مراجع کی تحریریں اور بیانات

عرفانی فلسفے کی بنیادیں کھوکھلی ہیں – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد اسحاق فیاض

195 ملاحظات

ڈاؤن لوڈ کریں

رہی فلسفے کی بات، تو جو عرفانی فلسفہ ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ انکے ہاں رائج عرفان کشفِ حقائق کا نام ہے۔ وہ اسے واقعیت سے پردہ اٹھانے اور علمِ غیب کے معنوں میں لیتے ہیں، اور ان چیزوں کا دعویٰ کرنے والے لوگ درحقیقت قرآن کی تکذیب کرتے ہیں۔

اللہ تعالٰی نے اپنی کتاب میں نص بیان کی ہے کہ علمِ غیب کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا سوائے ان رسولوں کے جن سے اللہ راضی ہو ( سورہ جن، آیت 26 ، 27 )۔ پس جو عارف علمِ غیب کا دعویٰ کرے وہ کاذب ہے۔ اس نے کتابِ خدا کی تکذیب کی ہے۔

البتہ عمومی فلسفہ جو نظری مباحث سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی دو شاخیں ہیں: طبیعیات اور الہٰیات!
جہاں تک اس فلسفے کی طبیعیات (فزکس) کا تعلق ہے تو وہ ساقط ہو چکی ہے اور اس کی ہوا اکھڑ چکی ہے۔ اب سائنس کا علم بالکل بدل کر اپنی بلندی کو چھو رہا ہے۔ دوسری طرف ملا صدرا کے فلسفے کی فزکس صرف اوہام اور تخیلات کا مجموعہ ہے اور اسکی کوئی علمی وقعت نہیں۔

جہاں تک الہٰیات کا معاملہ ہے تو اسکی دو قسمیں ہیں۔ ایک خاص الٰہیات اور ایک عمومی مباحث، عمومی مباحث میں وجود، جوہر و عرض کی بحث ہے۔ واضح ہے کہ اصولِ فقہ کے درس میں یہ مباحث زیادہ گہرائی میں بیان ہوتی ہیں۔ اگرچہ کوئی ایک باب نہیں۔ مگر ملا صدرا کے فلسفے میں جواہر و اعراض کی مباحث قدیم یونانیوں کے فرسودہ خیالات پر باقی ہیں۔ ان میں کوئی ارتقاء نہیں ہوا ہے۔

رہی خالص خدا شناسی کی بات، تو اس میں فلسفی ایسی مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں کہ نکلنا ممکن نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ اللہ تعالٰی کو اشیاء کی علتِ تامہ سمجھتے ہیں۔ پس وہ ایسے الجھے ہیں کہ اس سے نکل نہیں پاتے۔

قدیم اور حادث میں علت اور معلول والا تعلق کیسے ہو؟ معلول کو علت سے سنخیت ہونی چاہئے۔ معلول کا علت سے بالکل مختلف ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ کسی چیز سے ایسی چیز پیدا نہیں ہو سکتی جو بالکل مختلف ہو۔ اگر خدا کو اشیاء کی علتِ تامہ سمجھا جائے تو اس میں اور اشیاء میں کوئی ذاتی تعلق ڈھونڈنا ہو گا۔

معلول اپنی علت کے ہونے کا ہی ایک درجہ ہوتا ہے۔ گویا معلول علت سے تولد پاتا ہے، اجنبی نہیں ہوتا۔ پس کیسے ممکن ہے کہ علت قدیم ہو مگر معلول حادث ہو۔ لہٰذا خدا کو علت قرار دینے سے وہ خیالی دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔ طولی اور عرضی عقولِ عشرہ کا عقیدہ یا وجودِ منبسط، یا وحدتِ وجود و موجود کا فرضی عقیدہ بنا لیتے ہیں۔

یہ سب فضول اوہام کے سوا کچھ نہیں! یہ ایسے تخیلات ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ اللہ تعالٰی سے عقلِ اول صادر (پیدا) ہوا، پھر دوسری عقل پیدا ہوئی، وغیرہ، یہ محض خیالی پلاؤ ہے۔ لہٰذا ان کے ہاں الٰہیات کی مخصوص مباحث صرف خیال بافی اور اوہام پرستی پر مشتمل ہیں۔

ان افسانوں سے کوئی دقیق معنی حاصل نہیں ہوتا لہٰذا آدمی کے منحرف ہونے کا بہت امکان ہے۔ مثلاً جبر و تفویض کے مسائل میں یہ حضرات اپنی الجھی ہوئی ڈور کو سلجھا نہیں سکتے۔

اس پہ طرّہ یہ کہ الہٰیات کی مخصوص ابحاث کا تعلق اصولِ دین سے ہے۔ جو دین کی قطعی تعلیمات ہیں۔ ان میں کسی اجتہاد کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

اجتہادی معاملات میں تو صغریٰ اور کبریٰ کی تطبیق سے کوئی نتیجہ نکالنے میں ہرج نہیں ہوتا۔ لیکن جب معاملہ ضروریاتِ دین اور قطعی باتوں کا ہو تو اجتہادی طریقہ اپنانے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

شرعی احکام میں بھی جو قطعی باتیں ہوں ان میں اجتہاد نہیں چلتا۔ ایسے احکام میں مقلد اور مجتہد کا کوئی فرق نہیں۔ یہاں ہماری گفتگو کا اختتام ہوتا ہے۔

اللہ عَزَّ وَ جَل سب کو صحت و عافیت، لمبی زندگی اور انسانیت کی خدمت کی توفیق عطا کرے۔

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button