ابنِ عربی کے خیالات

ابنِ عربی اور مولوی رومی کی طرف سے حضرت ابو طالب علیہ السلام کی تکفیر

201 ملاحظات

ابنِ عربی اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔

كما قال في حق اكمل الرسل واعلم الخلق واصدقهم في الحال "انك لا تهدى من احببت ولكن الله يهدي من يشاء” ولوکان للهمه أثر ولابد، لم یکن احد اكمل من رسول الله صلی الله علیه وسلم و لا أعلی و لا أقوی همّـه منه، و ما أثَّرتْ فی إسلام أبی طالب عَمِّهِ و فيه نزلت الايه التي ذكرناها ولذلك قال في الرسول انه ما عليه الا البلاغ

ترجمہ: چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اکمل المرسلین اور اعظم المخلوقین اور اصدق الحال اولین و آخرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں فرمایا کہ إِنَّكَ لَا تَهْدِى مَنْ اَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ (سورہ المؤمن ، آیت 56)، یعنی جس کے اسلام کو تم محبوب رکھتے ہو اس کو تم ہدایت نہیں کر سکتے ہو لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے، ہدایت کرتا ہے اور راہ حق پر لاتا ہے۔ اگر ہمت کو مستقل اثر ہوتا تو اپنے محل میں ضرور اثر کرتی اور ظاہر ہے کہ کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمت میں اکمل اور افضل اور اعلیٰ اور اقویٰ نہیں ہے اور اُن کے ساتھ بھی، ان کے چچا ابو طالب کے اسلام میں ہمت نے اثر نہ کیا اور انہیں کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، جس کو میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ اور اسی واسطے اللہ نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں فرمایا ہے کہ ”آپ کا کام صرف تبلیغ ہے‘‘۔ (1)
معروف صوفی شاعر مولوی رومی کہتا ہے:

صد دل و جان عاشق صانع شده
چشم بدیا گوش بد مانع شده

ترجمہ: سیکڑوں جان اور مال صانع کے عاشق ہوئے، بُری نظریا بُرا کان مانع (بھی) بنا۔

خود یکی بوطالب آن عم رسول
می نمودش شنعۂ عرباں مہول

ترجمہ: ایک ابوطالب، وہ رسول کے چچا، جن پر ان عربوں کا طعن و تشنیع حاوی رہا۔

کہ چہ گویندم عرب کز طفل خود
او بگردانید دین معتمد

ترجمہ: کہ عرب مجھے کیا کہیں گے کہ اپنے بچے کی وجہ سے اس نے اپنا معتمد دین بدل دیا۔

گفتش اے عم یک شہادت تو بگو
تا کنم با حق خصومت بہر تو

ترجمہ: کہا کہ اے چچا! کلمۂ شہادت پڑھ لیجئے تا کہ میں اللہ تعالیٰ سے آپ کی سفارش کروں

گفت لیکن فاش گردد از سماع
کل سر جاوز الاثنين شاع

ترجمہ: انہوں نے کہا: لیکن کانوں کان خبر پھیل جائے گی، جو راز دو سے بڑھا مشہور ہوا

من بمانم در زبان ابنِ عرب
پیش ایشان خوار گردن زین بسبب

ترجمہ: ان عربوں کی زبانوں پر میں اس سبب سے اُن کے نزدیک ذلیل قرار پاؤں گا

لیک اگر بودیش لطف ما سبق
کی بدے این بددلی با جذب حق

ترجمہ: لیکن اگر ان پر ازلی مہربانی ہوتی تو حق کی کشش کے سامنے یہ بددلی کب رہتی؟ (2)

حالانکہ شیعہ عقیدہ کے مطابق محسن اسلام حضرت ابو طالب علیہ السلام مومنِ کامل تھے۔ جن کی شان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوىٰ (سورہ الضحٰی، آیت 6) ”کیا اُس (اللہ) نے آپ کو یتیم نہیں پایا، پھر پناہ دے دی؟‘‘، اس آیت میں اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ میں نے حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پناہ دی اور یہ چیز روزز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جناب ابو طالب علیہ السلام نے نہ صرف پناہ دی بلکہ آپ کی مکمل حمایت اور بھر پور حفاظت بھی کرتے رہے۔ پورے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے کہیں بھی کسی کافر کے فعل کو اپنا فعل نہیں کہا۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کے متعلق فرماتا ہے:
يَٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّخِذُواْ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ دِينَكُمۡ هُزُوٗا وَلَعِبٗا مِّنَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلۡكِتَٰبَ مِن قَبۡلِكُمۡ وَٱلۡكُفَّارَ أَوۡلِيَآءَۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ إِن كُنتُم مُّؤۡمِنِينَ، (سورہ المائدہ، آیت 57؛ سورہ التوبہ، آیت 23، سورہ الممتحنہ، آیت 1)۔
ترجمہ: اے ایمان والو! جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے، وہ جو تم سے پہلے کتاب دئیے گئے، اور کافر، ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو۔

حجۃ الاسلام والمسلمین نعمت علی سدھو

حوالہ جات:

1۔ فصوص الحکم مع شرح خواجہ محمد پارسا، فص لوطیہ، ص 298، طبع جدید تہران؛
ترجمہ فصوص الحکم ، ص: 402، مترجم بابا ذہین شاہ تاجی طبع کراچی؛ و ص: 296، مع شرح قیصری۔

(2) مثنوی دفتر:6، ص:561، طبع ایران و مترجم، ج: 6، ص: 32، طبع لاہور۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button