اہلبیت ؑ سے دور ہونے کا لازمی نتیجہ قرآن کے حقیقی معنوں سے بھی محروم ہو جانا تھا۔ صوفیوں کے اکابر ثقلین سے دوری کی وجہ سے توحید کی معرفت میں انحراف کا شکار ہو گئے۔ چنانچہ انکے پیروکاروں کا ایمان باللہ، دیدار الہیٰ جیسے شرک فی الذات سے آلودہ ہو گیا۔
اہلسنت کے مشہور علماء کی رائے
معتزلہ کے علاوہ اہلسنت کے اکثر علماء، بریلوی، وہابی، دیوبندی، اہل حدیث اور صوفیہ وغیرہ، رویتِ الہیٰ کے قائل ہیں۔ جیسا کہ اُن کے پیرو مرشد شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اسے سب اہلسنت کا مذہب قرار دینے پر بضد ہیں: ”یہ کہ حق تعالیٰ کو دیکھیں گے اور مومنین اُس کے دیدار سے آخرت میں مشرف ہوں گے، کافر اور منافق اس نعمت سے محروم رہیں گے اور یہی مذہب اہلسنت کا ہے۔“ (1)
امام النووی لکھتے ہیں: اعلم ان مذهب أهل السنة باجمعهم ان رؤية الله تعالى ممكنة غير مستحيلة عقلا واجمعو ايضاً على وقوعها في الآخرة وان المومنين يرون الله تعالى دون الكافرين (2)
ترجمہ: ”جان لو بیشک مذہب اہل السنت کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی کی رویت ممکن ہے اور عقلاً محال نہیں ہے اور اس کا آخرت میں وقوع ہونے پر اجماع ہے اور بیشک مومنین اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے اور کافر نہیں کریں گے۔“
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: نعم روية الله بالابصار هى للمومنين في الجنة، ”الله تعالٰی کی رویت آنکھوں کے ساتھ جائز ہے اور وہ مومنین کو جنت میں ہوگی“ (3) وهذا هو الحق الذي اتفق عليه سلف الأمة وأئمتها، ”اور یہ (رویت باری تعالیٰ) برحق ہے جس پر اسلافِ امت اور اس کے آئمہ کا اتفاق ہے۔“ (4)
معروف نیم خواندہ مبلغ، جناب انجینئر محمد علی مرزا، بھی آخرت میں اللہ کی زیارت کے قائل ہیں۔ صوفیوں کے پیر ابو بکر کلاباذی بھی اس میدان میں بازی ہار گئے، چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ”صوفیا کا اس پر اتفاق ہے کہ ہم آخرت میں اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھیں گے“۔ (5)
الغرض معتزلہ کے علاوہ صرف جاوید احمد غامدی صاحب کے استاد مولانا امین احسن اصلاحی صاحب دیوبندی، (6) مولانا ثناء اللہ امرتسری صاحب اہل حدیث، (7) اور علامہ ابوبکر جصاص حنفی (8) ہی وہ چند سنی علماء ہیں جو رؤيتِ خدا کے قائل نہیں ہیں۔
نام نہاد پدرِ عرفان اور رؤیتِ خدا
محیی الدین ابن عربی لکھتا ہے: علمنا في رؤيتنا الحق تعالى في صورة يردها الدليل العقلي أن نعبر تلك الصورة بالحق المشروع إما في حق حال الرائي أو المكان الذي رآه فيه أو هما معاً. وإن لم يردها الدليل العقلي أبقيناها على ما رأيناها كما نرى الحق في الآخرة سواء. (9)
ترجمہ: ”تو میں نے حق تعالیٰ کی کسی صورت پر دیکھے جانے میں جانا، جس کو دلیلِ عقل روکتی ہے، کہ ہم اس صورت کو کسی امر مشروع کے ساتھ تعبیر کریں اور وہ تعبیر بااعتبار رائی، یعنی دیکھنے والے کی حالت، ہوگی۔ بااعتبار دونوں حالتوں کے ہوگی۔ اور اگر اس صورت کو عقل منع نہ کرے تو ہم اس کو اسی صورت پر چھوڑ دیں گے جس صورت پر ہم نے اس کو دیکھا ہے۔ جیسے ہم قیامت میں حق تعالیٰ کو کامل اور صحیح و سالم صورت پر دیکھیں گے۔“ (10)
مزید لکھتا ہے: فإِذا انكشف الغطاء رأى صورة معتقده وهي حق فاعتقدها. وانحلت العقدة فزال الاعتقاد وعاد علماً بالمشاهدة. وبعد احتداد البصر لا يرجع كليل النظر، فيبدو لبعض العبيد باختلاف التجلي في الصور عند الرؤية خلاف معتقده لأنه لا يتكرر، فيصدق عليه في الهوية «وبَدا لَهُمْ من الله» في هويته «ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ» فيها قبل كشف الغطاء. (11)
ترجمہ: ”پر جب اُن سے پردہ تعین کا کھول دیا جائے گا تو وہ اپنی اعتقادی صورت میں اُس کو دیکھ لیں گے۔ اور وہ حق تھا اسی واسطے انہوں نے اس کا اعتقاد کیا تھا۔ اور جب تعین کا عقدہ ان سے کھل جائے گا اور وہ اعتقاد مشاہدے سے علم یقینی ہو کر عود کرے گا، اور بصارت تیز ہونے کے بعد ان کی آنکھیں تھک کر پھر نیچے کو پلیٹیں گی، پھر حق تعالیٰ بعض بندوں پر صورتوں میں تجلّی کے اختلاف سے دیکھتے وقت ان کے عقیدہ کے خلاف ظاہر ہوگا۔ کیونکہ اس کی تجلی ایک صورت میں مکرر نہیں ہوتی۔ پھر رویت کے بارے میں یہ آیت پوری صادق آتی ہے، وَبَدَا لَهُم مِّنَ اللَّهِ مَا لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ (سورہ زمر، آیت 47)، اور اُن کو حق تعالیٰ سے اس کی وہ رویت ظاہر ہوگی، جس کو وہ قبل پردہ کھولے جانے کے، رویت کے باب میں نہ جانتے تھے۔ یعنی پہلے وہ لوگ اس کے ہونے کو مقید جانتے تھے اور اب بعد حجاب اُٹھ جانے کے، اُس کو مطلق دیکھیں گے۔“ (12)
صوفی ابنِ عربی ایک اور جگہ کہتا ہے: وأثبت رؤيته في الدار الآخرة بظاهر قوله وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة وكلا إنهم عن ربهم يومئذ لمحجوبون. (13)
ترجمہ: ”اور قیامت کے روز رویت باری تعالیٰ کا اس کے ان فرامین سے اثبات ہوتا ہے: وجوه يومئذ ناضرة إلى ربها ناظرة اور وكلا إنهم عن ربهم يومئذ لمحجوبون۔“ (14)
دیدار الہیٰ کیونکر ممکن نہیں؟
اللہ تعالیٰ کو ظاہری آنکھوں سے دیکھنا نہ صرف دُنیا ہی میں بلکہ آخرت میں بھی محال ہے۔ مکتبِ اہلبیت ؑ کے مطابق اللہ تعالیٰ جسم و صورت اور ترکیب سے پاک اور جوہر و عرض ہونے سے مبرا و منزہ ہے۔ اس لئے نظر نہیں آسکتا۔
کیونکہ جسم اس جوہر کا نام ہے جو لمبائی، چوڑائی اور گہرائی رکھتا ہو۔ اور صورت ایک عرضِ خاص یعنی شکلِ محدود کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات ان دونوں چیزوں سے پاک و منزہ ہے۔ جوہر وعرض دونوں ممکن الوجود ہیں اور اللہ تعالیٰ ممکن نہیں بلکہ واجب الوجود (جس پر عدم محال ہو) ہے۔
جوہر اس ماہیت اور حقیقتِ کلیہ رکھنے والی ممکن شئے کا نام ہے جو بذاتِ خود قائم ہو اور اپنے وجود میں موضوع، یعنی موجد، کی محتاج نہ ہو۔ اور عرض سے مراد وہ ممکن الوجود ہے جو اپنے وجود میں موضوع کا محتاج ہو یعنی جو قائم بالغیر ہو، جیسے رنگ و بو وغیرہ۔ جوہر اپنے کمال میں عرض کا اور عرض اپنے وجود میں جوہر کا محتاج ہوتا ہے۔
حدیثِ عرضِ دین
امام علی نقی علیہ السلام سے مروی حدیثِ عرضِ دین میں آیا ہے:
ان الله تبارک و تعالی واحد لیس کمثله شی ء خارج من الحدین حد الابطال و حد التشبیه، و انه لیس بجسم و لا صورة و لا عرض و لا جوهر بل هو مجسم الاجسام و مصور الصور و خالق الاعراض و الجواهر، و رب کل شی ء و مالکه و جاعله و محدثه. (15)
ترجمہ: ”خدا ایک ہے اور اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، اور وہ ابطال اور تشبیہ کی دو حدوں سے باہر ہے، خدا جسم، صورت، عرض اور جوہر نہیں ہے۔ بلکہ اس نے جسموں کو جسمانیت دی ہے اور وہ شکلوں کا مصور ہے۔ وہ اعراض و جواہر کا خالق ہے اور ہر چیز کا رب، مالک، جاعل اور محدث ہے۔“
آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«در سـلب جسـمیت، صورتیت و عرضـیت و جوهریت تفاوت نمی کنـد که اینها را بر طبق اصـطلاح اهل معقول تفسـیر کنیم و خواه این که این کلمات به معنای عرفی که شاید اظهر باشد معنا شوند که جسم یا به معنای جسد یا هر چیزی که ابعاد ثلاثه داشـته باشـد (طول و عرض و عمق) معنا شود، و صورت، به معنای متشـکل بودن به شـکل که به آن اشـکال مختلف از هم تمیز داده می شوند و عرض هم در اصطلاح عرفی چیزی است قائم به غیر و در محل است؛ و به عبارت دیگر جوهر که عرفاً در مقابـل عرض است و نه جوهر در مقابل معانی دیگر که در اصطلاح منقسم به پنج قسم و یکی از دو قسم ممکن است. امّا جوهر به معنای ذات الشـئ و حقیقة الشـئ مراد نیست. به هر حال خدا منزه از این معانی است اعم از این که معانی اصطلاحی مقصود باشد یا معانی عرفی در مقابل معانی دیگر.» (16)
دیکھنے کے لوازمات
کسی چیز کے دیکھنے کے لئے آٹھ چیزوں کا ہونا ضروری ہے اُس کے بغیر وہ چیز نظر نہیں آسکتی:
1. حاسئہ بصر کا صیح و سالم ہونا۔
2. جو چیز دیکھی جارہی ہے وہ دیکھنے والے کےسامنے ہو یا سامنے ہونے کا حکم رکھتی ہو۔ جیسے آئینے کے ذریعے اس چیز کے سامنے ہونے کے حکم میں ہونا۔
3. وہ چیز حد سے زیادہ قریب نہ ہو۔
4. حد سے زیادہ دور نہ ہو۔
5. چیز اور آنکھ کے درمیان کوئی چیز حاجب یا حائل نہ ہو۔
6. دکھائی دینے والی چیز غیر مرئی نہ ہو۔ مثلاً خلا کی طرح شفاف نہ ہو جو عام طور پر دکھائی نہیں دیتی۔
7. دیکھنے والا چیز کو دیکھنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
8. تاریکی یا اندھیرا نہ ہو بلکہ کم از کم اتنی روشنی ہو کہ چیز نظر آسکے۔
ظاہر ہے کہ ان آٹھ شرائط میں سے کسی ایک بھی شرط کے نہ ہونے کی صورت میں رویت نہیں ہو سکتی۔ اور یہ تمام صفات ممکن الوجود (مخلوق) کی ہیں، جب کہ اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے۔ خواب میں بھی ذہن جاگتی آنکھوں سے دکھائی دینے والی چیزوں سے سنخیت رکھنے والی تصاویر ہی بنا سکتا ہے۔ انسانی ذہن خود بھی زمان و مکان میں مقید ہے۔
دیدار و رؤيت کے لئے جہت یا سمت کا ہونا لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایک طرف ہو، تاکہ اس کو دیکھا جا سکے۔ لیکن ایسا ہونے کی صورت میں وہ اس سمت میں محدود اور اس مکان میں مقید ہو جائے گا، جو کہ خالقِ مکان کیلئے محال ہے۔
مجسمہ کا عقیدہ درست نہیں
جسم مرکب ہوتا ہے اور مرکب اپنے اجزا کا محتاج ہوتا ہے، اور جو محتاج ہوتا ہے وہ قادر نہیں ہو سکتا، جب کہ الله تعالیٰ ”ان الله على كل شئ قدیر“ (17) کا مصداق ہے۔ الیکٹران مائیکروسکوپ کے ذریعے بظاہر نظر نہ آنے والے ایٹموں کو دیکھا جا چکا ہے کہ جو اپنے اجزاء الیکٹران، پروٹان اور نیوٹران پر مشتمل ہوتے ہیں۔
جو چیز نظر آتی ہے اس پر شئے کا اطلاق ہوتا ہے۔ جب کہ وہ ذات نہ صرف یہ کہ ”لیس کمثلہ شئ“ (18) ہے یعنی کائنات میں کوئی چیز بھی اُس جیسی نہیں ہے۔ بلکہ ”الله خالق كُلِّ شَيْءٍ“، (19) یعنی اللہ ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے۔
جدید علوم میں یہ ثابت ہو چکا ہے کہ زمان و مکان مادی صفات اور محدودیتیں رکھتے ہیں۔ ہائزنبرگ اور آئن سٹائن کی تحقیقات نے زمان و مکان کا مادے سے علت و معلول سا تعلق ثابت کیا ہے۔ زمان و مکان اور مادہ ایک ساتھ خلق ہوئے اور حادث ہیں۔ لہٰذا جس کے کسی سمت میں اور مکان میں ہونا ممکن ہو اسے جسمانیت سے پاک نہیں کہا جا سکتا۔
