متفرق

جناب مرتضیٰ مطہری نے گمراہ صوفیوں ہی کو عارف قرار دیا ہے – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو

200 ملاحظات

اربابِ دانش و بینش جانتے ہیں کہ کسی چیز کا نام بدل دینے سے اس چیز کی حقیقت نہیں بدل سکتی۔ مثلاً اگر کسی بوتل میں شراب بھری ہو اور اس کا نام شربتِ صندل رکھ دیا جائے تو ایسا کرنے سے شراب شراب ہی رہے گی، وہ ہرگز صندل کا شربت نہیں بن جائے گی۔ ایسا کرنے سے نہ اس کی حقیقت تبدیل ہوگی اور نہ ہی اس کے احکام تبدیل ہوں گے۔ وہ شراب ہی رہے گی اور نجس و حرام بھی رہے گی۔

بعینہٖ یہی حال تصوف کا ہے۔ جس کی حقیقت و ماہیت اور جس کے عقائد و اعمال اور جس کے قائلین کی روش و رفتار اور اخلاق و اطوار کا تفصیلی تذکرہ گزشتہ ابواب میں بڑی تفصیل جمیل اور دلائل و براہین کے ساتھ کیا جا چکا ہے۔ اور یہ بھی واضح کیا جا چکا ہے کہ یہ جماعتِ صوفیہ دشمنانِ اہل بیت ؑ، یعنی بنی امیہ، کے عہد کی پیداوار ہے اور اس کے عقائد و نظریات اور اعمال و افعال اور اوراد و اذکار سرکار محمد و آل محمد علیہم السلام کے عقائد و اعمال کے منافی اور مخالف ہیں، تو اگر اس (تصوف) کا نام تبدیل کر کے اس کا نام ”عرفان“ رکھ دیا جائے تو اس سے اس کی اصل حقیقت تو تبدیل نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی اس کے احکام تبدیل ہوں گے۔

اینہا ہمہ راز است که معلوم عوام است

اور اگر عرفان سے خدا و مصطفیٰ ؐ اور آئمۂ ہدیٰ ؑ اور دینِ مصطفیٰ ؐ کی معرفت مراد ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہو گا کہ یہ مقصد سرکار محمد و آلِ محمد علیہم السلام کے ذریعہ سے باآسانی حاصل ہو سکتا ہے، یا صوفیا کے توسط سے؟

اور اگر یہ معلوم کرنا ہے کہ توحید کا مقام اور نبی و امام کی شان کیا ہے؟ تو اس کے لیے ہمیں قرآن مجید، اصولِ کافی، نہج البلاغہ اور صحیفہ کاملہ کا مطالعہ کرنا پڑے گا، یا صوفی حلاج یا ابنِ عربی کی فصوص الحکم، جو کہ بقول ڈاکٹر اقبال، اور جہاں تک مجھے معلوم ہے فصوص الحکم میں سوائے الحاد و زندقہ کے اور کچھ نہیں ہے (اقبال نامہ، جلد ۱، صفحہ ۴۴)، اور فتوحاتِ مکیہ یا غزالی کی احیاء العلوم کا مطالعہ کرنا پڑے گا؟

تعجب بالائے تعجب یہ ہے کہ جس علم (تصوف) کا اسلامی علوم میں شمار ہی نہیں ہے، اس مسلک والے لوگوں سے دینِ اسلام کی حقیقت کو سمجھا جائے گا، یا بانیءِ اسلام ؐ اور ان کے اعلیٰ افرادِ خاندان سے سمجھا جائے گا؟ ما لكم كيف تحكمون؟

بسوخت عقل زحیرت که این چہ بوالعجبی است

مگر بعض سادہ لوح لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اگر یہ نام الگ ہے تو اس کی حقیقت بھی الگ ہوگی۔ تو ایسے لوگوں کے اس خیال محال کے ابطال کے لیے ہم علمبردارانِ عرفان کے اپنے بیانات اور ان کے اپنے کتب و رسائل کے اقتباسات سے ذیل میں واضح کرتے ہیں کہ تصوف کا صرف نام بدل کر عرفان رکھ دیا گیا ہے، ورنہ دونوں کی اصلیت اور ماہیت ایک ہی ہے۔

