ایرانی یونیورسٹیوں میں انسانی علوم (humanities) کی نصابی کتب کے انچارج جناب ڈاکٹر احمد احمدی نے 22 جون 2013ء میں حضرت آیت اللہ سیستانی سے ملاقات کی تو آیت اللہ نے ملک میں ان علوم کی حالت کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے فرمایا:
”دینی مسائل پر تحقیق کرنا اور نتائج کو یونیورسٹیوں اور انتظامی شعبوں میں لے جانا بہت مشکل کام ہے۔ کیا شرائع، لمعہ، مکاسب اور جواہر جیسی کتابیں پڑھنے والا طالب علم جج کی کرسی پر بیٹھ کر قانونی اور عدالتی کام سے عہدہ بر آ ہو سکتا ہے؟ میں ایران کی عدالتوں کے مسائل سے آگاہ ہوں۔ مسائل پر جامع اور دوسروں کی آراء کو مدنظر رکھ کر تحقیق کرنی چاہئے اور پھر انکو پوری طرح سمجھنے کے بعد ہی اپنی فقہی اور قانونی رائے کا اظہار کیا جائے۔“
پھر انہوں نے کہا: ”انسانی علوم میں بحث و تحقیق اور تحولات کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ عملی شکل میں نافذ ہونے کے قابل بھی ہوں اور درسگاہوں سے معاشرے تک پہنچیں اور کوئی مثبت تبدیلی لائیں، ورنہ اس اہتمام کا کیا فائدہ؟ مثلاً ملا صدرا کا فلسفہ پڑھانے کا آج تک کیا فائدہ ہوا ہے جس میں محی الدین ابنِ عربی کی انحرافی آراء کی آمیزش ہے اور قیامت کے بارے اسکا عقیدہ بھی درست نہیں ہے؟“
آیت اللہ نے ایرانی معاشرے میں ایک طرف منبروں سے مہدویت کے نام پر خوابوں اور پیش گوئیوں جیسی خرافات کی ترویج اور دوسری طرف یونیورسٹیوں میں جدید علوم کی تدریس سے پیدا ہونے والے دو مختلف فکری دھاروں کے ملاپ کے بارے میں تشویش اور پریشانی کا اظہار کیا اور کہا کہ ان دونوں سوچوں کو کب تک ساتھ ساتھ چلایا جا سکے گا؟
ڈاکٹر احمدی کے بقول ملاقات تقریباً 40 منٹ تک جاری رہی اور بدقسمتی سے ہم جہاز پکڑنے کی جلدی میں تھے اور انہوں نے ہماری عجلت کو سمجھ لیا تھا، ورنہ وہ اس ملاقات کو مزید طول دیتے کیونکہ ان کے چہرے پر بہت زیادہ پریشانی کے آثار تھے۔ ملاقات ختم ہوئی اور ہم گرمجوشی سے الوداع کہہ کر دعائیں لیتے ہوئے باہر نکل آئے۔ لیکن اس ملاقات کی یاد اور وہ علم، شائستگی، تقویٰ، اجتہاد، درد اور ہمدردی کا پیکر ہمارے حافظے سے کبھی نہیں مٹ سکے گا۔
ڈاکٹر احمدی کی طرف سے شائع کردہ مکمل متن کے عکس دیکھنے کے لیے ان لنکس پر کلک کریں: تصویر 1 – تصویر 2 – تصویر 3
کتاب ”آیت اللہ سیستانی و عراقِ جدید“ کے باب ”آیت اللہ ضدِ خرافہ“ میں آیت اللہ سیستانی سے جناب مولانا مسیح مہاجری کی ملاقات کی روداد میں آیا ہے:
میں نے آیت اللہ سے کہا: ایران توہمات میں گھرا ہوا ہے اور کم تعلیم یافتہ اور دولت کمانے کے خواہشمند خطیبوں کے بڑھ جانے سے انحرافی نظریات اور ضعیف الاعتقادی عروج پر ہے۔ آیت اللہ سیستانی نے مزید کچھ سنے بغیر اپنی گفتگو کا آغاز کر دیا، گویا وہ پہلے سے تیار بیٹھے تھے اور صورتحال کو مکمل طور پر سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے کہا:
”یہ صورت حال تم لوگوں نے خود پیدا کی ہے۔ ہاں، آپ لوگوں نے مشہور کیا کہ آقائے بہا الدینی یوں ہیں، ووں ہیں۔ عارفوں کی کرامتیں تم لوگوں نے خود پھیلائیں۔ میں خود قم میں رہ چکا ہوں اور مجھے ان باتوں کا علم ہے اور جب میں یہاں ہوں تو بھی میں وہاں چھپنے والی کتابیں دیکھتا رہتا ہوں۔ میں نے وہاں مختلف بزرگوں سے منسوب کرامات کی کتابیں پڑھی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ نے ہی ملک کو اس برے حال تک پہنچا دیا ہے۔ جمکران کو تم لوگوں نے خواہ مخواہ ہی اتنا اہم مقام بنا دیا ہے۔ منبر سے عجیب و غریب عرفانی قصے سنائے جاتے ہیں۔ میں ایرانی مولویوں کی مجالس بھی دیکھتا رہتا ہوں۔“
میں نے کہا نوحہ خوانوں اور قصیدہ خوانوں کے بارے آپ کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے کہا: ”وہ لوگ بھی آپ کی ان حرکتوں کی وجہ سے بگڑے ہیں۔“
میں نے کہا کہ میں ان خطیبوں کے خلاف ہوں جو لوگوں کو ضعیف، جھوٹی اور توہم پرستی کی باتیں سناتے ہیں، اور میں نے ان کے خلاف بہت سے مضامین اور تحریریں لکھی ہیں۔ ہم آپ سے امید رکھتے ہیں کہ آپ اس پر کوئی بیان جاری کریں گے اور اس میدان میں ہماری مدد کریں گے۔ کیونکہ آپ کا موقف بہت موثر ہے۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا:
”میں یہ باتیں جانتا ہوں اور انکے خلاف میرا موقف کچھ لوگوں نے بیان بھی کیا ہے، وہ شائع ہو چکا ہے۔ لیکن میں ایران میں مداخلت نہیں کرنا چاہتا۔ ایران انجینئرڈ ہے اور اوپر ایک انجینئر بیٹھا ہے۔ مجھے مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔“
میں نے کہا: میرا مقصد حکومتی معاملات میں دخل اندازی کی دعوت دینا نہیں ہے۔ لیکن آپ کی رائے دینی معاملات میں موثر ہے۔ لوگوں کے عقائد خطرے میں ہیں اور دین و عقائد کو بچانے کے لیے ان مسائل میں آپ کی مداخلت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا:
”آپ کے ہاں جو یہ کہتے ہیں «سیاست ما عین دیانت ما و دیانت ما عین سیاست ماست» کہ ہماری سیاست ہمارا دین ہے اور ہمارا دین ہماری سیاست ہے، پھر آپ ان کو ایک دوسرے سے کیسے الگ کر سکتے ہیں؟ آپ کے دوست آقائے بہشتی نے انقلاب کے بعد جو آئین بنایا، انہوں نے اس کو یوں مرتب کیا کہ مرجعیت کے پاس صرف غسل و طہارت کے مسائل ہی رہ گئے اور باقی دین حکومتی معاملہ بن گیا۔ اب ہم کیا کہہ سکتے ہیں؟“
مولانا مسیح مہاجری سے آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی کی ملاقات کا مکمل متن دیکھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں: (خبر آنلاین، ۲۴ اردیبهشت ۱۳۹۱) موضع آیت الله سیستانی درباره خرافات در ایران
یہ بھی پڑھئے: ہم ابنِ عربی کے عرفان کی تائید نہیں کرتے – آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی