نبوت کے بارے میں امتِ اسلامیہ کا عمومی نظریہ یہ ہے کہ انبیاء ؑ کی دو قسمیں ہیں:
1۔ وہ انبیاء ؑ جو شریعت لائے تھے۔
2۔ وہ انبیاء ؑ جو گذشتہ انبیاء ؑ کی لائی ہوئی شریعت کے مبلغ تھے۔ جیسے بنی اسرائیل کے اکثر انبیاء ؑ نے اپنی قوم میں حضرت موسیٰ ؑ کی لائی ہوئی شریعت کی ہی تبلیغ کی۔
شریعتِ اسلام کے کامل ہو جانے سے تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہو گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ تبلیغی نبوت کا دروازہ بھی بند ہو گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ امتِ اسلامی دو وجوہات کی بنا پر اس سے بے نیاز ہے:
1۔ نبی اکرم ؐ نے امت کیلئے کتاب اور عترت کو چھوڑا ہے اور ان کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا ہے کہ ان سے متمسک رہو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔
2۔ علمائے امت پر فقیہ بننے کے بعد تبلیغ کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ (سورہ توبہ، آیت 122؛ سورہ آل عمران، آیت 104) چنانچہ امت کو تبلیغی نبوت کی احتیاج نہیں ہے۔ [1]
سورہ احزاب کی چالیسویں آیت میں پیغمبر اسلامؐ کو ”خاتم النبیّین“ کے لقب سے یاد کیا گیا ہے جس کی تفسیر یہ ہے کہ آپؐ اللہ کے آخری نبی ہیں۔ اسلام کا کامل دین ہونا (سورہ مائدہ، آیت 3)، اس کے سوا کسی دین کا قابلِ قبول نہ ہونا (سورہ آل عمران، آیت 85)، قرآن کریم کی جامعیت (سورہ نحل، آیت 89)، قرآن کی تحریف ناپذیری (سورہ حجر، آیت 9) اور متعدد احادیث میں حضرت محمدؐ پر نبوت و رسالت کے خاتمے کا اعلان اس تفسیر کے دلائل میں سے ہیں۔
نہج البلاغہ کے خطبہ 232 میں آیا ہے کہ امیرالمؤمنین علی ؑ نے رسول اللہ ؐ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا: «بَاَبِیْ اَنْتَ وَ اُمِّی یا رَسُولَ اللّٰہِ! لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مالم ینْقَطَعَ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ النُّبُوَّةِ وَاْلَانْبَاءِ وَاَخْبَارِ السَّمَاءِ خصَصتَ حَتَّی صِرْتَ مُسَلِّیاً عَمَّنْ سِوَاکَ، وَ عَمَمْتَ حَتَّی صَارَ النّاسُ فیکَ سَوَاءً».
ترجمہ: ”یا رسول اللہ ؐ! میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان ہوں، آپؐ کے رحلت فرما جانے سے نبوت، الٰہی احکام اور آسمانی خبروں کا وہ سلسلہ ختم ہو گیا جو کسی اور نبی کے انتقال سے قطع نہیں ہوا تھا۔ آپؐ کا غم اہلِ بیت ؑ کے ساتھ یوں خاص ہوا کہ ان کے لئے ہر غم میں باعث تسلی بن گیا اور ساری امت کے لئے عام ہوا کہ سب برابر کے شریک ہو گئے۔“
تصوف اور ختمِ نبوت
پیغمبرِ اسلام حضرت محمدؐ کی خاتمیت کی نفی صوفیوں کے رہبروں کیلئے ایک عام سی بات ہے۔ کیونکہ اپنی ولایت اور اقتدار کو ثابت کرنے کے لیے وہ نبوت کا دعویٰ کرنے کا راستہ کھلا رکھنا چاہتے تھے اور ختمِ نبوت کا قطعی عقیدہ ان کے سامنے ایک مضبوط دیوار تھا۔
