قدیم فلسفے میں الہٰیات کے بارے موشگافیوں کو مابعد الطبیعیات کہا گیا، اگرچہ ان پر وہی فکری اصول استعمال کئے جاتے تھے جو طبیعیات میں استعمال ہوتے تھے۔ طبیعیات میں یہ اصول دو ہزار سال تک کسی کامیابی سے ہمکنار نہ ہوئے۔ چنانچہ جدید سائنس کی بنیاد ہی ارسطوئی طرز کی لفاظی سے جان چھڑانے کے بعد پڑی، جب خارجی دنیا کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کیلئے ریاضی کی زبان اپنائی گئی۔ مابعد الطبیعیات (Metaphysics) کی وجۂ تسمیہ جناب مرتضٰی مطہری یوں بیان کرتے ہیں:
”ارسطو (متوفیٰ 322 قبلِ مسیح) پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس علم کو ایک مستقل علم کی حیثیت سے کشف کیا اور اسے تمام علوم کے درمیان ایک خاص مقام عطا کیا ہے۔ لیکن ارسطو نے اس علم کو کوئی نام نہیں دیا تھا۔ ارسطو کے بعد ان کے آثار کو ایک دائرۃ المعارف میں جمع کیا گیا۔ چنانچہ ترتیب کے وقت اس حصہ کو طبیعیات سے متعلق مواد کے بعد رکھا گیا۔ چونکہ اس علم کا کوئی نام نہ تھا اسلئے وہ میٹا فزکس، یعنی فزکس کے بعد، کے نام سے مشہور ہو گیا۔ عربی مترجموں نے میٹا فزکس کا ترجمہ مابعد الطبیعہ کیا ہے۔“ (1)
اس معدوم یونانی سلسلے کی آخری کڑی ملا صدرا (متوفیٰ 1641ء) ہیں۔ ان کا فلسفہ فلوطین (متوفیٰ 270ء) سے بہت زیادہ متاثر ہے۔ ان کے معاصرین، گالیلیو (متوفیٰ 1642ء) وغیرہ، نے ہی یونانی طرزِ فکر سے آزادی کی بنیاد رکھ دی تھی۔ ان کی کتاب ”اسفارِ اربعہ“ کافی معروف ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ أَسْفَار، سِفْر کی جمع ہے، اور عربی میں یہ لفظ ضخیم کتابوں کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ اس کے قرآنی استعمال سے ظاہر ہے کہ جہاں یہ لفظ گدھے پر لدی بڑی بڑی کتابوں کے لئے استعمال ہوا ہے:
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا ۚ . (سورہ جمعہ، آیت 5)
بیروت کی جدید طباعت میں یہ کتاب ساڑھے تین ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی بے جا طوالت کا نمونہ ہے۔ اس کتاب میں ملا صدرا نے معادِ جسمانی کے مسائل میں اختلاف کی وجہ سے اپنے دور کے شیعہ متکلمین کے خلاف یوں تو بہت رکیک الفاظ استعمال کئے ہیں، لیکن نادانی میں ایک اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
”یہ لوگ فی الحقیقت صرف بدعت و گمراہی کے علمبردار ہیں، جہال اور کمینوں کے پیشوا ہیں۔ ان کی ساری شرارتیں محض اربابِ دین و تقویٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور علماء کو ہی نقصان اور ضرر پہنچاتے ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ عداوت حکماء کے اس گروہ سے ہے جو ایمان والے ہیں اور فلاسفہ کی جماعت میں جو ربانی ہیں۔ یہ جھگڑے والوں کا وہ طائفہ ہے جو معقولات کے اندر گھسنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی تک انہوں نے محسوسات ہی کا علم حاصل نہیں کیا۔ یہ براہین و قیاسات کو استعمال کرنا چاہتے ہیں حالانکہ ابھی ریاضیات کو بھی انہوں نے درست نہیں کیا ہے۔ یہ الہٰیات پر گفتگو کرنے کیلئے آمادہ ہو جاتے ہیں حالانکہ ابھی یہ طبیعیات کے مسائل سے بھی ناواقف ہیں۔“ (2)
اب جبکہ ملا صدرا کی طبیعیات، یعنی اشیاء کی ترکیب اور صفات، حرکت، نظم، نور، زمان و مکان، زندہ اجسام کی ساخت و حرکیات، دماغ اور نفسیات، جسمانی میراث، زبان، رنگ و بو، زمین و آسمان، وغیرہ کے بارے میں ان کے خیالات مکمل طور پر ردّی ثابت ہو چکے ہیں تو ان کی اس دلیل کی روشنی میں الہٰیات کے معاملے میں ان پر اندھا اعتماد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ آیۃ اللہ جواد تہرانی (متوفیٰ 1989ء) لکھتے ہیں:
”میں جب قدیم فلسفے کو پڑھنے بیٹھا تو ان بزرگوں کی سبھی باتوں پر حسنِ ظن نہیں رکھتا تھا کیوں کہ اس سے پہلے جدید علوم کے ماہرین کے نظریات کی ان پرانے فلسفیوں کی طبیعیات اور فلکیات کے مخالف ہونے کو اجمالی طور پر جان چکا تھا۔ لہٰذا انکی کتابوں کا مطالعہ کرتے ہوئے مختلف نکات کو ذہن نشین کرنے اور ان کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں فیصلہ کرنے کیلئے بہت احتیاط سے غور و فکر کرتا تھا۔ پس جس بات پر کوئی اعتراض میرے ذہن میں آتا تھا اس سے صرفِ نظر نہیں کرتا تھا اور جس بات کے ٹھیک یا نادرست ہونے کا فیصلہ کرنا آسان نہ ہوتا اس کو محض اندھی تقلید میں حسنِ ظن کرتے ہوئے قبول نہیں کرتا تھا۔ گویا میرے ذہن میں یہ بات کھٹکتی رہتی تھی کہ یہ لوگ، جو طبیعیات میں غلط تھے، کیسے ممکن ہے کہ الہٰیات میں خطا سے پاک رہے ہوں؟ بالخصوص بعد میں جب اس بات کی طرف بھی متوجہ ہونے لگا کہ یہ قدیم فلسفی الہٰیات میں بھی آپس میں اختلاف رکھتے ہیں۔ پس سوچتا تھا کہ کیسے پتا چلے گا کہ ان میں کون درست ہے؟ اصل بات جس کا ذکر رہ گیا ہے، یہ ہے کہ میں جوانی سے ہی سچ کی تلاش میں تھا اور خدا کے فضل و عنایت سے صوفیوں کے عقیدۂ توحید کو نہ تو فطرت سے ہم آہنگ پایا نہ ہی یہ قرآن و حدیث کے مطابق نظر آیا۔ ان کی بات کو سمجھنے کیلئے ان تینوں ذہنی فضاؤں سے نکل کر سوچنا پڑا۔ بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ کوئی شخص فطرت اور قرآن و حدیث کے مکتب کا پیرو ہو تو وہ صوفیوں کی توحید کی طرف کبھی آ ہی نہیں سکتا۔“ (3)
قم کے مرجعِ عالیقدر اور حکیمِ ربانی آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی (متوفیٰ 2022ء) فرماتے ہیں:
”ان حضرات نے اپنی تھیوریوں کی بنیاد پر مخلوقات کا فرضی نقشہ بنا رکھا تھا۔ اپنے گمان میں کائنات اور آسمانوں کے مقام کو متعین کر کے حادث و قدیم کا تعلق اور واحد سے کثیر کے صدور کی داستان تدوین کر لی تھی۔ گویا یہ ہر جگہ اور کائنات کے تحولات اور ادوار میں خدا کے ساتھ تھے۔ اس بنیاد پر مجردات اور عقول کی دنیاؤں کا افسانہ گھڑ کر خیالی سلسلے بنا بیٹھے تھے کہ جدید سائنس اور آرٹس کے آنے سے ان کا باطل ہونا پہلے سے زیادہ واضح ہو گیا۔ صحیح راستہ یہ ہے کہ انسان عقائد کے معاملات میں احاديثِ پیغمبرِ صادق صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم پر اکتفا کرے۔“ (4)
نوجوان نسل کو خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”اگر ہماری نوجوان نسل چاہتی ہے کہ نت نئے روشن فکر نماؤں کی گمراہیوں سے محفوظ رہے اور اسلام کے سیدھے دین کو اصلی منابع سے اسی شکل میں سیکھے جیسے وہ پیغمبرؐ پر نازل ہوا ہے، تو یا خود انہی منابع تک رسائی حاصل کرے اور کسی تاویل و توجیہ کے بغیر قرآن و حدیث کی منطق کو حجت جانے، یا اسلام شناس لوگوں سے رجوع کرے جنہوں نے ان منابع میں غور و فکر کر کے مکتب اہلبیت ؑ کو سیکھا ہے۔ ان کو سب جانتے ہیں: ابوذر و مقداد وغیرہ، ابن بابویہ، شیخ طوسی اور ان کے شاگردوں جیسے لوگوں سے لے کر آج کے علماء و فقہاء اور مراجع کرام تک ایک تسلسل ہے۔ ۔ ۔ مروجہ فلسفہ و عرفان پڑھنے والوں کا یہ مقصد کبھی نہیں رہا۔ علاء الدولہ سمنانی، بایزید بسطامی، ابوسعید ابوالخیر اور ایران اور برصغیر کے صوفیوں پر ہوتا تو آج لوگوں کے پاس اسلام نہ ہوتا، اور جو کچھ ہوتا وہ دین و دنیا کے کسی کام نہ آتا۔ شہاب الدین سہروردی، ابنِ فارض اور ابنِ عربی وغیرہ کا دین شناسی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔“ (5)
اہلِ علم جانتے ہیں کہ جدید دور میں عرفانی فلسفے کے پاس بڑے بڑے القاب اور پچھلوں کے جعلی فضائل و کرامات بیان کرنے کے سوا کچھ رہ نہیں گیا ہے۔
مزید معلومات کیلئے: معادِ جسمانی کی وضاحت – مولانا نعمت علی سدھو
حوالہ جات:
1۔ علامہ مرتضٰی مطہری، ”اسلامی علوم کا تعارف – فلسفہ“، صفحہ 19، شہید مطہری فاؤنڈیشن، لاہور، 2014ء۔
2۔ (ا) مولانا مناظر احسن گیلانی، ”فلسفہٴ ملا صدرا“ (ترجمہ اسفارِ اربعہ)، صفحہ 246، حق پبلیکیشنز لاہور، 2018ء؛
(ب) ملا صدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 1، صفحہ 363، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
3۔ آیۃ اللہ جواد تہرانی، ”عارف و صوفی چہ می گویند“، صفحہ 323، نشر آفاق، تہران، 1390شمسی۔
(4) آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی“، صفحہ 107، قم، 1394شمسی۔
(5) آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی“، صفحات 41 تا 42، قم، 1394شمسی۔