مراجع کی تحریریں اور بیانات

عرفانِ نظری اور تفسیر بالرائے – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی

451 ملاحظات

عرفانِ نظری کے راستے پر چلنے والوں کے ایک گروہ کو قرآن کی تعلیمات اور معصومین ؑ کے فرامین سے دوری اور عقل سے بیگانگی کی وجہ سے جو نقصانات اٹھانا پڑے ہیں، ان میں سے ایک تفسیر بالرائے کا شکار ہونا ہے۔ یعنی قرآنی نصوص اور احادیث کی اپنی رائے کے مطابق تفسیر کرنا، انکو اپنے اندرونی میلانات سے تطبیق دینا اور خدا اور معصومین ؑ کی باتوں کی اطاعت کرنے کے بجائے، ان نصوص کو اپنے نادرست فکری اصولوں کا پابند بنانا!

احادیث میں تفسیر بالرائے کی مذمت

احادیث میں آیات اور روایات کی اپنی خواہشات کے مطابق تشریح اور موافقت کے بارے میں سخت تنبیہ کی گئی ہے، جیسا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مروی ایک حدیث میں پڑھتے ہیں: «مَنْ فَسَّرَ الْقُرْآنَ بِرَأْیِهِ فَقَدِ افْتَرى عَلَى اللَّهِ الْکَذِبَ»، ”جس نے قرآن کی اپنی ذاتی رائے سے تفسیر کی تو گویا اس نے خدا پر جھوٹ باندھا۔“ [1]

ایک اور روایت میں امام جعفر صادق ؑ سے نقل ہوا ہے کہ: «وَمَنْ فَسَّرَ بِرَأْیِهِ آیَهً مِنْ کِتَابِ اللَّهِ فَقَدْ کَفَرَ»، ”جس نے کسی آیتِ قرآنی کی تفسیر اپنی ذاتی رائے سے کی تو اس نے کفر کیا۔“ [2]

نیز امام صادق ؑ کی ایک اور حدیث میں ہے: «مَنْ فَسَّرَ الْقُرآنَ بِرَأْیِهِ، اِنْ أَصَابَ لَمْ یُوجَرْ، وَاِنْ أَخْطَأَ خَرَّ (سَقَطَ) أَبْعَدَ مِنَ السَّمَاءِ»، ”جس نے قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کی تو اگر وہ تفسیر درست ہوئی تب بھی اسے کوئی اجر نہیں ملے گا اور اگر اس سے غلطی ہو جائے تو وہ گویا آسمان سے گر کر زمین پر آ جائے گا۔“ [3]

نہج البلاغہ میں امیرالمؤمنین علی ؑ فرماتے ہیں: ”دوسری قسم کا فرد وہ ہے جس نے (زبردستی) اپنا نام عالم رکھ لیا ہے، حالانکہ وہ عالم نہیں۔ اس نے جاہلوں اور گمراہوں سے جہالتوں اور گمراہیوں کو بٹور لیا ہے اور لوگوں کیلئے مکر و فریب کے پھندے اور غلط سلط باتوں کے جال بچھا رکھے ہیں۔ قرآن کو اپنی رائے پر اور حق کو اپنی خواہشوں پر ڈھالتا ہے۔ بڑے سے بڑے جرموں کا خوف لوگوں کے دلوں سے نکال دیتا ہے اور کبیرہ گناہوں کی اہمیت کو کم کرتا ہے۔

کہتا تو یہ ہے کہ: میں شبہات میں توقف کرتا ہوں، حالانکہ انہی میں پڑا ہوا ہے۔ اس کا قول یہ ہے کہ: میں بدعتوں سے الگ تھلگ رہتا ہوں، حالانکہ انہی میں اس کا اٹھنا بیٹھنا ہے۔ صورت تو اس کی انسانوں کی سی ہے اور دل حیوانوں کا سا۔ نہ اسے ہدایت کا دروازہ معلوم ہے کہ وہاں تک آ سکے اور نہ گمراہی کا دروازہ پہچانتا ہے کہ اس سے اپنا رخ موڑ سکے۔ یہ تو زندوں میں (چلتی پھرتی ہوئی) لاش ہے۔

اب تم کہاں جا رہے ہو؟ اور تمہیں کدھر موڑا جا رہا ہے؟ حالانکہ ہدایت کے جھنڈے بلند، نشانات ظاہر و روشن اور حق کے مینار نصب ہیں۔ اور تمہیں کہاں بہکایا جا رہا ہے اور کیوں ادھر ادھر بھٹک رہے ہو؟ جبکہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عترتؑ تمہارے اندر موجود ہے جو حق کی باگیں، دین کے پرچم اور سچائی کی زبانیں ہیں۔ جو قرآن کی بہتر سے بہتر منزل سمجھ سکو وہیں انہیں بھی جگہ دو اور پیاسے اونٹوں کی طرح ان کے سر چشمۂ ہدایت پر اترو۔“ [4]

یہ موضوع صرف شیعہ منابع اور اہل بیت ؑ کی روایات سے مخصوص نہیں ہے۔ اہلسنت کی صحاح ستہ میں بھی تفسیر بالرائے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ سننِ ترمذی میں تفسیر بالرائے کے عنوان سے ایک باب ہے جس میں متعدد احادیث بیان نقل ہوئی ہیں۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے نقل کیا گیا ہے کہ: «من قال فى القرآن بغیر علم فلیتبوّأ مقعده من النار»، ”جس نے قرآن کے بارے علم کے بغیر کوئی بات کہی، اس نے جہنم میں اپنی جگہ بنا لی۔“ [5]

ابنِ عربی اور آیاتِ قرآن کی عجیب و غریب تفسیریں

محیی الدین ابنِ عربی فتوحات مکیہ کی پہلی جلد میں سورہ بقرہ کی آیات 6 اور 7، «اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا سَواءٌ عَلَیْهِمْ أَ أَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لا یُؤْمِنُونَ ○ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ وَعَلى أَبْصارِهِمْ غِشاوَه وَلَهُمْ عَذابٌ عَظِیمٌ»، کی تفسیر میں کہتا ہے:

”اے محمدؐ! کافروں نے اپنی محبت مجھ سے مخصوص کر رکھی ہے، اس لیے ان کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ ان کو ان عذابوں سے ڈرائیں جن کی وعید سنانے کا میں نے آپ کو حکم دیا ہے یا نہ ڈرائیں، وہ آپکی باتوں پر یقین نہیں کرتے کیونکہ وہ میرے علاوہ کسی کو درک نہیں کرتے۔

آپ ان کو میری مخلوقات سے ڈراتے ہیں حالانکہ وہ میری مخلوقات کو نہ درک کرتے ہیں اور نہ انکا مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ آپ پر کیسے یقین کریں گے جب کہ میں نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کے دلوں میں میرے غیر کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے؟ میں نے ان کے کانوں پر بھی مہر لگا دی ہے اور اسی وجہ سے وہ دنیا میں میرے سوا کسی کا کلام نہیں سنتے اور ان کی آنکھوں پر میں نے اپنے نور کا پردہ ڈالا ہے کہ جب وہ دیکھیں تو میرے سوا کچھ نہ دیکھیں۔

ان کے لیے میرے نزدیک بہت بڑا عذاب ہے۔ میں ان کو اس نورانی مشاہدے کے بعد آپ کے انذار کی طرف واپس لاؤں گا اور اپنے آپ کو ان سے چھپا لوں گا۔ جس طرح میں نے آپ کو قاب قوسین او ادنیٰ کے مقام سے گرا کر ان لوگوں میں لا چھوڑا ہے جو آپ کا انکار کرتے ہیں۔ اور جو کچھ آپ میری طرف سے ان کے پاس لے کر گئے ہیں اس کو آپ کے منہ پر رد کرتے ہیں۔ میری وجہ سے آپ کو ایسے الفاظ سننے کو ملتے ہیں جن سے آپ کا سینہ تنگ ہو جاتا ہے۔“ [6]

متذکرہ عبارتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ تفسیر بالرائے کتاب و سنت کے معانی کی تفہیم میں کتنی بڑی گمراہی کا سبب بن سکتی ہے۔ یہاں تک کہ انتہائی منحرف کفار کو، جنہیں قرآن نے دوسری جگہ چوپایوں سے بھی کم تر قرار دیا ہے، [7] مومن ترین اور مقرب ترین بندے بنا دیا جاتا ہے۔ ایسا مفسر کفر کو ایمان میں، ظلمت کو نور میں اور بدترین کو بہترین میں بدل دیتا ہے۔

