متفرق

صوفی علامہ محمد حسین طہرانی کے انحرافات – آیۃ اللہ سید محمود بحرالعلوم میردامادی

169 ملاحظات

اگر آپ کا عرفان اصلی ہو، تو شیعہ فقہاء کے ساتھ آپ کا تعلق اچھا ہو گا۔ تم خود کو فقیہ کہتے ہو اور مراجع سے دشمنی بھی رکھتے ہو؟ یہی شخص (علامہ طہرانی) جس نے کہا کہ اگر استاد کہے خون پیو تو پی لوں گا (1)، اور یہ کہ میں امیر المؤمنین ؑ کی طرح نفوس پر مسلط ہوں (2)، یہی شخص کہتا ہے کہ سید حسن مسقطی (متوفیٰ 1932ء) کو توحید پڑھانے کی وجہ سے حوزۂ علمیہ نجف سے نکالا گیا (3)۔ اب اسے کس نے نکالا؟ آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی ؒ نے!

یہ مرجعیت پر حملے کرنا اور اسلام سے علماء کو مائنس کرنا، صرف ڈاکٹر شریعتی کے طرفداروں (مجاہدینِ خلق) کا ہی کام نہیں ہے، بلکہ صوفیوں کا اسلام بھی علماء کے بغیر ہے۔ یہ علماء کے دوست ہو ہی نہیں سکتے۔ ہاں، اگر اپنے جیسا عمامے والا ملے تو زندہ باد کہتے ہیں۔ لیکن اگر ان سے اختلاف رکھنے والا صاحبِ عمامہ ہو تو کہتے ہیں کہ نہیں، یہ ہمارے کام کا نہیں، اسے سمجھ نہیں آئے گا۔ یہ معرفت کی باتوں کو نہیں جانتا۔

سید ابوالحسن اصفہانی ؒ، شیعوں کے بلند پایہ مرجع، اس عمامہ پوش کیلئے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ کہتا ہے انہوں نے مسقطی کو نکال دیا کیونکہ توحید پڑھاتا تھا۔ نہ! مسقطی توحید نہیں، وحدت الوجود کا درس دیتا تھا۔

وحدتِ وجود، انبیاؑء اور آئمہ طاہرین ؑ کی توحید سے الگ ہے۔ توجہ کیجئے! توحید یگانہ پرستی ہے، خدا پرستی ہے۔ خدائے متعال کائنات کا خالق ہے۔ جو حقیقی قادر ہے وہ خدائے متعال ہے۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ. (سورہ آل عمران، آیت 26)

ترجمہ: ”کہہ دیجئے: اے اللہ! (اے) ملک کے مالک! تو جسے چاہے، حکومت دیتا ہے۔ اور جس سے چاہے، حکومت چھین لیتا ہے۔ اور تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے۔ خیر تیرے ہی ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔“

یہ توحید ہے۔ عزت خدا کے ہاتھ میں ہے، ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ قدرت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ تبارک و تعالٰی کی طرف توجہ کا حکم آیا ہے۔ انبیاؑء نے کہا:

قولوا لا إلَهَ إلَّا اللَّهُ تُفلِحوا.
ترجمہ: ”لا الٰہ الا اللہ کہو، نجات پاؤ گے۔“

وحدتِ وجود، لا الہٰ الا اللہ کے مدِ مقابل ہے۔ وحدتِ وجود کا معنی یہ ہے کہ وجود ایک ہی ہے، وہی خدا ہے۔ پس میں کون ہوں، آپ کون ہیں، یہ منبر کیا ہے؟ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ نہیں ہیں۔

یہی شخص جس کی کچھ باتیں اوپر بیان کی ہیں، کیا کہتا ہے۔ کائنات اللہ کی نشانی ہے۔ یہ کہتا ہے: خدا ذو الآیہ ہے۔ یعنی آیات و نشانیاں رکھتا ہے۔ صاحبِ آیہ ہے۔ یہاں تک ٹھیک کہہ رہا ہے۔ پھر کہتا ہے یہ آیات ہیچ ہیں، کچھ نہیں ہیں۔ یہ نہیں ہیں، صرف خدا ہے۔ وجود اسی کا ہے۔ اب یہ کہنے کے بعد ذوالآیہ کا کیا معنی رہ جاتا ہے؟ آیہ کی جگہ ہیچ رکھو تو معنی یہ ہوا کہ خدا کی نشانی کچھ ہے ہی نہیں!

بعد میں کہتا ہے کہ لا الہٰ الا اللہ کا معنی لا موجود سوی اللہ ہے۔ اللہ کے سوا کچھ موجود نہیں ہے۔ پھر ہم اور آپ کیا ہیں؟کہتا ہے، ہم نہیں ہیں۔ پس جب ہم نہیں ہیں تو ہمارے بیچ جھگڑا کیوں ہے؟ ہم تمہاری بات نہیں مانتے، تم ہماری بات نہیں مانتے۔ میں منبر پر بیٹھا تقریر کر رہا ہوں۔ صاحبِ ہیچ؟ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی پڑھئے: وحدت الوجود کے قائل صوفیاء نجس ہیں – آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی

آپ نے کس لغت میں دیکھا کہ الہٰ کا معنی ”موجود“ لکھا ہو؟ لا الٰہ کا معنی لا موجود کرتا ہے۔ معبود کی جگہ موجود کہتا ہے۔ آج تک لغت کی کس کتاب میں الہٰ کا مطلب موجود آیا ہے؟ الہٰ کا معنی معبود ہے، خدا ہے۔ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے۔ یہ کہتا ہے الہٰ کا معنی موجود ہے، پس لا موجود الا اللہ!

عربی لغت کی کس کتاب میں یہ معنی لکھا ہے؟ یہ لوگ اپنی بات منوانے کیلئے لغت میں بھی تحریف کرتے ہیں۔

حوالہ جات:
1. اسرارِ ملکوت، جلد 2، صفحہ 43۔
2. نورِ مجرد، جلد 1، صفحہ 329۔
3. روحِ مجرد، صفحہ 105۔

مآخذ: فرق توحید با وحدت وجود – آیت اللہ بحرالعلوم میردامادی – 11 مئی 2023ء

یہ بھی پڑھئے: وحدتِ عددی کی نفی اور توحید کی معرفت – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

ویڈیو ڈاؤن لوڈ کریں

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button