مقالات

ملا صدرا اور پروکلس کے ہاں صادرِ اول کا تصور – ڈاکٹر سعید رحیمیان، ڈاکٹر زہرا اسکندری

196 ملاحظات

فلسفے کے جو مکاتبِ فکر کائنات کیلئے واحد اور الٰہی مبدأ کے قائل ہیں، ان میں کائنات کی ولادت کی کیفیت اور واحد سے کثرت کے صدور کی وضاحت ایک اہم ترین موضوع رہا ہے۔ ایسے میں مسلمان فلسفیوں نے بھی توحید کے عقیدے، علت و معلول میں سنخیت کے التزام اور قاعدۃ الواحد کی بنا پر صادرِ اول کی بحث کی ہے۔ ملا صدرا (1572ء – 1640ء) ایک مسلمان فلسفی ہے جو صادرِ اول کو وجود سمجھتا ہے۔ یونانی فلسفے میں نوفلاطونی فلاسفہ کیلئے بھی اصل دردِ سر واحد کے کثیر ہو جانے کا سوال ہی ہے۔ پروکلس (410ء – 485ء) ایک اہم ترین نوفلاطونی فلسفی ہے جو پانچویں صدی عیسوی میں گزرا ہے۔ وہ بانیٴ مکتب، فلوطین (204ء – 270ء)، کے بعد اہم ترین نوفلاطونی شخصیت سمجھا جاتا ہے۔ وہ کئی سال تک ایتھینز کی اکیڈمی کا مدیر رہا۔ پروکلس (Proclus) وہ پہلا نوفلاطونی ہے جس نے مشخصاً صادرِ اول کو وجود قرار دیا۔ یہ مقالہ صادرِ اول کے بارے میں ملا صدرا اور پروکلس کے تصور کا تقابلی مطالعہ پیش کرتا ہے۔

ابتدائیہ

یہ تحریر صادرِ اول کے بارے پروکلس اور ملا صدرا کے تصورات کا تقابلی جائزہ ہے۔ نوفلاطونی فلسفی پروکلس (ولادتِ پیغمبر اکرمؐ سے 160 سال پہلے) پانچویں صدی عیسوی میں قسطنطنیہ میں پیدا ہوا اور یونانی فلسفے میں مہارت حاصل کرنے کے بعد 437ء میں ایتھنز کی اکیڈمی کا سربراہ بنا۔ (عرضِ مترجم: پروکلس باقی نوفلاطونیوں کی طرح مشرک تھا اور حضرت عیسیٰؑ پر ایمان نہیں رکھتا تھا۔ جب رومی مسیحی حکومت نے اس پر مسیحیت قبول کرنے کیلئے دباؤ ڈالا تو وہ ایک سال کیلئے مشرق میں لیدیہ کی طرف ہجرت کر گیا۔) یوں تو اس کی اکثر تحریریں ضائع ہو چکی ہیں لیکن افلاطون (متوفیٰ 348 قبلِ مسیح) کے مکالمات پر اس کی کچھ شرحیں اور اس کی دیگر کتابیں جیسے ”اصولِ الٰہیات“، ”الٰہیاتِ افلاطون“، ”شک و تردید کے بارے میں رسالہ“، ”مشیت و عنایاتِ الٰہی“، ”قضا و قدر کے بارے میں رسالہ“، ”ہمارے اندر کیا ہے؟“ اور ”ماہیتِ شر کے بارے میں رسالہ“، وغیرہ محفوظ ہیں۔ [1] وہ ان لوگوں میں سے ہے جو عرب فلسفی يامبليخوس (245ء – 325ء) کے بعد آئے اور اس کی پیروی میں نوفلاطونی تصورِ کائنات اور منظومہٴ فکر کی تدوین، تنظیم اور بسط و تشریح میں کوشاں رہے۔ [2] البتہ اس نے خود بھی کئی نئی باتیں کی ہیں۔ وہ واسطوں کی تعداد بڑھانے کی طرف شدید میلان رکھتا تھا۔ اپنے نوفلاطونی پیشروؤں کے برعکس وہ مبداءِ اول اور عقل کے درمیان ایک مرتبے کا قائل ہے، جسے وجود قرار دیتا ہے۔ در حقیقت وہ اس مکتب کا پہلا شخص ہے جو مبداءِ اول سے پیدا ہونے والے صادرِ اول کو وجود قرار دیتا ہے۔
مسلمان فلسفیوں میں ملا صدرا سے پہلے کے سب مسلم فلسفی عقلِ اول کو صادرِ اول سمجھتے ہیں۔ وہ سلسلۂ عقول کو دو گروہوں، عقولِ طولیہ اور عقولِ عرضیہ میں بانٹتے ہیں اور عقول طولیہ کے سلسلے کے پہلے عقل کو صادرِ اول قرار دیتے ہیں۔ لیکن ملا صدرا اپنی حکمتِ متعالیہ میں تصوف سے نزدیکی کی بدولت اور تشکیکِ وجود کا قائل ہونے کی بنا پر وجودِ منبسط کو حق تعالیٰ سے صادر ہونے والی پہلی چیز قرار دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: جدید دور میں عرفانی فلسفے کی ساکھ ختم ہو چکی ہے

