حالیہ انٹرویو میں جناب محمد حسین طباطبائی کے شاگرد ڈاکٹر دینانی نے کہا ہے کہ:
”طباطبائی صاحب کے اسفارِ اربعہ کے یومیہ دروس میں فلسفے کا شغف رکھنے والے سب طلاب آیا کرتے تھے۔ پھر انہوں نے جا کر شرارت کی کہ اسفار طلبہ کو بے دین بنا رہی ہے۔ آقائے بروجردی نے طباطبائی صاحب کو منع کر دیا۔ جناب مرتضٰی جزائری نے بہبہانی صاحب سے بات کی جو شاہ سے رابطے میں تھے۔ انہوں نے فون کرایا تاکہ فلسفے کا درس بند نہ ہو۔ اسفار تو نہیں، شفاء کے درس کی اجازت مل گئی۔ کیونکہ اسفار زیادہ صوفیانہ کتاب تھی۔ بڑا مشکل وقت تھا۔
سوال: استاد طباطبائی اُپنشد کیوں پڑھاتے تھے؟
جواب: رات کا درس ان کی فلسفہ دانی کا نچوڑ ہوتا تھا۔ ہم سوال کرتے، مشکل سوالات پوچھتے، وہ جواب دیتے۔ فرانس سے ہنری کوربن بھی ایک عرصہ تک آتا رہا۔
سوال: اُپنشد سے اس فلسفے اور عرفان کا کیا تعلق تھا؟
جواب: ہندوؤں کے اُپنشدوں کی بہت تعریف کرتے تھے۔ ان کی اسلام کے عرفان سے مطابقت پیدا کیا کرتے تھے۔“
یہ بھی پڑھئے: ادویتا ویدانتا اور نظریۂ وحدت الوجود – مولانا نعمت علی سدھو
ایک طرف جناب محمد حسین طباطبائی اُپنشدوں کی تعلیمات کو اسلامی خدا شناسی سے تطبیق دے رہے تھے تو دوسری جانب تفسیر المیزان میں پہلے ایک ہزار سال کے سبھی مسلمانوں کی خدا شناسی کو نادرست قرار دیتے ہیں۔ (طباطبائی، تفسیر المیزان، جلد 6، ص 104) آیۃ اللہ العظمٰی صافی گلپائگانی نے اپنی کتاب ”نگرشی بر فلسفہ و عرفان“ میں جناب محمد حسین طباطبائی کے مغالطوں کو دلائل سے رد کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: وحدتِ عددی کی نفی اور توحید کی معرفت – آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ لطف اللہ صافی گلپائگانی