس عالم شکر و نشاط میں اسے ذاتِ احد کا وصال نصیب ہوگا اور وہ اس میں جذب ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن قیدِ حیات میں ایسے لمحاتِ وارفتگی گریزاں ہوتے ہیں۔ اس بحث کو سٹیس نے ان الفاظ میں سمیٹا ہے:

”نوفلاطونیت کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ انسان وجد و کیف میں ذات باری تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ عقل و خرد کا عجز و قصور نوفلاطونیت کا نقطۂ آغاز ہے۔ جہاں عقلی استدلال اپنی بے چارگی کا اعتراف کرتا ہے وہاں نوفلاطونیت وجد و حال کی مدد سے راستے کی رکاوٹوں سے گزر جانا چاہتی ہے۔ یونانی فہم جس مقام تک عقل کے وسیلے سے نہ پہنچ سکا، نو فلاطونیت وجدان کے ذریعے وہاں تک پہنچ جانا چاہتی ہے۔ اس کے مطابق جہاں عقل کی کوششیں ناکام رہیں وہاں والہانہ بے خودی کامیاب ہو جائے گی۔“

مشہور مورخ گبن نے نوفلاطونیت پر یہ الزام لگایا ہے کہ ان لوگوں نے فہمِ انسانی کو ملوث کر دیا ہے۔ وہ کہتا ہے:

”نوفلاطونی بڑے محنتی اور عمیق فکر کے مالک تھے۔ لیکن انہوں نے فلسفے کے مقصود کو نظر انداز کر دیا اور انسانی فکر کی تربیت کرنے کی بجائے الٹا اسے بگاڑ دیا۔ انہوں نے اس علم کو جو انسانی قوی سے موافقت رکھتا ہے، فراموش کر دیا اور اخلاقیات، طبیعیات اور ریاضیات سے قطع نظر کر کے اپنی تمام قوت ما بعد الطبيعياتي بحثوں اور مناظروں میں ضائع کر دی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے غیر مرئی عالم کے بھیدوں کو دریافت کرنے اور افلاطون اور ارسطو کے ایسے نظریات کے درمیان مفاہمت کرنے پر کمر ہمت باندھی جن سے عامۃ الناس کی طرح یہ نوفلاطونی فلاسفہ خود بھی نا آشنائے محض تھے۔“

بعض اہلِ علم کہتے ہیں کہ نوفلاطونیت ہندوستان کے نظریۂ اپنشد (Upanishads) سے متاثر ہوئی تھی اور فلاطینوس نے تناسخ اور فریب نفس (مایا) کے تصورات اس ماخذ سے لئے تھے۔ لیکن اس مفروضے کی توثیق کے لیے تاریخی شواہد بہم نہیں پہنچ سکے۔ اس میں شک نہیں کہ نوفلاطونیت اور اپنشدوں کی تعلیم میں اقدارِ مشترک موجود ہیں۔

اپنشدوں کی تعلیم بھی یہی ہے کہ پہلے آتما (انفرادی روح) کو دریافت کیا جائے اور پھر اسے برہما میں فنا کر دیا جائے۔ اور برہما یا آفاقی روح تک رسائی صرف وجدان سے ہی ممکن ہو سکتی ہے۔ عقلِ استدلالی اس کوشش میں ناکام رہے گی۔

لیکن تجلی کے جو مراحل نوفلاطونیت میں گنائے گئے ہیں ان کا اپنشدوں میں کہیں بھی کھوج نہیں ملتا۔ یہ نظریہ خود افلاطون کے فلسفے میں موجود تھا اس لیے فلاطینوس کو اپنشدوں سے رجوع لانے کی ضرورت محسوس نہیں ہو سکتی تھی۔

رہا تناسخِ ارواح کا مسئلہ تو یہ مصرِ قدیم میں بھی موجود تھا۔ غالب امکان یہی ہے کہ مصر ہی سے اس کا پھیلاؤ دوسرے ممالک میں ہوا۔ بقول ہیرو ڈوٹس اسے فیثاغورس نے مصرِ قدیم سے مستعار لیا تھا۔ اہلِ مصر روح کے غیر فانی ہونے کے قائل تھے اور موت کے بعد جسم کو ممی کی صورت میں محفوظ رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ روح تین ہزار برس کے بعد مختلف نباتات، حيوانات، وغيره کا چکر کاٹ کر دوبارہ ممی میں واپس آجائے گی۔