مقدماتِ بحث

صادرِ اول کی بحث اسی فلسفی ڈھانچے میں چھیڑی جا سکتی ہے جو (الف) عالمِ ہستی کیلئے صرف ایک مبداء کا قائل ہو، (ب) کثرت کو وحدت کی طرف یوں موڑ دیتا ہو کہ کثرات کی اصل اور ان کا مصدر وہی وحدت و اکائی ہو۔ لہٰذا صادرِ اول کی بحث میں پڑنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ ایک تو ملا صدرا عالم کے مبداء کو واحد سمجھتا ہے اور دوسرا کائنات میں موجود کثرات کی اس مبداءِ واحد سے تبیین کرتا ہے۔

واجب الوجود واحد ہے

فلسفیوں کی الٰہیات میں توحید کا مطلب واجب بالذات سے کثرت کی مطلق نفی ہے۔ چاہے داخلی کثرت ہو جو کہ ترکیب سے پیدا ہوتی ہے اور چاہے خارجی کثرت جو کہ اس کا مثل یا اس جیسا ہونے سے آتی ہے، جسےاصطلاحی طور پر وجودِ شریک سے پیدا ہونے والی کثرت کہتے ہیں۔ فلسفی ترکیب کی نفی کو بساطتِ ذات اور شریک کی نفی کو توحیدِ ذات کے عنوان سے بیان کرتے ہیں۔
بساطتِ ذات کے بارے میں ملا صدرا اپنی کتاب ”شواہد الربوبیہ“ میں ذاتِ واجب کی ماہیت کا انکار کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”واجب الوجود کی کوئی ماہیت نہیں ہے، کیونکہ وہ صرف وجود اور إنّیّت محض ہے اور باقی تمام إنّیّات اور وجودات اسی ازلی منبع سے نکلے ہیں۔“ [3] توحیدِ ذات کو بیان کرتے ہوئے ملا صدرا کا کہنا ہے: ”اس کی توحید کا یہ معنیٰ ہے کہ وجود کے واجب ہونے میں کوئی شریک نہیں رکھتا۔“ [4] وہ واجب الوجود کو صرف الوجود قرار دیتے ہوئے شیخِ اشراق کا یہ قول پیش کرتا ہے: ”اور یہ معنی تلویحات کے مصنف کی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو کہتا ہے: دوسرا مفروضہ صرف الوجود کے لیے ناممکن ہے، کیونکہ اگر آپ دوسرے کو دیکھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ پہلے کی طرح ہے۔“ [5] ایک اور نکتہ جو یہاں قابلِ ذکر ہے یہ ہے کہ وحدت سے ملا صدرا کی مراد عددی وحدت نہیں ہے۔ کیونکہ وحدتِ عددی میں وجودِ شریک کا تصور محال نہیں ہے، اگرچہ واقعیت میں کوئی شریک نہ رکھتا ہو۔ یہاں وحدتِ حقہ موردِ نظر ہے کہ جس میں شریک کا تصور کرنا بھی ممکن نہ ہو۔
ملا صدرا کائنات کے لیے ایک ہی مبداء کا قائل ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وہ نظریۂ فیض پیش کر کے یہ تجویز کرتا ہے کہ تمام کثرت ایک ہی چیز سے نکلی ہے۔ حکمتِ متعالیہ میں فیض کی بحث سابقہ فلسفیانہ نظاموں سے زیادہ نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ کیونکہ ملا صدرا کے خیال میں صرف ایک ہی وجود ہے، اور جو کچھ اس کے علاوہ ہے وہ اس کی برکات اور تجلیات ہیں۔

قاعدۃ الواحد

چونکہ ذاتِ واجب بسیطِ محض اور یگانہٴِ محض ہے، لہٰذا ان خصوصیات اور اس اصول کی پابندی کرتے ہوئے کہ واحد سے واحد ہی نکل سکتا ہے، (نوفلاطونی) فلسفیوں کا خیال ہے کہ ممکنات اور معلولات کا اپنی تمام کثرت کے ساتھ عرض میں بھی ذاتِ واجب سے نکلنا محال ہے، لہٰذا وہ ایک دوسرے کے طول میں علت و معلول کی زنجیر بنا کر واجب الوجود سے پیدا ہوئی ہیں۔ تاکہ زنجیر کی پہلی کڑی واجب الوجود سے براہ راست پیدا ہو اور اسے صادرِ اول کہا جائے۔
ملا صدرا سے پہلے کے مسلمان حکیموں نے طولی عقلوں کے سلسلے میں پہلی عقل کو صادرِ اول سمجھا۔ جیسا کہ ملا صدرا اسفار میں اس بات کا تذکرہ کرتا ہے: ”حکماء قاعدۃ الواحد، یعنی واحد سے واحد ہی صادر ہو سکتا ہے، کی بنا پر صادرِ اول کو عقلِ اول سمجھتے ہیں۔“ [6] حکیموں کے عقل کو پہلا صادر سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال میں یہ دوسری ممکنات، جیسے نفس، عالمِ مثال اور طبیعت، وغیرہ کی نسبت بساطت، تجرد اور کمالات میں فعلیت کے معاملے میں آگے ہے اور اس طرح باقی موجودات کی نسبت حق تعالیٰ کے اوصاف، اس کی بساطت اور لا محدودیت کے قریب تر ہے۔ [7] قاعدۃ الواحد کی بنیاد علت و معلول میں سنخیت ہے۔