ایک جیسے اصول ہیں، ایک جیسے قواعد وضوابط ہیں، ایک جیسے اصطلاحات ہیں۔ جیسے وحدۃ الوجود، اور مراقبہ، اور صحو و سکر، اور ایک جیسے وظائف و اوراد ہیں۔

آئیے اس سلسلہ میں رسالہ سیر و سلوک کا مطالعہ و ملاحظہ کرتے ہیں جو جناب شہید مطہری کے قلم کا نتیجہ اور دوسرے بعض اکابرِ اہلِ عرفان کے افکار و انظار کا ثمرہ ہے۔ تا کہ ہمارے دعوٰی کی صداقت کالشمس فی رابعۃ النہار واضح و آشکار ہو جائے، اور اس موضوع کا مطلع بالکل بے غبار ہو جائے۔

کیا لطف جو غیر پردہ کھولے
جادو وہ جو سر پہ چڑھ کے بولے

صوفی ازم اور عرفان اسلام میں نو ایجاد ہیں

جناب شہید مطہری جو کہ مسلک‌ِ عرفان کے سب سے بڑے ترجمان ہیں، انہوں نے ایک رسالہ بنام سیر و سلوک لکھا ہے جس کے سرنامہ پر بعض اکابر واساطینِ مذہب کے نام لکھے ہیں، اس میں لکھتے ہیں:

”یہ تو مسلم ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں اور کم از کم پہلی صدی میں عارف یا صوفی نام کا کوئی نام مسلمانوں میں موجود نہیں تھا۔ صوفی کا لفظ دوسری صدی ہجری میں وجود میں آیا۔ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ابو ہاشم کوفی کو اس نام سے پکارا گیا ۔ ابو ہاشم دوسری صدی میں گزرے ہیں۔“ (سیر و سلوک، صفحہ ۵۴)

ذرا آگے چل کر لکھتے ہیں:

”صوفیہ اپنے زہد اور ترکِ دنیا کے سبب سے نرم لباس سے اجتناب کرتے تھے اور خاص طور پر اون کا موٹا جھوٹا لباس پہنتے تھے۔ ۔ ۔ مگر یہ لوگ کب سے اپنے آپ کو عارف کہلانے لگے، اس کے بارے میں بھی وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اتنی بات یقینی ہے اور سری سقطی متوفیٰ ۲۴۳ ہجری کے ملفوظات سے معلوم ہوتا ہے (تذکرۃ الاولیاء، عطار) کہ یہ اصطلاح تیسری صدی ہجری میں رائج ہو چکی تھی۔“ (سیر و سلوک، صفحہ ۵۵)

اس عبارت سے روزِ روشن کی طرح واضح وعیاں ہے کہ صوفیت اسلام میں دوسری صدی ہجری میں داخل ہوئی اور صوفیت کا نام عرفان اور صوفیہ کو عرفاء کہنے کا رواج تیسری صدی ہجری میں ہوا۔ ورنہ دونوں کی حقیقت ایک ہے۔ اور یہی ہمارا مدعا اور مقصد ہے جو رسالہ سیر و سلوک سے ثابت ہے۔

علاوہ بر ایں اس سارے رسالہ میں بار بار تصوف و عرفان اور عرفان و تصوف کی اس قدر تکرار کی گئی ہے کہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ مضمون نگار کی نگاہ میں دونوں نام مترادف ہیں۔

اسی رسالہ کے صفحہ ۳۱ پر لکھا ہے:

”عارف کے نزدیک توحید یہ ہے کہ موجودِ حقیقی فقط اللہ ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ موجود نہیں، صرف ظاہری نمود ہے۔ عارف کے نزدیک خدا کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔“ (سیر و سلوک، صفحہ ۳۱)