بنی اسرائیل کی تمنا جو پوری نہ ہوئی
ارشادِ خداوندی ہے: ”وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَىٰ لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّىٰ نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ“. (20) اور جب تم نے کہا اے موسیٰ ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو ظاہر بظاہر نہ دیکھ لیں، پس تمہیں بجلی نے آپکڑا اور تم دیکھتے تھے۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جناب موسیٰ علیہ السّلام، جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نبی تھے، اپنی قوم سے کہتے تھے کہ تم مجھ پر ایمان لاؤ اور وہ جواب دیتی تھی کہ تم ہمیں اللہ کی زیارت کروا دو تو ایمان لائیں گے۔
اُن لوگوں نے اپنی کسی ذاتی نفع کی شرط عائد نہیں کی بلکہ حصولِ یقین کیلئے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی تمنا کی۔ اب اگر اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا ممکن ہوتا تو اللہ کے عدل اور حکمت کا تقاضا تھا کہ وہ ان لوگوں کو دکھائی دیتا۔ خواب اور کشفی حالت میں بھی ممکن ہوتا تو بھی ایسا ہو جاتا۔
مگر یہ امر محال تھا۔ اس سبب سے اُن پر آسمانی بجلی گری۔ اگر اللہ تعالیٰ کا دکھائی دینا ممکن ہوتا تو ان لوگوں کی درخواست پر بجلی گرانا اللہ تعالیٰ کی حکمت و عدل کے خلاف ہوتا۔ مگر اس کا دیکھنا محال تھا اور ہمیشہ محال ہی رہے گا۔ اس لیے اُن کے اس سوال پر غضب الہی کو جوش آ گیا۔
دوسری جگہ اس اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا گیا ہے: ”فَقَالُوا أَرِنَا اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْهُمُ الصَّاعِقَةُ بِظُلْمِهِمْ“. (21) یعنی یہ کہا تھا کہ ہمیں اللہ تعالی کھلم کھلا دکھا دیں، پس اُن کے اس ظلم کے سبب ان کو بجلی نے آ پکڑا تھا۔ اس آیت مبارکہ میں بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ ؑ سے اللہ کے دکھلا دینے کی درخواست کی، اُس کو اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کا ظلم قرار دیا۔ بے شک شرک ظلمِ عظیم ہے۔ پس اگر اللہ کا دکھائی دینا ممکن ہوتا تو اللہ اُن کی اس درخواست کو ظلم قرار نہ دیتا بلکہ آسانی سے اُن لوگوں کو اپنی زیارت کروا کر ان پر حجت تمام کر دیتا۔
تیسری جگہ اس واقعہ کو یوں بیان فرمایا گیا ہے: قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ. (22)
موسیٰ ؑ نے کہا: ”اے میرے پروردگار! تو مجھے اپنا آپ دکھا کہ میں تجھے دیکھ لوں! فرمایا تو مجھے ہرگز اور کبھی بھی نہیں دیکھ سکتا۔ مگر ہاں اس پہاڑ کی طرف نظر کر، اگر وہ اپنی جگہ قائم رہے تو سمجھنا کہ تو مجھے بھی دیکھ لے گا ورنہ نہیں۔ پس جب اس کے پروردگار نے پہاڑ پر اپنے نور کا چمکارا ڈالا تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بیہوش ہو کر گر پڑا، پھر جب اسے ہوش آیا تو کہنے لگا، تو پاک ہے، میں نے تیری طرف رجوع کر لیا ہے اور میں سب سے پہلے (تیری عدمِ رویت پر)، ایمان لانے والا ہوں۔“
اس آیت میں لَن تَرَانِي، ابدی مستقبل ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ تو کبھی بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ نہ دنیا میں نہ آخرت ہی میں!
