مراجع کے فتاویٰ

وحدت الوجود کے قائل صوفیاء نجس ہیں – آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی

284 ملاحظات

آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم یزدی (متوفیٰ 1919ء) نے اپنی کتاب العروۃ الوثقی میں ان صوفیوں کی نجاست کا فتویٰ دیا ہے جو عقیدۂ وحدت الوجود کے لوازمات سے ملتزم ہوں:

و أمّا المجسّمۃ و المجبّرۃ و القائلين بوحدۃ الوجود من الصوفيّۃ إذا التزموا بأحكام الإسلام، فالأقوى‌ عدم نجاستہم إلّا مع العلم بالتزامہم بلوازم مذاہبہم من المفاسد.

ترجمہ: ”جسمِ الہیٰ کے قائلین یا جبرِ محض کے ماننے والے یا صوفیوں میں سے وہ جو وحدت الوجود کے قائل ہیں، اگر احکامِ اسلام کے پابند ہوں تو بہتر یہی ہے کہ ان کو نجس نہ سمجھا جائے۔ مگر یہ کہ مفاسد میں سے ان کے اپنے مذہب کے لوازمات میں مبتلا ہو جانے کا بھی علم ہو جائے۔“

آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم (متوفیٰ 1970ء) حاشیے میں لکھتے ہیں:

أما القائلون بوحدۃ الوجود من الصوفيۃ فقد ذكرهم جماعۃ، ومنهم السبزواري في تعليقتہ على الاسفار، قال:

«والقائل بالتوحيد إما أن يقول بكثرۃ الوجود والموجود جميعاً مع التكلم بكلمۃ التوحيد لساناً، واعتقاداً بہا إجمالا، وأكثر الناس في ہذا المقام. وإما أن يقول بوحدۃ الوجود والموجود جميعا، وہو مذہب بعض الصوفيۃ. وإما أن يقول بوحدۃ الوجود وكثرۃ الموجود، وہو المنسوب إلى أذواق المتألہين. وعكسہ باطل. وإما أن يقول بوحدۃ الوجود والموجود في عين كثرتہما، وهو مذہب المصنف والعرفاء الشامخين. والأول: توحيد عامي، والثالث: توحيد خاصي، والثاني: توحيد خاص الخاص، والرابع: توحيد أخص الخواص.»

أقول: حسن الظن بہؤلاء القائلين بالتوحيد الخاص والحمل على الصحۃ المأمور بہ شرعا، يوجبان حمل ہذہ الأقوال على خلاف ظاہرہا، وإلا فكيف يصح على ہذہ الأقوال وجود الخالق والمخلوق، والآمر والمأمور والراحم والمرحوم؟! وما توفيقي الا باللہ عليہ توكلت واليہ أنيب. (1)

ترجمہ: ”جہاں تک وحدت الوجود کا عقیدہ رکھنے والے صوفیوں کا تعلق ہے تو ان کا تذکرہ ایک گروہ نے کیا ہے، جن میں ملا ہادی سبزواری بھی ہے جو اسفارِ اربعہ پر اپنے حاشیے میں لکھتا ہے:

«توحید کا عقیدہ رکھنے والا یا تو کثرتِ وجود و موجود کا اقرار کرنے کے ساتھ توحید کا اقرار کرتا ہے اور اس پر اجمالی ایمان رکھتا ہے۔ اکثر لوگ ایسے ہی ہیں۔ یا وہ وحدتِ وجود و موجود کا قائل ہے جو بعض صوفیوں کا نظریہ ہے۔ یا وہ وحدتِ وجود اور کثرتِ موجود کا قائل ہے اور اس کے برعکس کو باطل سمجھتا ہے، یہ یونانی الہیٰات دانوں کے ذوق سے منسوب ہے۔ یا وہ وجود و موجود کی وحدت در عینِ کثرت کا قائل ہے، یہ مصنف (سبزواری) اور بلند پایہ عرفاء کا عقیدہ ہے۔ پہلا نظریہ عوام کی توحید ہے۔ تیسرا توحیدِ خاصی ہے۔ دوسرا نظریہ خاص الخاص توحید ہے اور چوتھا نظریہ اخص الخواص کی توحید ہے۔»

میں کہتا ہوں: ان خاص عقیدۂ توحید رکھنے والوں پر حسنِ ظن کرنے اور اسے شریعت کے احکام سے ہم آہنگ ماننے کا لازمہ یہ ہے کہ ان کی باتوں کو ظاہری معنوں کے خلاف سمجھا جائے۔ ورنہ خالق و مخلوق اور آمر و مامور اور راحم و مرحوم کے وجود پر یقین رکھ کر ان باتوں کو کیسے درست کہا جا سکتا ہے؟ مجھے تو صرف اللہ ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے، میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔“

وحدت الوجود کے باطل لوازمات کی وضاحت کرتے ہوئے امام خمینی (متوفیٰ 1989ء) لکھتے ہیں کہ:

إن كانت مستلزمۃ لإنکار أحد الثلاثۃ (2)

ترجمہ: ”اگر وہ ان تین باتوں (الوہیت، توحید یا رسالت) میں سے کسی ایک کے بھی منکر ہو جائیں۔“

آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی حاشیے میں لکھتے ہیں:

(من المفاسد): الموجبة للكفر لا مطلقا. (3)

ترجمہ: ”مفاسد میں سے وہ جو موجبِ کفر ہوں، مطلقاً نہیں۔“

آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی ایسے لوگوں سے اجتناب کو ضروری قرار دیتے ہیں:

”جو لوگ وحدتِ وجود کا عقیدہ رکھتے ہیں، یعنی وہ کہتے ہیں کہ عالم ہستی میں ایک وجود کے سوا کچھ نہیں ہے اور وہ وجود خدا ہے۔ یا وہ کسی دوسرے موجود میں حلول کئے ہوئے ہے اور اسکے ساتھ متحد ہے۔ یا خدا کے لئے جسمانیت کے قائل ہیں۔ بنا بر احتیاط واجب ان سب سے اجتناب ضروری ہے۔“ (4)

حوالہ جات:
1. آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم، مستمسک العروۃ الوثقیٰ، الطبعۃ الثالثۃ، جلد 1، ص 391، دار إحياء التراث العربی، بیروت۔
2. امام خمینی، تعلیق بر عروۃ الوثقی، ص 37، باب نجاسات، موسسہ تنظيم و نشر آثار امام خمينى، تہران، 1422 ہجری قمری۔
3. آیۃ اللہ العظمیٰ سیستانی، تعليقۃ على العروۃ الوثقى، جلد 1، ص 61۔
4. آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی، توضیح المسائل، مسئلہ 121، مترجم: شیخ روشن علی نجفی۔

یہ بھی پڑھئے: وحدتِ عددی کی نفی اور توحید کی معرفت – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

یہ بھی پڑھئے: ملا صدرا اور پروکلس کے ہاں صادرِ اول کا تصور

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button