ابنِ عربی کے خیالات

ابنِ عربی کی حدیثِ غدیر، حدیثِ ثقلین اور اہلبیت ؑ کے دیگر فضائل کو چھپانے کی کوشش

485 ملاحظات

حدیثِ غدیر کو اہلِ سنت محدثین نے تواتر سے نقل کیا ہے۔ احمد بن حنبل نے مختلف طرق سے حدیثِ غدیر کی 40، ابنِ حجر عسقلانی نے 25، نسائی نے 250 اور ابوسعید سجستانی نے 120 اسناد ذکر کی ہیں۔ اسی وجہ سے متعصب ترین سنی علماء بھی اس حدیث کا انکار نہیں کر سکے اور کچھ نے اس کے متواتر ہونے کا اقرار کیا ہے۔

مثلاً: شمس الدين ذہبي (متوفیٰ 748 ہجری)، ابنِ حجر عسقلانی (متوفیٰ 852 ہجری)، ابنِ حجر الہيثمی (متوفیٰ 974 ہجری)، جلال الدين سيوطی (متوفیٰ 911 ہجری)، ملا علی قاری (متوفیٰ 1014 ہجری)، شمس الدين الجزری الشافعی (متوفیٰ 833 ہجری)، سبط ابنِ جوزی (متوفیٰ 654 ہجری)، اسماعيل بن محمد العجلونی الجراحی (متوفیٰ 1162 ہجری)، محمد بن اسماعيل صنعانی (متوفیٰ 1182 ہجری)، محمد بن جعفر الكتانی (متوفیٰ 1345 ہجری)، محمد ناصر الدین البانی (متوفیٰ 1420 ہجری، 1999 عیسوی) اور شعيب الأرنؤوط (معاصر) وغیرہ نے اس حدیث کے تواتر کا اقرار کیا ہے۔ [1]

یہ حدیث ترمذی نے ابو طفيل سے؛ ابنِ ماجہ نے سعد بن ابی وقاص اور براء بن عازب سے؛ ابنِ حجر عسقلانی نے امير المؤمنين علی عليہ السلام سے؛ احمد بن حنبل نے رياح بن الحرث، ابو طفيل، سعيد بن وہب اور زيد بن يسع سے؛ نسائی نے زيد بن ارقم اور سعد بن ابی وقاص سے؛ حاكم نيشاپوری نے زيد بن ارقم سے؛ بزار نے زيد بن يثيع اور سعد بن أبي وقاص سے؛ ابن ابی عاصم نے امير المؤمنين علی عليہ السلام سے؛ اور طبرانی نے زيد بن ارقم سے روایت کی اور اس کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔

لیکن تعجب کی بات ہے کہ ابنِ عربی حدیثِ غدیر کا بالکل کوئی ذکر نہیں کرتا۔ الٹا مدعی ہے کہ پیغمبر اکرم صَلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو جانشین نہیں بنایا۔ چنانچہ فتوحاتِ مکیہ میں لکھتا ہے:

<<و كما أشهدت الله و ملائكته و جميع خلقه و إياكم على نفسى بتوحيده، فكذلك أشهده- سبحانه- و ملائكته و جميع خلقه و إياكم على نفسى، بالايمان بمن اصطفاه و اختاره، و اجتباه من وجوده، ذلك سيدنا محمد- ص- الذي أرسله إلى جميع الناس كافة بشيرا و نذيرا و داعيا إلى الله بإذنه و سراجا منيرا. فبلغ ما أنزل من ربه إليه. و أدى أمانته. و نصح أمته و وقف في حجة وداعه، على كل من حضر من أتباعه. فخطب‏ و ذكر. و خوف‏ و حذر. و بشر و أنذر و وعد و أوعد. و أمطر و أرعد، و ما خص بذلك التذكير أحدا من أحد. عن إذن الواحد الصمد. ثم قال: ”ألا! هل بلغت؟“. فقالوا: ”بلغت، يا رسول الله!“ فقال- ص-:”اللهم، اشهد“>> [2]

