مراجع کی تحریریں اور بیانات

نظریۂ وحدۃ الوجود کا رد – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی

97 ملاحظات

بہت سی قرآنی آیات اور صحیح احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خالق، مخلوق سے الگ ہے۔ ان کے درمیان کوئی ذاتی اور حقیقی قدرِ مشترک نہیں ہے اور وہ لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْءٌ ہے۔

اس حقیقت کو اصالتِ وجود کی بنیاد پر کھڑے کئے گئے بعض مروجہ عرفانی اور فلسفی مسالک سے تطبیق نہیں دی جا سکتی۔ لہٰذا ہمہ خدائی کا قائل نہیں ہوا جا سکتا۔ اسی طرح خالق و مخلوق کے تعلق کو دریا و موج یا روشنائی و حرف کے تعلق سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی، نہ اس قبیل کی دوسری اصطلاحات و تشبیہات استعمال کرنی چاہئیں۔

کائنات کی حقیقت اور واقعیت کا منکر نہیں ہوا جا سکتا کیونکہ اس کی کلی اور جزئی واقعیت کو قرآن مجید میں بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ آسمان، کہکشائیں، نظامِ شمسی، پہاڑ، دریا اور انسانوں اور حیوانات میں رہنے والی کروڑوں مخلوقات کے تحققِ واقعی کا انکار کرنا اور یہ کہنا کہ صرف وجودِ مطلق ہے اس کے ظہورات ہیں، صرف مطلق وجود اور اس کے مراتب ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، وجود کے علاوہ حقیقی طور پر کچھ نہیں ہے اور جو اختلاف ہے وہ مراتب میں ہے، درست نہیں۔

وجودِ اشیاء کو وجودِ حق کا غیر کہیں اور ہر چیز کے وجود کو دوسری چیزوں کے وجود کا غیر کہیں، اور ساتھ ساتھ اشتراکِ معنویِ وجود کے بھی قائل ہوں۔ کنہ حق اور کنہ اشیاء کو ان معنوں میں واحد خیال کریں۔ پھر ان سب کی معرفت کے مدعی بھی ہوں اور سب پر تشکیکِ وجود کے تصور کا اطلاق کریں۔ یہ نظریات قرآن و سنت اور شرعی عقائد کے مخالف اور ان کے ساتھ ناسازگار ہیں۔ قرآن کریم سے شیئیتِ اشیاء اور انکی خارجی واقعیت اور تحقق اور ذاتِ الہٰی کے ان سے جدا ہونے اور شباہت سے منزہ ہونے کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔

اسی طرح حادث و قدیم کے ربط کے مسئلے میں، کہ جس میں کلام ممنوع نہ ہو تو لازم نہیں ہے، یہ کہا جائے کہ معاذ اللہ خدا اس مخلوق کے علاوہ کچھ بنانے سے عاجز ہے اور اس پر صدور عالم واجب ہے اور ان کے فرض کردہ عالمِ عقول و مجردات میں وہ کچھ نیا نہیں بنا سکتا اور دنیا ایک مکینیکل کارخانے کی طرح چل رہی ہے۔

اور جیسا کہ انجینئر صرف صنعت گری میں ماہر اور عالم ہوتا ہے اور صنعت کو خاص اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے قائم کرنا جانتا ہوتا ہے، خدا بھی ویسے ہی مخلوق کو خاص ڈھنگ سے بنانے کا پابند ہے اور اسے ترک نہیں کر سکتا۔ اگر اس قسم کی بات ہو، چاہے ڈھکے چھپے انداز میں بیان کی جائے، ظواہرِ مقبولہ اور مسلماتِ قرآن کے خلاف ہے۔

یہ بات کہ یہ دنیا کسی حکمت اور مصلحت کے تحت خلق ہوئی ہے اور خدا احسن الخالقین اور حکیم و علیم ہے، اس بات سے جدا ہے کہ ایجاد و خلقت اس منصوبے کے علاوہ ممکن نہیں، جو ان عارفوں نے بیان کیا ہے، اور اس کے علاوہ کوئی اور سلسلہ نہیں ہو سکتا۔

صادرِ اول اور معلولِ اول اور باقی نقشے جو یہ کھینچتے ہیں۔ صادرِ اول، معلولِ اول، عقلِ اول اور باقی جو کچھ یہ کہتے ہیں، کہ مثلاً خدا محسوسات کو ان کے فرض کردہ وسائل و عوامل کے سلسلے کے خلق نہیں کر سکتا اور، العیاذ باللہ، عاجز ہے۔ یہ خیالات قرآنِ مجید سے تطبیق کئے جانے کے قابل نہیں ہیں۔ ان کا مفہوم عجز کے اثبات اور ان عوالم و مخلوقات اور منصوبوں کا اثبات ہے۔

مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ.

