وحدتِ عددی کی نفی اور توحید کی معرفت – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی
توحید اور وحدتِ عددی
ایک نام نہاد ”اہلِ نظر“ نے دعویٰ کیا ہے کہ توحید کے بارے میں اصحابِ معصومین ؑ، علمائے کرام، متکلمین اور ابنِ سینا جیسے عظیم مشائخ کی رائے، اس کے مطابق، ”وحدتِ عددی“ ہے اور یہ رائے ہجرت کے ایک ہزار سال بعد تک موجود تھی اور وہ سب کے سب اس رائے پر تھے۔ اگرچہ حضرت امیر المومنین ؑ اور سید الموحدین ؑ کے معجزاتی فرامین میں خالص اور حقیقی توحید اور خالص وحدت کا اظہار ہوتا ہے، لیکن دسویں ہجری تک ان عظیم صاحبانِ علم و معرفت میں سے کوئی بھی اسے نہیں سمجھ سکا۔ (طباطبائی، تفسیر المیزان، ج ۶، ص ۱۰۴)
یوں یہ صاحب تمام اصحابِ معصومین ؑ، علمائے بزرگ، اکابرِ متکلمین اور مشائخ کو توحید، کہ جو سبھی معارف کی بنیاد ہے، کے معاملے میں جاہل اور غیر موحد کے طور پر متعارف کرواتے ہیں۔ (نوٹ: احادیث میں ہے کہ خدا کی وحدت عددی نہیں ہے: الأَحَدُ لاَ بِتَأْوِيلِ عَدَد۔ نہج البلاغہ، خطبہ 150)۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس مسئلہ کا جائزہ لینے کے لئے ہم اس مشہد مقدس میں آئے ہیں کہ جس کے بارے میں بات کرنا مکتبِ اہل بیت ؑ میں پرورش پانے والے بزرگوں کا حق ہے۔ ہم بھی کچھ فیض حاصل کرنے کیلئے اس بارگاہ کے کفش خانے میں بیٹھ رہے ہیں۔
بود کہ صدر نشینان بارگاہ قبول
نظر کنند بہ بیچارگان صف نعال
آئیے ہم اس توحید سے آشنا ہو جائیں جو ان بزرگوں نے سیکھی تھی اور اسے عقل، دلیل، وحی اور قرآن کی رہنمائی کی بنیاد پر اپنی قابلیت اور بصیرت کی حد تک پرکھتے ہوئے اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا اس کا عددی وحدت کے ساتھ کوئی ربط بنتا ہے؟ اور اس توحید سے آشنا ہوں جسے یہ اہلِ نظر (ملا صدرا کے پیروکار) دسویں صدی ہجری تک کے اکابر علماء کی نگاہ سے پوشیدہ سمجھتے ہیں۔ وما توفیقی الا بااللہ علیہ توکلت و الیہ انیب [ترجمہ: ”اور توفیق اللہ کی طرف سے ہی ہے، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور اسی کی طرف میں توبہ کرتا ہوں“۔]
جان لیجئے کہ اس عارف کی نظر میں وحدتِ عددی سے مراد وہ وحدت ہے جو کثرت سے مشابہ ہے اور جس میں کسی بھی واحد کو دوسری چیزوں سے الگ تھلگ اور الگ تصور کیا جائے اور اس کا غیر بھی اس کے ساتھ تصور کیا جا سکے۔ مثلاً وجودِ خدا کی وہ شناخت جس کے نہ صرف اکثر لوگ قائل ہیں بلکہ وہ عقیدہ آیات و روایات کے ظاہری معنوں کے مطابق بھی ہے کہ خدا پر اس کے غیر اور ممکنات و مخلوقات کا قیاس درست نہیں جیسا کہ اس کے غیر پر بھی اس کا قیاس درست نہیں، وہ تمام اشیاء سے مختلف ہے اور تمام چیزیں اس سے مختلف ہیں۔
اس وحدت کے مقابلے میں یہ وحدت صرفہ حقیقیہ کا تصور پیش کرتے ہیں جسے لا محدود کہا جاتا ہے۔ اس میں تمام محدودات اور سب کچھ شامل ہے۔ وہ سب کچھ ہے مگر ان میں سے کسی ایک کو اس کا مصداق نہیں کہا جا سکتا کیونکہ لا محدود کو محدود قرار دینا ناممکن ہے۔ ہر ایک محدود اکائی کا ایک ہونا ”وحدتِ عددی“ ہے لیکن غیر محدود اکائی حقیقی وحدت ہے۔ محدود اکائی کے ساتھ دوسری اکائی فرض کرنا جائز ہے، لیکن غیر محدود وحدت کے ساتھ کسی اور کو فرض کرنا جائز نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ لفظِ ”اللہ“ کے مفہوم سے دیگر موجودات اور اشیاء سے الگ وجود کا پتا بھی ملتا ہے جو سب کا غیر ہے اور سب اس سے جدا ہیں، اور یہ توحید اور وحدت، کثرت سے متصادم نہیں ہے اور وجودِ حق اور حقِ وجود کو خدا میں منحصر نہیں کرتی۔ یہ حقیقی وحدت کے بر خلاف ہے جو کثرت کی نفی کے مترادف ہے اور جس چیز پر عرفاء اور فلاسفہ ہزار سال بعد از ہجرت پہنچے۔ یہی توحید کا مفہوم ہے جو قاہر، قہار اور غالب ہے۔ وحدتِ عددی غیر کو اس سے الگ سمجھنے کی وجہ سے محدودیت کا شکار ہو جاتی ہے۔ یہی حدِ وحدت اس میں رخنہ پیدا کرتی ہے۔
سادہ لفظوں میں وہ وحدتِ وجودِ شخصی کا پرچم بلند کرنا چاہتے ہیں اور ”لیس فی الدار غیرہ دیار“ کا نعرہ لگانا چاہتے ہیں۔ [حاشیہ: گھر میں اس کے سوا کوئی نہیں ہے۔ (اسفار جلد 2، صفحہ 292؛ دیوان منصور حلاج، 146؛ اشعہ اللمعات، 185؛ بستان السیاحہ، 373)]
اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ ہر وہ اکائی جس کی صفت یہ ہو کہ وہ خود ہی ہے اور اس کا غیر وہ نہیں ہے اور اس سے الگ ہے، تو اس کی وحدت، وحدتِ عددی ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں ایک ایسی وحدت ہے جو صرف وحدت ہے اور اس کا کوئی غیر اس سے الگ نہیں ہے۔ [حاشیہ: با عدم لحاظ تعین و تقید غیر] حالانکہ وہ ان اغیار میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہے۔ [حاشیہ: بلحاظ تعین و تقید غیر]
دوسرے لفظوں میں قاعدہ ”بسیط الحقیقۃ کل الاشیاء و لیس بواحد منہا“ (اسفار : جلد 6، صفحہ 110) کے تحت یہ کہا جاتا ہے کہ حق کے وجود سے کوئی چیز حق سے مسلوب اور اس کا غیر نہیں ہے۔ سب اس کے گھیرے میں ہیں اور وہ سب کو گھیرے ہوئے ہے۔ سب مملوک ہیں اور وہ سب کا مالک ہے۔ سب اس کے تابع ہیں اور وہ حاکم ہے اور وہ سب پر وجودی احاطہ رکھتا ہے۔ وہ واحد اور یگانہ ہے۔ حالانکہ وہ اشیاء میں سے کوئی ایک نہیں لیکن سب وہ ہیں اور اس کا غیر نہیں ہیں۔ البتہ وہ ان میں سے کوئی ایک نہیں ہے۔
وہ ان میں سے ہر ایک سے مختلف ہے لیکن یہ اس سے مختلف نہیں ہیں۔
آخر میں اس قسم کی بات کرتے ہیں کہ گویا سابقہ توضیحات سے ان کی مراد پوری نہیں ہوئی تھی، وہ کہتے ہیں کہ اس مفہوم کے علاوہ کوئی بھی بات عددی وحدت بن جاتی ہے۔ خدا کی وحدت، وحدت صرفہ، بالذات، غیر محدود اور غیر متناہی ہے۔ اشیاء کے وجود کو اس سے الگ سمجھنا اس کے وجود کو محدود اور اس غیریت کا پابند بنا دیتا ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ مثلاً دسویں صدی ہجری تک اصحابِ معصومین ؑ، بڑے بڑے علماء، متکلمین اور حکماء میں سے کسی نے بھی توحیدِ خداوندی کے معنی کو نہیں سمجھا۔ جو توحید اور عدمِ تعدد و تکثر انہوں نے بیان کیا، اگر وہ اس توحید کہ جس میں غیرِ خدا کے امکان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہو، توحید نہیں ہے۔
ہر وحدت کہ جس میں غیر کو واحد سے جدا کیا جائے، وحدت نہیں ہے۔ چاہے وہ اصالتِ وجود اور تشکیک و مراتبِ وجود کی بنیاد پر ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اس کے مطابق بھی نچلی سطح کے وجود کا وجود، حق کے وجود سے مختلف ہے اور اس سے جدا ہے۔ موجودات میں رتبہ، شدت و ضعف اور علیت و معلولیت کی بنیاد پر اشتراک یا اختلاف کا قائل ہونا بھی وحدتِ عددی کی غلطی سے دوچار کر دیتا ہے۔ [حاشیہ: البتہ یہ اعتراض بھی ظاہری معنوں سے پیدا ہوتا ہے ورنہ در حقیقت یہ اصالتِ وجود جیسی باتیں وحدتِ وجود کے مغالطے میں گرفتار کرتی ہیں۔] لہٰذا بظاہر سید احمد کربلائی کا محقق اصفہانی پر یہی اعتراض تھا کہ اس مفہوم کی رو سے وحدتِ حق عددی ہو گی اور غیرِ خدا قابلِ تصور ہو گا۔
یہ وہی وحدتِ شخصی وجود اور متعینات کے غیر حقیقی اور اعتباری ہونے اور اللہ تعالٰی کے حقیقی ہونے کا نظریہ ہے۔ اور یہ کہ زمین و آسمان، پتھر، بارش، انسان، فرشتے اور حیوانات وغیرہ اس سے جدا نہیں ہیں۔ وجودات متعینہ کی اس سے جدائی مختلف تعینات کی صورت ہے کہ وہ ان میں سے ایک نہیں اور یہ بھی حقیقی چیزیں نہیں ہیں، اور اگر انکی کوئی حقیقت ہے تو سبھی وہ ہی ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے، ”ولیس فی الدار غیرہ دیار“۔
جو کچھ ہے اور حقیقت جو بھی ہے، وہی ہے اور جو غیر حقیقی اور اعتباری ہے وہ، وہ نہیں ہے اور وہ اس پر متعین نہیں نہ اس اعتبار پر صادق آتا ہے۔ بہر حال، یہ جتنی بھی لطیف اور دقیق تعبیرات استعمال کریں، وحدتِ شخصی وجود اور یہ والی توحید ہی ہے جو انکے مطابق اصحابِ معصومین ؑ اور علماء و حکمائے بزرگ کو سمجھ نہیں آئی تھی اور اہلِ مکاشفہ و شہود اس تک پہنچے ہیں۔
ہمارا یہ کہنا ہے کہ اس بات کی خواہ کوئی تشریح کی جائے، قرآن اور انبیاء کی دعوت سے یہ مفہوم ظاہر نہیں ہوتا اور کسی کا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ توحید جو مذہب کی بنیاد ہے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت خاتم علیہ السلام تک انبیائے کرام نے پہنچائی، دسویں صدی ہجری تک سب کے لیے راز ہی رہی، اس کو واضح نہیں کیا گیا اور ہر کوئی گمراہی میں مبتلا رہا اور اس معاملے میں انبیاء کی بعثت دسویں صدی ہجری تک لاحاصل رہی۔
قرآن اور تمام انبیاء کی دعوت سے بار بار یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مخلوق اور خالق جدا ہیں۔ بت، مسیح اور وہ جن کو خدا کے سوا پوجا جاتا ہے، واقعیت رکھتے ہیں۔ وہ خارج میں حقیقی وجود رکھتے ہیں اور اللہ سے الگ ہیں۔ ان کی دعوت سے مکرر «وحدۃ الموصوف بالخالقیۃ و الرازقیۃ و من لہ الاسماء الحسنی» ظاہر ہوتی ہے اور اس کے غیر کی الوہیت کا عدم ظاہر ہوتا ہے: «لکونہ موصوفاً بما یضادّ ھذہ الاسماء من العجز والجھل»۔
«لا الہ الا اللہ» ہر اس چیز کی ’الوہیت‘ کی نفی ہے جو یہ صفات نہ رکھتی ہو اور اللہ کی ’الوہیت‘ کا اثبات ہے کہ جو یکتا ہے، ایسا کہ اس کا شریک، عدیل یا مثل و نظیر نہیں ہے۔ اسکی حقیقت کلیت و جزئیت کے وصف سے بے نیاز ہے۔ ہر کوئی اس سے مختلف ہے اور وہ ہر ایک سے مختلف ہے۔ جیسا کہ سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور انکا ایک دوسرے پر اطلاق نہیں ہوتا۔
یہ وہ توحید ہے جو انسانی سمجھ سے بالاتر نہیں ہے، اور انبیاء نے اس کا پرچار کیا، اور اس کو سمجھنا ممکن ہے۔ چاہے آپ اسے عددی وحدت کہیں یا دوسرے فرد کے اس انکار کو، کہ جو سبھی کلی حقائق کی طرح ذاتِ افراد نہیں، عددی نہ سمجھیں، یہ توحید ہے۔ بہرحال قرآن سے حاصل ہونے والی توحید میں غیر اللہ کا اثبات مخلوق، مرزوق، فقیر، جاہل، عاجز، مملوک، «العزیز بہ»، «الزلیل لہ»، بتوں، دوسرے معبودوں، فرشتوں، وغیرہ کے طور پر ہوتا ہے۔ توحیدِ ذات و صفات سے نہ تو پوری کائنات اور مخلوقات کی نفی مقصود ہے نہ اسکے غیر کو وہ نہ سمجھنا مضر ہے۔
مثال کے طور پر اللہ تعالٰی کے اس ارشاد «اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضِ» [حاشیہ: کیا اللہ کے بارے میں کوئی شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟(سورہ ابراہیم آیت 10)] میں خدا کی توحید اور وحدانیت کے ساتھ ساتھ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور ان کا وجود اور تحقق بھی ثابت ہے۔ یہ نہیں کہ وہ ان میں سے ہر ایک سے جدا ہو اور ان میں سے کوئی بھی اس سے جدا نہ ہو۔ کیا کوئی اس آیت کریمہ الفطر سے یہ مفہوم نکال سکتا ہے کہ آسمان و زمین خدا سے جدا نہیں ہیں؟
ان حضرات سے ہماری درخواست ہے کہ خدا کیلئے آپ اس کشف و شہود کو اپنے پاس رکھیں جن کا دعویٰ آپ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے کرتے ہیں۔ مسلمانوں، قرآن کے ماننے والوں اور ان لوگوں کو جو آپ کے مطابق کشف و شہود کے درجے تک نہیں پہنچے ہیں، اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ انہیں اپنے دنیا و آخرت کے کام کرنے دیں، اور جہاد، امر بالمعروف و نہی عن المنکر اور شرعی ریاضت سے نہ روکیں۔ توحید کے اس مفہوم، جو بعض محققین کے بقول یہود و نصارٰی، مجوسیوں، بلکہ بت پرستوں تک کے ہاں پایا جاتا ہے، کی تبلیغ نہ کریں اور اپنے تک رکھیں حتیٰ یکشف لکم ماتقولون۔
[حاشیہ: محمود شبستری کہتا ہے:مسلمان گر بدانستی کہ بت چست
بدانستی کہ دین در بت پرستی است
وگر مشرک زبت آگاہ گشتی
کجا در دین خود گمراہ گشتی
گلشن راز: 88]
حاصلِ کلام یہ کہ ذاتِ خدا کی وحدت شرک کی متضاد ہے، خدا کے غیر کے موجود ہونے کی متضاد نہیں ہے، چاہے اس کا نام وحدتِ عددی رکھتے پھریں۔ توحید کے معاملے میں اسلاف اور بزرگانِ دین گمراہ نہیں ہوئے۔ ان کی الہٰیات اور توحید، قرآن اور اہل بیت کی ہدایت سے ماخوذ ہے۔
مثال کے طور پر «لَوْ كَانَ فِيْـهِمَآ اٰلِـهَةٌ اِلَّا اللّـٰهُ لَفَسَدَتَا» [حاشیہ: ”اگر ان دونوں (آسمان اور زمین ) میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو دونوں تباہ ہو جاتے“ (سورہ انبیاء، آیت 22)] اور ہدایت کیلئے کافی ایک اور آیت «مَا كَانَ مَعَهٝ مِنْ اِلٰهٍ ۚ اِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ اِلٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ» [حاشیہ: ”نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہی ہے، اگر ہوتا تو ہر خدا اپنی بنائی ہوئی چیز کو الگ لے جاتا اور ایک دوسرے پر چڑھائی کرتا“ (سورہ مومنون، آیت 91)] سے کائنات کی مدیریت، خلق، رزق، موت، حیات اور تمام تصرفات میں شریک کی نفی کا مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ غیر خدا کی نفی کا، اور آپکے لفظوں میں وحدتِ عددی کی نفی کا، مفہوم ظاہر نہیں ہوتا۔
[حاشیہ : پوشیدہ نہ رہے کہ وہ عددی وحدت جس کی یہ جماعت نفی کرتی ہے، اس عددی وحدت کے علاوہ ہے جس کی احادیث مبارکہ اور اہل بیت کی زبان میں نفی کی گئی ہے: «اِنَّ ما لا ثانِیَ لَہُ لا یَدخُلُ فی بابِ الاَعدادِ» ”جس کا کوئی ثانی نہیں ہے وہ اعداد کے باب میں شامل نہیں ہوتا“۔ (کتاب توحید : 83 / ح 3، خصال : 2/ ح1، معانی الاخبار : 6، بحارالانوار : 3/ 208) یا «اللہ واحِد واحِدیُّ المَعنی وَ الاِنسانُ واحِد ثَنَویُّ المَعنی» ”اللہ ایک ہے اور وہ معنی میں یکتا ہے، اور انسان ایک ہے اور معنی میں دوگانہ ہے“ (کفایۃ الاثر : 12، بحار الانوار : 3 / 304 ، 36/ 283 / ح 106) یا «ھُو واحِد لا واحِدَ غَیرُہُ» ”وہ یگانہ ہے، اس کے سوا کوئی یکتا نہیں“ (کافی : ۱ / ۱۱۹ ، توحید : ۶۲ ، عیون اخبار الرضا : ۱ / ۱۲۸ ، بحار الانوار : ۶ / ۱۸۳ / ح ۲ ، ۵۸ / ۱۰۵ )۔ اور باقی تعبیریں بھی انہی جیسی ہیں۔کیونکہ عددی وحدت کی اس نفی کے دو معنی ہیں: ایک یہ کہ خدا ایک ہے اور دو چیزوں پر مشتمل نہیں ہے اور اس کے حصے، جہتیں اور ٹکڑے نہیں ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس کی اپنی ذات منفرد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں کہ جس کے ساتھ اسے شمار کیا جا سکے۔ مثلاً: ایک انسانی فرد یا جانور یا کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز جس میں تعدد اور تکثر ہو، وہ شمار ہوتے ہیں۔ ایک، دو، تین، چار، اور ان میں سے ہر ایک کو پہلے نمبر پر رکھا جا سکتا ہے۔
خدا وہ ہے جس کا دو یا دوسرا نہیں ہے۔ وہ عددی معنوں میں ایک نہیں، یعنی اس جیسا کوئی دوسرے نمبر پر نہیں ہے۔ وہ اس انسانی فرد کی طرح نہیں ہے جو پہلے نمبر میں شمار کیا جائے، اور اس کا دوسرا، تیسرا ۔ ۔ ۔ نمبر بھی ہو سکتا ہو۔ زید اور عمر، یہ پودا، وہ پتھر، سب اپنے جیسے دوسرے بھی رکھتے ہیں۔ لیکن خدا جیسی دوسری اکائیاں نہیں ہیں کہ وہ ان میں سے ایک ہو۔ احادیث کی زبان میں اس عددی وحدت سے منع کیا گیا ہے، یہ مثل و شریک کی ممانعت ہے۔
در اصل یہ جو ہم کہتے ہیں کہ وحدتِ عددی کا جو معنی یہ فرقہ مراد لیتا ہے اس کی ممانعت نہیں آئی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا کے غیر کا وجود اس کے ساتھ لازم ہے، بلکہ اسکا معنی اس کے غیر کا اس کے ساتھ ممکن الوجود ہونا اور اس کی وحدت کے اس کے غیر سے ادغام کا نہ ہونا ہے۔ «فکان اللہ و لم یکن معہ شئی و الان معہ شئی لا فالآن کما کان و لیس معہ شئی فتامل جیدا» ”پس خدا تھا اور اس کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا، اور اب اس کے علاوہ کچھ ہے، یہ نہیں کہ اب بھی جیسا وہ پہلے تھا ویسا ہی ہو اور اس کے ساتھ کچھ نہ ہو۔ پس سنجیدگی سے سوچیں“۔
اور مخفی نہ رہے کہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور وحدانیت کے علم اور عقائد کے اس اہم معاملے میں بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ: جس بات کی طرف انبیاء نے دعوت دی، قرآن کریم جس کا ذکر کرتا ہے، جو صریح احادیث اور مسلمانوں کے فرقوں، فلسفیوں اور ماہرینِ الہٰیات کے نظریات میں آئی ہے، یہی بات ہے کہ جسے یہ فرقہ وحدتِ عددی کہہ رہا ہے۔ یہی وہ مفہوم ہے کہ جسے عقلی طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے اور جو انبیاء کی دعوت اور دین کے منصوبے کی بنیاد ہے۔ خلق، خالق، مخلوق، رازق، رزق، مرزوق، فرشتوں اور سب مخلوقات کے وجود کی واقعیت پر ایمان کی بنیاد اسی پر ہے۔ آیات و احادیث اور اصحابِ معصومین، بزرگانِ دین اور علماء و مشائخ کی آراء اس مفہوم سے متفق ہیں۔
لیکن وحدتِ وجودِ صرف و شخصی کا نظریہ، جو بعض کے مطابق دسویں صدی ہجری تک بیان نہیں ہوا تھا، ایک اور قسم کا تصورِ کائنات ہے اور ایک مخصوص مکتبِ فکر اسکی پیروی میں قائم ہو چکا ہے۔ یہ ان عقائد سے میل نہیں کھاتا: «وَفِى الْاَرْضِ اٰيَاتٌ لِّلْمُوْقِنِيْنَ وَفِىٓ اَنْفُسِكُمْ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ» ”اور زمین میں یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں اور خود تمہاری نفسوں میں بھی، پس کیا تم غور سے نہیں دیکھتے“ (سورہ ذاریات، آیات ۲۰ اور ۲۱) اور «اَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَيْرِ شَىْءٍ اَمْ هُمُ الْخَالِقُوْنَ» ”کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہو گئے ہیں یا وہ خود خالق ہیں“ (سورہ طور، آیت ۳۵)۔
اہم نکتہ یہ ہے کہ توحید اور الہٰیات میں فارابی اور ابنِ سینا جیسے فلسفی اسی عددی وحدت کے قائل رہے ہیں۔ جو چیز عقلی اور منطقی استدلال سے ثابت کی جا سکتی ہے وہ یہی وحدت ہے جسے یہ عارف عددی کہتے ہیں۔ علمِ حصولی کے میدان میں صرف اسی وحدتِ عددی کی تصدیق ممکن ہے اور صرف اسی کیلئے عقلی دلیل پیش کی جا سکتی ہے۔ اور اس علمی اور استدلالی مکتب کے مقابلے میں وحدتِ وجودِ صرف و شخصی کا مکتب ہے جسے استدلال یا علمی اور منطقی طریقہ کار سے پرکھا اور سمجھا نہیں جا سکتا۔