ترجمہ: ”جیسا کہ اللہ اور ملائکہ اور تمام مخلوقات اور تم سب کو توحید پر ایمان کا گواہ بنایا ہے، خدا کے چنے ہوئے پیغمبر پر ایمان کا گواہ نیز بناتا ہوں، وہ پیغمبر کہ جسے اس نے بشیر و نذیر اور سراج منیر بنا کر لوگوں کی طرف بھیجا کہ انہیں خدا کی طرف بلائے۔ پیغمبر نے بھی جو کچھ خدا کی طرف سے نازل ہوا اسکی تبلیغ کی اور امانت پہنچائی اور ان کا بھلا چاہا۔ پیغمبرؐ وہی ہے جس نے حجۃ الوداع کے موقع پر کھڑے ہو کر اپنے ماننے والوں سے خطاب کیا اور ان کو یاد دہانی کرائی اور خوف اور امید دلائی، گویا بارش کے ساتھ بجلی کڑکی، اور کوئی تفریق نہ کی اور بعد میں اذنِ الہیٰ سے لوگوں کو کہا: کیا میں نے تم تک پیغام پہنچا دیا؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! پہنچا دیا، اے اللہ کے رسول!، پیغمبرؐ نے کہا: اے اللہ گواہ رہنا“۔

ابنِ عربی ایک اور جگہ اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ پیغمبرؐ نے اپنے بعد کسی کو جانشین کے طور پر منتخب نہیں فرمایا۔ فصوص الحکم میں آیا ہے کہ:

<<و لهذا مات رسول الله صلى الله علیه و سلم و ما نص بخلافه عنه إلى أحد. و لا عینه لعلمه أن فی أمته من یأخذ الخلافه عن ربه فیکون خلیفه عن الله مع الموافقه فی الحکم المشروع. فلما علم ذلک صلى الله علیه و سلم لم یحجر الأمر.>> [3]

یہ خلافت کیلئے کسی نص کی موجودگی کا انکار ہے، جبکہ علامہ میر حامد حسین لکھنؤی نے عبقات الانوار میں اور علامہ امینی نے الغدیر میں امیر المؤمنین علیہ السلام کی امامت و خلافت کی نصوص کو ثابت کیا ہے۔

ابنِ عربی اپنی کتاب فتوحاتِ مکیہ میں حدیثِ ثقلین میں تحریف کر کے اہلبیت علیہم السلام کا ذکر ہی چھپا دیتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

<<و قد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده إن اعتصمتم به كتاب اللّٰه و أنتم أعني فما أنتم قائلون قالوا نشهد إنك قد بلغت و أديت و نصحت>> [4]

ترجمہ: ”میں اپنے بعد تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اگر اس سے تمسک رکھو گے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے اور وہ کتابِ خدا ہے۔ تم سے اس وصیت کے بارے سوال ہو گا، تو کیا کہتے ہو؟ سب نے کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہم تک یہ بات پہنچا کر نصیحت فرما دی۔“

جبکہ اہل سنت کے جید محدثین نے ثقلین سے تمسک کی روایت بیان کی ہے۔ مثلاً:

<<حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ المُنْذِرِ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَالأَعْمَشُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ مَا إِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِي أَحَدُهُمَا أَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ: كِتَابُ اللَّهِ حَبْلٌ مَمْدُودٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الأَرْضِ. وَعِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، وَلَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى يَرِدَا عَلَيَّ الحَوْضَ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَخْلُفُونِي فِيهِمَا>> [5]

<<حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الحَسَنِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّتِهِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَهُوَ عَلَى نَاقَتِهِ القَصْوَاءِ يَخْطُبُ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا إِنْ أَخَذْتُمْ بِهِ لَنْ تَضِلُّوا: كِتَابَ اللَّهِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي.>> [6]

<<… وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ: أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ فَخُذُوا بِكِتَابِ اللهِ، وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ ” فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: «وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي…>> [7]

ابنِ عربی حضرت بی بی فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا سے بھی بہت بغض رکھتا ہے۔ لہٰذا ان کے سیدۃ النساء العالمين ہونے کو چھپاتے ہوئے کہتا ہے کہ خواتین میں سے صرف حضرت مریم ؑ و آسیہ ؑ ہی باکمال ہوئی ہیں۔ فتوحاتِ مکیہ میں متعدد مقامات پر یہ بات آئی ہے۔ مثلاً:

<<قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم كمل من الرجال كثيرون و لم يكمل من النساء إلا مريم و آسية>> [8]

<<و قال كملت مريم ابنة عمران و آسية امرأة فرعون فقد ثبت الكمال للنساء كما أثبته للرجال>> [9]