وہ یہ منوانا چاہتے تھے کہ ان کی ولایت رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمْ کی ولایت جیسی ہی ہے۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کی بیعت اور اطاعت بھی اسی طرح ہونی چاہئے جیسے انبیاء ؑ کی ہوتی تھی۔ لہٰذا انہوں نے خاتمیت کے معنی کو بدلنے اور تفسیر بالرائے سے اس کا انکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی بہانے وہ اپنے کشف و شہود اور الہامات کے دعوؤں کو ثابت کر کے خود کو دوسروں سے افضل بھی ثابت کرنا چاہتے تھے تاکہ سادہ لوگوں کو ذہنی غلام بنا کر اپنی ہوس اقتدار کی تسکین کر سکیں۔
یہ بھی پڑھئے: فتنۂ عرفاء و متصوفہ – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی
کچھ نام نہاد عرفاء کے خیالات
حکیم ترمذی (متوفیٰ 932ء) کہتا ہے: «یظن اَن خاتم النبیّین تأویله أنّه آخرهم مبعثاً فأیُّ منبقبه فی هذا؟ و اَیُّ علم فی هذا؟ هذا تأویل البله الجهلۀ». [2] [3]
ترجمہ: ”یہ جو گمان کیا جاتا ہے کہ خاتم النبیّین کی تاویل یہ ہے کہ آپ مبعوث ہونے کے اعتبار سے آخری نبی ہیں، بھلا اس میں آپ کی کیا فضیلت اور شان ہے؟ یہ کون سی علمی بات ہے؟ یہ تو احمقوں اور جاہلوں کی تاویل ہے۔“
شیخ بالی افندی (متوفیٰ 1553ء) کہتا ہے: «فخاتم الرسل هو الّذی لا یوجد بعده نبیٌّ مُشرعٌ». [4] ترجمہ: ”خاتم الرسل فقط وہ ہے جس کے بعد صاحبِ شریعت نبی نہ آئے۔“
عبد الوہاب شعرانی (متوفیٰ 1565ء) کہتا ہے: «اِعلم ان النبوة لم ترتفع مطلقاً بعد محمد صلّی الله علیه وسلم، انّما ارتفع نبوّة التشریع فقط». [5] ترجمہ: ”جان لو کہ حضرت محمدؐ کے بعد نبوت مطلقاً اٹھا نہیں لی گئی بلکہ صرف اور صرف نبوتِ تشریعی اٹھائی گئی ہے۔“
شیخ احمد سرہندی (متوفی 1624ء)، عرف مجدد الف ثانی، گیارہویں صدی ہجری کا صوفی ہے۔ وہ کہتا ہے: ”بعثتِ پیغمبر کے ہزار سال بعد اسمِ محمدؐ کے میم، جو کہ طوقِ عبودیت ہے، کا اثر زائل ہو گیا اور ولایتِ محمدی، ولایتِ احمدی میں بدل گئی ۔ ۔ ۔ اور الف، جو بقا باللہ کا رنگ چڑھاتا ہے، میم کی جگہ آ گیا اور ناچار محمدؐ، احمد ہو گئے۔“ [6]
عبدالکریم جیلانی (متوفیٰ 1424ء) کہتا ہے: «فانقطع حکم نبوة التشریع بعده و کان محمد صلّی الله علیه و سلّم خاتم النبییّن لأنّه جاء بالکمال ولم یجیء احدٌ بذلک». [7] ترجمہ: ”حضرت محمدؐ کے بعد نبوت تشریعی کا حکم قطع ہوا ہے اور حضرت محمدؐ خاتم النبیّین تھے کیونکہ وہ ایسے کمال کے ساتھ آئے جس کے ساتھ کوئی نہ آیا۔“
دیوبندی فرقے کا بانی قاسم نانوتوی (متوفیٰ 1880ء) لکھتا ہے: ”عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں، مگر اہلِ فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم و تأخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔
۔ ۔ ۔ اہلِ فہم پر روشن ہے کہ زمانہ ایک حرکتِ ارادۂ خداوندی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ محققینِ صوفیہ کرام علیہم الرحمہ تجددِ امثال کے قائل ہوئے۔ ۔ ۔ سو حرکتِ سلسلہ نبوت کیلئے نقطہ ذات محمدی صلعم منتہی ہے اور یہ نقطہ اس سیاق زمانی اور اُس سیاق مکانی کیلئے ایسا ہے جیسا نقطہ راس زاویہ تاکہ اشارہ شناسانِ حقیقت کو یہ معلوم ہو کہ آپکی نبوت کون و مکان اور زمین و زمان کو شامل ہے۔
۔ ۔ ۔ اگر بالفرض بعد زمانۂ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔
۔ ۔ ۔ طبقاتِ تحتانیہ میں وجودِ انبیاء ثابت ہے اور بسبب لاتناہی سلسلہ کے ہر ایک طبقہ میں ایک آخرِ انبیاء بنسبت اس طبقہ کے ہونا ضروری ہے۔ لیکن مطابق عقائد اہلسنت یہ امر ہے کہ دعوت ہمارے حضرت کی عام ہے۔ تمام مخلوقات کو شامل ہے۔ پس اس امر کا اعتقاد کرنا چاہئے کہ خواتمِ طبقاتِ باقیہ بعد عصرِ نبویہ نہیں ہوئے۔ یا قبل ہوئے یا ہمعصر، اور بر تقدیر اتحادِ عصر وہ متبع شریعتِ محمدیہ ہونگے۔ اور ختم انکا بسبب اپنے طبقہ کے اضافی ہو گا۔ اور ختم ہمارے حضرت کا عام ہو گا۔“ [8]
مرزا غلام احمد قادیانی (متوفیٰ 1908ء) کہتا ہے: ”بجز نبوتِ محمدیہ کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیں آ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔ پس اسی بنا پر میں امتی بھی ہوں اور نبی بھی اور میری نبوت یعنی مکالمہ مخاطبہ الہٰیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ایک ظل ہے اور بجز اس کے میری نبوت کچھ بھی نہیں۔ وہی نبوتِ محمدیہ ہے جو مجھ میں ظاہر ہوئی ہے اور چونکہ میں محض ظل ہوں اور اُمتی ہوں اس لئے آنجناب ؐ کی اس سے کچھ کسر شان نہیں۔“ [9]
پدرِ عرفانِ کاذب محیی الدین ابنِ عربی (متوفیٰ 1240ء) کہتا ہے: «فإن النبوة التي انقطعت بوجود رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم إنما هي نبوة التشريع لا مقامها فلا شرع يكون ناسخا لشرعه صلى اللّٰه عليه و سلم و لا يزيد في حكمه شرعا آخر و هذا معنى قوله صلى اللّٰه عليه و سلم إن الرسالة و النبوة قد انقطعت فلا رسول بعدي و لا نبي أي لا نبي بعدي يكون على شرع يخالف شرعي بل إذا كان يكون تحت حكم شريعتي و لا رسول أي لا رسول بعدي إلى أحد من خلق اللّٰه بشرع يدعوهم إليه فهذا هو الذي انقطع و سد بابه لا مقام النبوة». [10]
ترجمہ: ”جو نبوت وجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قطع ہوئی ہے وہ نبوتِ تشریعی ہے، نہ کہ مقامِ نبوت۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے والی کوئی شریعت نہیں ہے۔ نہ آپ کی شریعت میں کوئی نیا حکم شامل ہو گا۔ آپ کے اس قول کا یہی معنی ہے کہ رسالت و نبوت قطع ہوئی اور میرے بعد کوئی رسول اور نبی نہیں آئے گا۔
یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں جو میری شریعت کے خلاف شریعت لائے۔ بلکہ اگر کوئی نبی ہوا تو میری شریعت کے ماتحت ہو گا۔ میرے بعد کوئی رسول نہیں، یعنی میرے بعد کوئی ایسا رسول نہیں آ سکتا جو شریعت لا کر لوگوں کو اس کی تبلیغ کرے۔ پس یہ وہ چیز ہے جو کٹ گئی اور جس کا باب بند ہوا، مقامِ نبوت قطع نہیں ہوا۔“
یہ بھی پڑھئے: عرفانِ نظری اور تفسیر بالرائے – آیۃ اللہ العظمیٰ ناصر مکارم شیرازی
ثقلین سے جدائی، نری گمراہی
خداوند عالم سورہٴ مائدہ کی آیت 67 میں فرماتا ہے: «یا ایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک و ان لم تفعل فما بلغت رسالتہ و اللہ یعصمک من الناس ان اللہ لا یہدی القوم الکافرین».
ترجمہ : ” اے پیغمبر ؐ! آپ اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ پر نازل کیا جا چکا ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہ کریں گے تو گویا آپ نے کارِ رسالت انجام ہی نہیں دیا۔ اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔ بے شک خدا کافروں کی ہدایت نہیں فرماتا۔“
اس آیت میں جس خاص پیغام کو پہنچانے کا حکم آیا ہے وہ امام علی ؑ کی ولایت کا اعلان اور حدیثِ ثقلین ہے جو غیر تشریعی نبوت کے خاتمے کی دلیل بھی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دین امامِ عصر ؑ کے بغیر مکمل ضابطۂ حیات نہیں بن سکتا۔ اس واقعے کو شیعہ سنی محدثین کی کثیر تعداد نے روایت کیا ہے۔ مسلم نے اپنی سند کے ساتھ زید بن ارقم سے نقل کیا ہے:
«قام رسول اللہ ؐ یوما فینا خطیبا بماء بدعی خما بین مکة والمدینة، فحمد اللہ و اثنی علیہ و وعظ و ذکر ثم قال: اما بعد، الا یا ایہا الناس! فانما انا بشر یوشک ان یاتی رسول ربی فاجیب و انا تارک فیکم ثقلین: اولہما کتاب اللہ فاستمسکوا بہ، فحث علی کتاب اللہ و رغب فیہ ثم قال: و اہل بیتی، اذکرکم اللہ فی اہل بیتی، اذکرکم اللہ فی اہل بیتی، اذکرکم اللہ فی اہل بیتی».
ترجمہ: ”ایک روز رسول خدا ؐ مکہ اور مدینہ کے درمیان خم کے مقام پر کھڑے ہوئے اور وہاں پر آپ نے ایک خطبہ دیا۔ اس خطبہ میں حمد و ثنائے الہی اور وعظ و نصیحت کے بعد فرمایا: اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں اور بہت جلدی خدا کا فرشتہ میری روح قبض کرنے کیلئے آئے گا اور مجھے لبیک کہنا پڑے گا۔ میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ ان میں سے ایک اللہ کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے۔ لہٰذا خدا کی کتاب سے تمسک کرنا۔ پیغمبر اکرم ؐ نے کتابِ خدا سے جڑے رہنے کی بہت زیادہ سفارش اور تاکید کی اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی۔ اس کے بعد فرمایا: میرے اہل بیت ؑ، میں تمہیں اپنے اہل بیت ؑ کی سفارش اور تاکید کرتا ہوں اور اس جملہ کو آپ نے تین مرتبہ دہرایا۔“ [11]
حاکم نیشاپوری نے اپنی سند کے ساتھ ابوالطفیل اور زید بن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ؐ مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ درختوں کے پاس کھڑے ہوئے۔ لوگوں نے درختوں کے نیچے جھاڑو لگایا۔ پیغمبر اکرم ؐ نے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور خدا کی حمد و ثناء اور وعظ و نصیحت کے بعد ارشاد فرمایا:
«ایہا الناس! انی تارک فیکم امرین لن تضلوا ان اتبعتموہما و ہما کتاب اللہ و اہل بیتی. ثم قال: اتعلمون انی اولی بالمومنین من انفسہم؟ (ثلاث مرات) قالوا: نعم. فقال رسول اللہ ؐ: من کنت مولاہ فعلی مولاہ».