جو لوگ اسے قابلِ فہم سمجھتے ہیں ان کے مطابق اسے صرف اس ذوقی اور شہودی راستے سے سمجھا جا سکتا ہے جو اصالتِ وجود پر مبنی ہے۔ اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو ان عام اور سیدھے طریقوں سے نہیں سمجھا جا سکتا کہ جن کے ذریعے فلاسفہء مشاء، متکلمین اور موحدین کے عوام و خواص عددی توحید کو ثابت اور اسکی تصدیق کرتے ہیں۔ وہ مسائل شہود جیسے شخصی تجربات کے بغیر قابلِ فہم نہیں ہیں۔ چنانچہ سب کو وجود اور وحدتِ شخصی وجود کو درک کرنے کیلئے یا علمِ شہودی کا دروازہ کھٹکھٹانا ہو گا، یا مدعیانِ کشف و شہود کی اندھی تقلید کرنی ہو گی اور ناآگاہانہ اور جاہلانہ انداز میں ان کے کشف کو ماننا ہو گا۔ ورنہ اگر وہ وحدتِ عددی کے معتقد رہے تو توحید سے محروم رہیں گے۔ اور وہ جس کی یکتائی کے قائل ہیں، وہ وجودِ خارجی نہیں رکھتا ہو گا۔ حتی وجودِ اعتباری، کہ جو سب اشیاء کیلئے قائل ہیں، بھی نہیں رکھتا ہو گا۔
اور وہ دوسروں کے ناقابلِ فہم «ما لا یدرک» اور «ما لا واقع لہ» دعوؤں کو کافی سمجھیں۔ فلاں صوفی یا نام نہاد عارف کے کشف و شہود کو واقعیت قرار دیں۔ دوسروں کے ذوق و وہم و کشف و شہودِ نامشہود یا مشکوک کے پیدا کردہ معشوق کے عاشق ہو جائیں۔ اس کا انجام یہ ہو گا کہ طرفین ایک دوسرے کو وحدت «ما لا تحقّق لہ و لا وجود» کے عقیدے کے نام پر سنگسار کریں گے۔ دیکھئے بات کہاں تک جاتی ہے؟ لا حول و لا قوۃ الا باللہ و ہو الہادی الی الصواب۔]
اور مثلاً آیت «لَقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ ثَالِثُ ثَلَاثَةٍ وَمَا مِنْ إِلَهٍ إِلَّا إِلَهٌ وَاحِدٌ» ”بے شک انہوں نے کفر کیا جنہوں نے کہا کہ اللہ تین میں سے ایک ہے“ [حاشیہ: (سورہ مائدہ، آیت 73)] نصاریٰ کے عقیدے کا رد ہے کہ وہ خدا کو تین کا تیسرا اور لفظِ اللہ کا اطلاق تین اقنوم پر کر کے اسے تین اجزاء کا مرکب سمجھتے ہیں اور اگر زبانی طور پر اسے واحد بھی کہیں تو انکی مراد یہی ترکیب اور کھلا تناقض ہوتا ہے۔
لیکن «مَا مِنۡ اِلٰہٍ اِلَّا اللّٰہُ الۡوَاحِدُ الۡقَہَّارُ» ”کوئی معبود نہیں سوائے اللہ کے جو واحد، قہار ہے“ (سورہ ص: ۶۵ )۔ جیسی آیات کا بھی یہی مفہوم ہے اور قہار ہونے میں وحدت کا معنی شریک کی نفی ہے نہ کہ غیر کے ہونے کی نفی۔ لات و عزٰی کے وجود کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ ان کی الوہیت کی نفی کی گئی ہے اور «اللہ الواحد القہار» کی الوہیت کا اعلان کیا گیا ہے۔ اور اس قاہریت کی اکائی (واحدیتِ قاہرہ) سے مراد سب پر اس کی حاکمیت، غلبے، اقتدار اور بالادستی کا لاشریک ہونا ہے۔ لیکن قہاریت سے اس کی ذات کے لامتناہی ہونے اور دوسری اشیاء کے ان معنوں میں مقہور ہونے کہ وہ سب میں ہو اور اپنے غیر پر احاطۂ وجودی رکھتا ہو، کا مفہوم نہیں نکلتا۔
ایسا نہیں ہے کہ وہ سب پر وجودی طور سے محیط ہو اور اشیاء سے اسکی ناسازگاری عُزلی نہ ہو، جیسے ایک شے دوسری سے جدا ہوتی ہے، لیکن وصفی ہو جیسے شے اپنے سایے سے الگ ہوتی ہے مگر نہیں بھی ہوتی۔ یہ درست معنی نہیں۔ دوسرے لفظوں میں اگر ہم انصاف کی بات کریں تو آیت میں مذکور قہاریت سے یہ معنی نہیں نکالا جا سکتا کہ وہ ہر چیز سے مسلوب ہو مگر کچھ اس سے سلب نہ ہو، احاطۂ وجودی و ذاتی اخذ نہیں ہوتا۔
اور یہ قول جو بعض دوسرے لوگوں نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے اور اس کیلئے نہج البلاغہ کے خطبہ 177 کا حوالہ دیا ہے «توحید تمییزہ من خلقہ و حکم التمییز بینونۃ صفۃ لا بینونۃ عزلۃ» [حاشیہ : (اس کی توحید اسے اس کی خلق سے ممتاز سمجھنا ہے، اور اس کو ممتاز کرنے کا قاعدہ صفات میں جدائی ہے، یہ عُزلی جدائی نہیں) یہ روایت احتجاج طبرسی: ۱/ ۲۰۱، اور بحار الانوار: ۶/ ۲۵۳/ ح ۷ میں نقل ہوئی ہے۔]
اگرچہ ہم نے اس (فرمان کو) نہج البلاغہ میں نہیں پایا لیکن یہ بہت تشریح طلب ہے۔ کیا دوری کے انکار کا مطلب یہ ہے کہ خالق اور خلق کی یہ جداگانگی ایسے نہیں کہ جیسے ایک چیز دوسری سے بالکل جدا ہو، آپس میں کوئی ارتباط و اطلاع نہ ہو بلکہ ان میں ارتباط ہے اور کوئی بیگانگی نہیں ہے؟ [حاشیہ: اگرچہ خدا اور مخلوق کی حقیقتِ ذات میں کوئی شباہت اور مماثلت نہیں ہے اور دونوں کی ذات اور صفات کی حقیقت بالکل مختلف ہے۔] مخلوق خالق کی محتاج ہے، اسی پر قائم ہے، وہی اسکا رب ہے اور یہ اس سے آزاد نہیں ہے۔ یہ فقیر ہے اور وہ اپنی ذات میں غنی ہے۔ یہ رزق لیتی ہے، وہ دیتا ہے، یہ مربوب ہے، وہ رب ہے۔ عُزلی جدائی تو چیزوں میں مکمل علیحدگی کو کہتے ہیں۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ چیزیں اور خلق و خالق ذاتاً ایک دوسرے سے الگ نہیں ہیں، ایک ہیں، اور اس کا ان سب پر ایک وجودی احاطہ ہے، کہ یہ سب وہی ہیں اور وہ ان میں سے ایک نہیں ہے، صرف تعینات اور وجود کی حد بندیوں جیسی صفت ان کو الگ کرتی ہے؟ اس معنی کو قرآن کریم کی بہت سی آیات، احادیث اور نہج البلاغہ کے خطبات نے واضح اور فیصلہ کن طور پر رد کیا ہے۔ یہ گھوم پھر کر وہی «لیس فی الدار غیرہ دیار» والی بات ہو جاتی ہے۔
اس سے پھر یہ بھی لازم ٹھہرے گا کہ وہ صفت جو انکو الگ کرتی ہے وہ بھی حقیقی وجود نہ رکھتی ہو اور یہ فرق نام نہاد ہو جیسے موج و دریا کا فرق ہوتا ہے۔ یا اسلئے کہ زیادہ قابلِ اعتراض بات نہ ہو، ظہور اور تجلی جیسے الفاظ استعمال کر لیں۔ مختصر یہ کہ ایسا معانی جو اسلام کے احکامات اور عقلی و شرعی اصولوں سے متصادم ہے، ضمیر کے خلاف ہے، اور تمام منصوبوں کو لایعنی اور حقیقت سے خالی بنا کر رکھ دیتا ہے۔
