مضامین

ابنِ تیمیہ اور تصوف – ڈاکٹر علی رضا ذکاوتی

43 ملاحظات

معروف مصری محقق جناب محمود سعد الطبلاوی کی کتاب ”التصوف فی تراث ابنِ تیمیہ“ میں تصوف کے بارے ابنِ تیمیہ (متوفیٰ 1328ء) کے خیالات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔ پہلی نظر میں یہ کتاب پڑھنے والوں کو عجیب لگ سکتی ہے کیونکہ ابنِ تیمیہ کو ہر کوئی کٹر حنبلی اور متعصب، حتیٰ کہ خشک مزاج، سلفی کے طور پر جانتا ہے۔

اس کتاب میں اس بات پر مفصل بحث کی گئی ہے کہ سلفی حضرات عقائد کے معاملے میں شریعت کے پابند صوفیاء کے ساتھ ہیں، یعنی ان مشائخ اور زہاد کے ہم مسلک ہیں جنہیں صوفیاء کا ”سلفِ صالح“ سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ وہ نکتہ ہے جو حنبلی عالم ابنِ جوزی کی کتابوں ”صفۃ الصفوہ“ اور حتیٰ ”تلبیسِ ابلیس“ کے مطالعہ سے بھی سامنے آتا ہے۔ کیونکہ اس کی صوفیاء پر تنقید بدعتی فرقے کے طور پر ہے، ورنہ وہ اگر شریعت و سنت سے ہم آہنگ ہوں تو اسے ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔

اس یکسوئی میں اہم نکتہ یہ ہے کہ بہرحال ناگزیر طور پر ہر انسان اپنے لئے ایک داخلی زندگی اور مقصدیت رکھتا ہے۔ سطحی ترین افراد میں بھی چار و ناچار کسی حد تک فکر پرواز کرتی ہے اور جذبات حرکت میں آتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: تصوف امامتِ اہلبیت ؑ سے انحراف ہے – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین نوری ہمدانی

اب آئیے کتاب کے مواد پر ایک نظر ڈالیں: سلفیت ”سلفِ صالح“ سے منسوب ہے، جو اصحابِ پیغمبر ؐ، تابعین اور تبع تابعین ہیں۔ ابنِ تیمیہ نے ”سلف“ میں صوفیاء و زہاد کے متقدمین، جیسے سفیان ثوری، عبداللّہ بن مبارک، فضیل عیاض، یوسف بن اسباط، سہل بن عبد اللّہ تستری، بشر حافی، احمد بن ابی الحواری، حارث محاسبی، وغیرہ کے علاوہ بعض ایسے افراد کو بھی شامل کیا ہے جو بعد میں آئے اور مشخصاً صوفی کہلائے۔ جیسے عبد القادر جیلانی (متوفیٰ 1166ء)، ابو عبد اللّہ بن خفیف اور عمرو بن عثمان مکی، وغیرہ۔ (صفحات 12 – 13)

اس کی نظر میں اچھے صوفی وہ تھے جن کی روش یہ ہوتی کہ «صریحِ معقول، صحیحِ منقول کی حدود سے تجاوز نہ کرے»۔ یہ وہ مقام ہے جہاں صوفیاء اور سلفیوں کا متکلمین اور فلاسفہ سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔

ابنِ تیمیہ نے صوفیاء کے بارے میں جو تحریریں اور تصانیف لکھیں وہ کم نہیں ہیں اور وہ خود بھی زہد کی راہ پر چلتا تھا۔ ابنِ تیمیہ کی زہد اور تصوف کے موضوع پر کتابوں میں ”التحفۃ العراقیۃ فی العمال القلبیہ“، ”قاعدۃ المحبہ“، ”کتاب الاستقامۃ“، ”کتاب التصوف“، ”رسالۃ الصوفیۃ و الفقراء“ شامل ہیں۔ (صفحات 31 – 34)