ابنِ عربی کے نزدیک عذاب کا مفہوم

ابنِ عربی اپنی کتاب فصوص الحکم کی فص اسماعیلیہ میں یوں رقم طراز ہے: ”اللہ تعالیٰ نے قرآن میں حضرت اسماعیل کی مدح میں انکو صادق الوعید (ڈرانے میں سچا) کہنے کے بجائے صادق الوعد (وعدوں کا سچا) کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود بھی ایسا ہی ہے کیونکہ اس نے فرمایا ہے: «وَنَتَجاوَزُ عَنْ سَیِّئَاتِهِمْ»، ”ان کے گناہوں سے صرفِ نظر کروں گا۔“ [8] اس حقیقت کے باوجود کہ اس نے گنہگاروں کو عذاب کی وعید دی ہے۔“ آگے چل کر ابنِ عربی کچھ اشعار لکھتا ہے جن میں سے ایک یہ ہے:

یسمى عذاباً من عُذوبه طَعمه
وذلک له کالقشر والقشر صائن [9]

ترجمہ: ”عذاب کو ذائقے کی مٹھاس کی وجہ سے (ماده عَذب سے) عذاب کہا جاتا ہے۔ یہ اس راز کا چھلکا ہے، اور چھلکا تو پھل کی حفاظت کیلئے ہوتا ہے۔“

فصوص الحکم کے مشہور شارح قیصری نے محیی الدین کی اس بات کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے:

”گناہ گاروں کے لئے خدا کی نعمتیں اپنی مٹھاس اور لذت کی وجہ سے عذاب کہلاتی ہیں، کیونکہ عذاب کا لفظ اصل میں ’عذب‘ سے ہے اور یہ اپنے حقیقی معنی کو (جو کہ مٹھاس اور لذت ہے) ان لوگوں سے چھپا لیتا ہے جو پردے میں ہیں اور اشیاء کی حقیقت سے غافل ہیں۔ یا اس سے مراد اہلِ جہنم کی نعمتیں ہیں جو اہلِ جنت کی نعمتوں کی نسبت چھکلے کی مانند ہیں۔ کیونکہ جنت غموں میں گھری ہوئی ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بھوسا جانوروں کی نعمت ہے اور گندم انسان کی نعمت ہے؟ اور بھوسا ان چھلکوں پر مشتمل ہے جو گندم کے دانوں کی حفاظت کرتے ہیں۔“ [10]

ابنِ عربی کے انحراف کا رد

یہ تفسیر قرآن کی ان تمام آیات سے کھلا تضاد رکھتی ہے جو جہنمیوں کے عذاب کے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بطور نذیر تعارف کراتی ہیں۔ اگر ہم اس قسم کی مضحکہ خیز تفاسیر کو قبول کر لیں تو ہمیں تباہ کن زلزلوں، آسمانی بجلی اور پچھلی امتوں پر آنے والے طوفان کے عذاب وغیرہ، کہ جنہیں قرآن میں دنیا کا عذاب کہا گیا ہے اور آخرت کے عذاب کو اس سے سخت کہا گیا ہے [11]، کو بھی خوشگوار، پر لذت اور دلچسپ قرار دینا ہو گا۔

تعجب کا مقام ہے کہ گویا انہوں نے قرآن پر سرسری نظر بھی نہیں ڈالی کیونکہ قرآن نے آخرت کے عذاب کو پچاس سے زیادہ مرتبہ ”الیم“، یعنی دردناک، قرار دیا ہے، جب کہ جو چیز شیرین ہو وہ تکلیف دہ نہیں ہوتی۔ اور کئی بار ”مہین“ یعنی ذلیل کرنے والا کہا ہے، کیا وہ چیز جس میں خوشگواری اور لذت ہو وہ ذلیل کرنے والی ہو سکتی ہے؟

قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ہم پڑھتے ہیں کہ اہلِ جہنم دوزخ کے مالک کے دامن کو پکڑ کر فریاد کرتے ہیں: کیا ہمارے لیے مرنا اور اس عذاب سے نجات پانا ممکن ہے؟ اور وہ جواب میں کہتا ہے: تمہیں یہیں عذاب میں رہنا چاہیے۔ [12]

