محیی الدین ابنِ عربی نے اپنی کتاب فصوص الحکم میں حضرت مریم سلام الله علیہا اور حضرت جبرئیل ؑ پر غلیظ ترین تہمت لگائی ہے۔ فصِ عیسوی میں آیا ہے:
فسرت الشهوة في مريم: فخُلِقَ جسم عيسى من ماء محقق من مريم ومن ماء متوهم من جبريل (1)
ترجمہ: ”پس مریم ؑ پر شہوت طاری ہو گئی اور مریم ؑ سے نکلنے والے محقق پانی اور جبرئیل ؑ سے نکلنے والے متوہم پانی کے ملاپ سے حضرت عیسی ؑ کا بدن خلق ہوا۔“
حسن زادہ آملی (متوفیٰ 2021ء) حاشیے میں لکھتے ہیں:
آبِ محقق از مریم، آبِ متوہم نیز از مریم ولی با تصور از جبرئیل (2)
ترجمہ: ”آبِ محقق مریم ؑ سے نکلا اور آبِ متوہم بھی انہی سے نکلا لیکن جبرئیل ؑ کو تصور کرنے کی وجہ سے نکلا۔“
قرآن و حدیث میں حضرت عیسی ؑ کے بن باپ پیدا ہونے کا ذکر بڑی صراحت کے ساتھ آیا ہے اور نصاریٰ کے انکو اللہ کا بیٹا کہنے کی مذمت آئی ہے۔ قرآن و حدیث میں فرشتوں سے نکاح یا فرشتوں سے کسی قسم کی منی خارج ہونے کے امکان کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ ابنِ عربی کا جبرئیل ؑ سے آبِ متوہم نامی منی منسوب کرنا اور اس کو حضرت عیسی ؑ کی خلقت کا سبب قرار دینا ان نصوص کی کھلی مخالفت ہے۔
مذکورہ بالا عبارات ان حضرات کی جہالت کو ظاہر کرتی ہیں۔ جدید علوم میں ثابت ہو چکا ہے کہ حمل کا خواتین کے جسم سے نکلنے والی رطوبت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ حمل شرمگاہ سے دور رحم میں موجود انڈے کے ساتھ مرد کے نطفے کے ملاپ کی وجہ سے ٹھہرتا ہے۔ چنانچہ خواتین پر شہوت طاری ہوئے بنا بھی حمل ٹھہر سکتا ہے۔
نیز مرد کی منی خصیئوں میں بنتی ہے۔ خواتین کے جسم میں کسی کے ماء متوہم کا بننا بھی عقلاً محال ہے کیونکہ ان میں وہ عضو نہیں ہوتا جو مرد کی منی بنا سکے۔
جدید علوم میں یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ مختلف انواع کے نر اور مادہ کے جسمانی تعلق سے حمل نہیں ٹھہرتا۔ مثلاً گدھا، گھوڑا اور زیبرا ایک ہی نوع (genus) کے ہیں اسلئے ان کے ملاپ سے اولاد ہو سکتی ہے۔ لیکن گھوڑے اور گائے یا انسان اور حیوان کے ملاپ سے ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ جنابِ مریم ؑ اور انکے فرزند ؑ بشر تھے، فرشتہ نہیں تھے۔
ابنِ عربی اپنی اس خرافاتی کتاب کو رسول اللہ ؐ کی طرف نسبت دیتا ہے جو حدیث گھڑنے کے مترادف ہے۔ (3) روایات میں جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی مذمت آئی ہے۔ (4)
یہ بھی پڑھئے: جناب حسن زادہ آملی کی ریاضی اور علوم میں مہارت کے غلو پر مبنی افسانے – ڈاکٹر حمید رضا نیاکی
حوالہ جات:
1۔ ابنِ عربی، فصوص الحکم، جلد 1، صفحہ 139، دار الكتاب العربی، لبنان۔
2۔ حسن زادہ آملی، ممد الہمم در شرح فصوص الحكم، جلد 1، صفحہ 353، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامى، ایران۔
3۔ حسن زادہ آملی، ممد الہمم در شرح فصوص الحكم، جلد 1، صفحہ 8، سازمان چاپ و انتشارات وزارت فرهنگ و ارشاد اسلامى، ایران۔
4۔ سنی منابع میں بھی یہ بات آئی ہے کہ جعلی حدیث گھڑنے والے کا ٹھکانہ جہنم ہے: لَا تَکْذِبُوْا عَلَيَّ فَإِنَّهٗ مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ فَلْیَلِجِ النَّارَ.
أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب العلم، باب إثم من کذب علی النبي ﷺ، 1/52، الرقم/106، ومسلم في الصحیح، المقدمۃ، باب تغلیظ الکذب علی رسول اللہ ﷺ، 1/9، الرقم/1،، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/83، الرقم/629-630، والترمذي في السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في تعظیم الکذب علی رسول اللہ ﷺ، 5/35، الرقم/2660، وابن ماجہ في السنن، المقدمۃ، باب التغلیظ في تعمد الکذب علی رسول اللہ ﷺ، 1/13، الرقم/31، والنسائي في السنن الکبری، 3/457، الرقم/5911.