قارئین کرام! خدا کو حاضر و ناظر سمجھ کر بتائیں کہ کیا یہ بعینہٖ ابنِ عربی کا وحدة الوجود والا فاسد عقیدہ ہے کہ نہیں ہے؟

یہ بھی پڑھئے: نظریۂ وحدۃ الوجود کا رد – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

پھر وہی تصوف والی اصطلاحات، مثلاً صفحه ۳۸ پر ”شریعت، طریقت، اور حقیقت“ کا عنوان قائم کر کے اس موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔ بعد ازاں صفحہ ۵۷ سے لے کر صفحہ ۸۶ تک، یعنی دوسری صدی ہجری سے لے کر بارہویں صدی ہجری تک کے عرفاءِ اسلام کے نام سے، نام گنوائے گئے ہیں۔ جیسے دوسری صدی کے عارف، تیسری صدی کے عارف، چوتھی صدی کے عارف، ۔ ۔ ۔

اور لطف یہ ہے کہ اس ساری فہرست میں دو تین ناموں کو چھوڑ کر باقی جن لوگوں کے نام لیے گئے ہیں، اگر سارے دشمن اہل بیت ؑ نہیں ہیں تو ان کی ولایت و امامت کے منکر تو ضرور ہیں، یعنی سنی المذہب ہیں۔

مثلاً: دوسری صدی کے عرفاء میں حسن بصری، ابو ہاشم کوفی، اور شفیق بلخی، وغیرہ کا نام ہے۔ اور پھر تیسری صدی کے عرفاء میں بایزید بسطامی، سری سقطی اور جنید بغدادی وغیرہ۔ بعد ازاں چوتھی صدی کے عرفاء میں ابو بکر شبلی، ابو نصر سراج طوسی، ابو طالب مکی، وغیرہ وغیرہ۔

ان حقائق کے بعد اس حقیقت کے تسلیم کرنے اور ہمارے دعویٰ کہ ”لفظ عرفان تصوف کا ہی بدلا ہوا نام ہے“، کے صحیح ہونے میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے؟

حاشا وکلا لطف بالائے لطف یہ ہے پرویز صاحب نے ”اولین صوفیا اور مشہور صوفیا“ کے زیرِ عنوان اپنی کتاب ”حقیقت تصوف“ میں جو نام گنوائے ہیں، کم و بیش وہی نام عرفاء کے عنوان کے تحت جناب شہید مطہری نے گنوائے ہیں۔

آیا ان حقائق کی روشنی میں اس حقیقت کے تسلیم کرنے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ تصوف اور عرفان ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ جو صوفیاء ہیں، وہی عرفاء ہیں؛ اور جو عرفاء ہیں، وہی صوفیاء ہیں۔ اور یہی بات ثابت کرنا ہمارا مقصود و مدعا ہے جو کہ بفضلہٖ تعالیٰ ثابت ہے۔ من شاء فليومن ومن شاء فليكفر

بعد ازاں صفحہ ۸۶ سے لے کر صفحہ ۱۰۵ تک منازل و مقامات کے عنوان کے تحت عرفانِ حقیقی حاصل کرنے کے لیے سالک کو جن منازل و مقامات سے گزرنا پڑتا ہے، ان منازل کے نام اور ان کے حقائق بیان کیے گئے ہیں ۔ جیسے: ارادہ، ریاضت، مراقبہ، وغیره وغیرہ۔

یہ چیز بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ تصوف اور عرفان ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ دو علیحدہ علیحدہ حقیقتیں نہیں ہیں۔ اور یہی ہمارا مقصود ہے۔ جو کہ بحمد للہ حاصل و موجود ہے۔ والحمد لله

قارئین کرام! آپ نے بڑے اختصار کے ساتھ سیر و سلوک کی مختصر سیر تو کر لی، اب آئیے لگے ہاتھوں آپ کو جناب شہید مطہری مرحوم کی ایک اور کتاب بنام علومِ اسلامی کے گلشنِ علم کی سیر کرائیں، تاکہ آپ کی تصوف و عرفان کی حقیقت معلوم کرنے کی پیاس بالکل بجھ جائے۔