فیثاغورس (Pythagoras) اور ایمپی دکلیس (انباذقلس – Empedocles) نے تو اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ انہیں اپنے گزشتہ جنموں کے حالات بخوبی یاد ہیں۔ ”جمہوریہ“ کے اواخر میں افلاطون نے بیان کیا ہے کہ لکاس دیوی لوگوں کو نئے نئے جنم عطا کرتی ہے۔ عارفیوس کی روح نے اپنے نے راج ہنس کا قالب انتخاب کیا، تھرسیٹیس نے بندر کا اور آگاممنون نے عقاب کا۔ اسی طرح مایا کا تصور بھی افلاطون کے یہاں ملتا ہے جس کے مطابق عالمِ ظواہر یا عالمِ حواس، غیر حقیقی ہے اور محض نیرنگِ نظر ہے۔

ان حقائق میں یہ دعویٰ کرنا کہ فیثاغورس، افلاطون اور فلاطینوس وغیرہ کے نظریات پر اپنشدوں کی تعلیمات کا اثر پڑا تھا ایسا ہی بعید از قیاس ہے جیسے یہ خیال کہ اپنشدوں کے افکار یونانی فلاسفہ سے ماخوذ ہیں۔

عہدِ ظلمت (Dark Ages) کی ذہنیت پر فلوطین کا اثر

فلاطینوس نے عیسائیوں کے عقائد پر بالعموم اور عارفوں (Gnostics) کے افکار پر بالخصوص کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ وہ عارفوں کے اس عقیدے کا مخالف تھا کہ دنیا شر کی تخلیق ہے اس لیے اس میں دلچسپی لینا گناہ ہے۔ فلاطینوس فطرت کے حسن و جمال کا پرستار تھا کیوں کہ اس کے خیال میں فطرتی حسن بھی حسنِ ازل ہی کا پرتو ہے۔ فلاطینوس کے نظریات اس لحاظ سے بڑے اہم ہیں کہ وہ براهِ راست عیسوی علمِ کلام پر اور بالواسطہ مسلمانوں کے تصوف اور علمِ کلام پر اثر انداز ہوئے۔

آگسٹائن ولی (Saint Augustine) اس کا مداح تھا۔ اس کا خیال تھا کہ فلاطینوس کی روح میں افلاطون کی روح نے حلول کیا ہے اور افلاطوں کو وہ فلاسفہ کا مسیح کہا کرتا تھا۔ اس کا عقیدہ یہ تھا کہ عیسائیت اور نو فلاطونیت میں بنیادی توافق پاپا جاتا ہے اور فلاطینوس کی تعلیمات میں خفیف سا رد و بدل کر دیا جائے تو اسے عیسائی کہنے میں کوئی تامل نہیں ہوگا۔ اسی بنا پر ارڈمان نے اپنی تاریخِ فلسفہ میں نو فلاطونیت کا ذکر ازمنۂ وسطیٰ کے مسیحی علمِ کلام کے ضمن میں کیا ہے۔

اس کے خیال میں اس مسلک کو یونانی فلسفے کی شاخ قرار دینا غلطی ہے۔ لیکن یہ رائے بوجوه قابل قبول نہیں ہے۔ بقول سیٹس، عیسوی عقائد اور فلاطینوس کے افکار میں بنیادی اختلافات ہیں۔ نو فلاطونیت میں یونانِ قدیم کی اصنام پرستی کی روح کار فرما ہے۔ آگسٹائن ولی کی طرح کلیمنٹ ولی بھی نوفلاطونیت کا بڑا شیدائی تھا۔ وہ سکندریہ کا پہلا عیسائی اہلِ قلم ہے جس نے فلسفے اور عیسائی فکر و نظر میں مفاہمت پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ چنانچہ ازمنۂ وسطی کے عیسائی متکلم عیسائیت کے پردے میں فلاطینوس کے افکار ہی کی تبلیغ کرتے رہے حتی کہ طامس اکوئنس نے ارسطو کے افکار کی اہمیت واضح کی۔ آج بھی کلیسائے روم کے علمِ کلام میں فلاطینوس کی تعلیمات باقی و برقرار ہیں۔

مسلم عہدِ ظلمت اور فلوطین

مسلمان مفکرین خلافتِ عباسیہ کے عہدِ زریں میں فلاطینوس کے افکار سے متعارف ہوئے تھے کیوں کہ انطاکیہ، نصیبین اور حران کے نسطوری عیسائیوں اور صابیئین نے یونانی فلاسفہ کی کتابوں کو سریانی سے عربی میں ترجمہ کر دیا تھا۔ فلسطین اور شام کے عیسائی مدارس میں جس فلسفۂ یونان کی تدریس ہوتی تھی وہ بنیادی طور پر نو فلاطونی تھا۔ سریانی علماء ارسطو، فیثاغورس، ہیریقلیتس وغیرہ فلاسفۂ یونان کی شرحِ نو افلاطونی افکار و عقائد کی روشنی میں کر رہے تھے۔ جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے، سکندر افرودیسی نے نفسیات ارسطو کی شرح مذہبی نقطہ نظر سے کی تھی۔ نتیجتاً وہ عربوں میں بڑی قبول ہوئی۔ الہیٰاتِ ارسطو (اثولوجیا) کا عربی ترجمہ 226 ہجری (840ء) میں ہوا تھا۔ یہ ارسطو کی تالیف نہیں تھی بلکہ فلاطینوس کے رسائل کی آخری تین کتابوں کی تلخیص تھی جو نیمیاح امیسوی نے لکھی تھی۔ عربوں نے غلطی سے اسے ارسطو کی تصنیف سمجھ لیا اور الٰہیات کے نو فلاطونی افکار ارسطو سے منسوب کر دیئے۔

اسے بھی پڑھئے: فتنۂ فلسفہ و فلاسفہ – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

اس طرح دنیائے اسلام میں افکارِ ارسطو کے پردے میں نو فلاطونی افکار کی خوب اشاعت ہوئی۔ اس اسلامی نو فلاطونیت کو ابنِ سینا اور ابنِ رشد نے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مسلمان صوفیہ پر خاص طور سے نو فلاطونی تعلیمات کا گہرا اثر ہوا۔ چنانچہ جنید بغدادی، بایزید بسطامی، شہاب الدین سہروردی (شیخ اشراق مقتول)، شیخ اکبر محیی الدین ابن عربی، حتیٰ کہ غزالی تک کے بنیادی افکار نو فلاطونی کہے جا سکتے ہیں۔

تجلی کا نظریہ مسلمانوں میں ہر کہیں رواج پذیر ہو گیا۔ الکندی سے لے کر فارابی، اخوان الصفا، ابنِ سینا وغیرہ تک، سارے فلسفۂ اسلام کا سنگ بنیاد یہی نظریہ ہے۔ فلاسفۂ اسلام نے سکندر افرودیسی کی پیروی میں عقلِ کل کو عقلِ فعال کا نام دیا اور عقل انسانی کو عقلِ مستفاد کا۔ ان کے خیال میں عقل فعال ذات باری سے متفرع ہوئی ہے اور اس کے عمل سے عقل مستفاد کو فروغ ہوتا ہے۔ انسان کوشش کرے تو عقلِ مستفاد، عقلِ اول میں جذب ہو سکتی ہے۔ ابنِ رشد کہنا تھا کہ انسانی روح کا وہی حصہ باقی رہے گا جو عقلِ اول یا عقلِ فعال میں جذب ہو جائے گا۔ اسے نظریۂ وحدتِ عقلِ فعال کہتے ہیں۔ ابنِ رشد نے اس کا منطقی نتیجہ بھی قبول کر لیا اور حشر نشر سے انکار کر دیا۔ فرینک تھلی کے الفاظ میں:

”مسلمان فلاسفہ کی رسائی ارسطو کی اصل تعلیمات تک نہ ہو سکی۔ وہ ان کی ترجمانی نو فلاطونی رنگ میں کرتے رہے۔ دراصل نو فلاطونی شرح کے پردے کو ہٹا کر ارسطو کی تعلیمات تک پہنچ سکنا اس زمانے میں سخت مشکل تھا کیوں کہ وہ صدیوں سے شرح و ترجمانی کے ملبے میں مدفون ہو چکی تھی۔ دو اصناف کو البتہ مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے: منطق اور ریاضیات۔ جن میں مسلمانوں نے اجتہادی اضافے کئے۔“