قرآن کریم کی صریح آیات اور احادیث اور نہج البلاغہ کے توحیدی خطبات سب اس رائے کو رد کرتے ہیں اور اس رائے کو قبول کیا جائے تو ہمیں ان تمام آیات اور احادیث کو چھوڑنا ہو گا اور اسی قسم کے کچھ متشابہ اقوال پر اکتفا کرنا ہو گا کہ جو بعض اوقات مصدر کے اعتبار سے معتبر بھی نہیں ہوتے۔ اور قرآن و حدیث سے فائدہ اٹھانے کا راستہ بند کرنا ہو گا۔
ایک بار پھر مزید وضاحت کے لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ جو کہتے ہیں کہ توحید کے بارے میں سب کا تصور، وحدتِ عددی تھا اور وحدتِ عددی محدود اور مقہور ہے کیونکہ ایک اکائی جس کی وحدت عددی ہے اس کا تشخص اور تعین اس کو دوسرے اعداد سے متمیز اور الگ کرنے پر موقوف ہے۔ اب چاہے دوسری اکائیاں بھی موجود ہوں کہ اس صورت میں کثرتِ عددی ہو گی اور ہر ایک کا تشخص باقیوں سے اس کی علیحدگی اور اس سے باقیوں کے جدا ہونے میں ہو گا۔ یہ خود محدودیت اور مقہوریت ہے کہ جس سے ذاتِ باری کو منزہ سمجھنا چاہئے کیونکہ اس کا تشخص ذاتی ہے، دوسری اشیاء سے جدائی نہیں ہے۔ چاہے دوسری اشیاء موجود نہ ہوں کہ اس صورت میں اگرچہ کثرت عددی نہیں ہو گی مگر وحدت تو عددی ہی ہو گی۔
اور ساتھ ہی وہ کہتے ہیں: توحید ذاتی اور وحدت ذاتی، کہ خدا کی ذات اپنے آپ میں واحد ہے اور اس کے مقابلے میں تعدد و تکثر فرض نہیں ہو سکتا، کا لازمہ اس کی ذات پاک کی لامحدودیت ہے کیونکہ لامحدود ایک ہے اور اس کی وحدانیت ذاتی ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی تعدد نہیں۔ چونکہ کسی دوسرے لامحدود کا فرض کرنا دونوں کیلئے کثرت و محدودیت لائے گا اور عددی وحدت یا عددی کثرت کا سبب بنے گا۔
اور دوسرے لفظوں میں: وہی چیز جو دو محدود اکائیوں کی تناہی، محدودیت، عددی کثرت یا عددی وحدت کا سبب بنتی ہے، جو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے سے الگ کرنے سے عبارت ہے، لامتناہی کے تعدد کو فرض کرنا اس کی محدودیت اور تناہی کا سبب بنتا ہے اور اس سے ابتدائی مفروضے کا خلاف لازم آتا ہے۔ اس لیے ایک غیر محدود کے ساتھ دوسرے غیر محدود کو فرض کرنا اور لامتناہی کی وحدت کے ساتھ اس کا تعدد محال اور مستلزمِ خلف ہے۔
اور جہاں تک دوسری چیزوں کا تعلق ہے، جو تمام محدود ہیں، غیر محدود ان سے محدود اور ممتاز نہیں ہے، اور غیر محدود ان پر ایک وجودی احاطہ رکھتا ہے، کیونکہ غیر محدود ان سے عُزلی طور پر الگ نہیں ہے۔ اور وہ تعدد کہ جو دو عُزلی اور حقیقی جداگانگی رکھنے والی چیزوں میں ہوتا ہے، ان کے درمیان نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ ان محدود اشیاء کے غیر محدود سے تعلق کو بیان کرنے کیلئے انہوں نے مختلف اصطلاحات بنا رکھی ہیں، جیسے: تعینات، جلوے، شئون، ظہورات، تجلیاں، لامحدود کا اشراق، وغیرہ۔ غیر متناہی کو ان سب کا احاطہ کرنے والی حقیقت کہتے ہیں کہ جو اپنے وجود سے ان سب پر محیط ہے۔
حالانکہ یہ معنی خدا اور مخلوق کے درمیان حقیقی جداگانگی نہیں ہے اور یہ ایک غیر ذاتی اور اعتباری بیگانگی ہے جو وحدتِ وجود سے ماخوذ ہے، جو کہ باطل ہے۔ گو کہ بعض تعبیرات میں یہ معنی زیادہ صراحت سے آیا ہے اور بعض زیادہ صریح نہیں ہیں۔ وہ اشیاء پر خدا کے احاطۂ وجودی کا خیال پیش کرنے میں کسی الجھن کا شکار کیوں نہیں ہوتے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ اس قسم کی آیات میں «اَلَّذِىْ خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا» ”جس نے سات آسمانوں کو طبقہ بندی کر کے پیدا کیا“ (سورہ ملک : ۳)۔ حقیقی اور واقعی آسمانوں کی خبر ملتی ہے جو اپنے خالق سے الگ ہیں۔
یہ کہتے ہیں کہ وہ الگ تھلگ نہیں ہیں، انکی بیگانگی عُزلی نہیں ہے۔ اور ایک حدیث کو بنیاد بناتے ہیں جو احتجاجِ طبرسی میں آئی ہے [حاشیہ: احتجاج طبرسی : ۱ / ۲۰۱ ، بحار الانوار : ۶ / ۲۵۳ حدیث ۷] اور اس کی نشاندہی پہلے بھی کی گئی تھی کہ بعض نے اسے غلطی سے نہج البلاغہ کے خطبہ 177 کی طرف منسوب کر دیا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو اتنی آیاتِ قرآنی اور احادیث جو عدمِ وحدت وجودی اور خالق و مخلوق کی جداگانگی پر دلالت کرتی ہیں، کے مقابلے میں ایک روایت سے استدلال کرنا، اس فرض کے ساتھ کہ وہ مرسل نہ ہو اور اس کی سند صحیح ہو اور وہ خالق و مخلوق میں ذاتی بیگانگی کے انکار پر کامل دلالت کرتی ہو، درست نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف بہت سی آیات و احادیث ہیں اور ان سے سبھی وہی معنی مراد لیتے رہے ہیں جو آپ کے تصورِ توحید کی نفی کرتا ہے۔ کجا یہ کہ یہ ایک روایت بھی مرسل ہے اور اس کی آپ کے مطلوبہ مفہوم پر دلالت بھی کامل نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہم کہتے ہیں کہ ہم بھی خالق اور مخلوق کو عُزلی طور پر بیگانہ نہیں کہتے، اور ہم خالق کو مخلوق سے اجنبی نہیں سمجھتے، اور ہم مخلوق اور خالق کے تعلق کو معطل نہیں سمجھتے۔ مخلوق ہمیشہ اس کے فضل و کرم، تربیت اور نگہداشت میں ہوتی ہے۔ ہم کہتے ہیں: خدا آسمانوں اور زمین کا قائم رکھنے والا ہے اور عالمِ رنگ و بو کی تدبیر کرنے اور اس پر تصرف رکھنے والا ہے۔ «کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ» [سورہ رحمن: ۲۹] ہے اور «يَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ ۚ» [سورہ فتح : ۱۰]۔
عُزلی علیحدگی جس کا مطلب خالق کو مخلوق سے لاتعلق کرنا ہو، یہودی عقیدہ ہے۔ قرآن اور توحید کے ماننے والوں کا مذہب عدم انعزال ہے۔ «وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ يَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ ۚ غُلَّتْ اَيْدِيْهِمْ وَلُعِنُوْا بِمَا قَالُوْا ۘ بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوْطَتَانِ» ”اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، انہیں کے ہاتھ بند ہوں اور یہ کہنے پر ان پر لعنت ہو، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں“ (سورہ مائدہ: ۶۴ )۔
