مراجع کی تحریریں اور بیانات

فلاسفہ کا رد – سید العلماء آیۃ اللہ سید حسین علیین مکان

272 ملاحظات

پانچواں باطل فرقہ فلاسفہ ہیں۔ ان میں سے اکثر غیر اللہ کو قدیم اور ازلی ہونے کے وصف میں اللہ تعالٰی کا شریک سمجھتے ہیں۔ واضح رہے کہ فرقۂ امامیہ کا اتفاق ہے کہ عالمِ دنیا حادث ہے اور قدیم ہونا خداوندِ عالم کا خاصہ ہے۔ اور وہ ذاتِ پاک اس وصف میں یکتا ہے۔

لیکن فلاسفہ کا گمانِ باطل یہ ہے کہ عقولِ عشرہ، افلاک، نفوسِ فلکیہ، کواکب، افلاک کے حرکات، ستارے، زمانہ، بلکہ اربعہ عناصر، ارکانِ ہیولیٰ اور مادہ، یہ سب چیزیں قدیم ہیں۔ حالانکہ یہ کفر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی کے علاوہ ہر شے حادث ہے۔

اس لئے کہ ازل سے اللہ تعالٰی کی ذاتِ پاک تو موجود ہے۔ لیکن سب سے پہلے وہی ذاتِ پاک موجود تھی، اس کے ساتھ دیگر کوئی شے موجود نہیں تھی۔ پھر اسی پاک پروردگار نے ہر شئ کو پیدا کیا۔ لہٰذا اسکی ذاتِ پاک کے علاوہ ہر شے مصنوع، پیدا شدہ اور حادث ہے۔ جیسے کہ تمام اجسام اور جسمانیات کے متعلق عقل دال ہے۔ اور تمام کائنات کے متعلق نقل، یعنی قرآن و حدیث، شاہد ہے۔

اور جو لوگ فلاسفہ کے متعلق حسنِ ظن رکھتے ہیں، وہ اصولِ دینیہ کو اصولِ فلسفہ کے ساتھ منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا نصوصِ قرآنیہ اور احادیثِ معصومیہ میں جس حدوث پر دلالت قائم ہوتی ہے اس کی وہ تاویل کر کے اس کا نام حدوثِ ذاتی رکھ دیتے ہیں۔ اور حدوثِ ذاتی سےمراد عقلی اعتبار سے معلول کا علت سے متأخر ہونا لیتے ہیں۔ اگرچہ کہ علت و معلول دونوں ازلی اور قدیم ہی کیوں نہ ہوں۔

حالانکہ یہ تاویلِ علیل اکثر نصوص میں جاری نہیں ہو سکتی۔ باوجود اس کے کہ اس تاویل کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔

نیز انہوں نے عالمِ دنیا کے قدیم ہونے پر کوئی صحیح دلیل قائم نہیں کی۔ محض اس توہم کی وجہ سے اللہ تعالٰی کی قدرت اور اختیار سے انکار کر کے وہ عالم کے قدیم ہونے کے قائل ہو گئے ہیں کہ اللہ تعالٰی فاعلِ موجب ہے۔ اور انہوں نے ادلۂ نقلیہ اور دلائل دینیہ ضروریہ کو بلاوجہ نظر انداز کر دیا ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے:

إِنَّ رَبَّكُمُ اللَّهُ الَّذِى خَلَقَ السَمَـوَاتِ وَالأرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ. (سورۃ الاعراف، آیت 54؛ سورۃ یونس، آیت 3)

یعنی تمہارا رب وہ اللہ جل شانُہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا۔ نیز فرمایا:

اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ. (سورۃ السجدہ، آیت 4)

کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جس نے زمین و آسمان، اور ان کے بیچ جو کچھ ہے، کو چھ دن میں پیدا کیا۔

امام صادق علیہ السلام کا قول ہے کہ وہ ہر شئ سے پہلے ہے۔ امام محمد تقی جواد علیہ السلام کی ایک طولانی حدیث میں آیا ہے کہ:

معاذ الله أن يكون معه شئ غيره، بل كان الله ولا خلق. (شیخ صدوق، ”التوحید“، صفحہ 193)

یعنی اس سوچ سے خدا کی پناہ کہ اللہ تعالٰی کے ساتھ ازل سے کوئی دوسری چیز موجود تھی۔ بلکہ ازل سے صرف اللہ تعالٰی کی ذات ہی موجود تھی اور کوئی خلق نہ تھی۔

کتاب مہج الدعوات میں جناب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی جو دعا منقول ہے، اس میں یہ الفاظ موجود ہیں:

وَأَنْتَ اللہُ لاَ إلہَ إلاَّ أَنْتَ کُنْتَ إذْ لَمْ تَکُنْ سَماءٌ مَبْنِیَّۃٌ، وَلاَ أَرْضٌ مَدْحِیَّۃٌ، وَلاَ شَمْسٌ مُضِیئَۃٌ، وَلاَ لَیْلٌ مُظْلِمٌ، وَلاَ نَھَارٌ مُضِیئٌ، وَلاَ بَحْرٌ لُجِّیٌّ، وَلاَ جَبَلٌ راسٍ، وَلاَ نَجْمٌ سارٍ، وَلاَ قَمَرٌ مُنِیرٌ، وَلاَ رِیحٌ تَھُبُّ، وَلاَ سَحَابٌ یَسْکُبُ، وَلاَ بَرْقٌ یَلْمَعُ، وَلاَ رَعْدٌ یُسَبِّحُ، وَلاَ رُوحٌ تَنَفَّسُ، وَلاَ طَائِرٌ یَطِیرُ، وَلاَ نَارٌ تَتَوَقَّدُ، وَلاَ ماءٌ یَطَّرِدُ، کُنْتَ قَبْلَ کُلِّ شَیْئٍ وَکَوَّنْتَ کُلَّ شَیْئٍ‌.

ترجمہ: ”اور تو ہی اللہ ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ تو موجود تھا جب آسمان بلند نہیں کیا گیا تھا اور نہ زمین بچھائی گئی تھی۔ اور نہ سورج چمکایا گیا تھا نہ تاریک رات اور نہ روشن دن پیدا ہوا تھا۔ نہ سمندر موجزن تھا، نہ کوئی اونچا پہاڑ تھا، نہ چلتا ہوا ستارہ تھا اور نہ چمکتا ہواچاند اور نہ چلتی ہوئی ہوا تھی۔ نہ ہی برسنے والا بادل تھا، نہ چمکنے والی بجلی اور نہ کڑکنے والے بادل، نہ سانس لینے والی روح اور نہ اڑنے والا پرندہ تھا۔ نہ جلتی ہوئی آگ اور نہ بہتا ہوا پانی، پس توہر چیز سے پہلے تھا اور تو نے ہر چیز کو بنایا۔“ (مفاتیح الجنان، دعائے یستشیر، ترجمہ: مولانا شیخ محمد علی فاضل)

جناب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے اپنے ایک طولانی خطبے میں ارشاد فرمایا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الْمَعْرُوْفِ مِنْ غَیْرِ رُؤْیَةٍ، وَ الْخَالِقِ مِنْ غَیْرِ رَوِیَّةٍ، الَّذِیْ لَمْ یَزَلْ قَآئِمًا دَآئِمًا، اِذْ لَا سَمَآءٌ ذَاتُ اَبْرَاجٍ، وَ لَا حُجُبٌ ذَاتُ اِرْتَاجٍ، وَ لَا لَیْلٌ دَاجٍ، وَ لَا بَحْرٌ سَاجٍ، وَ لَا جَبَلٌ ذُوْ فِجَاجٍ، وَ لَا فَجٌّ ذُو اعْوِجَاجٍ، وَ لَاۤ اَرْضٌ ذَاتُ مِهَادٍ، وَ لَا خَلْقٌ ذُوا اعْتِمَادٍ: ذٰلِكَ مُبْتَدِعُ الْخَلْقِ وَ وَارِثُهٗ، وَ اِلٰهُ الْخَلْقِ وَ رَازِقُهٗ.

ترجمہ: ”تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے جو نظر آئے بغیر جانا پہچانا ہوا ہے اور سوچ بچار میں پڑے بغیر پیدا کرنے والا ہے۔ وہ اس وقت بھی دائم و برقرار تھا جب کہ نہ برجوں والا آسمان تھا، نہ بلند دروازوں والے حجاب تھے، نہ اندھیری راتیں، نہ ٹھہرا ہوا سمندر، نہ لمبے چوڑے راستوں والے پہاڑ، نہ آڑی ترچھی پہاڑی راہیں اور نہ یہ بچھے ہوئے فرشوں والی زمین، نہ کس بل رکھنے والی مخلوق تھی۔ وہی مخلوقات کو پیدا کرنے والا اور اس کا وارث ہے اور کائنات کا معبود اور ان کا رازق ہے۔“ (نہج البلاغہ، خطبہ 88، ترجمہ: مفتی جعفر حسین)

یہ سب نصوص صراحتاً دلالت کرتے ہیں کہ عالمِ دنیا، خارج میں موجود ہونے سے پہلے معدوم تھا۔ اور جو چیز مسبوق بالعدم ہو وہ قدیم نہیں، حادث ہوتی ہے۔