مسلمانوں کے تصوف پر نو فلاطونی افکار کے بڑے گہرے اور دور رس اثرات ہوئے۔ بایزید بسطامی، جو پہلے صاحبِ حال صوفی ہیں، فنا فی اللہ کے مبلغ ہیں۔ جنید بغدادی نے فلاطینوس کی پیروی میں ذاتِ احد کو حسنِ ازلی اور محبوبِ اول کہہ کر پکارا اور عشقِ حقیقی کو تصوف و سلوک کا لازمہ قرار دیا۔ حلاج کے خیالات میں اوتار کا آریائی تصور نمایاں ہے لیکن اس کا یہ خیال کہ انسانی روح میں روحِ کل جلوہ فرما ہے، فلاطینوس سے ماخوذ ہے۔ ابنِ عربی نے نظریۂ وحدت الوجود اور فصل و جذب فلاطینوس سے لیا تھا۔

فلاطینوس کا خیال تھا کہ ذاتِ احد کائنات سے بے تعلق اور ماوراء بھی ہے اور اس میں طاری و ساری بھی ہے۔ ابنِ عربی نے بھی بھی کہا ہے۔ ابنِ عربی کا اللہ، افلاطون کا خیر محض اور فلاطینوس کی ذاتِ احد ایک ہی مفہوم میں استعمال کئے گئے ہیں۔ شیخ اکبر نے فلاطینوس کی عقلِ اول کو حقیقتِ محمدیہ کا نام دیا ہے۔ ہسپانیہ میں نو فلاطونیت کی ترویج رسائل اخوان الصفا کی اشاعت سے ہوئی جن سے ابنِ عربی نے بھی استفادہ کیا تھا۔ ابنِ عربی کے شاگردِ رشید اور لے پالک مولانا صدر الدین قونوی، مولانا روم کے استاد تھے۔ مولانا روم ایک مدت تک ان کے درس میں شریک ہو کر فتوحات اور نصوص پر ان کی شرح و توضیح سے فیض یاب ہوتے رہے۔ مثنوی مولانا روم میں فصل و جذب کا جو نظریہ پیش کیا گیا ہے وہ ابنِ عربی کے واسطے سے فلاطینوس ہی کی صدائے بازگشت ہے۔ مثنوی کی ابتداء اس مشہور شعر سے ہوتی ہے۔

بشنو از نی چون حکایت می کند
از جدائی ہا شکایت می کند

اس میں روح انسانی کے اضطراب و التہاب کا نقشہ کھینچا ہے جو اپنے نیستان یا ماخذِ حقیقی میں دوبارہ جذب ہونے کے لیے بے قرار ہے۔ اور اس کی جدائی میں نالہ و فریاد کر رہی ہے۔ عبد االکریم جیلی نے اپنی کتاب انسان کامل میں ابن عربی کا نظریۂ وحدت الوجود پیش کیا ہے۔ جیلی بھی فلاطینوس کی طرح وجودِ مطلق کا نزول تین مراحل میں تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ انہوں نے عقلِ اول کو ہویت (وہ ہونا) اور روح کو انیت (میں ہونا) کے نام دیئے ہیں۔ اسی طرح روح انسانی کا صعود بھی تین مراحل میں دکھایا ہے جنہیں طے کر کے وہ انسانِ کامل بھی بن جاتی ہے اور دوبارہ وجودِ مطلق میں جذب ہو جاتی ہے۔ مولانا روم، عراقی، جامی، محمود شبستری، عطار، سنائی، ابنِ فارض، وغیرہ، صوفی شعراء کی پرسوز اور دلدوز شاعری نے ان نو فلاطونی افکار و تعلیمات کو اسلامی دنیا میں دور دور تک پھیلا دیا۔ صوفیہ کے اکثر سلسلوں نے عامۃ الناس میں ان تعلیمات کی ترویج کی حتیٰ کہ یہ مسلمانوں کے فکر و احساس کا محور بن گئیں۔ ابنِ تیمیہ، شیخ احمد سر ہندی، محمد بن عبد الوہاب نجدی، وغیرہ کی مخالفت کے باوجود ابھی تک ان کا اثر و نفوذ باقی و برقرار ہے۔