اور اللہ والوں کی توصیف میں آیا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب پھیر دے، بیشک اس کا عذاب گلے کا پھندا ہے۔ بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے اور قیام کرنے کی جگہ ہے۔ [13]

اور اگر ہم قرآن کی ان تمام آیات کا جائزہ لیں جن میں جہنم اور اہل جہنم اور ان کی مختلف سزاؤں کے بارے میں بتایا گیا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ مذکورہ تفسیر قرآن کریم کی سینکڑوں آیات کے صریحاً مخالف ہے۔

ابنِ عربی اور بنی اسرائیل کے بچھڑا پوجنے کی توجیہ

ایک اور مثال جو بہت حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ محیی الدین ابنِ عربی نے فصوص الحکم کی فصِ ہارونیہ میں کہا ہے: حضرت ہارون ؑ کی بچھڑے کی پرستش کو روکنے میں ناکامی، برخلاف حضرت موسیٰ ؑ کے کہ جنہوں نے اس پر غلبہ حاصل کیا، خدا کی طرف سے ایک واضح حکمت تھی اور وہ یہ کہ خدا کی عبادت ہر شکل میں کی جائے۔ [14]

قیصری نے محیی الدین کے کلام کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے: بچھڑے کی پرستش کو روکنے میں ہارون ؑ کے کلام کا اثر نہ ہونا اور بچھڑے کی پرستش کرنے والوں پر غلبہ نہ پا سکنا، جیسا کہ موسیٰ ؑ کو غلبہ حاصل ہوا، یہ خدا کی ایک آشکار حکمت تھی تاکہ عالمِ ہستی کی سبھی صورتوں میں خدا کی عبادت کی جائے۔ اگرچہ یہ چہرے غائب ہو کر فانی ہو گئے، لیکن غائب اور فنا ہونے سے پہلے عبادت گزاروں کے ہاں الوہیت کا درجہ پا لیا۔ [15]

یہ واضح ہے کہ یہ تمام قیاسات اور غلط تفاسیر وحدت الوجود (بمعنی وحدتِ وجود و موجود) کے عقیدے کا نتیجہ ہیں۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ حقیقی توحید تک پہنچ چکے ہیں، جب کہ وہ ایسے شرک کے گڑھے میں گر چکے ہیں جو شرک کی تمام اقسام سے برا ہے۔ مشرکین بعض بتوں کی پوجا کرتے تھے، لیکن اس قسم کے وحدت الوجودی تمام موجوداتِ عالم کو بطورِ کلی بت بنا بیٹھے ہیں اور انہیں عبادت کے لائق سمجھتے ہیں۔ انکی شرط یہ ہے کہ عبادت کسی خاص بت تک محدود نہ ہو۔

اس منحرف مکتب کے ایک اور پیروکار کے کلام میں تفسیر بالرائے کو اپنے اوج پر دیکھا جا سکتا ہے۔ ابن ابی الحدید کی روایت کے مطابق ابوحامد محمد غزالی کا بھائی ابو الفتوح احمد غزالی ایک زوردار خطیب تھا۔

جب اس نے بغداد آ کر وعظ شروع کیا تو اس نے ایک غلط طریقہ اختیار کیا۔ کیونکہ وہ شیطان کی زبردست حمایت کرتے ہوئے کہتا تھا: وہ سید الموحدین ہے۔ ایک دن منبر پر کہنے لگا: جس نے شیطان سے توحید نہیں سیکھی وہ کافر اور زندیق ہے۔ کیونکہ شیطان کو جب حکم ملا کہ وہ اپنے مولا کے علاوہ کسی اور کو سجدہ کرے تو اس نے انکار کیا اور سجدہ نہیں کیا۔ [16]

اس بیان کا موازنہ ان آیات سے کریں جو ابلیس کے آدم ؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کے بعد سورہ حجر میں آئی ہیں: «قَالَ فَٱخۡرُجۡ مِنۡهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ○ وَإِنَّ عَلَيۡكَ ٱللَّعۡنَةَ إِلَىٰ يَوۡمِ ٱلدِّينِ○»، ”فرمایا اب تو بہشت سے نکل جا کیوں کہ تو رانده درگاه ہے۔ اور تجھ پر قیامت کے دن تک میری پھٹکار ہے۔“ [17]

ان دونوں کا ایک ساتھ موازنہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تفسیر بالرائے آیات الٰہی کے معنی میں کس قدر بدلاؤ لا سکتی ہے اور اس راستے پر چلنے والے خدا اور کلماتِ حق سے کس قدر دور ہو سکتے ہیں!

