ابنِ عربی کے خیالات

ابنِ عربی اور دسویں محرم کا روزہ

466 ملاحظات

ابنِ عربی (متوفیٰ 1240ء) کا تعلق اندلس سے تھا جہاں اُموی حکومت نے عاشور کے جشن کا رواج قائم کیا تھا اور یہ جشن آج بھی دس محرم کو میلے کے طور پر مراکش میں منایا جاتا ہے۔ اس روز خوبصورت لباس زیبِ تن کئے جاتے ہیں، مختلف مٹھائیاں اور حلوہ جات تقسیم ہوتے ہیں، بچوں کو تحائف دیئے جاتے ہیں اور کھیل کود کا اہتمام ہوتا ہے۔ ابنِ عربی کے دور میں شام و مصر پر بھی صلاح الدین ایوبی (متوفیٰ 1193ء) کے ورثاء حاکم تھے۔ ایوبیوں نے ان علاقوں سے شیعی ثقافت کا خاتمہ کر کے عاشور کے جشن کا احیاء کیا تھا جو بنی امیہ کے اقتدار کا سورج ڈوبنے کے ساتھ متروک ہو گیا تھا۔

صوفیاء کے علمِ حضوری اور کشف و شہود میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ وہ جن چیزوں کو علمِ حضوری کہتے ہیں وہ ذہن پر بچپن کے ناگزیر تجربات کے نقوش ہوتے ہیں اور جسے وہ الہام کہتے ہیں وہ انکی خواہشات کی ذہنی بازگشت ہوتے ہیں۔ یہ ذہنی اختراعات کا مجموعہ ہوتے ہیں اور صوفیاء ان کو کشف و الہام اور خطا سے پاک علم کا نام اسلئے دیتے ہیں تاکہ اپنے خیالات کو خارجی حقائق پر پرکھنے اور ان کی تطہیر کی محنت سے بچا جا سکے۔ لہٰذا ابنِ عربی کے ہاں بھی جو کچھ ملتا ہے وہ اس ثقافت کا عکس ہے جس میں وہ پلا بڑھا، جس کے بارے میں اس نے تحقیق کر کے خوب و بد کو جدا کرنے کی زحمت گوارا نہ کی۔ اس کا واسطہ فلوطین (متوفیٰ 270ء) اور اپنشاد کی تعلیمات سے بھی پڑا جو شمالی افریقہ میں زمانہ قبلِ اسلام سے ہی عام تھیں، تو یہ گویا اس کے نظریات کا حصولی منبع قرار پائیں۔ ابنِ عربی کے عرفان میں اس کو بچپن میں ملنے والی اُموی تربیت کی ایک جھلک اہلبیت ؑ سے بغض کی شکل میں نظر آتی ہے۔ مثلاً وہ اہلبیت ؑ کے بجائے صحابیوں کو آلِ نبی ؐ قرار دیتا ہے۔ (1) یہ وہی مغالطہ ہے جو سپاہِ صحابہ اور منکرینِ حدیث جیسے ناصبیتِ جدیدہ کے علمبرداروں کے ہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی کی حدیثِ غدیر، حدیثِ ثقلین اور اہلبیت ؑ کے دیگر فضائل کو چھپانے کی کوشش

یومِ عاشور کا روزہ بھی ناصبیت کے مظاہر میں سے ایک ہے۔ چنانچہ اہلبیت ؑ سے مروی روایات میں آیا ہے کہ اس دن روزہ رکھنا اور اسے مبارک سمجھنا جائز نہیں ہے۔ اس موضوع پر متعدد روایات ہیں اور اختصار کے پیشِ نظر چند ایک کا ذکر حسبِ ذیل ہے:

1۔ امام رضا ؑ سے دسویں محرم کے روزے کے بارے سوال ہوا تو آپ ؑ نے کہا: ابنِ مرجانہ کے روزے کے بارے میں کیا پوچھتے ہو؟ اس دن آلِ زیاد نے قتلِ حسین ؑ پر خوشی منانے کی غرض سے روزہ رکھا۔ (2)