جمالیاتی ذوق کی تسکین

فلاطینوس کے افکار و آراء پر محاکمہ کرتے وقت اس حقیقت کا پیشِ نظر رہنا ضروری ہے کہ ہر عظیم مفکر کے نظریات میں چند دوامی عناصر لازماً موجود ہوتے ہیں۔ اگر چہ اس میں شک نہیں کہ نئے نئے علمی انکشافات قدماء کے بعض نظریات کو بدل دیتے ہیں اور بعض کو اوہامِ باطل ثابت کر دکھاتے ہیں۔ آج فلاطینوس کا تجلی کا نظریہ کون تسلیم کرے گا یا اس کی رہبانیت، جذب و سکر اور نزول و صعود کو کون مانے گا۔ اس کی نفسیات داستانِ پارینہ بن چکی۔ اس کی اخلاقی قدریں فرسوده ہو چکیں۔ لیکن کائنات کے مظاہر میں تعمق و تفکر کی جو دعوت فلاطینوس نے آج سے کم و بیش ڈیڑھ ہزار برس پہلے دی تھی اس کی اہمیت سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ برٹرنڈ رسل اپنی کتاب ”نئی دنیا کے لیے نئی امیدیں“ میں لکھتے ہیں:

”میرا خیال ہے کہ فلاطینوس دوامی مظاہرِ عالم میں تفکر و تدبر کی دعوت دینے میں حق بجانب تھا لیکن اس کا یہ خیال غلط تھا کہ یہ تفکر ہی کسی شخص کو نیک بنانے کے لیے کافی ہے۔ تفکر اس وقت مفید اور صالح ثابت ہو گا جب اس کا رشتہ عمل سے استوار ہوگا۔ اس سے عمل کو تقویت ہونی چاہئے . . . ورنہ یہ محض فرار کا وسیلہ ہے۔“

برٹرنڈ رسل کا یہ خیال صحیح ہے کہ تعمق و تفکر سے عمل کو تحریک و تقویت ہونی چاہئے لیکن اس خیال کا اظہار یوں بھی کیا جا سکتا ہے کہ عمل، تعمق و تفکر سے عاری ہو تو وہ انسان کو اپنے منصب سے گرا کر وحوش کی سطح پر لے آتا ہے۔ اس دور کی مغربی تہذیب کا المیہ یہی ہے کہ مغرب میں صرف عمل ہی عمل رہ گیا ہے۔ اہل مغرب ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ دھوپ میں منہمک ہیں اور ادھر ادھر دیکھے بغیر دیوانہ وار آگے آگے بھاگے جا رہے ہیں۔

حسنِ ازل کا تصور جو فلاطینوس کے فکر و نظر کا محور تھا، شاید آج قابل قبول نہ ہو لیکن اس کا یہ قول کہ حسن کی قدر صرف مغنی عشاق اور فلاسفہ ہی جان سکتے ہیں، آج بھی اتنا ہی صحیح ہے جتنا کہ صدیوں پہلے تھا۔ دانتے کے طریۂ خداوندی کی جان ”جلوۂ حسن ازل“ ہے جو دنیائے ادب میں بے مثل سمجھا جاتا ہے۔ یہ خیال فلاطینوس ہی سے مستعار ہے۔

آج ہم پانی میں چاند کا عکس دیکھ کر شاید فلاطینوس کی طرح چاند کی تلاش میں سرگرداں نہ ہوں لیکن چاند کے حسین عکس کو پانی میں دیکھ کر متاثر نہ ہونا تو ہمارے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اور اس حسین عکس کی طرف توجہ دلانا بھی کوئی معمولی کارنامہ نہیں ہے کہ بڑے سے بڑے فن کاروں اور شعراء کو بھی اس سے زیادہ کی توفیق ارزانی نہیں ہو سکی۔ (2)

اسے بھی پڑھئے: حقیقی مکاشفے کیلئے دستور العمل کے طالب جوان کو نصیحت – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

موجودیت، وجودیت سے الگ ہے

ایگزسٹنشیلزم (Existentialism) کا ترجمہ بعض لوگوں نے وجودیت سے کیا ہے جو صحیح نہیں ہے۔ وجود Being کا ترجمہ ہے۔ Existent کا ترجمہ موجود ہے۔ مزید براں وجودیت سے ہمارے یہاں وحدت الوجود یا ہمہ اوست مراد ہے۔ جو صوفیہ اس نظریے کے قائل ہوئے ہیں انہیں وجودی یا وجودیہ کہا گیا ہے۔ (3)

منابع

1. محمد مہدی گرجیان، نرجس رودگر، ”انعکاسِ فلسفۂ فلوطین در حکمتِ صدر المتألہین“، حکمت اسراء، بہار 1391 شماره 11۔

2. سید علی عباس جلالپوری، ”روایاتِ فلسفہ“، باب: نوفلاطونیت، خرد افروز، جہلم۔

3. سید علی عباس جلالپوری، ”روایاتِ فلسفہ“، باب: موجودیت پسندی، خرد افروز، جہلم۔

 

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button