<<و قد شهد رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه و سلم بالكمال لمريم و آسية>> [10]

جبکہ سنی محدثین نے بھی فضیلتِ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا میں احادیث بیان کی ہیں جن میں ان کو جنت کی خواتین کی سردار کہا گیا ہے۔ مثلاً:

<<قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: فاطمه سیده نساء اهل الجنه>> [11]

ایک طرف ابنِ عربی خلفائے ثلاثہ کے حق میں جعلی فضائل کا انبار لگا دیتا ہے، شیخین کے بارے میں غلو کرتا ہے، لیکن جب اہلبیت ؑ کی نوبت آتی ہے تو ان صحیح احادیث کا ذکر بھی پی جاتا ہے کہ جو اہلسنت محدثین نے نقل کی ہیں۔ مثال کے طور پر ان احادیث کا ابنِ عربی کی کتابوں میں کوئی سراغ نہیں ملتا:

<<أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا>> (12)

<<عَلَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وآله أَلْفَ بَابٍ يُفْتَحُ مِنْ كُلِّ بَابٍ أَلْفَ بَابٍ>> (13)

<<سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي>> (14)

<<عَلِيٌّ مَعَ الْحَّقِ وَالْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ>> (15)

<<إِنَّ عَلِيّاً مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ ، وَهُوَ وَلِيُّ كُلِّ مُؤمِنٍ>> (16)

اگرچہ ابنِ عربی نے فصوص الحکم اور فتوحاتِ مکیہ میں حضرت ہارون ؑ کا تقریباً پچاس مرتبہ ذکر کیا ہے، مگر مولا علی ؑ کی شان میں آنے والی اس حدیث کا کوئی ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مولا علی ؑ سے فرمایا کہ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت موسیٰ ؑ سے حضرت ہارون ؑ کو تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا:

<<قَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللهُ عليه و آله وسلَّمَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى عليه السلام إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيّ بَعْدِي>> (17)

مولا علی ؑ کے بارے میں ابنِ عربی اگر مشکل سے کوئی حدیث لاتا ہے تو وہ یہ جعلی حدیث ہے جس میں دوسروں کو ان سے افضل ثابت کیا گیا ہے:

<<أَقْضَاكُمْ عَلِيٌّ وأعلمكم بالحلال و الحرام معاذ بن جبل و أفرضكم زيد>> (18)

یہ بھی پڑھئے: ابنِ عربی اور دسویں محرم کا روزہ

 

حواشی و حوالے

1۔ سلفیوں نے بھی اس حدیث کا انکار نہیں کیا۔

2۔ الفتوحات المكية (عثمان يحيى)، ج‏1، ص: 170

3۔ فصوص الحكم‏، ابنِ عربى‏، دار إحياء الكتب العربية، قاهره‏، 1946 م‏، ‌‏ج۱، ص۱۶۳

4۔ الفتوحات المکیّه، ابنِ عربی، بیروت، دار احیاء التراث العربى، ۱۹۹۴م‏، ج ۱۰، ص ۲۱۵

5۔ سنن الترمذي ج5 ص663 المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)، تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر (جـ 1، 2)، و محمد فؤاد عبد الباقي (جـ 3)، و إبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (جـ 4، 5)، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر، الطبعة: الثانية، 1395 هـ – 1975 م، عدد الأجزاء: 5 أجزاء. أسد الغابة في معرفة الصحابة ج2 ص13 المؤلف: أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم بن عبد الواحد الشيباني الجزري، عز الدين ابن الأثير (المتوفى: 630هـ)، المحقق: علي محمد معوض – عادل أحمد عبد الموجود، الناشر: دار الكتب العلمية، الطبعة: الأولى، سنة النشر: 1415هـ – 1994 م، عدد الأجزاء: 8 (7 ومجلد فهارس). الدر المنثور ج7 ص349 المؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)، الناشر: دار الفكر – بيروت، عدد الأجزاء: 8

6۔ سنن الترمذي ج5 ص663 المؤلف: محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، الترمذي، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ)، تحقيق وتعليق:أحمد محمد شاكر (جـ 1، 2)، ومحمد فؤاد عبد الباقي (جـ 3)، وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (جـ 4، 5)، الناشر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر، الطبعة: الثانية، 1395 هـ – 1975 م، عدد الأجزاء: 5 أجزاء.