خدا نے تو ان باتوں کی کوئی سند نازل نہیں کی۔ (سورہ یوسف، آیت 40؛ سورہ نجم، آیت 23)

کتاب و سنت کے مطابق خدا خالق ہے اور اس کا مفہوم اس بات کے مفہوم کے مساوی نہیں ہے کہ خدا علت ہے اور علتِ اولی ہے۔ ان بحثوں میں زیادہ پڑنا بعض اوقات عالم کے قدیم ہونے کے عقیدے تک لے جاتا ہے جو بعض علماء کے بقول اجماعِ مسلمین کے مطابق کفر کا موجب ہے۔

ماہر عالمِ دین ملا محمد اسماعیل خواجوئی (متوفیٰ 1760ء) نے آیہ کریمہ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ [وہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ (سورہ ہود، آیت 7)] کی تفسیر میں ایک مختصر رسالہ لکھا ہے۔ اس میں وہ مسلم فلسفے کے ایک بڑے استاد کے اس قول کو رد کرتے ہیں کہ قرآن و حدیث میں <<الْمَاءِ>> سے مراد علم ہے اور وہ مقدس عقل ہے جس میں علم ہے اور <<ارض>> سے مراد نفسِ مجرد ہے کہ جو اس علم و عقل کا حامل ہے۔

وہ فرماتے ہیں کہ یہ تفسیر ظاہری معنوں سے میل نہیں کھاتی، نہ اس پر کتاب و سنت یا عقل سے کوئی تائید لائی جا سکتی ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کے ہمارے محدثین اور مفسرین بھی کبھی قائل نہیں رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے آسمان کا مفہوم ریسمان (رسی) بنا دیا جائے۔

وہ اپنے اعتراض کو مزید وسعت دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر وہ شخص جو عقلِ مجرد کے ہونے کا ذاتاً و فعلاً قائل ہو، وہ غیر اللہ کے قدیم ہونے کا بھی قائل ہے اور چاہے وہ خود کو شیعہ اثنا عشریہ کہے، اس عقیدے کے کفر ہونے پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔

چنانچہ علامہ حلی سے جب ایسے شخص کی دنیا اور آخرت کے بارے میں پوچھا گیا کہ جو توحید، عدل، نبوت، امامت اور قیامت کا عقیدہ رکھنے کے ساتھ ساتھ عالم کے قدیم ہونے کا قائل ہو، تو انہوں نے فرمایا:

من اعتقد قدم العالم فهو كافر بلا خلاف، لأن الفارق بين المسلم والكافر ذلك، وحكمه في الآخرة حكم باقي الكفار بالإجماع.

ہم یہاں بعض آراء کے رد یا اثبات میں پڑنا نہیں چاہتے نہ ہی ان کے قائلین کے بارے میں حکمِ فقہی بیان کرنا چاہتے ہیں۔

حاصل بحث یہ ہے کہ ان موضوعات، کہ جن کے قائلین کسی طریقے سے زمانے کے حادث ہونے کے قائل ہوں یا اس عقیدے کے عواقب کے طور پر زمان تقدیری کے قائل ہوں اور یوں اپنے آپ کو اس جھنجھٹ سے نکال لیتے ہوں، یہ ایسی بحثیں ہیں کہ جن میں پڑنا نہ تو شرعاً واجب ہے نہ عقلاً لازم ہے۔ ان میں غور کرنا خطرے سے خالی نہیں اور ان سے صحیح سلامت باہر آنا حکمت و فلسفے کے اساطین کیلئے بھی یقینی بات نہیں ہے۔

اگر سالک اس راستے پر کسی ایک نکتے میں بھی انحراف اور گمراہی کا شکار ہو تو قصور وار ہو گا۔ (1)

حوالہ جات:

(1) آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی ؓ“، صفحات 26 تا 30، قم، 1394 شمسی۔

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button