صادرِ اول کے بارے میں ملا صدرا کے خیالات

ملا صدرا نے صادرِ اول کے بارے میں دو آراء پیش کی ہیں: اپنی بعض کتابوں میں اپنے سے پہلے کے مسلم حکماء کی روش کی پیروی کرتے ہوئے، وہ عقلِ اول کو صادرِ اول کے طور پر متعارف کراتا ہے۔ جیسا کہ وہ ”شواہد الربوبیہ“ میں لکھتا ہے: ”جو چیز سب سے پہلے واجب الوجود کی جانب سے وجود میں آتی ہے، اس کا عقل ہونا ضروری ہے، کیونکہ اس سے پہلے کہا جا چکا ہے کہ واجب الوجود ہی حقیقی اکائی ہے۔ لہٰذا یہ لازم اور ضروری ہے کہ پہلا فیض اور اس سے صادر ہونے والی پہلی چیز ایک واحد ہستی ہو جو اپنی اصل میں بھی اور فعل و تاثیر کے لحاظ سے بھی مادے سے پاک ہو اور اس لیے صادرِ اول عقل کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔“ [8] لیکن وہ اپنی آخری تحریروں میں وجودِ منبسط کو صادرِ اول قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب ”اسفارِ اربعہ“ میں لکھتا ہے: ”واجب الوجود سے پہلی چیز جو صادر ہوئی وجودِ منبسط ہے اور یہ صدور قانونِ علیت کی بنیاد پر نہیں کیوں کہ قانونِ علیت کے مطابق سبب اور مسبب کے بیچ جدائی ہونی چاہئیے۔“ [9] یہ بات وہ ”شواہد الربوبیہ“ میں بھی کہتا ہے:
”وجودِ منبسط ذاتِ واجب الوجود کا پہلا جلوہ ہے۔ اس کا احاطہ اور انبساط ایسا نہیں جیسا کلیاتِ طبیعیہ، جیسے انسان و حیوان، کا ہے۔ اسی طرح اس کی تعیین اور خصوصیت بھی افراد و اشخاص کی تعیین و خصوصیت کی طرح نہیں جو نوعی یا جنسی طبائع کے تحت درج ہوتی ہے۔ بلکہ یہ اس نہج پر ہے جسے عرفاء جانتے ہیں اور اسے نفسِ رحمانی کا نام دیتے ہیں۔ وہ علتِ اولیٰ کا صادرِ اول ہے اور وہی کائنات کی اصل اور اس کا مایہٴ حیات ہے۔ وہ خدا کا نور ہے جو تمام آسمانوں اور زمین میں جاری و ساری ہے، جو ہر مخلوق میں اس کی صلاحیت کے مطابق تجلی کرتا ہے۔“ [10] یہ بھی پڑھئے: خدا شناسی میں تعمق کی مذمت – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

وجودِ رابط اور تشان بجائے علیت

ملا صدرا معلول کو نہ تو علت کے علاوہ ایک اور وجود سمجھتا ہے نہ ایسا وجود جو علت کا محتاج ہے، بلکہ معلول کو عینِ ربط بہ علت سمجھتا ہے۔ یہ وجودِ رابط، وجود فی نفسہٖ کا الٹ ہے، یعنی وجود فی غیرہٖ ہے۔ اس وجودِ رابط کے تصور کی بنیاد پر علت کسی مستقل وجود کو ایجاد نہیں کرتی جو اس کے مغایر ہو، بلکہ معلول ایسا وجودِ رابط ہے کہ شئونات علت میں سے ایک شان شمار ہوتا ہے۔
ملا صدرا لکھتا ہے: ”ہم پہلے علت و معلول کو وجود سمجھتے تھے لیکن آخر میں عرفانی مسلک کے مطابق یہ کہہ رہے ہیں کہ علت امرِ حقیقی ہے اور معلول اس کی جہتوں میں سے ایک جہت ہے۔“ [11] ملا صدرا موجودات میں تفاوت کو تشکیکِ وجود قرار دیتا ہے، جو اس زاویے سے دیکھا جائے تو تشکیک در شئون و تجلیات بن جاتا ہے۔

