فتنۂ عرفاء و متصوفہ – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی
جن لوگوں نے اپنی بنیاد نصوص کی تاویل پر رکھی اور اپنی پسند اور تخیل کے مطابق ان کو پھیر دیا، ان میں سے عرفاء اور صوفیوں کے فرقے سے پہنچنے والا نقصان سب سے زیادہ اور انکی تاویلیں سب سے بری ہیں۔
وہ اصولِ دین اور فروعات کو کھیل بنا لیتے ہیں۔ ان کو اپنی فاسد آراء سے تطبیق دیتے ہیں اور اپنے برے اعمال کی توجیہ کرتے ہیں۔ انکے اقوال پوچ اور انکے نظریات باطل ہیں۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر لیتے ہیں۔ صریح نصوص کے خلاف سیر و سلوک اور بیعت کے سلسلوں میں مگن ہو جاتے ہیں۔ انکی تاویلات مکڑی کے جالے سے زیادہ ناپائیدار ہیں۔ ان کی گمراہی کی وجہ فضول توہمات میں مگن ہونا اور قرآن و اہلبیت ؑ سے دوری ہے۔
ان گروہوں میں سب سے زیادہ تباہ کن وہ ہے جس نے فرسودہ یونانی فلسفے اور تصوف کا ملغوبہ تیار کر لیا ہے، گویا کریلا اور وہ بھی نیم چڑھا!
اگر کوئی جاننا چاہے کہ صوفیوں کا اور انکے پیروکاروں کا راستہ کیا ہے تو وہ ملا عبدالرزاق کاشانی کی تفسیر کو دیکھے کہ اس میں اس قسم کی تاویلات بہت مل جائیں گی۔
مثال کے طور پر آیت کریمہ ”وانظر الی حمارک (سورہ بقرہ، آیت 259)“ کی تفسیر میں ”حمار“ سے مراد حضرت عزیر ؑ کو لیا ہے، ”صفا و مروہ“ کو قلب اور نفس قرار دیا ہے، ملاحظہ ہو جلد 1 کا صفحہ 100 اور 147۔ جہاں تک سورہ کہف کی آیت 82 میں دو یتیم بچوں کا ذکر ہے تو انہیں عقلِ نظری اور عقلِ عملی قرار دیا ہے۔ سورہ نساء کی پہلی آیت میں ”نفس واحدہ“ کی تفسیر نفسِ ناطقہ اور ”زوجہا“ کی تفسیر نفسِ حیوانی کر دی ہے۔
ان کی باتوں میں لغو تاویلیں بہت ملتی ہیں، جنہیں ابنِ عربی کی فصوص الحکم وغیرہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ (1)
حوالہ:
1۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”لمحاتٌ فی الکتاب والحدیث والمذہب“، جلد 3، صفحات 391 تا 392، قم، 1391ش۔