خدا کی لامحدودیت کا سوال
ان توضیحات کے بعد جب معلوم ہو گیا کہ غیر محدود ”اللہ“ کا اس طرح ہونا کہ غیر محدود اپنے وجود سے محدود کائنات پر احاطہ کرتا ہو اور اس کو اپنے اندر سمیٹ لے، صحیح عقیدۂ توحید اور قرآن کی ہدایت سے مطابقت نہیں رکھتا، تو اس شبہے کے رد کے بیان میں کہ اگر خدا لامتناہی ہو تو اسے متناہی کائنات کو سمو لینا چاہئے ورنہ اپنے غیر سے علیحدگی اسے محدود و مقہور کر دے گی اور ایک اعتبار سے اسکو اپنے غیر سے ممتاز کرنا اسکی حد بندی کر دے گا، ہم کہیں گے کہ اشیائے متناہیہ کا وجود اپنی ذات میں خدائے باری تعالٰی سے مکمل جدا ہے۔
[حاشیہ: اللہ تعالیٰ اس لحاظ سے لامحدود نہیں ہے کہ وہ «بوجودہ محیط علی ما سواہ» ہے، بلکہ ان معنوں میں محدودیت اور لا محدودیت مقدار اور مخلوق کی صفت ہے۔ «نعم انہ تعالی منزّہ عن کل ما یتصف بہ المخلوق من قبیل الزمان والمکان والحرکۃ والسکون والجسم والصورۃ والشبہ والمثل والزیادۃ والنقیصۃ والجزء والکل والمقدار والعدد ۔ ۔ ۔ فکل ما فی الخلق لا یوجد فی خالقہ ۔ ۔ ۔»]
بلکہ لامحدود خالق ہے اور باقی سب مخلوق، وہی مالک ہے اور سبھی ملکیت، اور مخلوقات، خالق کے بعد ہیں۔ اس لحاظ سے وہ ذات جو اپنے آپ میں لامتناہی ہے، اپنے غیر کی نسبت سے لامحدود اور غیر متناہی ہے۔
اس کے باوجود یہ یقین نہیں کیا جاسکتا کہ وہ لوگ جو اس نام نہاد اہلِ نظر کے مطابق دسویں صدی ہجری میں توحید اور حضرت احدیت عزا سمہ کی ذات کی غیر محدودیت کے درست مفہوم تک پہنچے ہیں، ان تشریحات کو قبول کریں گے، کیونکہ وہ اس لا محدودیت کی صفت کے بیان میں کسی طرح محدود کائنات کو بھی لامتناہی میں شامل کر کے ان کو ایک واحد کے طور پر منوانا چاہتے ہیں اور اس کو احاطۂ وجودی کا نام دینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا وہ ابہام جو خداوند متعال کے غیر محدود ہونے کی توصیف میں موجود ہے، اٹھتا نظر نہیں آتا۔
اجسام اور اللہ کے سوا جو بھی ہے، اس کا متناہی و محدود اور اپنا غیر نہ ہونا، قابلِ تصور ہے۔ وقت، جگہ، زمانیات، اعداد، معدودات اور اسی طرح مقدورات، معلومات، افعال، رحمتِ الہٰی و ما عنداللہ، کو غیر متناہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ تعاقبِ حرکت، خلق، افاضہ، فیض اور اسی قسم کی دوسری چیزوں کو بھی لامتناہی تصور کیا جا سکتا ہے۔ [حاشیہ: بہت سی چیزوں کو لامتناہی فرض کیا جا سکتا ہے، اس کیلئے «لا متناہی لا یقفی» کی اصطلاح رائج ہے۔]
لیکن خدا کی لاثانی، بے نظیر اور بے مثال ذات کو ایسا لامتناہی نہیں کہا جا سکتا کہ اپنے وجود سے ہر جگہ اور ہر چیز کا احاطہ کئے ہو، سبھی کو اپنے میں لئے ہو، زمین و آسمان، جن و انسان، فرشتے، جمادات و نباتات، وغیرہ، اور ان سے کوئی عُزلی اور حقیقی بیگانگی نہ رکھتا ہو۔ کن آیات و احادیث سے، یا شریعت کی صریح اور واضح ہدایات سے یہ مفہوم نکلتا ہے؟ اور چند الفاظ کے علاوہ، کہ وہ بھی تاویل و توجیہ کا زور لگا کے اس نام نہاد عرفانی مشرب پر حمل کرتے ہیں جو ان صاحب کے بقول ہزار سال بعد کشف ہوا ہے، سیکڑوں اور ہزاروں آیات و احادیث اور دعاؤں سے اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے۔
اور اگر وہ کہتے ہیں کہ لا محدود ان معنوں میں سب پر مشتمل نہیں ہے، تو جب غیر اور غیریت آ گئی تو انہیں اسی محدودیت کو ماننا ہو گا جس سے عددی وحدت کے معنی کرتے ہوئے انکار کرتے تھے۔ اصحابِ آئمہ علیہم السلام، شیخ مفید، شیخ صدوق، علامہ حلی اور دیگر ہزاروں علماء کی بیان کردہ توحید کو ہی قبول کرنا ہو گا۔ ورنہ ان کے مطالب و مسالک وہی «لیس فی الدار غیرہ دیار» [حاشیہ: ”گھر میں اس کے سوا کوئی نہیں ہے“ (اسفار: ۲/۲۹۲، دیوان منصور حلاج: ۱۴۶٫ اشعة المعات: ۱۸۵، بستان السیاحة: ۳۷۳)] اور «کہ یکی ہست و ہیچ نیست جز او» (کہ ایک ہے اور کوئی نہیں اس کے بغیر) [حاشیہ: اس شعر کا دوسرا مصرعہ کچھ یوں ہے۔ ”وحدہُ لا الہ الا ہو“ (دیوان ہاتف اصفہانی: ۴۸. ۵۱)] اور
سہ نگردد بریشم ار او را
پر نیان خوانی و حریر و پرند
[حاشیہ: (دیوان ہاتف اصفہانی: ۴۹)]
اور «سبحان من اظہر الاشیاء و ہو عینہا» [حاشیہ: ”پاک ہے وہ جو اشیاء کو ظاہر کرتا ہے اور خود عین اشیاء ہے“۔ (فتوحات مکیہ: ۲/ ۴۵۹)] اور «انا من اھوی و من اھوی انا» [حاشیہ: حلاج کے اس شعر کا دوسرا مصرعہ کچھ یوں ہے ”نحن روحان حللنا بدنا“ ترجمہ: میں اپنا معشوق ہوں اور وہ میں ہے۔ ہم دو روحیں ہیں جو ایک بدن میں ہیں۔ (دیوان حلاج : ۱۵۸)] اور «ہر لحظہ بہ شکلی بت عیار بر آمد» [حاشیہ : (دیوان شمس الحقایق : ۱۹۹- ۲۰۰)] ہیں، کہ جو انکے اپنے الفاظ میں شطحیات ہیں۔
سچ پوچھیں تو اسلام، قرآن، آئمہ علیہم السلام اور اصحابِ معصومین کی توحید میں یہ نظریات نہ موجود تھے اور نہ وہ ان محوروں پر چلتی ہے۔ اسلام کی توحید میں اللہ کے ماسویٰ کا وجود اور اللہ کے ساتھ سب کی مغایرت آیات اور احادیث سے واضح اور روشن ہے ۔ اور توحید میں اسی کلمۂ توحید «لا الہٰ الا اللہ» اور اس سے اس کے ماننے والوں کی مراد، نہ کہ اس کے منکروں اور مشرکوں کی فہم، سے آگے کچھ نہیں ہے۔ قرآن و حدیث کے انہی ظاہری مفاہیم پر مطمئن ہو جانا چاہئے اور ان سے آگے بات نہیں بڑھانی چاہئے اور جس سے شریعت نے منع کیا ہے، اس سے رک جانا چاہئے۔
توحید کے بارے میں مومنین کا ادراک، مشرکین کے ادراک سے الگ ہے جو کہتے تھے «اَجَعَلَ الۡاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًا» [حاشیہ: (وہ کہتے تھے کہ) کیا اس نے سب معبودوں کو ایک معبود بنا لیا ہے؟ (سورہ ص: ۵)]۔ وہ حیران ہوئے کہ متعدد معبود ایک کیسے ہیں؟ اور وہ اس عظیم معنی کی طرف متوجہ نہیں ہوئے جو اس کلمے میں شامل ہے کہ الہٰ، اللہ ہی ہے اور انہوں نے اس سے صرف یہ سمجھا کہ الہٰ ایک ہے، لیکن مومنین «لا الہٰ الا الله» سے الہٰ کا اللہ میں منحصر کیا جانا سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ معنی بظاہر عددی وحدت ہے۔ لیکن یہ ایک خاص عدد ہے جس کی خصوصیت اس حصر کا اثبات ہے اور یہ تعدد نہیں ہے۔