اور حدوثِ ذاتی اس پر اصطلاحاً منطبق نہیں ہو سکتا اور صادق نہیں آ سکتا۔ کیونکہ حدوثِ ذاتی معلول کے اپنی علت سے ذہن میں متأخر ہونے کا نام ہے۔ خارج میں یہ علت اور معلول دونوں مقارن ہوتے ہیں۔ خارج میں حادث بحدوثِ ذاتی اپنی علت سے منفک نہیں ہو سکتا۔

اور جب عالمِ دنیا، ذاتِ باری سے با ایں معنی منفک اور جدا ہو گیا کہ کبھی عالمِ دنیا موجود نہ تھا، مگر خداوندِ عالم ازل سے موجود ہے، تو پھر معلوم ہوا کہ عالمِ دنیا، حدوثِ ذاتی کے اعتبار سے حادث نہیں، بلکہ وہ مسبوق بالعدم ہونے کے معنی میں حادث ہے۔

بعض ایسے فلاسفہ نے، کہ جو بہ تکلف فلسفی کہلانا چاہتے ہیں، حدوثِ عالم پہ یہ استحالہ وارد کیا ہے کہ اللہ تعالٰی فیاضِ مطلق ہے اور مبدأ فیض ہے۔ جس سے اس کے فیض کا منقطع ہو جانا محال ہے۔ اور اگر عالمِ دنیا کو حادث فرض کیا جائے تو لازم آتا ہے کہ مبدأ فیض کا فیضان منقطع ہو جائے، جو کہ باطل ہے۔ لہٰذا عالمِ دنیا حادث نہیں، قدیم ہے۔

مؤلف یہ کہتا ہے کہ انقطاعِ فیض کو محال سمجھنا ایسا توہم ہے جو عقل سے دور ہے۔ کیونکہ اللہ تعالٰی جل شانُہ کا فیض حکمت اور مصلحت پر اور جس چیز پر فیضان ہوتا ہے اس کے امکان پر مبنی ہے۔ لہٰذا عالمِ دنیا کی ازلیت کے ناممکن ہونے کی تقدیر پر انقطاعِ فیض سے کوئی نقص لازم نہیں آتا۔ اسی طرح عدمِ تحققِ مصلحت کی صورت میں بھی فیضان کا انقطاع کسی نقص کا باعث نہیں ہو سکتا۔

حالانکہ فلاسفہ خود بہت سی صورتوں میں انقطاعِ فیض کے قائل ہیں۔ کیونکہ وہ قائل ہیں کہ اللہ تعالٰی سے صرف ایک چیز، عقلِ اول، کے علاوہ کوئی چیز صادر نہیں ہو سکتی۔ (ملاصدرا، اسفار اربعہ، ج 2، ص 204، بیروت)

لہٰذا بنا بر مذہبِ فلاسفہ، جب خدا نے عقلِ اول کو پیدا کر دیا تو اب اس کا فیض منقطع ہو گیا۔ کیونکہ اب وہ عقلِ اول کے واسطے کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ نیز اس عالمِ دنیا کے علاوہ کوئی اور عالم پیدا کرنا خدا کیلئے ممکن نہیں۔

لہٰذا فلاسفہ اللہ کے بلاواسطہ فیض کو عقلِ اول میں اور عقلِ اول کے واسطہ سے اس فیض کو اسی ایک عالمِ جسمانی میں منحصر قرار دیتے ہیں۔ نیز وہ قائل ہیں کہ فلک الافلاک کے پیچھے نہ خلا ہے نہ ملا، حالانکہ ان کا یہ نظریہ ارتفاعِ تقیضین کا حکم رکھتا ہے۔

لہٰذا وہ عقولِ عشرہ اور افلاک کے علاوہ فیضِ الہی کو منقطع، بلکہ ممتنع، سمجھتے ہیں۔ اور اس قسم کے انقطاع و امتناع کو وہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تو پھر ازل میں فیض کے منقطع ہو جانے کو کیوں بعید قرار دیتے اور اس سے کیوں انکار کرتے ہیں؟

مختصر یہ کہ فلاسفہ کے متعلق بلاوجہ حسنِ ظن قائم کر کے عالمِ دنیا کے حادث ہونے اور اللہ جل شانُہ کے فاعلِ مختار ہونے کے دلائل سے دست برداری اختیار نہیں کی جا سکتی۔

علامہ مجلسی علیہ الرحمہ اپنے رسالۂ اعتقادیہ میں فرماتے ہیں:

”ہمارے اکثر اہلِ زمانہ اپنے ناقص عقول پر اعتماد کر کے اہلبیت علیہم السلام کے ارشادات اوراحادیث سے دست کش ہو گئے ہیں۔ ان میں سے ایک گروہ حکماء، یعنی فلاسفہ، کا گرویدہ ہو گیا ہے۔ حالانکہ فلاسفہ خود ضال و مضل ہیں۔ وہ نہ کسی نبی ؑ کی نبوت کا اقرار کرتے تھے نہ آسمانی کتب پر ایمان رکھتے تھے۔

اس گروہ نے اپنے عقولِ ناقصہ پر بھروسہ کر لیا ہے اور فلاسفہ کو اپنا پیشواء بنا لیا ہے۔ لہٰذا وہ صحیح اور صریح احادیث کی بھی تاویلیں کرتے ہیں۔ وجہ اس کی یہی ہے کہ وہ فلاسفہ کے شبہات کو قوی دلائل شمار کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کو یونانی کافروں کے متعلق حسنِ ظن قائم ہو گیا ہے۔

حالانکہ وہ صحیح اعتقاد اور درست دین و مذہب ہرگز نہیں رکھتے۔ اور پھر ان کے باہمی اختلاف ہی کو دیکھو تو کوئی مشائی ہے اور کوئی اشراقی، اور بہت کم ایسا ہو گا کہ ایک کا قول دوسرے سے موافقت رکھتا ہو۔“

حضرت علامہ حلّی علیہ الرحمہ نے ”نہایۃ المرام فی علم الکلام“ میں حکماء کے پراکندہ اقوال اور مختلف کلمات بکثرت نقل کئے ہیں۔ چنانچہ اس کتاب کی وہ عبارت کتاب مستطاب ”عماد الاسلام“ (مؤلفہ غفران مآب، متوفیٰ 1820ء) میں پوری کی پوری منقول ہے۔ اور ان کا عقل اور نقل، ہر دو کے خلاف ہونا واضح ہے۔ لہٰذا جسے دیکھنا ہو وہ عماد الاسلام سے رجوع کرے۔

افاضل مدققین کی ایک جماعت کہ جو بیماریِ تصوف میں مبتلا ہو گئی ہے، ان کی گمراہی اور ضلالت کا سب سے بڑا سبب اصولِ فلاسفہ میں مستغرق ہو جانا اور حکمائے اشراقیین و مشائین کے کلمات و اقوال کے ساتھ انس اور الفت حاصل کر لینا ہے۔ جو کہ ایک ناقدِ بصیر اور باخبر حقیقت جو پر مخفی اور مستور نہیں ہے۔

یہاں تک کہ انہوں نے کہہ دیا کہ تصوف اور حکمتِ اشراقیہ کے درمیان سوائے اس کے کوئی امتیاز اور اختلاف نہیں کہ صوفی وہ ہوتا ہے جو ظاہراً شریعت کے تابع ہو، اور اگر وہ اتباعِ شریعت نہ کرے تو وہ حکیمِ اشراقی ہوتا ہے۔

علمائے شیعہ اور اہلِ سنت میں سے بعض اصولِ دین کو اصولِ فلسفہ سے تطبیق دینے کے خواہاں رہتے ہیں۔ اور لوگوں کو صراطِ مستقیم سے منحرف کرتے رہتے ہیں۔ اہلِ سنت کے فرقۂ اشاعرہ کو تعددِ قدماء کے قائل ہونے میں حکماء اور نصارٰی کے اس فرقہ کی اقتداء اور اتباع حاصل ہے جو تین خداؤں کے قائل ہیں۔

حضرت علامہ حلّی علیہ الرحمہ نے اہلِ سنت کے امام فخر الدین رازی کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ نصارٰی اس وجہ سے کافر قراردیئے گئے کہ وہ تین قدماء کے قائل ہیں اور ہمارے علمائے اہلِ سنت نو قدماء کو ثابت کرتے ہیں: ایک ذاتِ خدا اور آٹھ اس کی صفتیں، جن کو وہ ذاتِ خداوند عالم پر زائد خیال کرتے ہیں۔

یہ ہے ان کی حالت کہ سفینۂ نجات اہلِ بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع سے انحراف کرنے اور اہلِ کفر اور صاحبانِ بدعت کی اتباع کرنے کے باعث گمراہی اور ضلالت میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

 

مآخذ: علامہ سید گلاب علی شاہ نقوی، ”خزینۂ ایمانیہ“، ترجمہ: حدیقۂ سلطانیہ، مؤلفہ سید العلماء سید حسین نقوی لکھنؤی (متوفیٰ 1856ء) ابنِ غفران مآب، طبع اول، صفحات 191 – 203، مکتبہ کاظمیہ، شیعہ میانی، ملتان۔

 

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button