معرفتِ نفس اور خالق و مخلوق میں شباہت کی نفی – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی
سوال: میں ایک ایسا جوان ہوں جو وسیع دینی مطالعہ کر چکا ہے، لیکن جتنا اس میں آگے جاتا ہوں اتنا ہی اپنی خود شناسی اور خدا شناسی میں نقص پاتا ہوں۔ میری رہنمائی کیجئے!
جواب: آپ کے سوال کے جواب میں جس نکتے پر توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے بقول آپ اپنی اور اپنے خدا کی معرفت حاصل نہیں کر پا رہے۔ یہ ایک بڑی گہری بات ہے کہ انسان اپنی حقیقت کے ادراک سے قاصر ہے۔ حدیث میں آیا ہے:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ (1)
ترجمہ: ”جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا۔“
اس حدیث کی دس سے زیادہ (درست) تفاسیر کی گئی ہیں جو سبھی علمی اور معرفت بخش ہیں۔ ایک تفسیر یہ ہے کہ خدا کی ذات کے کنہ کو سمجھنا اور جاننا، اپنے آپ کو سمجھنے سے وابستہ قرار دیا گیا ہے اور اس کی غرض یہ ہے کہ جیسا کہ انسان کیلئے اپنے آپ کو حقیقی طور پر سمجھنا ممکن نہیں اسی طرح خدا کی حقیقت اور اس کے کنہ کی معرفت بھی ممکن نہیں ہے۔ جیسا کہ یہ با معرفت شاعر کہتا ہے:
تو کہ در علم خود زبون باشی
عارفِ کردگار چون باشی
یعنی تم کہ جو اپنی شناخت میں عاجز ہو، خدا کو کیونکر سمجھ سکتے ہو؟
لیکن بہرحال انسان اپنے بارے میں علم رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ وہ ہے، اور اپنے ہونے کا انکار نہیں کر سکتا۔ خدا کو بھی اسی حد تک پہچانا جا سکتا ہے کہ وہ ہے اور اس نے کائنات کو بنایا ہے اور اس کے ہونے کا انکار ایسا ہی ہے جیسا اپنے ہونے کا انکار کر دیا جائے۔
اس کے علاوہ یہ بھی جان لیں کہ خداوند متعال کی شناخت میں خدا کی آیات میں غور و فکر کرنا، آسمان و زمین اور بے شمار اصناف اور مخلوقات کی خلقت، کہ جن میں عجائب چھپے ہیں، اور ان کی ایک دوسرے سے مناسبت اور موافقت، ان کے اعضاء کا تناسب اور ایسی چیزیں کہ اگر انسان کروڑوں سال عمر کرے پھر بھی ان کا حساب نہیں لگا سکتا اور ان کو شمار نہیں کر سکتا اور ان کے سبھی اسرار کو سمجھنے سے عاجز و ناتوان ہے، یہ سب جاننا انسان کے اندر خدا کے علم و قدرت کی معرفت میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اس آیت میں غور کریں اور اپنی معرفت کی تکمیل کا راستہ پا لیں:
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ. (سورہ آلِ عمران، آیت 190)
ترجمہ: ”بے شک آسمان اور زمین کے بنانے اور رات اور دن کے آنے جانے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔“
میرے خیال میں آپ نے ممکنہ حد تک خدا کی پہچان حاصل کر لی ہے۔ لیکن چونکہ معرفت کے بہت سے مراتب و درجات ہیں، لہٰذا انسان جتنا زیادہ آگے جائے اتنا ہی اپنے ادراک کو کم اور خدا کی آیات اور اس کی عظمت کی نشانیوں کو زیادہ سمجھتا ہے۔ (2)