عبدالرحمٰن جامى: شیطان نے غیرت کی وجہ سے سجدہ نہ کیا

دلچسپ بات یہ ہے کہ عبدالرحمٰن جامی، جو کہ مشہور صوفیاء میں سے ہے، نے اپنے اشعار میں ایک روایت بیان کی ہے جس میں شیطان اور موسیٰ ؑ کے درمیان ہونے والی گفتگو کو پیش کیا گیا ہے۔ موسیٰ ؑ نے اس پر اعتراض کیا کہ تم نے آدم ؑ کو سجدہ کیوں نہیں کیا؟ وہ کہتا ہے: میری غیرت مجھے خدا کے سوا کسی کو سجدہ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ دونوں کے درمیان نسبتاً طویل گفتگو میں حضرت موسیٰ ؑ کو ہارتے ہوئے ظاہر کیا گیا ہے۔ جامی کے اشعار درج ذیل ہیں:

پور عمران به دلى غرقه نور
مى شد از بهر مناجات به طور

دید در راه سر دوران را
قاید لشکر مهجوران را

گفت: از سجده آدم به چه روى
تافتى روى رضا راست بگوى

گفت: عاشق که بود کامل سِیر
پیش جانان نبرد سجده غیر

گفت موسى: که به فرموده دوست
سر نهد هر که به جان بنده اوست

گفت: مقصود از آن گفت و شنود
امتحان بود محب را نه سجود

گفت موسى: که اگر حال این است
لعن و طعن تو چرا آئین است

بر تو چون از غضب سلطانى
شد لباس ملکى شیطانى

گفت: کین هر دو صفت عاریت اند
مانده از ذات به یک ناحیت اند

گر بیاید صد از این یا برود
حال ذاتم متغیر نشود

ذات من بر صفت خویشتن است
عشق او لازمه ذات من است

تاکنون عشق من آمیخته بود
در عَرَض هاى من آویخته بود

داشت بخت سیه و روز سفید
هر دمم دستخوش بیم و امید

این دم از کشمکش آن رستم
پسِ زانوى وفا بنشستم

لطف و قهرم همه یکرنگ شده ست
کوه و کاهم همه همسنگ شده ست

عشق شست از دل من نقش هوس
عشق با عشق همى بازم و بس

ان اشعار میں تفسیر بالرائے کے نتیجے میں پیدا ہونے والا انحراف بڑے پیمانے پر نظر آتا ہے اور یہ تفکر قرآن کریم سے مکمل تضاد اور تناقض میں ہے، کیونکہ قرآن متعدد آیات میں کہتا ہے: شیطان کو اس کی نافرمانی کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے خدا نے راندۂ درگاہ کر دیا تھا۔ اور اس نے بھی اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے بنی آدم ؑ کو فتنوں میں ڈالنے اور گمراہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ نیز اس پر قیامت تک خدا کی لعنت برستی رہے گی اور ہم ہمیشہ قرآن پاک کی تلاوت سے پہلے قرآن کے اس حکم کی پیروی کرتے ہیں: «فَاِذا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّیْطانِ الرَّجیمِ○» [18] اور شیطان کے شر سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں۔

احمد غزالی اور جامی کا رد

قرآن واضح طور پر کہتا ہے: شیطان خالص بندوں پر غلبہ نہیں رکھتا، بلکہ وہ ان کو گمراہ کرتا ہے جو اس کی پیروی کرتے ہیں: «انَّهُ لَیْسَ لَهُ سُلْطانٌ عَلَى الَّذِینَ آمَنُوا وَعَلى رَبِّهِم یَتَوَکَّلُونَ انَّما سُلْطانُهُ عَلَى الَّذِیْنَ یَتَوَلَّونَهُ وَالَّذِیْنَ هُمْ بِهِ مُشْرِکُوْنَ○» [19]

احمد غزالی اور جامی کے نزدیک اگر وہ موحدین کا پیشوا ہے یا خدا تعالیٰ کا پاکباز عاشق ہے، تو نہ صرف اس سے خدا کی پناہ نہیں مانگنی چاہئے بلکہ خود اس کی پناہ میں جانا چاہئے۔ اس کے راستے پر چلنا چاہئے اور اسے خدا کے حضور شفاعت کرنے والا سمجھنا چاہئے!