رسالۂ علومِ اسلامی کا تذکرہ

جناب شہید مطہری اپنے رسالہ اسلامی علوم کا تعارف کے صفحہ ۲۳۲ پر چوتھے باب کا آغاز عرفان اور تصوف کے عنوان سے کرتے ہیں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔ اور اس سے اگلے صفحہ ۲۳۳ کی پہلی سطر پر یوں رقمطراز ہیں:

”اہلِ عرفان کا تذکرہ جب ان کے ثقافتی پہلو کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے تو انہیں عرفاء کے نام سے یاد کرتے ہیں اور جب ان کا سماجی پہلو مقصود ہوتا ہے تو عام طور سے انہیں صوفیاء کا لقب دیتے ہیں۔“

اس عبارت سے روزِ روشن کی طرح واضح و آشکار ہوتا ہے کہ تصوف و عرفان میں صرف اعتباری فرق ہے، ورنہ بنیادی طور پر وہ ایک ہی حقیقت کے دو مختلف نام ہیں۔ اور یہی ہمارا مدعا و مقصود تھا جو بفضلہ تعالیٰ ثابت ہے اور حاصل ہے اور یہ بات صاحب کتاب ”از کوئے صوفیاں تا حضور عارفاں“ نے تسلیم کی ہے کہ: ”عرفان تصوف کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔“ (صفحہ ۴۶)

بعد ازاں شہید موصوف صفحہ ۲۵۵ پر لکھتے ہیں: ”اتنا تو مسلم اور یقینی ہے کہ صدر اسلام اور کم از کم پہلی صدی ہجری میں مسلمانوں کے درمیان عارف یا صوفی نامی کسی گروہ کا وجود نہیں تھا۔ صوفی کا نام دوسری صدی ہجری میں رونما ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ پہلا پہلا شخص جسے اس نام سے یاد کیا گیا ہے وہ ابو ہاشم کوفی ہیں جو دوسری صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں۔“

یہ وہی ابو ہاشم کوفی ہے جس کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

انه فاسد العقيدة جداً و هو الذي ابتدع مذهبا يقال له التصوف (حديقة الشيعة)

بعد ازاں جناب شہید مطہری اپنی اسی کتاب کے صفحہ ۲۵۶ پر لکھتے ہیں:

”اب رہی یہ بات کہ ان صوفیوں نے کب سے اپنے کو عارف کہنا شروع کیا ہے؟ اس سلسلہ میں صحیح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ قدر مسلم یہ ہے اور سری سقطی (وفات ۲۴۳ھ) سے جو باتیں نقل ہوئی ہیں ان سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ تیسری صدی ہجری میں یہ اصطلاح رائج تھی۔ لیکن ابو نصر سراج طوسی کی کتاب اللمع میں جو عرفان و تصوف کی معتبر کتابوں میں شمار ہوتی ہے، سفیان ثوری سے ایک جملہ نقل ہوا ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ تقریباً دوسری صدی ہجری ہی میں یہ اصطلاح پیدا ہو چکی تھی۔“