نہج البلاغہ میں جابجا یہ نظریہ کہ خدا بالذات ممکنات سے جدا نہیں، رد ہو رہا ہے۔ «کَائِنٌ لَا عَنْ حَدَثٍ، مَوْجُودٌ لَا عَنْ عَدَم » ترجمہ: وہ ہے، ہوا نہیں۔ موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا۔ [حاشیہ: نہج البلاغہ، خطبہ 1] اس قول سے کائنِ قدیم کے کائنِ حادث سے الگ ہونے اور عدم کا سابقہ نہ رکھنے والے موجود کے عدم کا سابقہ رکھنے والے موجود سے جدا ہونے اور ان کی بینونت عزلی کے سوا کیا معنی اخذ کیا جا سکتا ہے؟
«بِتَشْعِيرِهِ الْمَشَاعِرَ عُرِفَ أَنْ لَا مَشْعَرَلَهُ وَ بِتَجْهِيرِهِ الْجَوَاهِرِ عُرِفَ أَنْ لَا جَوْهَرَ لَهُ وَبِمُضَادَّتِهِ بَيْنَ الْأَشيَاءِ عُرِفَ أَنْ لَا ضِدَّ لَهُ، وَبِمُقَارَنَتِهِ بَيْنَ الْأَشْيَاءِ عُرِفَ أَنْ لَا قَرِينَ لَه» [حاشیہ: چونکہ اس نے شعور کو علم کا وسیلہ قرار دیا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ قوتِ ادراک سے بے نیاز ہے۔ اس کے جواہر کو جوہر قرار دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی جوہر نہیں ہے۔ یہ جو اس نے اشیاء کے درمیان ضدیت رکھی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی ضد نہیں ہے۔ اس نے چیزوں کو ایک ساتھ رکھا تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی ساتھی نہیں ہے۔ نہج البلاغہ، خطبہ 184؛ کتاب التوحید للشیخ الصدوق، صفحہ 37؛ کافی جلد 1، صفحہ 139، وغیرہ]
اس قسم کی دسیوں بلند پایہ احادیث اور اسماء حسنی سے اس کی پوری کائنات سے ذاتی علیحدگی کے سوا کیا سمجھ میں آتا ہے؟ [حاشیہ: و عن الأمام الرضا علیه السلام أنه قال: « . . . ومباينته إياهم مفارقته إنيتهم . . . وكنہه تفريق بينه وبين خلقه . . . أحد لا بتأويل عدد . . . مبائن لا بمسافة . . . فكل ما في الخلق لا يوجد في خالقه، وكل ما يمكن فيه يمتنع من صانعه . . . »، امام رضا علیہ السلام سے مروی ایک طویل حدیث میں آیا ہے: ۔ ۔ ۔ خدا کی خلق سے جدائی تحقق اور ہستی کا الگ ہونا ہے ۔ ۔ ۔ اس کا کنہ اس میں اور مخلوقات میں تفریق ہے ۔ ۔ ۔ وہ ایک ہےمگر عدد کے معنوں میں نہیں ۔ ۔ ۔ وہ جدا ہے مگر مسافت کے معنوں میں نہیں ۔ ۔ ۔ پس جو کچھ مخلوقات میں ہے، ان کے خالق میں نہیں ہے اور جو کچھ مخلوقات میں ممکن ہے، ان کے خالق میں ممتنع ہے۔ شیخ صدوق، کتاب التوحید، صفحات 36 تا 40؛ عیون اخبار الرضا ؑ، جلد 1، صفحات 151 و 153۔ معصومین علیہم السلام سے اس مضمون کی متعدد روایات مروی ہیں۔]
اس نام نہاد اہلِ نظر نے اپنی فارسی تصانیف میں سے ایک میں لکھا ہے کہ خدا بالذات ماسوی سے جدا نہیں اور ماسوی سے باہر نہیں ہے اور بینونت عزلی نہیں رکھتا۔ تو ان سبھی آیات و احادیث اور توحید اور کلمۂ توحید سے علماء اور اکابر نے جو مراد لی ہے، اس کا کیا کریں گے؟ احتجاج طبرسی کی ایک حدیث کا ایک جملہ اور «بینونت بالعزلہ» کا، اگرچہ ان کی مراد پر دلالت نہیں کرتا، سب کے معرفتی ادراکات اور ادعیہ و مناجاتِ ماثورہ کہ جو اس بنیاد پر لکھی گئیں، کے ظاہر کے خلاف معنی نہیں کیا جا سکتا۔
اصل بات تو یہ ہے کہ دارِ تحقق میں توحید کے باب میں غیر کے وجود کی نفی اور خدا کی تنہائی اور وحدت نہیں آئی ہے اور انبیاء کی دعوت اور رسالاتِ آسمانی اس بنیاد پر قائم نہیں ہیں۔ یہ توحید «اللہ» اور اس خدا کا انکار ہے جس کی طرف انبیاء ؑ نے بلایا ہے اور جو «لہ الاسماء الحسنی» ہے۔ انبیاء ؑ کی توحید، توحیدِ خالقِ کائنات اور توحیدِ «فعال ما یشاء» ہے۔ توحید «رب العالمين و مالک یوم الدین و جاعل الملائکۃ رسلاً و باعث الأنبياء والمرسلين» ہے۔ توحید الہٰ ہے جو رب و مربوب اور خالق و مخلوق اور جاعل و معجول اور مالک و مملوک اور باعث و مبعوث اور اصطلاحاً واجب و ممکن کی بینونتِ عزلی اور فصل ذاتی پر مبنی ہے۔
خدا کی «غیر متناہی» اور «مَن هُوَ مُحيطٌ بِوُجودِهِ عَلى ما سِواهُ» کے طور پر توصیف کرنا کچھ اور ہی معنی دیتا ہے کہ جو ان مفاہیم سے میل نہیں کھاتا، اور خود آپ کے الفاظ میں ہجرت کے ہزار سال بعد تک کی فکری کاوشوں کو مسمار کر دیتا ہے۔ اب آپ اس ڈر سے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ یہ نئی فکر ہے اور انبیاء ؑ اور مکتبِ اسلام اور اہلبیت ؑ سے جدا ہے، یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ”حضرت مولی الموحدین علیہ السلام کے کلمات میں اس کی طرف اشارہ ہوا، مگر پہلے والے اس کو سمجھ نہ سکے“۔
حاصلِ بحث یہ ہے کہ ہم جتنا بھی غور کریں یہ قبول نہیں کر سکتے کہ مفہومِ توحید، جو اسلام اور قرآن کی دعوت کی اساس ہے، ایک ہزار سال تک اصحابِ معصومین ؑ اور جلیل القدر علماء و متکلمین و حکماء سے مخفی رہا ہو یہاں تک کہ فلاں بندہ اسے پردے سے باہر لے آئے۔
بہت تعجب انگیز ہے کہ انسان یہ تصور کرے کہ شارعِ مقدس نے توحید جیسے بنیادی مسئلے کو مہمل رکھا اور اس کی اس طرح تبلیغ کی کہ حق واضح نہ ہوا۔ دوسرے لفظوں میں: ایسے تبلیغ نہ کی گئی کہ حق واضح ہوتا اور ہزار سال تک لوگ گمراہی سے بچ سکتے۔ اور ایسی بات جو سب باتوں میں اہم ترین ہے، روشن و آشکارا بیان نہ کیا جائے یہاں تک کہ کشف و شہود کے دعوے کرنے والوں کا زمانہ آئے اور ان کی باتوں میں الجھا ہوا شیعہ بھی اس چیز کو ہدایتِ اہلبیت ؑ سے بعید نہ سمجھے اور اس بات کی سعی کرے کہ اتنے سارے فرامینِ امیر المؤمنینؑ میں سے، کہ جو سب کے سب اس عرفانی مکتب کو رد کرتے ہیں، کسی طرح بزعمِ خود ان حضرات کی فکر کشید کرے۔
