سورۃ طٰہٰ کی آیات 92 تا 94 میں یہ مضمون آیا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام سے کہا کہ اے ہارون تمہیں کس چیز نے روکا جب تم نے دیکھا تھا کہ وہ (سامری کے بچھڑے کی پوجا کے معاملے میں) گمراہ ہو گئے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ میں ڈر گیا کہ تو کہے گا کہ تُو نے بنی اسرائیل کے درمیان اختلاف پیدا کر دیا اور میرے فیصلے کا انتظار نہ کیا۔
اُن میں سے کچھ تو وہ لوگ تھے جو سامری کی اتباع کرتے ہوئے بچھڑے کی عبادت کر رہے تھے اور کچھ وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے واپس آنے تک بچھڑے کی عبادت سے کنارہ کیا تھا کہ جب وہ آئیں گے تو ان سے دریافت کریں گے۔ البتہ حضرت ہارون علیہ السلام نے خطرہ محسوس کیا کہ کہیں اُن کے باہمی اختلاف کو میری طرف نہ منسوب کر دیا جائے۔ جبکہ بچھڑے کی عبادت نے اُن میں اختلاف کو جنم دیا تھا۔
مگر ابنِ عربی کہتا ہے:
وكان موسى اعـلـم بالامر من ها رون لاته علم ما عبده اصحاب العجل لعلمه بان الله قد قضى ان لا يعبد الا اياه و مـا حـكـم الله بشي الا وقع فكان عتب موسى اخاه هرون لما وقع الامر فى انكاره و عدم اتساعه فان العارف من يرى الحق في كل شي بل يراہ عین کل شی، الخ.
ترجمہ: اور موسی ہارون سے زیادہ علم رکھتے تھے۔ موسیٰ خوب جانتے تھے کہ بچھڑے کی عبادت کرنے والوں نے اللہ کی تقدیر کے مطابق اس کی عبادت کی ہے اور اللہ جس بات کا فیصلہ کر دیتا ہے، وہ واقع ہو کر رہتی ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام کا اپنے بھائی پر ناراض ہونا اس لئے تھا کہ اُس نے (بچھڑے کی عبادت سے) انکار کیوں کیا اور اُن کی موافقت کیوں نہ کی؟ اس لئے کہ عارف تو ہر چیز میں اللہ ہی کو دیکھتا ہے بلکہ ہر چیز عین اللہ ہے۔ (1)
اس لئے آقائے علامہ محمد علی بہبہانی کرمانشاہی اعلیٰ اللہ مقامہ نے فصوص الحکم کے متعلق کیا خوب فرمایا کہ ’’فی الواقع فصوص ابوالحکم است در اثبات عبادت صنم“، کہ یہ کتاب دراصل فصوص ابوالحکم (ابو جہل) ہے جو بت پرستی کی توجیہ و تاویل کرتی ہے۔ (2)
صوفی محمود شبستری کا کہنا ہے:
مسلمان گر بدانستی که بُت چیست؟
بدانستی کہ دین در بت پرستی است!
مسلمان جانتا گر بُت کو کیا ہے
سمجھتا بُت پرستی میں خدا ہے (3)
حجۃ الاسلام والمسلمین نعمت علی سدھو
حوالہ جات:
1۔ فصوص الحکم، فص ہارونیہ، ص: 295، طبع مصر؛
انگریزی ترجمہ، ص: 244، طبع نیوجرسی، امریکہ۔
2۔ آقا محمد علی بہبہانی، خیراتیہ، ج:2 ، ص: 305۔
3۔ اُردوترجمہ شرح گلشن راز، ص: 294، طبع لاہور؛
مفاتیح الاعجاز، شرح گلشن راز، ص :641، طبع ایران۔