مراجع کی تحریریں اور بیانات

فتنۂ فلسفہ و فلاسفہ – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

148 ملاحظات

مامون عباسی (متوفیٰ 833ء) کے زمانے سے یونانیوں کا فلسفہ مسلمانوں میں پھیلنا شروع ہوا تو اسلام کی نصوص، بالخصوص اصولِ دین، فلسفیوں کی تاویلات کی زد پر آ گئے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی آراء کے مطابق نصوص کے معنی بدلے۔

شریعت کی نصوص کے ظاہری معانی سے آزاد ہو کر فلسفے، اور حتیٰ کہ ( یونانی ) طبیعیات، کی رو سے آزادانہ تشریحات کرنے کا رواج ہو گیا تو انہوں نے لوگوں کو نصوص کے حقیقی معنوں سے دور کر دیا۔ توحید و صفاتِ الہٰیہ اور حادث و قدیم اور خالق و مخلوق وغیرہ کے معنوں میں انہوں نے ان چیزوں کو داخل کیا جو ظواہر سے میل نہیں کھاتیں۔

چنانچہ انہوں نے اپنے مذہب کو ظن و گمان اور مفروضوں پر استوار کیا اور اس کی ایسی تشریح کی جو دین کے مالک اور مفسرینِ برحق ؑ کی منشاء کے خلاف تھی۔ انہوں نے اعلیٰ معارف کی تفسیر انبیاء ؑ کے راستے سے ہٹ کر کی۔ انکے اذہان آسمانی ہدایت کے نور سے روشن نہیں ہوئے تھے۔ پس وہ ذہنی طور پر بے لگام ہو گئے اور اپنی مرضی کی راہوں پر چل پڑے۔

وہ ایسی اصطلاحات لائے جو قرآن کی اصطلاحات سے موافق نہیں ہیں۔ وہ ایجاب، حلول، اتحاد اور وحدت الوجود جیسی اصطلاحوں میں پڑ گئے۔ انہوں نے حادث و قدیم کے تعلق کو مخلوق و خالق کے بجائے معلول و علت کے تعلق کی طرح قرار دیا، جبکہ ان میں واضح فرق ہے۔ کہاں خالق و مخلوق اور کہاں علت و معلول؟ دوسری اصطلاح سے وہ مفہوم نہیں نکلتا جو پہلی اصطلاح سے سمجھ میں آتا ہے، جو دوسری کا مطلب ہے وہ پہلی کا نہیں ہے۔ دونوں راستے ایک نہیں اور نہ ہی ایک مقصد تک پہنچاتے ہیں۔

علت پہلی، دوسری، ۔ ۔ہو سکتی ہے لیکن خالق پہلا، دوسرا اور تیسرا نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح معلول بھی پہلا، دوسرا، تیسرا ۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے لیکن مخلوق میں ایسا اول، دوم، سوم کا سلسلہ نہیں ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ بعض احادیث میں”اول ما خلق اللہ نوری“ آیا ہے، لیکن اس سے مراد وہ نہیں کہ جیسے پہلے معلول کو دوسرے کی علت، اور دوسرے کو تیسرے کی علت سمجھا جائے ویسے ہی پہلی مخلوق دوسری کی خالق ہو۔ سب مخلوقات، چاہے کچھ پہلے خلق ہوئی ہوں اور کچھ بعد میں، انکا خالق ایک ہی ہے اور سب کو اسی ایک سے خلقت کی نسبت ہے۔ یہ ایسا تعلق نہیں جیسے معلولِ ثانی جو کہ علتِ ثالثہ ہو وہ معلولِ اول و علتِ ثانیہ کا معلول ہو۔

فلسفیوں کی کتابیں، اور ان میں جو کچھ بظاہر آسمانی وحی سے مطابقت رکھنے والا مواد پایا جاتا ہے وہ بھی وحی کے ساتھ مکمل طور پر متفق نہیں، نہ وہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس میں خشک و تر، حق و باطل مخلوط ہے۔ بعض مقامات پر وہ انبیاء ؑ سے متفق ہیں اور بعض جگہوں پر انکا اختلاف ہے۔

خصوصاً ماضی قدیم کے (یونانی) لوگ، جو خدا تعالیٰ کے رسولوں کی لائی ہوئی ہدایت پر رسمی حد تک یقین رکھتے اور عمل کرتے تھے مگر ان کے اذہان اس رہنمائی سے خالی ہو چکے تھے اور انبیاء ؑ کی رہنمائی کے بغیر عقل گمراہ ہو جاتی ہے۔ جو (مسلم) فلاسفہ ان کے بعد آئے وہ ان کے راستے پر چلے اور ان کے نقشِ قدم کی پیروی کی۔

تاہم انہوں نے ان مفروضات کی کتاب وسنت سے تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی۔ گویا وہ اسلام کے معارف کو معنوی طور پر ان مفاہیم کے قریب لانا چاہتے تھے جنہیں ان کی عقل درست سمجھ رہی تھی۔ لہٰذا ان میں سے صرف چند ہی خطاؤں، لغزشوں اور پھسلنے سے محفوظ رہے۔

اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ معاصرین میں سے مشہور ترین متکلمین نے معادِ جسمانی کے مسئلہ پر معروف مذہبی فلسفیوں کی رائے کو سختی سے مسترد کیا، یہاں تک کہ ان کو گمراہی کا شکار قرار دیا کہ خدا ہمیں اس سے بچائے۔ حوالے کیلئے ملا محمد اسماعیل مازندرانی کا قرآن کی اس آیت ”وکان عرشہ علی الماء (سورہ ہود، آيت 7)“ کی تفسیر میں لکھا گیا رسالہ دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ اپنی جگہ ایک انحراف ہے کہ ان حضرات نے ان امور پر بحث کرنا اپنے اوپر لازم کر لیا کہ جن کے بارے میں بات کرنا نا صرف واجب نہیں ہے، بلکہ منع کیا گیا ہے۔ کیا وہ لوگ ہدایت یافتہ ہیں جو ارسطو، افلاطون، سقراط، رواقیوں اور مشائیوں، یعنی فارابی اور ابنِ سینا، کے عقائد کو اپنائے ہوئے ہیں یا وہ لوگ ہیں جو محمدؐ و آلِ محمد ؑکی تعلیمات کو اپنائے ہوئے ہیں اور انکی سیرت پر چلتے ہیں؟

ہم کسی شخص کو پہلے یا دوسرے گروہ کا حصہ قرار نہیں دے رہے اور امید کرتے ہیں کہ مسلمان فلسفی دوسرے گروہ میں شمار ہوں۔ ان کی آخرت کا معاملہ اللہ تعالیٰ پر ہی چھوڑنا چاہیے۔ (1)

حوالہ:

1۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”لمحاتٌ فی الکتاب والحدیث والمذہب“، جلد 3، صفحات 388 تا 390، قم، 1391ش۔

 

اسے بھی پڑھئے: فتنۂ عرفاء و متصوفہ – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button