فلسفے کی عمومی تدریس درست نہیں – آیۃ اللہ العظمیٰ سید دلدار علی نقوی غفران مآب
تمہیں اس امر سے بچنا چاہئے کہ تم اپنی عمر عزیز کتبِ فلسفیہ پڑھانے اور علومِ حکمیہ کے جمع کرنے میں صرف کرو، خواہ وہ مشائیہ کی حکمت ہو یا اشراقیہ کی۔
اس میں شبہ نہیں کہ یہ کتابیں گمراہی و جہالت کی ہیں اور ان کا شائق حسرت و ندامت اٹھاتا ہے۔ ان علوم کے خراب نتائج اور برے آثار کاجو ادنیٰ درجہ ہم نے مشاہدہ کیا وہ یہ ہے کہ ان میں جو منہمک ہوا اور کثرت سے ان علوم کو سیکھا اگر وہ ملحد یا دہری اور صوفی نہیں ہوا تو کم سے کم امورِ دین میں سستی ضرور کرتا اور احکامِ دین کا پابند نہیں رہتا ہے۔
جیسا کہ بعض ممالکِ عجم اور اکثر بلادِ ہند میں خود ہم نے دیکھا ہے۔ ہاں جو نہایت ذہین و ذکی ہو اور علومِ دینیہ بدلائل و براہین حاصل کر چکا ہو، تو خیر مضائقہ نہیں کہ کبھی کبھی گھڑی دو گھڑی حکماء کی بعض کتابیں پڑھا دی جائیں۔
اگر تم کو ایسا شخص ملے کہ جس کا ذہن صاف ہو اور وہ بھی بہت خواہش رکھتا ہو، تو پڑھاتے وقت ان حکماء کی خطاﺅں سے اسے اس طرح آگاہ کرتے جاﺅ کہ ان کے قصوروار ہونے کا اس کو بخوبی یقین ہو جائے۔ حکماء کے طرفداروں، نیز ان کے اہلِ مذہب کے ردِ اقوال اور ان کے ساکت کرنے پر اسے پوری قوت حاصل ہو جائے۔
مگر جو شخص زیادہ ذہین اور علوم میں بھی اچھی استعداد نہ رکھتا ہو تو اولیٰ و مستحسن یہی ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ اپنا وقت ضائع نہ کرنا۔
کیونکہ ہم نے تجربہ اور مشاہدہ کیا ہے کہ اکثر متوسطین اور قلیل البضاعت لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اربابِ ذکا سے ہیں مگر جب انہوں نے ان علوم کو کثرت سے حاصل کیا اور ان علوم سے انہیں موانست ہو گئی تو وہ دین مستقیم سے پھر گئے اور ان لوگوں میں داخل ہو گئے جن کا نہ کوئی مذہب ہے نہ دین۔
ایسا شخص اگر چہ زبانی مدعی ہو کہ میں اربابِ ایمان سے ہوں لیکن اس کا دل اس کے قول کی موافقت نہیں کرتا اور اس کا فعل اس کے قول سے مخالف میں رہتا ہے۔
حوالہ: آیۃ اللہ سید دلدار علی، الوصیۃ و النصیحہ، ترجمہ: سید محمد جعفر قدسی جائسی، نور ہدایت فاؤنڈیشن لکھنؤ۔