المصنف في الأحاديث والآثار ج6 ص309 المؤلف: أبو بكر بن أبي شيبة، عبد الله بن محمد بن إبراهيم بن عثمان بن خواستي العبسي (المتوفى: 235هـ)، المحقق: كمال يوسف الحوت، الناشر: مكتبة الرشد – الرياض، الطبعة: الأولى، 1409، عدد الأجزاء: 7، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال ج1 ص172 و 186 و 187 المؤلف: علاء الدين علي بن حسام الدين ابن قاضي خان القادري الشاذلي الهندي البرهانفوري ثم المدني فالمكي الشهير بالمتقي الهندي (المتوفى: 975هـ)، المحقق: بكري حياني – صفوة السقا، الناشر: مؤسسة الرسالة، الطبعة: الطبعة الخامسة،1401هـ/1981م.

7۔ صحیح مسلم ج4 ص1873 المؤلف: مسلم بن الحجاج أبو الحسن القشيري النيسابوري (المتوفى: 261هـ)، المحقق: محمد فؤاد عبد الباقي، الناشر: دار إحياء التراث العربي – بيروت، عدد الأجزاء: 5. مسند الإمام أحمد بن حنبل ج23 ص10 و 11 المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)، المحقق: شعيب الأرنؤوط – عادل مرشد، وآخرون، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي، الناشر: مؤسسة الرسالة، الطبعة: الأولى، 1421 هـ – 2001 م.

8۔ الفتوحات المکیّه، ابن عربی، بیروت، دار احیاء التراث العربى، ۱۹۹۴م‏، ج ۱۲، ص ۲۶۹

9۔ الفتوحات المکیّه، ابن عربی، بیروت، دار احیاء التراث العربى، ۱۹۹۴م‏، ج ۱۳، ص ۵۸۳

10۔ الفتوحات المکیّه، ابن عربی، بیروت، دار احیاء التراث العربى، ۱۹۹۴م‏، ج ۱۰، ص ۳۴۹

11۔ المستدرک حاکم نیشابوری، ج۳، ص۱۵۳؛ مسند احمد ابن حنبل، حدیث ۱۸۱۵۳ – ۱۸۱۵۴؛ صحیح مسلم، روایت المسور، حدیث ۴۴۸۲ – ۴۴۸۵.

12۔ حاکم نیشاپوری، مستدرک، ج 3، ص 126 و 127؛ طبرانی، معجم الکبیر، ج 11، ص 55؛ ہیثمی، مجمع الزوائد، ج 9، ص 114؛ زمخشری، الفائق، ج 2، ص16؛ خطیب بغدادی، تاریخ بغداد، ج 3، ص 181؛ ابن اثیر، اسد الغابه، ج 4، ص 22؛ وغیرہ۔

13۔ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج 42، ص 385؛ ذہبی، سیر اعلام النبلاء، ج 8، ص 24 و 26؛ متقی ہندی، کنز العمال، ج 13، ص 114؛ وغیرہ۔

14۔ حاکم نیشاپوری، مستدرک، ج 2، ص 532؛ ابن عساکر، تاریخ مدینہ دمشق، ج 17، ص 335 و ج 42، ص397؛ متقی ہندی، کنز العمال، ج 13، ص 156 و ج 14، ص 162؛ یعقوبی، تاریخ یعقوبی، ج 2، ص 193؛ وغیرہ۔

15۔ ابن ابی الحدید معتزلی، شرح نہج البلاغہ، ج 2، ص 297؛ کنز العمال، حدیث 33018؛ تاریخ دمشق، ج 42 ص 488؛ المستدرک علی الصحیحین، ج 3، ص 134، حدیث4638؛ فرائد السبطین، ج 1، ص 177، حدیث140؛ وغیرہ۔

16۔ متقی ہندی، کنز العمال، حدیث 32938؛ وغیرہ۔

17۔ صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب 39 ،حدیث 225، کتاب المغازلی، باب 195، غزوه تبوک، حدیث 857؛ صحیح مسلم، حدیث 2404؛ سبل الہدی و الرشاد، ج 11، ص 292؛ مسند احمد، ج 1، ص 330؛ المستدرک، ج 3، ص 132؛ وغیرہ۔

18۔ فتوحات مکیہ، ج 3، ص 435، 466 و 521۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button