سچ تو یہ ہے کہ انسان کو اس قسم کے ناموزوں اور بیہودہ الفاظ کو لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اور اگر شریعت کی حفاظت کرنے والے فقہاء اور راہ راست پر چلنے والے شیعہ متکلمین نہ ہوتے تو یہ گمراہ گروہ اسلام، قرآن اور شریعت پر نجانے کون کون سے مصائب لاتا!

ابنِ عربی کی تفسیر بالرائے کا ایک اور نمونہ

تفسیر بالرائے کا اس سے بھی عجیب نمونہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف الفاظ کے مفاہیم کو اپنے باطنی میلانات کے مطابق موڑ دے بلکہ خود قرآن کے الفاظ میں بھی تحریف کر دے۔ مثال کے طور پر محیی الدین ابنِ عربی اپنی کتاب فصوص الحکم کی فصِ موسوی میں یہ کہتا ہے:

«ان المراد بقول فرعون (لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلهَاً غَیْرِى لاَجْعَلَنَّکَ من الْمَسْجُونِینَ) لأجعلنک من المستورین لأن السین من أحرف الزوائد، فاذا حذفت من سجن بقیت «جن» ومعناها الوقایه والستر»

ترجمہ: ”یہ جو فرعون نے موسیٰ ؑ کو دھمکی دی کہ اگر تم نے میرے علاوہ کسی اور کو معبود مان لیا تو میں تمہیں قیدی بنا دوں گا، اگرچہ اس جملے کا ظاہر دھمکی ہے مگر دراصل یہ دھمکی نہیں ہے بلکہ انکی حمایت کا اعلان ہے۔ اس لیے کہ سین حروف زائدہ میں سے ہے۔ سجن سے «س» نکال دیں تو جن بچتا ہے، جس کے معنی ڈھانپنے اور سہارا دینے کے ہیں۔“ [20]

حیرت آور ہے کہ یہ نہ صرف قرآن کے مفاہیم کو اپنی مرضی سے بدل دیں، بلکہ قرآن کے الفاظ کو بھی بدل دیں جو دراصل قرآن میں ایک طرح کی تحریف ہے۔ اور اسے ایسی لغت میں تبدیل کر دیں جو عرب کے عرف میں بھی موجود نہیں ہے۔ مجونین کالفظ عربی میں نہیں ہے۔ پس پہلے سین کو ہٹایا کہ مجونین ہو جائے، پھر جیم کے بعد ایک نون کا اضافہ کیا تاکہ مجنونین بن جائے۔ پھر مجنون کا ترجمہ حمایت شدہ کیا جو اس مفہوم کے خلاف ہے، جو ابتداً سمجھ آتا ہے۔

باوجود اس کے کہ فرعون نے نہ صرف حضرت موسیٰ ؑ کی کوئی حمایت نہ کی بلکہ انکا شدت سے پیچھا کیا اور کہا:

«وَ قَالَ فِرۡعَوۡنُ ذَرُوۡنِیۡۤ اَقۡتُلۡ مُوۡسٰی وَ لۡیَدۡعُ رَبَّہٗ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اَنۡ یُّبَدِّلَ دِیۡنَکُمۡ اَوۡ اَنۡ یُّظۡہِرَ فِی الۡاَرۡضِ الۡفَسَادَ○»، ”اور فرعون بولا: مجھے موسیٰ کو قتل کرنے دو اور اسے چاہیے کہ اپنے رب کو پکارے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ تمہارا دین بدل دے گا یا زمین میں فساد پھیلا دے گا۔“ [21]