وجودِ منبسط کی تعریف اور اسکی صفات

وجودِ رابط کے تصور اور علیت کی جگہ تشان اور تشکیکِ وجود کی جگہ وحدتِ شخصی وجود رکھ کر ملا صدرا یہ کہتا ہے کہ صادرِ اول صرف ایک وجودِ رابط ہی ہو سکتا ہے جو کہ کوئی مستقل وجود نہیں بلکہ تجلیٴِ حق ہے۔ اور آخرِ کار وہ حق کے سوا کچھ نہیں ہے، لیکن پہلے اطلاق میں نہیں، بلکہ وہ پہلی شکل ہے جس میں حق خود کو ظاہر کرنا شروع کرتا ہے۔ حکما ء و عرفاء وجودِ منبسط کی یوں وضاحت کرتے ہیں:
1. یہ اپنی ذات میں یگانہ ہے۔ لیکن اس کی وحدت عددی نہیں بلکہ تشکیکی وحدت ہے جو کثرت کے ساتھ سازگار ہے۔
2. کثیر بھی ہے، لیکن یہ عرضی کثرت نہیں کہ امورِ خارجی سے الحاق کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہو، بلکہ ذاتی کثرت ہے۔
3. اس کی کوئی ماہیت نہیں، نہ یہ عقل ہے، نہ انسان، نہ حیوان، نہ نبات نہ کچھ اور ہے۔ اسی طرح نہ حادث ہے نہ قدیم اور نہ ہی متقدم ہے نہ متاخر، لیکن در عینِ حال اپنے اندر سبھی ماہیات اور سبھی اشیاء کی خصوصیات رکھتا ہے۔ عقل کے ساتھ عقل ہے، انسان کے ساتھ انسان ہے، درخت کے ساتھ درخت ہے، حادث کے ساتھ حادث ہے، قدیم کے ساتھ قدیم ہے، علٰی ہذا القیاس، اسی وجہ سے اسے وجودِ منبسط کہتے ہیں۔ اسفارِ اربعہ میں آیا ہے کہ:
”اس وجودِ منبسطِ مطلق کی وحدت و یکتائی عددی طرز کی نہیں ہے، یعنی وہ اعداد کا مبداء نہیں ہے بلکہ ممکنات کے ہیکلوں اور ماہیات کی تختیوں پر ایک پھیلی ہوئی منبسط حقیقت ہے۔ کسی خاص وصف کے ساتھ محدود نہیں اور کسی معین حد میں منحصر نہیں، مطلب یہ کہ قدم و حدوث، تقدم و تاٴخر، کمال و نقص، علت ہونے یا معلول ہونے، جوہر ہونے یا عرض ہونے، مجرد ہونے، مجسم ہونے، ان تمام قیود و حدود میں محدود و منحصر نہیں ہے۔ بلکہ تمام وجود ہی تعینات اور خارجی تحصیلات کے ساتھ وہ بذاتِ خود بغیر کسی شے کے انضمام و اتصال کے خود ہی متعین ہوتی ہے۔ بلکہ خارجی حقائق کا ظہور اور ان کی اٹھان اور ابھار سب خود اسی مطلق وجود کی ذات کے مختلف مراتب سے اور تعین کے مختلف پیرایوں، نظور کے مختلف مدارج سے سرانجام پاتا ہے۔
وہی عالم کی اصل اور جڑ ہے، زندگی کا چرخ وہی ہے۔ صوفیوں کی اصطلاح میں رحمٰن کا عرش وہی ہے، جس سے خلق کی پیدائش ہوئی وہ حق وہی ہے۔ تمام حقائق کی حقیقت وہی ہے، ٹھیک اپنی وحدت میں موجودات کے تعدد سے وہ متعدد ہوتا ہے، اور ماہیتوں کے ساتھ متحد ہو جاتا ہے۔ یعنی قدیم کے ساتھ قدیم، حادث کے ساتھ حادث، معقول کے ساتھ معقول اور محسوس کے ساتھ محسوس ہو جاتا ہے۔ اس کا یہی وہ اعتبار ہے جس کی وجہ سے دھوکہ ہوتا ہے کہ وہ کلی ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ماہیتوں پر اس کے انبساط اور پھیلاؤ کی جو نوعیت ہے، موجودات کو وہ جس طرح محیط ہے، اس کی تعبیر سے عبارتیں قاصر ہیں۔ اس لیے تشبیہ و تمثیل سے کام لیا جاتا ہے۔ اور وجود کے اس مرتبے کی یہی وہ خصوصیت ہے جو اس کو اس مرتبے سے ممتاز کرتی ہے جس میں تمثیل و تشبیہ کی گنجائش نہیں ہے۔ البتہ وہاں بھی اس کے لوازم و آثار کی راہ سے تمثیل کچھ راہ پا جاتی ہے۔“ [12]

وجودِ منبسط اور عقلِ اول میں فرق

عقلِ اول اور وجودِ منبسط میں فرق واضح کرنے کیلئے ان نکات کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:
1. وجودِ منبسط مظہرِ اول ہے اور دقیق تر الفاظ میں ظہورِ اول ہے، نہ معلولِ اول، جبکہ حکماء عقلِ اول کو راسِ سلسلہٴ علت و معلول بعد از واجب تعالیٰ سمجھتے ہیں۔
2. حکیموں کا کہنا ہے کہ پہلے عقلِ اول بلا واسطہ پیدا ہوتی ہے، پھر دوسری عقلوں کی باری آتی ہے، یہاں تک کہ ہم طبیعت کی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں۔ جب کہ ملا صدرا کے نقطہٴ نظر سے، جو پہلے جاری ہوتا ہے اور آخر میں بھی، وہ وجودِ منبسط ہے، جو واحد بہ وحدتِ حقہ ظلیہ ہے۔
3. حکمتِ متعالیہ کی تعبیر میں وجودِ منبسط کا ہونا وجودِ رابط جیسا ہے جبکہ حکیموں کے ہاں عقلِ اول ایک مستقل وجود ہے۔

عقلِ اول پر وجودِ منبسط کا امتیاز

ملا صدرا کی طرف سے وجودِ منبسط کو صادرِ اول کے طور پر پیش کرنا کئی زاویوں سے اہمیت رکھتا ہے:

1. قاعدہٴ بسیط الحقیقہ
قاعده «بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء و لیس بشیء منہا» نوفلاطونی فلسفے کا ایک اہم اصول ہے کہ جسے مسلمانوں میں سب سے پہلے ملا صدرا نے متعارف کرایا۔ بعض محققین کے مطابق یہ قاعدہ فلوطین (Plotinus) کا گھڑا ہوا ہے۔ [13] ملا صدرا نے اسی قاعدے کو استعمال کرتے ہوئے مسئلہٴ وحدت الوجود کیلئے دلیل قائم کی۔ وجودِ منبسط کو صادرِ اول قرار دینے سے یہ قاعدہ اس میں بھی جاری ہو جاتا ہے، کیوں کہ ملا صدرا کی نظر میں وجودِ منبسط حق کی تجلی اور اس کی شئون میں سے ایک شان ہے کہ جو قاعدہٴ بسیط الحقیقہ کے تقاضے کے مطابق بسیط ہونے کے ساتھ ساتھ سبھی حقائقِ وجودیہ پر مشتمل بھی ہے۔