2۔ امام جعفر صادق ؑ سے کسی نے دس محرم کے روزے کا حکم پوچھا تو آپ ؑ نے فرمایا: یومِ عاشورا وہ دن ہے جب حسین ؑ پر مصائب ٹوٹے، آپ ؑ اور آپکے ساتھی زمین پر اس طرح پڑے تھے کہ انکے بے کفن لاشے آپکے گرد بکھرے ہوئے تھے۔ کیا یہ لوگ اس دن روزہ رکھتے ہیں؟ خدائے کعبہ کی قسم! یہ درست نہیں ہے۔ جو اس دن کو مبارک سمجھتے ہوئے روزہ رکھے، اس کا انجام آلِ زیاد کے ساتھ ہو گا۔ (3)

3۔ امام باقر ؑ سے عاشورہ کے روزے کی بابت سوال ہوا تو آپ ؑ نے کہا: یہ ان ایام میں سے ہے جس کا روزہ ماہِ رمضان کے روزے واجب قرار پانے پر متروک ہو گیا۔ متروک روزوں کو بجا لانا بدعت شمار ہوتا ہے۔ (4)

البتہ ابنِ عربی اس دن کو نہ صرف مبارک شمار کرتا ہے بلکہ اس کے روزے پر بھی تاکید کرتا ہے۔ فتوحاتِ مکیہ میں ”الرکبان أصحاب التدبیر: شمائلهم و خصائصهم‏“ کے عنوان سے باندھے گئے باب میں روز عاشورا کو بابرکت شمار کرتے ہوئے اسے ماہِ رمضان، لیلۃ القدر، روزِ جمعہ اور روزِ عرفہ کا ہم پلہ قرار دیتا ہے۔ (5) آگے جا کر وہ ایک فصل قائم کرتا ہے، بعنوان ”الصوم المندوب إليه“، اور اس میں دسویں محرم کے روزے کو بہت با فضیلت عمل قرار دیتا ہے۔ (6) کچھ صفحات کے بعد ایک اور فصل ”صوم يوم عاشوراء“ بھی ہے جس میں دسویں محرم کو روزہ رکھنے والے کیلئے دو خاص تجلیوں کی نوید سنائی گئی ہے۔ (7) آگے چلیں تو ایک فصل کا عنوان ہی یومِ عاشورا کے روزے کے فضائل ہے، ”في فضل صوم يوم عاشوراء“، اور اسے سال بھر کے گناہوں کا کفارا قرار دیا گیا ہے۔ (8) ابنِ عربی جسے عرفان کہتا ہے وہ اہلبیت ؑ کے راستے اور ان کی منزل سے بالکل الگ ہے۔

آڈیو فائل: ابنِ عربی کے عرفان کا تعارف – حجۃ الاسلام والمسلمین نعمت علی سدھو

حوالہ جات:

1۔ ابنِ عربی، فتوحاتِ مکیہ، جلد 1، صفحہ 545۔

. . . أن آل الرجل في لغة العرب هم خاصته الأقربون إليه و خاصة الأنبياء و آلهم هم الصالحون العلماء بالله المؤمنون . . .

2۔ طوسی، تہذیب الاحکام، جلد 4، صفحہ 301۔

3۔ کلینی، کافی، جلد 4، صفحہ 147، حدیث 7۔

4۔ کلینی، کافی، ج 4، ص 146، باب صوم عاشوراء و عرفه، حدیث 4۔

5۔ فتوحاتِ مکیہ (عثمان یحیى)، ج‏ 3، ص 290۔

فانظر ما أشرف إذ حباهم اللّٰه من الزمان بأشرفه فإنها خير من ألف شهر فيه زمان رمضان و يوم الجمعة و يوم عاشوراء و يوم عرفة و ليلة القدر

6۔ فتوحاتِ مکیہ (عثمان یحیى)، ج‏9، ص 234۔

و سأذكر من ذلك ما هو مرغب فيه بالحال كالصوم في الجهاد و بالزمان كصوم الإثنين و الخميس و عرفة و عاشوراء و العشر و شعبان و أمثال ذلك

7۔ فتوحاتِ مکیہ (عثمان یحیى)، ج‏9، ص 301۔

فكان لصاحبه مشهدان و تجليان يعرفهما من ذاقهما من حيث إنه صام يوم عاشوراء

8۔ فتوحاتِ مکیہ (عثمان یحیى)، ج‏9، ص 303۔

مربوط مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button