اب راز نہیں کوئی راز رہا سب اہل گلستاں جان گئے

اس بیان نیر البرہان سے آفتاب نیمروز کی طرح ہمارا دعویٰ ثابت ہو گیا اور یہ حقیقت واضح و آشکار ہوگئی کہ جس چیز کو آج عرفان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہ تصوف ہی کا بدلا ہوا دوسرا نام ہے۔ یعنی پہلے جس چیز کا نام تصوف تھا اور جس کے ماننے والوں کو صوفیاء کہا جاتا تھا، اب اسی چیز کا نام عرفان ہے اور اس کے ماننے والوں کو عرفاء کہا جاتا ہے۔ الغرض ان دونوں کی اصل حقیقت ایک ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دوسری صدی سے لے کر دسویں صدی تک جن لوگوں کا نام تذکرۃ الاولیاء‌ِ شیخ عطار میں، اور تصوف کی حقیقت از پرویز وغیرہ میں، اولین صوفیاء یا مشہور صوفیاء کے عنوان کے تحت کیا گیا ہے انہی لوگوں کا تذکرہ جناب شہید مطہری کی کتاب سیر و سلوک اور کتاب اسلامی علوم کا تعارف میں عرفاءِ اسلام کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ جن میں سے دو تین نام چھوڑ کر باقی سب اگر دشمنِ اہلِ بیت ؑ نہیں ہیں تو کم از کم منکرِ ولایتِ اہلِ بیت ؑ تو ضرور ہیں ۔ کما لا یخفی۔

یہ بھی پڑھئے: تصوف امامتِ اہلبیت ؑ سے انحراف ہے – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین نوری ہمدانی

شہید مطہری کے بعض عرفاءِ اسلام کا اجمالی تعارف

انہی عرفاء میں سر فہرست حسن بصری ہیں جن کو حضرت علی علیہ السلام نے شیطان کا بھائی قرار دیا ہے۔ (عین الحیوۃ از علامہ مجلسی) انہی عرفاء میں سے ایک عارف سفیان ثوری دشمن اہل بیت ؑ ہے۔

انہی عرفاء میں سے ایک منصور حلاج ہے۔ جس پر امام زمانہ ؑ نے لعنت کی ہے۔ اور اس کے قتل کے جواز کا فتوی دینے والے علماء و فقہاء میں حضرت امام زمانہ ؑ کے نائب خاص جناب حسین بن روح نوبختی ؒ بھی شامل ہیں۔ (احتجاجِ طبرسی، و غیبتِ نعمانی وغیره)

انہی عرفاء میں سے ایک غزالی بھی ہے، جس نے احیاءُ العلوم میں یزید بن معاویہ کی وکالت کا حق ادا کرتے ہوئے حضرت امام حسین ؑ کے ذکر کو حرام اور یزید عنید پر لعنت کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے۔

انہی عرفاء میں سے ایک عبد القادر جیلانی ہے، جس نے اپنی کتاب غنیہ الطالبین میں شیعیان علی ؑ کو امتِ محمدیہ ؐ کا یہودی، اور روزِ عاشوراء کو روزِ عید قرار دیا ہے۔

انہی عرفاءِ اسلام میں سے ایک محیی الدین ابنِ عربی بھی ہے، جو فصوص الحکم اور فتوحات مکیہ کا مصنف ہے۔ اس نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ صوفیاء کا ایک گروہ ایسا ہے جو رجبیون کہلاتا ہے۔ کیونکہ اس کی زیادہ کشف و کرامات کا ظہور رجب المرجب کے مہینہ میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اس گروہ کے ایک شخص نے مکاشفہ میں دیکھا کہ شیعہ اور خنزیر برابر ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی کی شیعہ دشمنی

اسے فاضل ملا فیض، محیی الدین کی بجائے اپنی کتاب علم الیقین اور حق الیقین وغیرہ میں ”ممیت الدین” کہتے ہیں۔

انہی عرفاء میں ایک ملائے روم بھی ہے جو جبری العقیدہ ہے اور کہتا ہے کہ حضرت امیر ؑ کو ابنِ ملجم مرادی سے خدا نے شہید کرایا تھا۔ (العیاذ باللہ ) انہی عرفاء میں سے ایک شبستری، صاحبِ گلشن راز، بھی ہے۔ جو خرافات کا مجموعہ ہے۔ جس کا ایک شعر ہے:

مسلمان گر بدانستی کہ بت چیست
بدانستی که دین در بت پرستی است

یعنی اگر مسلمان کو یہ معلوم ہو جاتا کہ بت کی اصل حقیقت کیا ہے تو پھر اسے معلوم ہو جاتا کہ سارا دین تو بت پرستی میں ہے۔ مقصد یہ کہ بت بھی الله، یا اللہ کا اوتار ہے۔ (العیاذ باللہ)