2. قاعدۃ الواحد سے جڑے مخمصے سے نجات
بعض عرفاء حکیموں پر اعتراض کرتے تھے کہ قاعدۃ الواحد کی وجہ سے اس واجب الوجود سے کہ جو ہر لحاظ سے واحد ہو، یہ محال ہے کہ عقلِ اول جیسا معلول صادر ہو جو دو مختلف جہات رکھنے کی وجہ سے سب موجودات کے صدور کا واسطہ بنے، کیوں کہ یہ واجب الوجود کے مرکب ہونے کا موجب بنے گا۔ جیسا کہ ابنِ عربی کا کہنا ہے:
”معلوم نہیں کہ ایسے شخص سے بڑا جاہل دنیا میں کون ہو گا جو کہتا ہے کہ واحد سے واحد کے سوا کچھ صادر نہیں ہو سکتا، جبکہ اس بات کی علیت اور معقولیت کا بھی قائل ہو کہ اگر کوئی چیز کسی دوسری کی علت ہو تو کہ یہ ان دو چیزوں کی شیئیت کے تعقل کے علاوہ ہے۔جبکہ خود نسبتیں جملہ جہات میں سے ہیں۔“ [14] ملا صدرا نے اس مخمصے سے یوں جان چھڑائی ہے کہ وجودِ منبسط اپنے سعہٴ وجودی کے سبب جامع جمیعِ موجودات ہے۔ لہٰذا واجب الوجود سے بس ایک چیز پیدا ہوئی ہے اور وہ موجود اپنے سعہٴ وجودی کے سبب جامع جمیع موجودات ہے۔ پس ملا صدرا کے مطابق حق کی اشیاء سے جدائی اسلئے نہیں کہ ان کے بیچ کوئی حد بندی ہے، بلکہ یہ کمال و نقص اور قدرت و ضعف کی جدائی ہے۔ لہٰذا، غیر سے اس کا تمایز تقابلی نہیں ہے، بلکہ احاطی و شمولی تمایز ہے، اور مقابل کے معنی میں اس کا غیر عدم محض اور صرف لاشیٴ ہے۔ دوسرے لفظوں میں، تمام تنوع اور امتیازات کی حامل موجودات حقِ اول کے تعینات اور اس کے ظہورات اور اس کی ذات کے شئونات ہیں۔ [15] یہ بھی پڑھئے: نظریۂ وحدۃ الوجود کا رد – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

صادرِ اول کے بارے میں پروکلس کے خیالات

پروکلس کے تفکر کی تاریخی جڑیں

جیسا کہ ابتداء میں کہا گیا ہے، پروکلس فلوطین کے بعد سب سے اہم نوفلاطونیوں میں شمار ہوتا ہے۔ وہ کئی اہم خصوصیات کی وجہ سے اہم ہے۔ ان خصوصیات میں سے ایک وجود کو صادرِ اول کے طور پر پیش کرنا ہے۔ وہ چونکہ بسطِ عوالم ہستی میں دلچسپی رکھتا تھا، اس لئے ایک ایسی دنیا کا قائل ہے جسے وجود کہا جاتا ہے، جو مبداء اور عقل کے درمیان ہے۔
یونانی تفکرمیں وجود کی حقیقت اور اس کے احکام کی بحث پہلی بار پرمنیڈس (Parmenides) نے چھیڑی تھی۔ وجود پرمنیڈس کے نقطہ نظر سے ازلی اور ابدی ہے۔ لہٰذا یہ سوال کہ وجود کہاں سے آیا اور یہ کیسے پروان چڑھا اور کس طرح پھیلا، پرمنیڈس کے نزدیک بے معنی ہے، کیونکہ وجود سے پیدائش اور فنا کو منسوب کرنا تخیل کی تخلیق ہے۔ نیز، وجود کامل، غیر متحرک اور لامتناہی ہے۔ یہ ناقابل تغیر اور ناقابل تقسیم ہے، کیونکہ یہ اٹوٹ ہے۔ نیز ہستی بے حرکت اور بے نیاز ہے، کیونکہ کامل ہے۔ [16] پرمنیڈس کے نظریے کا بعد کے فلسفیوں پر بہت اثر ہوا۔ ارسطو کے بعد فلوطین نے پرمنیڈس کےہاں موجود عقل اور تعقل کو اقنومی رنگ دیا اور اسے ایک خاص ذات قرار دیا۔ پھر اسے وجود کے پرمنیڈس کے تصور کے ساتھ، جو کہ حالتِ وصفی رکھتا تھا، ایک قرار دیا ۔ (17) درحقیقت فلوطین وہ پہلا شخص تھا جس عقول کے درجات کی شکل میں جہانِ ہستی کا ایک منظم تخیل پیش کیا۔ [18] فلوطین (متوفیٰ270ء) کے نقطہٴ نظر نے اس کے بعد سبھی نوفلاطونیوں پر گہرے اثرات چھوڑے اور اس کے بعد سبھی نوفلاطونی عوالمِ ہستی کی بحث کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تاریخی پس منظر میں پروکلس آتا ہے اور مبداء اور عقل کے بیچ ایک مرتبے بنام وجود کا قائل ہوتا ہے اور اسے صادرِ اول قرار دیتا ہے۔ اس سے پہلے سبھی نوفلاطونی حکیم عقل کو صادرِ اول کہتے تھے۔