سوال: کیا خدا کی ذات اور مخلوقات دراصل اپنے وجود کی حقیقت میں اشتراک اور کسی قسم کی سنخیت رکھتی ہیں؟ جیسا کہ سورج کی روشنی اور اس کے مراتب کی مثال دی جاتی ہے؟
جواب: خالق و مخلوق میں کوئی ذاتی سنخیت نہیں ہے۔ صریح آیتِ شریفہ <<لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (سورہ شوریٰ، آیت 11)>> اور صریح احادیث میں خالق و مخلوق کی ذات و صفات میں مکمل بے گانگی اور بینونت بیان ہوئی ہے۔ مثلاً ان احادیث میں:
تنزه عن مجانسة مخلوقاته (3)
ان الله خلو من خلق و خلقه خلو منه (4)
لا يليق بالذي هو خالق كل شئ الا ان يكون مبايناً لكل شئ متعالياً عن كل شئ (5)
مباينته اياهم مفارقته لهم (6)
كنهه تفريق بينه و بين خلقه (7)
هو باين من خلقه محيط بما خلق علماً و قدرة و احاطة و سلطاناً (8)
سوال: کیا خداوند کی صفات عینِ ذات ہیں؟ ازل میں جب خدا کے سوا کچھ نہ تھا، کیا خدا صفتِ فعل رکھتا تھا یا صرف صفتِ ذات تھی؟
جواب: خدا کی صفاتِ ذاتیہ عینِ ذات ہیں، یعنی علم، قدرت، حیات، وغیرہ۔ صفاتِ ذاتیہ اسکی ذات کا غیر یا زائد بر ذات نہیں، بلکہ خود ذاتِ خدا ہیں۔ یہ اسکی ذات کا غیر نہیں، جیسا کہ اشاعرہ غلط فہمی میں انکو الگ قرار دیتے ہیں۔ یہ صفاتِ فعلیہ کے برخلاف ہے جو عینِ ذات کی صفت نہیں، جیسا کہ خالق اور رازق ہونا، کیونکہ خدا کو خالق و رازق کہنا خلق اور رزق بنیاد پر ہے جو حادث ہیں اور قدیم نہیں ہیں۔ خدا کو خالق اور رازق کہا جاتا ہے اور یہ صفت خلق، رزق اور دوسرے افعال پر قدرت سے الگ ہے۔ قادر ہونا ذاتی صفت ہے۔ خلق و رزق پر قادر ہونا، خلق کرنے اور رزق دینے سے الگ ہے، جو کہ حادث ہیں۔ دوسرے لفظوں میں خدا کی فعلی صفات اسکی عین ذات نہیں ہیں اور ان پر فعل کے صدور کا اطلاق ہوتا ہے، آفرینش، پیدا کرنا، رزق و روزی دینا، وغیرہ۔ اس معنی کی وضاحت کیلئے یہی کافی ہے کہ جان لیں کہ سبھی اشیاء خدا کی خلق اور اسکا فعل ہیں، یہ نہ تھیں اور خدا کے فعل سے وجود میں آئیں۔ یہ ہونا اور خلق، خدا کا کام ہے اور خدا ان افعال کا فاعل ہے۔ خالق، مصور، رازق، قابض، محیی، ممیت، رحمان اور رحیم جیسے نام، جن کا ان پر اطلاق ہوتا ہے، اسمائے افعال الہیٰ ہیں۔ وگرنہ سبھی صفاتِ فعلیہ اصل میں صفاتِ ذاتیہ تک پہنچتی ہیں۔ ان سب افعال پر قادر ہونا ذاتِ خدا کی صفت ہے۔ چنانچہ حقیقت میں خدا پر قدرت کا اطلاق جیسے ہوتا ہے، رازق اور خالق ہونے کا اطلاق ویسے نہیں ہوتا۔ اسمائے افعال کی بابت یہ شعر صادق آتا ہے:
عباراتنا شتي و حسنك واحد
و كل الي ذلك الكمال يشير
سوال: خدائے متعال اور ممکنات پر موجود کا اطلاق مشترکِ معنوی ہے یا مشترکِ لفظی؟ دوسرے لفظوں میں وجود اور ہونا خدا جل اسمہ اور مخلوقات کے مابین مشترکِ لفظی ہے یا معنوی؟