اگر کہا جائے کہ دیدار کا سوال حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی مرضی سے کیا تھا، تو اگر یہ محال تھا تو سوال کیوں کیا؟ تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ جناب موسیٰ ؑ نے قوم کے اصرار پر کہ جب تک ہم اللہ تعالیٰ کو ظاہر بظاہر نہ دیکھ لیں ایمان نہ لائیں گے، دیدار کا سوال کیا تھا۔ چنانچہ عذاب الہی کی بجلی جو آسمان سے گری وہ دیدار الہی کا مطالبہ کرنے والے اُن لوگوں ہی پر پڑی جو ایسا مطالبہ رکھنے کی بنیاد پر ظالم قرار پائے تھے۔ اور حضرت موسیٰ ؑ، جن کا دامن اس ظلم سے پاک تھا، اُس بجلی سے محفوظ اور صحیح و سالم رہے۔
اگر کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دیدار کو پہاڑ کے قرار پڑنے پر مشروط اور موقوف کیا تھا اور پہاڑ کا استقرار فی نفسہٖ امرِ ممکن ہے اور ممکن پر جو موقوف ہو وہ بھی ممکن ہوتا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ، جو عالم الغیب ہے، اپنے علمِ ازلی کے پیش نظر جانتا تھا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائے گا اور پہاڑ کے ریزہ ریزہ ہونے کی حالت میں پہاڑ کا استقرار فی نفسہٖ ممتنع اور ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ کو دیکھنا جس استقرار پر موقوف تھا، وہ اُسی حالت کا استقرار تھا۔ لہٰذا یہاں دیدارِ خدا، امرِ ممکن پر نہیں بلکہ امرِ محال پر موقوف تھا۔
جس طرح اس آیت مبارکہ میں آیا ہے: وَلَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ. (23) یعنی اور وہ جنت میں داخل نہ ہوں گے جب تک اُونٹ سوئی کے ناکے میں داخل نہ ہو جائے۔
لا تدركه الأبصار
ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ. (24) یعنی اسے نگاہیں نہیں پا سکتیں اور وہ نگاہوں کو پا لیتا ہے اور وہ نہایت باریک بین اور پورا خبردار ہے۔ یعنی دل کے خیالات میں بھی اس کا ادراک نہیں کہا جا سکتا تو آنکھوں کی بصارتیں کیونکر اُسے دیکھ سکتی ہیں؟
متشابہ آیات کی تفسیر
ہم سورہ آل عمران میں پڑھتے ہیں: هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ ؔۚ وَمَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ۘؐ وَالرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ (سورہ آل عمران، آیت 7)
ترجمہ: ”وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں محکم آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور اپنی مراد پانے کے لئے، حاﻻنکہ ان کے حقیقی معنی کو سوائے اللہ تعالیٰ اور علم میں راسخ لوگوں کے، کوئی نہیں جانتا۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان ﻻچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں۔“
رؤيتِ خدا کے سلسلے میں آنے والی متشابہ آیات کی تفسیر محکم آیات اور فرامین معصومین ؑ کی روشنی میں ہی کرنی چاہئے، جیسا کہ حدیثِ ثقلین میں انہی دو کے دامن سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے۔
ارشادِ رب العزت ہے: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ. إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ. (25) اس آیت میں ناظرہ، انتظار کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ اس آیت میں: فَنَاظِرَةٌ بِمَ يَرْجِعُ الْمُرْسَلُونَ. (26) یا اس آیت کریمہ میں: مَا يَنظُرُونَ إِلَّا صَيْحَةً وَاحِدَةً تَأْخُذُهُمْ وَهُمْ يَخِصِّمُونَة. (27)