البتہ ابنِ تیمیہ کے ہاں بھی وحدت الوجود کے قائل انتہا پسند صوفیاء کے خلاف فتوے اور رسالے پائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ”الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان“۔ اور بظاہر وہ رسالے جو ابنِ سبعین کے پیروکاروں کے خلاف لکھے۔ لیکن یہ الگ معاملہ ہے اور ان کتابوں میں جن کا ذکر پہلے کیا گیا ہے، ابنِ تیمیہ نے ”مقامات“ اور ”حالات“ کے ساتھ ساتھ اہلِ سلوک کی مخصوص اصطلاحات، جیسے خوف، رجاء، محبت، توکل، اخلاص اور شکر وغیرہ کا بھی ذکر کیا ہے۔ (صفحات 31 اور 181 – 193)

ابنِ تیمیہ نے صوفیوں کو تین گروہوں میں تقسیم کیا ہے: صوفیۃ الحقائق، صوفیۃ الارزاق، اور صوفیۃ الرسم۔ (صفحہ 50) وہ ابو طالب مکی اور ابو حامد غزالی کی کتابوں کی تعریفیں کرتا ہے۔ (صفحات 51 – 52) اسی طرح معمر بن زیاد اصفہانی، ابوبکر کلاباذی اور ابو نعیم اصفہانی کا ذکر احترام سے کرتا ہے کیونکہ وہ قشیری (رسالۃ القشیریہ کے مصنف) کے برعکس بدعت اور خواہشات کی پیروی سے دور تھے۔ (صفحہ 53)

البتہ زہد و تصوف کی کتابوں پر اس کا کلی اعتراض یہ ہے کہ ان میں ضعیف اور من گھڑت حدیثیں آئی ہیں۔ یہ اعتراض بعض فقہی اور حدیثی کتب پر بھی وارد ہوتا ہے۔ (صفحات 56 – 57) اور ابن تیمیہ نے ان پر بھی یہ اعتراض کیا ہے۔

کلامی مسائل میں ابنِ تیمیہ کے سلفی نظریات اور متکلمین کے ساتھ اس کی کشمکش اسے ایک بار پھر زہد و تصوف کے شیوخ کے قریب کر دیتی ہے۔ ابراہیم ادہم، بشر حافی، سہل تستری، عمرو بن عثمان مکی، ابن خفیف، فضیل عیاض، معروف کرخی، ذوالنون مصری، سریّ سقطی اور حتیٰ بایزید بسطامی وغیرہ جیسے پیر اور یہاں تک کہ عبد القادر جیلانی اور عدی بن مسافر۔ واضح رہے کہ آخر میں جن دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ہے، ابنِ تیمیہ ان کے پیروکاروں اور ان سے منسوب افراد، یعنی قادریہ اور یزیدیہ سلسلوں، کا مخالف تھا۔

حلول اور اتحاد کا نظریہ رکھنے والے صوفی، ابنِ تیمیہ کی رائے میں مردود ہیں۔ (نیز جنید کے زمانے تک کے صوفیاء کی رائے میں بھی یہ نظریات باطل تھے)۔ ابنِ تیمیہ کا ابنِ عربی، ابنِ فارض اور ابنِ سبعین کے حامیوں سے بھی جھگڑا تھا۔ بات یہاں تک بڑھی کہ اس کے خلاف حکومتِ وقت کو شکایت کی گئی۔ (صفحہ 87 کے بعد)

کتاب کے مصنف نے جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق اثباتِ صفات کے معرکۃ الآراء کلامی مسئلے میں صوفیوں اور سلفیوں کا موقف ایک ہی ہے۔ (صفحہ 130 سے آگے) اور جو کچھ مشائخ سے سلف کے مسلک کے خلاف نقل ہوا ہے، ابنِ تیمیہ اس کو معتبر نہیں سمجھتا۔ یہی حال بعض احادیث کی تشریح کا بھی ہے، جن سے مشبہہ اور مجسمہ استدلال کرتے ہیں۔ (صفحات 145 اور 151 – 153)۔