جواب: ان معنوں میں مشترکِ معنوی ہے کہ خدا ہے اور موجود ہے، انسان، فرشتہ، پہاڑ، سمندر، وغیرہ بھی ہیں اور موجود ہیں۔ ہونا، وجود اور موجود جیسے الفاظ سب کیلئے ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں اور ان سب موارد میں موجودگی کی بات ہوئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ خدا کا موجود ہونا ذاتی ہے اور باقی چیزوں کی موجودگی بالغیر اور خدا کی طرف سے ہے۔ بہر حال یہاں خبر کینونت اور موجودگی کے بارے میں دی جا رہی ہے۔ ان قضایا میں کینونت موضوع کے تفاوت کے حساب سے محمول ہے یا محمل علیہ الکینونۃ ہے۔
لیکن ان معنوں میں اشتراکِ معنوی کہنا کہ یہ سب الگ الگ موجودات حقیقت میں وجود ہیں اور ان میں فرق صرف مراتب و قوت و ضعف اور تقدم و تأخر کا ہے، جیسا کہ اصالتِ وجود کے قائل بعض نام نہاد فلسفی کہتے ہیں، صریح آیتِ شریفہ <<لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ (سورہ شوریٰ، آیت 11)>> سے منافاتِ تام رکھتا ہے۔ کیونکہ ذات و حقیقت میں مثل ہونا واضح ترین مثلیت ہے۔
البتہ اشتراکِ لفظی کے ساتھ اگر واجب اور ممکن کا تسمیہ (label) یوں استعمال کیا جائے کہ تسمیہ ذاتی جداگانگی رکھنے والوں کیلئے مستقل اور ان کی ہویت اور ذات کے مطابق ہو، ایسے میں وجود اور موجود کے اطلاق کا مشترکِ لفظی ہونا درست ہے۔ یہ اطلاق اگر لغوی طور پر درست ہو تو اپنے آپ میں کوئی اشکال نہیں رکھتا۔ دارومدار صرف اس بات پر ہے کہ یہ تسمیہ اہلِ زبان کے ہاں استعمال ہوتا ہو۔
سوال: کیا نظریۂ وحدتِ وجود عقل اور شرعی نصوص کے مطابق ہے یا نہیں؟
جواب: خدا کی غیرِ خدا موجودات سے جداگانگی کی نفی، اس دو گانگی کی نفی اور وحدتِ شخصی کے تحقق کے معنوں میں وحدتِ وجود باطل ہے۔ یہ قرآن کی بسم اللہ سے لے کر والناس تک کی نصوص اور سنت اور متواتر احادیث کی نصوص کے خلاف ہے۔ اگر کوئی یہ عقیدہ رکھتا ہو تو اس پر واجب ہے کہ قرآن اور اہلبیت ؑ سے رجوع کر کے توبہ کرے۔ وحدتِ وجود کا ایک اور معنی یہ ہے کہ خدا کائنات کی روح ہے اور کائنات اس کا جسم ہے۔ اس بنیاد پر خدا کل ہے اور اجزائے عالم سے اس کی نسبت روح اور بدن کے تعلق کی ہے۔ اس کا ایک اور مفہوم یہ ہے کہ در حقیقت جو کچھ کائنات میں محقق ہے خدا ہے اور سب وہی ہیں اور وہ سب کچھ ہے۔ یہ سب تعبیرات باطل اور خلافِ وجدان اور کتاب و سنت میں موجود تصریحات کے مخالف ہیں۔ (9)
حوالہ جات:
1۔ بحار الانوار، جلد 2، باب 9، حدیث 22۔
2۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”معارفِ دین“، جلد سوم، سوال 9، صفحات 50 – 51، دفتر تنظیم و نشر آثار آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، قم، 1391 شمسی۔
3۔ دعائے صباح از امیر المؤمنین علیہ السلام۔
4۔ کافی، جلد 1، صفحہ 82۔
5۔ توحید مفضل، صفحہ 179۔
6۔ امالی شیخ مفید، مجلس 30۔
7۔ توحید شیخ صدوق، باب التوحید و نفی التشبيہ۔
8۔ توحید شیخ صدوق، باب القدرة۔
9۔ آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”معارفِ دین“، جلد سوم، سوال 9، 19 – 22، صفحات 50، 51، 63 تا 66، دفتر تنظیم و نشر آثار آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، قم، 1391 شمسی۔