اور اگر اس آیت مبارکہ کا یہ ترجمہ کریں: ”کئی چہرے اُس دن تر و تازہ اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے“، تو اس میں بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ رب نظر آ رہا ہوگا۔ کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف نظر کی جائے وہ دکھائی بھی دے۔
جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَتَرَاهُمْ يَنظُرُونَ إِلَيْكَ وَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ. (28) ”اور تم انہیں دیکھو گے کہ وہ تمہاری طرف نظر کر رہے ہیں، حالانکہ وہ دیکھتے نہیں“۔ اس آیت مبارکہ میں نظر کرنے کے باوجود رویت کی نفی کی گئی ہے۔
ثانیاً علم معانی میں ایک باب ایجاز کا ہے، جس میں لفظ اصل مراد سے کم لیکن کافی ہوتا ہے۔ اس کی ایک قسم ایجاز حذف ہے، یعنی کلام میں کوئی قرینہ موجود ہو جو محذوف کا تعین کر رہا ہو۔ (29)
لہٰذا اصل کلام کی تقدیر اس طرح ہے: ناظرة الى رحمة ربّها و ثواب ربّها، یعنی وہ چہرے اپنے پروردگار کی رحمت کی طرف یا اس کے ثواب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ جیسا کہ اس آیت مبارکہ میں وَجَاءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا. (30) ”اور تیرے پروردگار (کاحکم) آئے گا اور فرشتے صف در صف آ موجود ہوں گے“۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ جاء اور ربک کے درمیان لفظ امر محذوف ہے۔
ثالثاً اس آیت مبارکہ میں لفظ نظر خواہ انتظار کے معنی میں ہو یا دیدار اور رویت کے معنی میں، ہر دو صورتوں میں لفظ الی حرف جر نہیں بلکہ الا کا مفرد ہے، جو کہ نعمت کیلئے آیا ہے۔ یعنی وہ چہرے اپنے رب کی نعمت کے منتظر ہوں گے یا اُس نعمت کو دیکھنے والے ہوں گے۔
کفار کے محجوب رہنے کا مفہوم
رویت کے اثبات میں یہ آیت مبارکہ بھی پیش کی جاتی ہے: كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ. (31) ”یقیناً وہ اس دن اپنے پروردگار سے روک دیئے جائیں گے“۔ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات محتاج مکان نہیں، وہ لا مکان ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ کسی مکان وجگہ میں تشریف فرما ہو اور اس کی خدمت میں حاضر ہونے سے لوگوں کو روک دیا جائے۔
لہٰذا یہ رؤیت اور دیدار کے منع کو مستلزم نہیں، تاکہ اس کے مخالف مفہوم سے رویت کا اثبات کیا جا سکے۔ محاورۂ عرب میں کہا جاتا ہے: حجب من المیراث، کہ فلاں شخص کو میراث سے محجوب کیا گیا۔ یعنی اُس سے اسے روک دیا گیا۔ غرض یہ کہ اس آیت مبارکہ کا معنی یہ ہوا کہ کافر لوگ اپنے رب کے ثواب سے محروم کر دیئے جائیں گے۔
احادیث میں رؤيت الہیٰ کی نفی
ذعلب یمنی نے مولا علی علیہ السلام سے سوال کیا کہ یا امیر المومنین ؑ کیا آپ ؑ نے اپنے پروردگار کو دیکھا ہے؟ تو آپ ؑ نے فرمایا: کیا میں اس اللہ کی عبادت کرتا ہوں جسے میں نے دیکھا تک نہیں؟ اس نے کہا کہ آپ ؑ کیونکر دیکھتے ہیں؟ تو آپ ؑ نے ارشاد فرمایا کہ:
”آنکھیں اسے کھلم کھلا نہیں دیکھتیں بلکہ دل ایمانی حقیقتوں سے اسے پہچانتے ہیں۔ وہ ہر چیز سے قریب ہے، لیکن جسمانی اتصال کے طور پر نہیں۔ وہ ہر شےء سے دور ہے مگر الگ نہیں۔ وہ غور و فکر کئے بغیر کلام کرنے والا اور بغیر اعضاء (کی مدد) بنانے والا ہے۔ وہ لطیف ہے لیکن پوشیدگی سے اسے متصف نہیں کیا جاسکتا۔ وہ بزرگ و برتر ہے مگر تند خوئی اور بدخلقی کی صفت اس میں نہیں۔ وہ دیکھنے والا ہے مگر حواس سے اسے موصوف نہیں کیا جاسکتا۔ وہ رحم کرنے والا ہے مگر اس صفت کو نرم دلی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ چہرے اس کی عظمت کے آگے ذلیل و خوار اور دل اس کے خوف سے لرزاں و ہراساں ہیں۔“ (32)