اندکی غم دل با تو گفتم و بدل ترسیدم که آزرده شوی ورنه سخن بسیار است

منازل و مقامات (عرفانی اصطلاحیں)

پھر مرحوم شہید مطہری نے اپنے رسالہ اسلامی علوم میں صفحہ ۲۸۱ سے لے کر صفحہ ۳۰۹ تک پورے ۲۹ صفحات میں عرفان کے منازل و مقامات گنوائے ہیں، جو بالکل تصوف والے منازل ہیں۔ جن کو سالک طے کر کے حقیقت تک پہنچتا ہے۔ جیسے:

اراده، مشق اور ریاضت، رقت، حال و مقام، قبض و بسط، جمع و فرق، غیبت و حضور، ذوق ، شرب دری، محو و محق و صحو، خواطر، قلب و روح و سر، وغیره وغیره۔ بعد ازاں ان عرفانی اصطلاحوں کی تشریح و توضیح، تصوف و عرفان کے نقطہ نظر سے کی گئی ہے۔

ہم اس مقام پر تمام علماءِ اعلام اور مراجع‌ِ تقلیدِ شیعیانِ جہاں سے استدعا کرتے ہیں کہ وہ خدا کو حاضر و ناظر سمجھ کر، صادقین کی صداقت کا دامن تھام کر اور کاذبین سے اعلان براءت کر کے، بتائیں کہ سرکار محمد و آل محمد علیہم السلام کے علوم میں ان اصطلاحات کا یا اس گروہ کی خود ساختہ عبادتوں، جیسے ذکر‌‌ِ جلی و خفی یا مراقبہ یا ان لوگوں کی شریعت، طریقت اور حقیقت یا ان کے ملحدانہ عقیدہ وحدت الوجود یا وحدة الموجود اور شہود کا کوئی نام و نشان بھی ملتا ہے؟ پس اگر کوئی اس کا مدعی ہے تو اس کا قرآن و سنت کے نصوص صحیحہ و صریحہ سے ثبوت پیش کرے اور ہم سے منہ مانگا انعام حاصل کرے۔

ورنہ بصورت دیگر یہ تلخ حقیقت تسلیم کئے بغیر کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ تصوف و عرفان سرزمینِ اسلام میں اجنبی پودا ہے جو باہر سے لاکر اسلام میں لگایا گیا۔ ورنہ اس کا اسلام و ایمان سے اتنا بھی تعلق نہیں ہے جتنا کہ کھجور کی گٹھلی کا اس کے چھلکے سے ہوتا ہے۔ هل فيكم من رجل رشيد!

کس بمیدان در نمی آید سواران چہ شد

ان حقائق سے واضح و آشکار ہو گیا کہ آج کل بعض اسلامی ممالک میں جو عرفان کے چرچے ہیں اور حقائقِ اسلام کا چہرہ عرفان کے نام سے بگاڑا جا رہا ہے، وہ بعینہٖ صوفیاء کا تصوف ہے۔ اور ان عرفان بافوں نے شیعہ علماءِ اعلام کے فتاوی سے خوف زدہ ہو کر عرفان کی آغوش میں پناہ لی ہے۔ ورنہ دنیا جانتی ہے کہ ابنِ عربی کی کافرانہ کتاب فصوص الحکم کی شرح لکھنے والے اور اس کی ملحدانہ تحریرات کی تاویلات کرنے والے اگر صوتی نہیں تو اور کیا ہیں؟

بس اک بات پہ ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا

یہ بھی پڑھئے: عرفانِ نظری اور تفسیر بالرائے – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی

مآخذ: آیۃ اللہ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو، ”اقامۃ البرہان علی بطلان التصوف والعرفان“، صفحات 101 تا 111، مکتبۃ السبطین، 2011ء۔

 

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button