پروکلس کے تخیل میں صادرِ اول کی خصوصیات

پروکلس اس وجود، کہ جسے صادرِ اول قرار دیتا ہے، کی توصیف میں کچھ اہم خصوصیات بیان کرتا ہے:

1. صادرِ اول کا مقام
پروکلس کے فلسفیانہ نظام میں پہلے مبداء، جسے پروکلس واحد کا نام دیتا ہے، کے بعد یہ عوالمِ ہستی طولی ترتیب میں آتے ہیں: وجود، عقل، نفس اور طبیعت۔ لہٰذا اس کے نزدیک وجود صادرِ اول کے طور پر پہلے مبداء اور عقل کے درمیان ہے۔ اس کے بارے میں وہ کتاب ”الخیر المحض“ میں لکھتا ہے: ’’مبتدعہ الانیہ ایک ایسا وجود ہے جس سے پہلے کوئی دوسری چیز نہیں ہے اور وہ وجود حواس، نفس اور عقل سے بالاتر ہے۔“[19] نیز، وہ اپنی کتاب ”اصول الٰہیات“ کے کئی ابواب میں اس نکتے پر تاکید کرتا ہے۔ بطورِ مثال باب 138 میں لکھتا ہے: ”وجود عقل اور نفس سے بالاتر ہے، اور واحد (the One) کے ساتھ ساتھ یہ کلی ترین علت شمار ہوتا ہے، اور اس کی وحدت عقل اور روح سے زیادہ ہے، اور واحد کے علاوہ کوئی اصل اس سے بالاتر نہیں ہے۔“ [20] نیز، باب 139 میں صادرِ اول کے مقام کے بارے میں کہتا ہے: ”مراتبِ وجود ذاتِ جسمانی تک یوں پھیلے ہوئے ہیں کہ پہلا مرتبہ وجود ہے اور آخری جسم ہے۔“ [21] باب 161 میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وجود صادرِ اول ہے: ”وجود عقل سے پہلے ہے کیوں کہ عقل وجود سے موٴخر تر ہے۔“ [22]

2. صادرِ اول میں وحدت اور کثرت
پروکلس کے نقطہٴ نظر سے صادرِ اول کے طور پر وجود کی ایک اہم خوبی وحدت در کثرت اور کثرت در وحدت ہے۔ پروکلس کے فلسفے کا محور یگانگی ہے۔ اس کی دنیا واحد کے کثیر ہونے سے بنی ہے۔ لہٰذا وحدت، وجود کے تمام درجات میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ ہر چیز واحد سے شروع ہوتی ہے اور اسی کی طرف لوٹتی ہے، اور تمام موجودات مبداءِ اول سے اپنی دوری یا قربت کی مناسبت سے وحدت رکھتے ہیں۔
پروکلس کے خیال میں وجود صادرِ اول ہے اور اس لیے مبداءِ اول کے قریب ترین موجود ہے۔ لٰہذا سب سے زیادہ وحدت بھی اسی میں ہے۔ چنانچہ ”الخیرالمحض“ کے باب 4 میں لکھتا ہے: ”پہلی مخلوق تمام مخلوقات میں سب سے عظیم ہے کیونکہ یہ واحدِ حقیقی اور موجودِ محض، کہ جس میں کثرت نہیں ہے، سے قریب ترین ہے۔“ [23] لیکن وجود اور مبداءِ اول میں مرتبے کا فرق یہ ہے کہ وجود، جیسا کہ پروکلس نے کہا ہے، محدود اور لامحدود کا مرکب ہے۔ اس لیے اس کے پاس ایک طرح کی کثرت ہے۔ صادرِ اول کی وحدت اور کثرت کی وضاحت کرتے ہوئے پروکلس لکھتا ہے:
”خلق شدہ وجود اگر واحد ہو تو یہ متکثر ہو جاتا ہے، یعنی کثرت کو قبول کرتا ہے۔ لہٰذا یہ متناہی اور لامتناہی سے مرکب ہے اور یہ بھی کہ جب صورتِ واحد عالمِ سفلی میں مختلف ہو تو ان چیزوں سے حادث ہوتی ہے کہ کثرت میں بے نہایت ہوتی ہیں۔ لیکن وہ جتنا بھی متکثر ہو، دوسری چیزوں سے جدا نہیں ہوتا۔ کیوں کہ یہ فاسد ہوئے بنا متحد ہو جاتا ہے اور مغایر ہوئے بنا متکثر ہو جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایسا واحد ہے جو کثرت رکھتا ہے اور ایسی کثرت ہے جو وحدت رکھتی ہے۔“ [24]