واقعیت بھی یہی ہے کہ عالی قدر اصحابِ معصومین ؑ اور محمد بن مسلم اور ابان بن تغلب جیسے لوگ اور شیخ مفید و شیخ طوسی و علامہ حلی جیسے بزرگ اس قسم کے عرفان سے آشنا نہ تھے اور نہ ہی ان پر ایسی کوئی تہمت ہی لگی۔ انہوں نے نہ فصوص الحکم اور اسکی شرحیں پڑھیں، نہ اسفارِ اربعہ پڑھی اور نہ ابنِ فارض اور ابنِ عربی جیسوں میں کوئی ذہنی اشتغال اور آشنائی رکھتے تھے۔ انہوں نے مکتبِ اہلبیت ؑ اور مدرسۂ آئمہ ؑ میں ہی رہ کر علم و معرفت کو حاصل کیا۔
یہ بات بہت شرمندگی کی سبب ہے کہ قرآنِ کریم تو کائنات کی اہم ترین شخصیت اور سرورِ عالم کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے کہ «فَٱعْلَمْ أَنَّهُۥ لَآ إِلَٰهَ إِلَّا ٱللَّهُ» [سورہ محمد، آیت 19] اور کہتا ہے کہ: «شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ» [سورہ آل عمران، آیت 18]، مگر یہ مدعیانِ عرفان کہ جو خود کو اور جن کے مرید ان کو عرفاء کہتے ہیں، کہیں کہ عوام کی توحید لا الہٰ الا اللہ ہے اور توحیدِ خواص لا موجود الا اللہ ہے۔ [حاشیہ: غزالی، مشکاۃ الانوار، صفحہ 278؛ قیصری، رسالۃ فی التوحید والنبوۃ والولایۃ، صفحہ 34؛ میر داماد، جذوات و مواقیت، صفحہ 41؛ ملا صدرا، تفسیر القرآن الکریم، جلد 1، صفحہ 48۔]
کیا وہ توحید کہ جس کا علم رکھنے کے بارے میں پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کیا گیا ہے، اگرچہ یہ خطاب در سے کہتا ہوں کہ دیوار سنے کے معنوں میں ہے، اور وہ توحید کہ خدا اور ملائکہ جس کی گواہی دیتے ہیں، عوام کی توحید ہے؟
یہاں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ اس قسم کی آیات میں «لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ» یا ایسی آیات «هُوَ ٱللَّهُ ٱلَّذِي لَآ إِلَٰهَ إِلَّا هُوَۖ» میں معنی وہی «لا إلهَ إلاَّ اللَّه» کے ہیں۔ جیسا کہ ان دو آیات میں آیا ہے اور یہ معنوی اعتبار سے فرق نہیں رکھتیں۔ الفاظ کا فرق اسلئے ہے کہ اُن دو آیات میں مقدس لفظ «اللہ» پہلے آ چکا تھا اور اس کی تعبیر تحرّز از تکرار اور تاکید بر توحید کے لئے ہے۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ «ھو» کسی ایسے معنی کی طرف اشارہ کر رہا ہو جس پر «اللہ» دلالت نہ کرتا ہو۔
ہم کہتے ہیں: یا الله سبحانك و بحمدك سبحان الله عما یصفون سبحان الله عما یقولون لا نحصی ثناء علیك انت كما اثنیت علی نفسك، لانصفك الا بما وصفت به نفسك و لاندعوك الاّ باسماء سمیت نفسك بها ضلّ من تكلم فیك و هدی من تكلم عنك اغفرلنا زلاتناولا تؤاخذنا باقوالنا، لایلیق باهل البصیرة و ارباب الفطنة و المعرفة الا النظر فی ملكوت سمائك و ارضك و آثار قدرتك و عظم خلقك فسبحانك ما اعظم مانری من خلقك و ما اصغر عظیمه فی جنب ما غاب عنا من قدرتك، جمیع ما فی الكون ناطق بتسبیحك و مجدك و ان من شیء الاّ یسبح لاحول و لاقوة الا بك و انت العلی العظیم.
کتنی جسارت کی بات ہے کہ انسان کلمۂ طیبہ «لا إلهَ إلاَّ اللَّه» کو، کہ جس کی اتنی تعظیم کی گئی ہے اور جس سے سنگین اور عظیم کوئی اور کلام انبیاء ؑ و اولیاء کی میزان میں نہیں ہے، حقیر جانے اور اسے عوام کی توحید کہا جائے اور اپنے من گھڑت عقیدے «لا هو بلا هو أِلا هو» کو توحیدِ اربابِ حقائق از انبیاء ؑ و اولیاء سمجھا جائے۔ [حاشیہ: «قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ما قلت ولا قال القائلون قبلي مثل لا إله إلا الله.»، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مروی ہے: میں نے ایسی کوئی بات نہیں کی نہ مجھ سے پہلے والوں نے ایسی کوئی بات کی ہے جو کلمۂ لا الہٰ الا اللہ کی برابری کر سکے۔ شیخ صدوق، کتاب التوحید، جلد 1، صفحہ 18۔ اس موضوع پر متعدد احادیث مروی ہیں۔]
تكاد السماوات یتفطرن من كلام هؤلاء المعجبین بما نسجوه من الاصطلاحات و تنشق الارض و تخر الجبال هدااستغفرالله ربی و اتوب الیه و قد كان اللائق بی ایضاً ان لا الج فی هذا البحر الذی لا ساحل له و لاینجو من وقع فیه الاّ عصمه الله و تمسك بسفینة النجاة والذین هم امان من الضلال محمد و آله الابرار صلوات الله علیهم اجمعین فیاربی لاتؤاخذنی بجهلی و لا تجعل ما كتبت حجة علیّ بل اكتبه فی صحیفة حسناتی فانّی ما اردت بذلك الاّ وجهك الكریم فاغفرلی یا ارحم الراحمین واخر دعوانا ان الحمدلله رب العالمین.
6 جمادی الاول، 1420 ہجری، تہران
لطف اللہ صافی
یہ بھی پڑھئے: ہم ابنِ عربی کے عرفان کی تائید نہیں کرتے – آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی
یہ بھی پڑھئے: معرفتِ نفس اور خالق و مخلوق میں شباہت کی نفی – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی
[ حوالہ: محمد حسین طباطبائی، تفسیر المیزان، ج ۶، ص ۱۰۴
«ولذلك ترى المأثور من كلمات الفلاسفة الباحثين في مصر القديم واليونان وإسكندرية وغيرهم ممن بعدهم يعطي الوحدة العددية حتى صرح بها مثل الرئيس أبي علي بن سينا في كتاب الشفاء، وعلى هذا المجرى يجري كلام غيره ممن بعده إلى حدود الألف من الهجرة النبوية.
وأما أهل الكلام من الباحثين فاحتجاجاتهم على التوحيد لا تعطي أزيد من الوحدة العددية أيضا في عين أن هذه الحجج مأخوذة من الكتاب العزيز عامة؛ فهذا ما يتحصل من كلمات أهل البحث في هذه المسألة.
فالذي بينه القرآن الكريم من معنى التوحيد أول خطوة خطيت في تعليم هذه الحقيقة من المعرفة، غير أن أهل التفسير والمتعاطين لعلوم القرآن من الصحابة والتابعين ثم الذين يلونهم أهملوا هذا البحث الشريف، فهذه جوامع الحديث وكتب التفسير المأثورة منهم لا ترى فيها أثرا من هذه الحقيقة لا ببيان شارح، ولا بسلوك استدلالي.
ولم نجد ما يكشف عنها غطاءها إلا ما ورد في كلام الإمام علي بن أبي طالب عليه أفضل السلام خاصة، فإن كلامه هو الفاتح لبابها، والرافع لسترها وحجابها على أهدى سبيل وأوضح طريق من البرهان، ثم ما وقع في كلام الفلاسفة الإسلاميين بعد الألف الهجري، وقد صرحوا بأنهم إنما استفادوه من كلامه عليهالسلام.» ]