اور اس کے علاوہ فرعون نے بنی اسرائیل کے چھوٹے لڑکوں کو قتل کیا اور بچیوں کو لونڈیاں بنانے اور مختلف مقاصد کے حصول کے لیے زندہ رکھا۔ چنانچہ وہ خود حضرت موسیٰ ؑ کو دھمکی دیتا تھا اور ان کے حامیوں کا خاتمہ کرنے کیلئے کوشاں رہتا تھا۔

عرفان و تصوف میں تفسیر بالرائے کا سبب کیا ہے؟

سچ تو یہ ہے کہ نام نہاد عرفاء یا منحرف عرفاء، بالخصوص صوفیاء، اپنے تصورِ کائنات میں اصولِ دین اور فروعاتِ دین کے بارے میں پہلے سے ذہن بنا لیتے ہیں۔ پھر جب وہ قرآن کی آیات یا احادیث مبارکہ کو اپنی جہان بینی سے متصادم دیکھتے ہیں اور ان میں سے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے تو تفسیر بالرائے کا سہارا لیتے ہیں، اور یہاں وہ اپنے نام نہاد عقلی اصولوں کو مرکزیت دیتے ہیں۔ پھر آیات اور احادیث کے مواد کو تبدیل کرکے اپنے ذہن کے مطابق ڈھالتے ہیں۔

جب کہ انہیں چاہیے تھا کہ وحی ربانی اور معصومین ؑ کی احادیث کو اصالت دیتے اور اس بنیاد پر اپنے خیالات اور اعمال کی اصلاح کرتے۔ مثلاً جب وہ وحدتِ وجود (بمعنی وحدتِ موجود) کو اپنے مذہب اور عقیدے کی بنیادی اصل قرار دیتے ہیں تو وہ سامری کے بچھڑے کی عبادت سے متعلق آیات اور اس قسم کی دیگر آیات میں معنوی تحریف کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کی اپنی رائے کے مطابق تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:

سامری کے بچھڑے کی عبادت بھی خدا کی عبادت تھی کیونکہ دنیا میں ایک کے علاوہ کوئی موجود نہیں ہے۔

اس طرح مشرکوں کے افعال کی توجیہ ہو جاتی ہے۔ گویا مشرکوں کا مسئلہ صرف یہ تھا کہ انہوں نے مخصوص بتوں کا انتخاب کیا، ورنہ اگر وہ ہر چیز کی بیک وقت پوجا کرتے تو انکی نظر میں یہ کوئی قابلِ اعتراض بات نہ ہوتی۔ ان کا ایک امام شیخ شبستری اپنی کتاب گلشن راز میں کہتا ہے:

نکو اندیشه کن اى مرد عاقل
که بت از روى هستى نیست باطل

بدان کایزد تعالى خالق اوست
ز نیکو هرچه صادر گشت نیکوست

وجود آن جا که باشد محض خیر است
اگر شرى است در وى او ز غیر است

مسلمان گر بدانستى که بت چیست
بدانستى که دین در بت پرستى است

و گر مشرک ز بت آگاه گشتى
کجا در دین خود گمراه گشتى

عرفان‌ِ عملی میں انحرافات

کردار اور عمل میں بھی یہ لوگ اسی قسم کی باطل توجیہات کا شکار ہیں۔ جیسے ناجائز ریاضتیں کرنا کہ جو سیر و سلوک کے خطرات میں سے ہیں اور آخر کار انسان کو تباہ کر دیتی ہیں۔

روحانی ترقی کے نام پر چلے کاٹنے جیسی خرافات کا شکار ہونا، اور حتیٰ کہ شیطانی افکار اور شیطان کی پناہ میں آنا، اور روح کو تگڑا کرنے کے موہوم ہدف کیلئے لایعنی اذکار اور کھوکھلی باتوں میں پڑنا، شیخ یا مرشد کی بے چون و چرا اطاعت کرنا، اپنے بزرگوں کے بارے میں غلو کرنا، خیالی مکاشفات اور خود فریبی میں پناہ لینا، اس گمراہی کا دوسرا پہلو ہیں جو کاذب اور شیطانی عرفان سے نکلی اور عارفوں کے بعض گروہ اس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

حوالہ جات:

1۔ بحارالانوار، ج ۳۶، ص ۲۲۷، ح ۳؛ وسائل الشیعہ، ج ۱۸، باب ۱۳ از ابواب صفات قاضی، ح ۳۷۔