3. مبداء اولی کا وجود سے ماوراء ہونا
مبداءِ اول کے وجود سے بالاتر ہونے کا مسئلہ وہاں سے شروع ہوتا ہے کہ جب واحد (the One)، کہ جس کی توصیف ممکن نہیں، کیلئے افلاطون مجمل اور فلوطین مفصل طور پر استدلال قائم کرتا ہے اور اسے فوقِ ہستی قرار دیتا ہے۔ [25]، [26] افلاطون اسی بات پر اکتفا کر لیتا ہے کہ قابلِ شناخت چیزیں نہ صرف علمیاتی عنوان سے (epistemologically) قابلِ شناخت ہونے اور پہچانے جانے کو واحد یا اصلِ خیر سے کسب کرتی ہیں بلکہ وجود شناسی کی جہت سے (ontologically) ان کا وجود اور ماہیت بھی خیر سے ہے۔ جبکہ خیر عینِ وجود نہیں ہے بلکہ عظمت اور قدرت کے اعتبار سے اس سے بہت بلند ہے۔ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ افلاطون نے وجود کو ایک نسبی کمال سمجھا اور خیر کے ماسویٰ حقائق، بالخصوص معقولات اور مثل، تک منحصر جانا ہے اور اس کے علاوہ محسوسات کی دنیا کے حقیر تر ہونے اور واحد کے وجود سے بلند تر ہونے کی وجہ سے ان دونوں کو وجود کے دائرے سے باہر سمجھا ہے۔ [27] افلاطون کے بعد فلوطین نے واحد کے وجود سے مافوق ہونے پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ پروکلس، فلوطین کی پیروی کرتے ہوئے، مبداءِ اول کو وجود سے بالاتر سمجھتا ہے، لیکن پروکلس اور فلوطین میں فرق یہ ہے کہ پروکلس کے فلسفیانہ نظام میں چونکہ وجود کو صادرِ اول کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ مبداءِ اول وجود سے بالاتر ہو کیونکہ اسے اپنی پہلی تخلیق سے افضل ہونا چاہیے۔

4. صادرِ اول میں وجود کا عقل کی نسبت امتیاز
اپنے فلسفیانہ نظام میں پروکلس مبداءِ اول کو ایسا بسیط سجھتا ہے کہ اس میں تمام موجودات کے کمالات شامل ہیں۔ جیسا کہ وہ اپنی کتاب ”الخیر المحض“ کے باب 23 میں اس بارے میں لکھتا ہے:
”سب اشیاء میں پائی جانے والی پہلی علت یکساں ہے، لیکن تمام چیزیں یکساں ترتیب سے علتِ اول میں نہیں ملتیں۔ اگر علتِ اول ہر چیز میں موجود ہو تو ان چیزوں میں سے ہر ایک اپنے ظرف کے مطابق اسے قبول کرتی ہے۔ کچھ اشیاء اسے بصورتِ واحد قبول کرتی ہیں اور کچھ اشیاء اسے بصورتِ متکثر، کچھ بصورتِ دہری اور کچھ بصورتِ زمانی، کچھ بصورتِ روحانی تو کچھ بصورتِ مادی قبول کرتی ہیں۔ قبولیت میں فرق علتِ اول کی وجہ سے نہیں بلکہ اشیاء کی قابلیت کی وجہ سے ہے اور چونکہ قابلیت مختلف ہے اس لیے قبولیت بھی الگ الگ ہے۔“ [28] لہٰذا عقل کو صادرِ اول کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اصلِ سنخیت کی رو سے صادرِ اول ایسی بساطت کا مالک ہونا چاہئیے کہ اس میں دیگر مخلوقات کے کمالات سما سکیں، یعنی ایک وحدتِ جمعیہ رکھتا ہو۔ جبکہ وجود وحدت در کثرت اور کثرت در وحدت جیسی خصوصیت رکھنے کی وجہ سے مطلوبہ وحدتِ جمعیہ کا مالک ہو سکتا ہے۔

تطبیق

صادرِ اول پر بحث کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ ملا صدرا اور پروکلس دونوں صاحبِ نظام فلسفی تھے، جنہوں نے ایک مخصوص فلسفی نظام کے تحت کائنات اور اپنے اردگرد کی چیزوں کی وضاحت کی۔ دونوں فلسفیوں کی سوچ کے بنیادی ڈھانچے میں مماثلت اس کا سبب بنتی ہے کہ صادرِ اول سمیت کئی موضوعات میں ان کے خیالات کو تطبیق دی جا سکے۔

پروکلس اور ملا صدرا دونوں ایسے فلسفی ہیں جن کی فکری ساخت پر اصالتِ وجود اور وحدتِ وجود کا غلبہ ہے۔ پروکلس کے لیے وجود کے تمام درجات ایک درخت کی شاخوں کی طرح ہیں جو ایک ہی تنے سے نکلتی ہیں۔ [29] ملا صدرا بھی مبداءِ اول کو ایک نور مانتا ہے اور موجودات کو اس کی تجلی سمجھتا ہے۔ نیز اس کے مطابق مبداءِ اول سے فیض کے جریان سے موجودات کو جو چیز ملتی ہے وہ وجود ہے۔ ذیل میں صادرِ اول کی بحث میں دونوں مفکرین کے درمیان شباہتوں اور تفاوت کو بیان کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: عرفانی فلسفے کی بنیادیں کھوکھلی ہیں – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد اسحاق فیاض