اہلبیت عصمت و طہارت علیہم السلام سے مروی احادیثِ مبارکہ میں نفی رؤيت باری تعالیٰ کا موضوع تفصیل سے آیا ہے۔ (33) سنی کتبِ میں بھی ایسی روایات آئی ہیں جن سے خدا کے دیدار کی نفی ہوتی ہے۔ (34) (35)
علمائے تشیع کا نظریہ
شیخ صدوق ؒ فرماتے ہیں:
”توحید کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی واحد و یکتا ہے۔ کوئی چیز اس کی مثل و مانند نہیں۔ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ سنتا ہے۔ (ہر آواز کا علم رکھتا ہے)۔ دیکھتا ہے (دکھائی جانے والی چیزوں کا علم رکھتا ہے)۔ ہر شے سے باخبر ہے۔ وہ ایسی ذات ہے کہ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہے۔ زندہ ہے اور اسے زوال نہیں ہے۔ غالب ہے۔ منزہ ہے۔ سب چیزوں کا علم رکھتا ہے۔ ہر شے پر قدرت رکھتا ہے۔ بے نیاز ہے۔ اس کی پاک ذات ایسی ہے کہ اسے جوہر، عرض، جسم، صورت، خط، سطح، ثقل، خفت، حرکت، سکون، مکان، اور زمان جیسی صفات سے متصف نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ یہ سب مادی صفات ہیں اور وہ اپنی مخلوقات کی تمام صفات سے منزہ اور مبری ہے۔ نہ وہ ایسی ذات ہے جس سے فضل و کمال کی نفی کی جائے اور نہ ہی اس کے کمال کو مخلوق کے کسی کمال سے مشابہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ موجود ہے، لیکن دیگر موجودات کی طرح نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے۔ بے نیاز ہے۔ نہ اس سے کوئی پیدا ہوا کہ جسے وارث بنایا جائے اور نہ وہ خود کسی سے پیدا ہوا کہ اس کی صفات یا ذات میں شریک قرار پائے۔ اس کا کوئی ہمسر نہیں۔ اس کی کوئی نظیر نہیں ہے۔ کوئی ضد نہیں ہے۔ کوئی شبیہ نہیں ہے۔ کوئی شریک حیات نہیں ہے۔ کوئی مثل و نظیر نہیں ہے اور نہ ہی اس کا کوئی مشیر کار ہے۔ وہ ایسا لطیف و خبیر ہے کہ آنکھیں اسے نہیں دیکھ سکتیں، وہ آنکھوں کے حال سے باخبر ہے۔ انسانی وہم و خیال اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، جبکہ وہ انسانی وہم و خیال کا احاطہ رکھتا ہے۔ اسے اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ ہر شے کا خالق وہی ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ خلق اور حکمرانی کرنا اسی کا حق ہے۔ بابرکت ہے وہ ذات جو تمام جہانوں کا رب ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو مخلوق جیسا سمجھے وہ مشرک ہے اور جو شخص توحید کے باب میں سابق الذکر عقیدے کے علاوہ کسی عقیدے کو شیعوں کی طرف منسوب کرے، وہ جھوٹا ہے۔“ (36)
علامہ باقر مجلسی ؒ لکھتے ہیں:
”خدا کو ان ظاہری آنکھوں سے دنیا و آخرت میں دیکھنا محال ہے اور اس سلسلہ میں جو بعض (متشابہ آیات و روایات) وارد ہیں ان کی تاویل کی گئی ہے۔ خدائے تعالیٰ کی ذات و صفات کی حقیقت واقعیہ تک انسانی عقل و خرد کی رسائی ممکن نہیں ہے۔“ (37)
کتاب دیدار الہیٰ
اس مشرکانہ عقیدے کی وضاحت اور مفصل رد جاننے کیلئے مولانا نعمت علی سدھو کی کتاب دیدار الہیٰ کو ڈاؤنلوڈ کریں۔
حوالہ جات:
1. شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی، تحفہ اثنا عشریہ، عقیده بیست و دوم، باب پنجم، ص 311، طبع ترکی، و مترجم ص 304، طبع کراچی۔
2. صحیح مسلم مع شرح النووي، ج 3، ص 15، طبع دار الفکر۔
3. ابنِ تیمیہ، الفتاوی، ج 3، ص 390، 391۔
4. ابنِ تیمیہ، رسالہ التدمریۃ، ص 25۔
5. كتاب التعرف لمذہب اہل التصوف، ص 61، مترجم طبع لاہور۔
6. تفسیر تدبر القرآن، سوره قیامت، آیت نمبر 22، 23 و سوره مطففین، آیت نمبر ۱۵۔
7. الفيصلۃ الحجازيۃ السلطانیہ، مولف مولانا عبد الاحد خانپوری، ص 27، 28، مطبوعہ راولپنڈی 1919ء۔