2۔ تفسیر عیاشی، ج ۱، ص ۱۸۔

3۔ وسائل الشیعه، ج ۱۸، ص ۱۴۹، ابواب صفات قاضی، باب ۱۳، ح ۶۶۔

4۔ نہج البلاغہ، خطبہ ۸۵، ترجمہ: مفتی جعفر حسین، المعراج کمپنی، لاہور، ۲۰۰۶ء۔

5۔ سنن ترمذی، ج۴، ص ۲۶۸۔

فتوحات المکیہ، ج ۱، ص ۱۷۸، انتشارات دار الکتب العلمیہ، بیروت، لبنان۔

يا محمد إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا ستروا محبتهم في عنهم ف‌ سَوٰاءٌ عَلَيْهِمْ أَ أَنْذَرْتَهُمْ بوعيدك الذي أرسلتك به أَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لاٰ يُؤْمِنُونَ بكلامك فإنهم لا يعقلون غيري و أنت تنذرهم بخلقي و هم ما عقلوه و لا شاهدوه و كيف يؤمنون بك و قد ختمت على قلوبهم فلم أجعل فيها متسعا لغيري و على سمعهم فلا يسمعون كلاما في العالم إلا مني وَ عَلىٰ أَبْصٰارِهِمْ غِشٰاوَةٌ من بهائي عند مشاهدتي فلا يبصرون سواى و لهم عذاب عظيم عندي أردهم بعد هذا المشهد السني إلى إنذارك و أحجبهم عني كما فعلت بك بعد قٰابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنىٰ قربا أنزلتك إلى من يكذبك و يرد ما جئت به إليه مني في وجهك و تسمع في ما يضيق له صدرك.

7۔ وَ لَقَدْ ذَرَأْنا لِجَهَنَّمَ کَثیراً مِنَ الْجِنِّ وَ الْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لا یَفْقَهُونَ بِها وَ لَهُمْ أَعْیُنٌ لا یُبْصِرُونَ بِها وَ لَهُمْ آذانٌ لا یَسْمَعُونَ بِها أُولئِکَ کَالْأَنْعامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولئِکَ هُمُ الْغافِلُونَ○ (سورہ اعراف، آیت ۱۷۹)

8۔ سورہ احقاف، آیت ۱۶۔

قیصری، شرح فصوص الحکم، ص ۱۹۴، چاپ المکتبہ الزہراء علیہا السلام۔

10۔ ایضاً

11۔ فَأَرْسَلْنَا عَلَیْهِمْ رِیحًا صَرْصَرًا فِی أَیَّامٍ نَحِسَاتٍ لِنُذِیقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاهِ الدُّنْیَا وَلَعَذَابُ الآخِرَهِ أَخْزَى وَهُمْ لا یُنْصَرُونَ○ (سورہ فصلت، آیت ۱۶).

12۔ وَ نادَوْا یا مالِکُ لِیَقْضِ عَلَیْنا رَبُّکَ قالَ إِنَّکُمْ ماکِثُونَ○ (سورہ زخرف، آیت ۷۷).

13۔ وَالَّذینَ یَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذابَها کانَ غَراماً ○ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَ مُقاماً○ (سورہ فرقان، آیات ۶۵ و ۶۶).

14۔ فصوص الحکم، ص ۱۹۴۔

15۔ قیصری، شرح فصوص الحکم، ص ۱۱۰۰، چاپ المکتبہ الزہراء سلام الله علیہا۔

16۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۱۰۷۔

17۔ سورہ حجر، آیات ۳۴- ۳۵۔

18۔ سورہ نحل، آیت ۹۸۔

18۔ سورہ نحل، آیت ۹۹۔

20۔ مقدمۂ فصوص الحکم، ص ۱۴، با تعلیقۂ ابوالعلاء عفیفی۔

21۔ سورہ غافر، آیت ۲۶۔

 

مآخذ: آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی، ”مبانی تفسیر قرآن“، انتشارات امام علی ابن ابی طالب (ع)، ۱۳۹۵.

 

ڈاؤن لوڈ لنک: ”مبانی تفسیر قرآن“

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button