مماثلتیں
1. پہلی چیز جو صادرِ اول کے مسئلہ میں پروکلس اور ملاصدرا کے خیالات میں مماثلت کے طور پر بتائی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دونوں اپنے پیشروؤں کے مقابلے میں صادرِ اول کے مسئلہ میں جدت پسند تھے۔ پروکلس سے پہلے کے نوفلاطونی وجود نامی مرتبے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ملا صدرا سے پہلے کے مسلم حکیموں نے بھی عقلِ اول کو صادرِ اول کے طور پر متعارف کرایا۔ اگرچہ وجودِ منبسط کو عرفاء نے ملا صدرا سے پہلے صادرِ اول کے طور پر متعارف کرایا تھا لیکن ملا صدرا نے بحث کو استدلالی رنگ دے کر اس کے فلسفیانہ لوازمات بیان کئے۔
2. دوسری مماثلت قاعدۃ الواحد اور اصلِ سنخیت بینِ علت و معلول پر یقین ہے۔ اس سے پہلے کہا جا چکا ہے کہ فلوطین کی تحریروں میں قاعدۃ الواحد پیش کیا گیا ہے۔ پروکلس بھی اس کی پیروی میں اس اصول پر یقین رکھتا ہے۔ درحقیقت، دوسرے نوفلاطونیوں کی طرح اس کی بنیادی پریشانی بھی یہ ہے کہ وحدت کیسے کثرت بنتی ہے؟ اسی لیے قاعدۃ الواحد اس کی سوچ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ ملا صدرا نے بھی دیگر مسلمان فلسفیوں کی طرح اپنی فکر میں اس اصول سے استفادہ کیا ہے۔
3. دونوں فلسفیوں کی ایک اور اہم مماثلت ان کا قاعدہٴ بسیط الحقیقہ پر عمل کرنا ہے۔ یہ قاعدہ مسلم دنیا میں ملا صدرا نے تجویز کیا ہے اور اس کی کتابوں میں اس کا بار بار استعمال ہوتا ہے۔ پروکلس بھی اپنی کتاب ”اصولِ الٰہیات“ کے باب 98 اور کتاب ”الخیر المحض“ کے باب 23 میں اس اصول پر بحث کرتا ہے، جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔
4. ملا صدرا کے نقطہٴ نظر اور پروکلس کی فکر میں صادرِ اول وجودِ منبسط اپنی وحدت میں عینِ کثرت اور اپنی کثرت میں عینِ وحدت کی اہم خصوصیت رکھتا ہے۔ البتہ اس طرح نہیں کہ یہ ایک پہلو سے واحد اور دوسرے رخ سے کثیر ہو، بلکہ جس جہت سے واحد ہے، اسی سے کثیر بھی ہے۔ لہٰذا یہ واجب الوجود کے ساتھ مطابقت بھی رکھتا ہے اور کائنات کی کثرت کی بھی توجیہ کرتا ہے۔ نیز دونوں فلسفیوں کے نقطہٴ نظر سے وجودِ منبسط کے پاس وحدتِ جمعیہ اور وجودِ سعی ہے، اور یہ تمام مخلوقات میں سریان رکھتا ہے، اور اس خصوصیت کی وجہ سے یہ سب سے زیادہ مبداءِ اول سے مشابہت رکھتا ہے۔

فرق
1۔صادرِ اول کے بارے میں ملا صدرا کی بحث پروکلس کے ہاں اس موضوع کی بحث سے استدلالی اعتبار سے بہتر ہے۔ درحقیقت پروکلس کی بحث پر استدلال کے بجائے توصیفی انداز غالب ہے۔
2. ملاصدرا معتقد ہے کہ واجب الوجود سے صرف ایک ہی چیز پیدا ہوئی ہے اور وہ وجودِ منبسط ہے جو تمام موجودات میں بہہ رہا ہے۔ وہ عقل کے مرتبے میں عقل ہے، نفس کے مرتبے میں نفس ہے، . . . لیکن پروکلس اس پر یقین رکھتا ہے کہ یہ ایک علت و معلول کا سلسلہ ہے جس میں اگرچہ وجود صادرِ اول ہے، لیکن وجود کے بعد عقل ہے اور عقل کے بعد نفس اور پھر طبیعت ہے۔ یہ مراتب صادرِ اول کی نسبت اپنا الگ اور مستقل وجود رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: شیعہ علماء کے لباس میں یونانی تصوف کی ترویج نہ کی جائے۔ آیۃ اللہ سید جعفر سیدان

حوالے:

1. فردریک کاپلستون، تاریخ فلسفہ، تہران، 1388، جلد 1، صفحہ 549
2. گلن مور، پروکلس و نظام فلسفی، 1376: 53
3. مصلح، 1389: 58
4. ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 6، صفحہ 57، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔
5. ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 1، صفحہ 135، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔
6. ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 2 ، صفحہ 332، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔
7. رحیمیان، 2007: 200
8. مصلح، 1389: 219
9. ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 2، صفحہ 331، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔
10. مصلح، 2009: 210
11. ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 1، صفحہ 300 و301، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔
12. ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد2، صفحہ 328، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1981ء۔
مولانا مناظر احسن گیلانی، ”فلسفہٴ ملا صدرا“ (ترجمہ اسفارِ اربعہ)، صفحہ 524، حق پبلیکیشنز لاہور، 2018ء۔

13. ملا ہادی سبزواری ، اسرار الحکم، قم، 1383: 103
14. رحیمیان، 1388: 193
15. اکبریان، 1384: 19
16. خراسانی، 1387: 281
17. خراسانی، 2007: 37
18. بدوی، 1984: 192
19. بدوی، 1977: 6
20. پروکلس، 1964: 123
Proclus, “The elements of theology: a revised text”, edited by: E. R. Dodds, Clarendon Press (1964).
21. پروکلس، 1964: 123
22. پروکلس، 1964: 141
23. بدوی، 1977: 6
24. ایضاً
25. افلاطون، 1368: 384
26. فلوطین، 1366: 5_5_6
27. رحیمیان، 1378: 51
28. بدوی، 1977: 24
29. پروکلس، 1964: 13
ماخذ: سعید رحیمیان، زہرا سکندری، ”صادر اول از دیدگاه پروکلس و صدر المتاٴلہین“، الٰہیات تطبیقی، دوره 4، شماره 10، 2008ء۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button