ترجمہ: ”اے لوگو! بیشک میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ اگر ان دونوں کی پیروی کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے: کتابِ خدا اور میرے اہل بیت ؑ۔ پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں مومنین کی جانوں پر ان سے زیادہ ولایت رکھتا ہوں؟ آپ اس سوال کو تین مرتبہ دہرایا اور سب نے کہا: جی ہاں۔ پھر رسول خدا ؐ نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی ؑ بھی مولا ہیں۔“ [12]
یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی کی حدیثِ غدیر، حدیثِ ثقلین اور اہلبیت ؑ کے دیگر فضائل کو چھپانے کی کوشش
متعدد احادیث میں آیا ہے کہ پیغمبرؐ کے بعد آپ ؐ کے جانشینوں کی تعداد بارہ ہے جو سب کے سب قریش سے ہیں۔ شیعہ کتب میں آئمہ اثنا عشر ؑ کے نام بھی آئے ہیں۔ سنی محدثین کے ہاں بھی یہ حدیث متعدد راویوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے۔ مثلاً مسلم و بخاری نے جابر سمرۃ سے نقل کیا ہے کہ: میں اپنے والد کے ساتھ پیغمبر ؐ کے پاس گیا اور آپؐ کو فرماتے سنا: «إنّ هذا الدین لا ینقضي حتّی یمضي فیهم اثنا عشر خلیفة. اس دین کو اس وقت تک زوال نہیں آئے گا جب تک اس میں بارہ خلیفہ نہ آ جائیں» پھر پیغمبرؐ نے کچھ فرمایا جو میں نہیں سن سکا۔ میں نے اپنے والد سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ پیغمبر ؐ نے فرمایا: «کُلّهُم مِن قُرَیش. سب کے سب قریش سے ہونگے»۔ [13]
پیر پرستی کا فتنہ
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ بعض لوگ حدیثِ ثقلین سے انحراف کرتے ہوئے پیروں کو معصوم سمجھتے ہیں اور ان کی خیال بافی کو دینی معارف کا مآخذ سمجھتے ہیں۔ یہ ذہنی غلامی کی بدترین شکل ہے۔ مثال کے طور پر ابنِ عربی کے پیروکار ملا صدرا صوفیوں کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
«و أما العارف الرباني فمأمون من الغلط معصوم من معاصي القلب إذ كل ما يقوله حق و صدق حدثه قلبه عن ربه و قد مر أن الفهم لا ينفك عن الكلام الوارد القلبي.»
ترجمہ: ”لیکن عارفِ الہٰی غلطی سے محفوظ اور قلبی گناہ سے معصوم ہوتا ہے۔ پس وہ جو کچھ کہتا ہے حق اور سچ ہے۔ اس کا دل خدا کی بات کرتا ہے اور جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، فہم قلبی واردات سے جدا نہیں ہوتا۔“ [14]
یہ بھی پڑھئے: جوان معرفت اور سیر و سلوک کے نام پر دھوکہ نہ کھائیں – آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی
حوالہ جات
1۔ آیۃ اللہ العظمیٰ جعفر سبحانی، بحوث فی الملل و النحل، مؤسسہ امام صادق ؑ، ج ۶؛ ص ۴۵۴، ۴۵۵؛ ۱۴۲۴ قمری، قم۔
2۔ حکیم ترمذی، ختم الأولياء، ص ۳۴۱، المطبعۃ الکاثوليکيۃ، بیروت۔
3۔ طارق انور مصباحی، حکیم ترمذی اور مسئلہ ختم نبوت، ص ۷، اعلیٰ حضرت ایجوکیشنل اینڈ کلچرل سوسائٹی، کلکتہ۔
4۔ بالی آفندی، شرح فصوص الحکم، ص ۵۶، مطبعۃ العثمانيۃ، ۱۳۰۹ قمری۔
5۔ الیواقیت و الجواہر، ج ۲، ص ۳۹۔
6۔ شیخ احمد سرہندی، مکتوباتِ امام ربانی، دفتر سوم، مکتوب ۹۶۔
7۔ الانسان الکامل، ج۱، ص ۷۶۔
8۔ قاسم نانوتوی، تخذیر الناس؛ صفحات ۳، ۲۳، ۲۴، ۳۳، ۴۸؛ مطبع تقی بریلی۔
9۔ مرزا غلام احمد قادیانی، روحانی خزائن، ج ۲۰، ص ۴۱۲۔
10۔ ابنِ عربی، فتوحات مکیہ، ج ۲، ص ۳، دار صادر، بیروت۔
11۔ صحیح مسلم، ج ۷، ص ۱۲۲۔
12۔ مستدرک حاکم، ج ۳، ص ۱۱۰۔
13۔ صحیح بخاری، ج 8، ص 127؛ صحیح مسلم، ج 6، ص ۳۔
14۔ ملا صدرا، مفاتیح الغیب، جلد ۱، صفحہ ۷۲، انجمن اسلامى حكمت و فلسفہ ايران، تہران، ۱۳۶۳ ش۔