سیر سلوک کے مقامات کے معاملے میں ابن تیمیہ نے بو علی سینا کی ”الاشارات والتنبیہات“ کی تائید کی ہے۔ (صفحہ 167) اس نے فناء کے اس تصور کو قبول کیا ہے جسے شہاب الدین سہروردی نے ”عوارف المعارف“ میں بیان کیا ہے۔ (صفحات 172 – 173) لیکن اس کا کہنا ہے کہ ملحدین، منافقین اور مشبہین کا تصورِ فناء، کفر اور گمراہی کا باعث بنتا ہے۔ (صفحات 173 – 175)

وہ ان عاقل افراد کو «ولی» قرار دیتا ہے جو بے خودی اور جنون کے عالم میں تو بے شک تکالیفِ شرعی کی پابندی نہ کریں، لیکن ہوش و حواس میں ہوں تو شرعی ذمہ داریاں بجا لاتے ہوں۔ (صفحات 42 – 45) ابنِ تیمیہ بندے اور خدا کے تعلق میں لفظ ”محبت“ کا استعمال جائز سمجھتا ہے لیکن ”عشق“ کی اصطلاح کو جائز نہیں سمجھتا اور صوفی بزرگوں کی طرف اس استعمال کی نسبت کو قبول نہیں کرتا۔ (صفحہ 192)

یہی معاملہ ”سماع“ کا ہے۔ وہ اپنے ارادے سے اس میں شرکت کو درست نہیں سمجھتا (صفحہ 207)، لیکن اگر اس کو سننے کا ارادہ اور قصد نہ ہو یا اتفاقاً کوئی شخص مجلسِ سماع تک پہنچ جائے، تو پھر اس میں حرج نہیں۔

ظاہر ہے کہ ابنِ عربی کے ”حقیقتِ محمدیہ“، ”ولایت“ اور ”ختمِ ولایت“ جیسے تصورات سے ابنِ تیمیہ اور بزرگانِ تصوف، ہر دو کا مزاج نہیں ملتا۔ (صفحات 236 – 237) ”ولایت“ کا مسئلہ سب سے پہلے حکیم ترمذی نے بیان کیا تھا، لیکن ابنِ عربی نے اس کے مفہوم میں غلو کیا۔ (صفحہ 258)

صوفیوں، سلفیوں اور ابن تیمیہ کے بزرگوں کا خیال ہے کہ اہل بیت ؑ کی محبت، سب صحابہ کا احترام، اور ان کی عصمت کا انکار، اسلام اور مسلمانوں کی روایت ہے۔ اس معاملے میں یہ دونوں ہی شیعوں سے اختلاف رکھتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ابنِ تیمیہ نے اہل تشیع کے خلاف ایک کتاب ”منہاج السنۃ“ لکھی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی کی حدیثِ غدیر، حدیثِ ثقلین اور اہلبیت ؑ کے دیگر فضائل کو چھپانے کی کوشش

ابنِ تیمیہ، وہابیوں اور سلفیوں کے متأخرین کے برعکس (جو ابنِ تیمیہ کو اپنا بڑا بھی مانتے ہیں)، قبور کی شرعی زیارت کو غلط نہیں کہتا۔ وہ رسول اللہ ؐ کی قبرِ پاک کی زیارت کو مستحب قرار دیتا ہے۔ وہ اولیاء کیلئے کرامات کے وقوع کو ممکن سمجھتا ہے۔ یوں اس کتاب میں ابنِ تیمیہ کا ایک ایسا چہرہ نظر آتا ہے جو عام اذہان میں موجود اس کی تصویر سے تھوڑا مختلف ہے۔

منبع: علی رضا ذکاوتی قراگزلو، تصوف در آثار ابن تیمیه، آئینہ پژوہش، شمارہ 9، 1370۔

 

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button