8. احکام القرآن، جلد 3، ص 5۔
9. ابنِ عربی، فصوص الحکم، فص اسحاقیہ، صفحہ 87۔
10. ذہین شاہ تاجی، ترجمۂ فصوص الحکم، ص 236۔
11. ابنِ عربی، فصوص الحکم، فص شعیبیہ، صفحہ 124۔
12. ذہین شاہ تاجی، ترجمۂ فصوص الحکم، ص 378۔
13. ابنِ عربی، فتوحات مکیہ، ج 1، ص 35
14. سورہ مطفّفین، آیت 15
15. شیخ صدوق، التوحید، ص 81، حدیث 37۔
16. آیۃ اللہ العظمیٰ صافی گلپائگانی، ”شرح حدیث عرضِ دین حضرت عبدالعظیم حسنی ؓ“، ص 78، قم، 1394 شمسی۔
17. سورہ بقرہ، آیت 20 اور قرآن مجید میں دیگر 37 مقامات۔
18. سورہ شوری، آیت 11۔
19. سورہ زمر، آیت 62۔
20. سورہ بقرہ، آیت:55۔
21. سورہ نساء، آیت 153۔
22. سورہ اعراف، آیت 143۔
23. سورہ اعراف، آیت 40۔
24. سورہ انعام، آیت 103۔
25. سورہ قیامت، آیات 22 ،23۔
26. سورہ نمل،آیت 35۔
27. سورہ يٰـسٓ، آیت 49۔
28. سورہ اعراف، آیت 198۔
29. مختصر معانی مع حاشیہ محمود الحسن، صفحات 286 تا 291۔
30. سورہ فجر، آیت 22۔
31. سورہ مطفّفین، آیت 15۔
32. مفتی جعفر حسین، ترجمہ نہج البلاغہ، خطبہ 177، صفحہ 412، معراج کمپنی، لاہور، 2003۔
33. ملاحظہ ہوں: کلینی، الکافی، 1407 قمری، باب ابطال الرؤیّۃ، ج 1، ص95 – 110؛ شیخ صدوق، التوحید، 1398 قمری، باب ما جاء فی الرؤیّۃ۔، ص 107 – 122۔
34. صحيح مسلم، حدیث 177a:
مسروق سے روایت ہے کہ میں ام المؤمنین عائشہ کے پاس تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا کہ جو کوئی سمجھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے، اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا کہ میں تکیہ لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا کہ اے ام المؤمنین! ذرا مجھے بات کرنے دیں اور جلدی مت کریں۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ ”اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے“ (سورہ تکویر، آیت 23) ”اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا“ (سورہ نجم، آیت 13)۔ ام المؤمنین عائشہ نے کہا کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ان آیتوں سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا سوا دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے جسم کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کے فاصلہ کو بھر دیا تھا۔ پھر ام المؤمنین عائشہ نے کہا کہ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اس (اللہ) کو تو کسی کی نگاہ نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو دیکھ سکتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے“ (سورہ انعام، آیت 103) کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”ناممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے“ (سورہ شوریٰ، آیت51)۔ الخ
35. صحیح مسلم، حدیث 178a:
أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم هَلْ رَأَيْتَ رَبَّكَ قَالَ ”نُورٌ أَنَّى أَرَاهُ“.
It is narrated on the authority of Abu Dharr: I asked the Messenger of Allah (PBUH): Did you see thy Lord? He said: (He is) Light; how could I see Him?
36. شیخ صدوق، اعتقادات، صفحات 15 و 16، البلاغ المبین اسلامی تحقیقاتی و اشاعتی ادارہ، اسلام آباد، 2006ء۔
37. آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین نجفی ڈھکو، اعتقاداتِ امامیہ، ترجمہ رسالۂ لیلیہ از علامہ باقر مجلسی، صفحہ 47، مکتبۃ السبطین، سرگودھا، 2006ء۔