مراجع کی تحریریں اور بیانات

تصوف امامتِ اہلبیت ؑ سے انحراف ہے – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ حسین نوری ہمدانی

433 ملاحظات

عرفان اور تصوف کو ایک سمجھنا درست نہیں ہے۔ عرفان انسان اور خدا کے بیچ ایک بلند تعلق کا نام ہے۔ لیکن صوفی گری ایک باطل مذہب ہے۔ پس جو لوگ صوفیوں اور عرفاء کو ایک سمجھتے ہیں، میں ان سے اتفاق نہیں کرتا۔ کوئی صوفی عارف نہیں اور کوئی عارف صوفی نہیں ہے۔

عرفانِ حقیقی اور رائج تصوف ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ بطلانِ تصوف پر بہترین دلیل اہلبیت ؑ کے فرامین ہیں۔ امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا: صوفی ہمارے دشمن ہیں۔ (1)

یہ منحرف فرقہ کہ جو اہلبیت ؑ سے جدا ہو گیا ہے، متبادل کے طورپر قطب اور اولیاء بنا بیٹھے ہیں۔ ان کا ایک پیر مولانا روم ہے جو مثنوی میں کہتا ہے:

آزمایش تا قیامت دائم است
پس بہ ہر دوری ولیی لازم است

پس امام حی و مطلق آن ولی است
خواه از نسل عمر خواه از علی است

ترجمہ: آزمائش قیامت تک ہے تو ہر زمانے میں ولی ہونا چاہئے۔ وہی ولی زندہ و مطلق امام ہے، چاہے عمر کی نسل سے ہو یا علی ؑ کی!

یوں انہوں نے اہلبیت ؑ کو چھوڑ کر اقطاب و اولیاء بنا لئے۔ مذہبِ امامیہ میں اولیاء کچھ خاص شخصیات ہیں۔ ہم ولایتِ شخصی کے قائل ہیں جو پیغمبرؐ اور آئمہ ؑ میں منحصر ہے، جن کے نام متواتر احادیث میں آئے ہیں۔ یہ ولایتِ نوعی کے قائل ہیں، لہٰذا پیروں کو حجتِ خدا سمجھتے ہیں۔ کتاب تذکرۃ الاولیاء میں انکے نام آئے ہیں۔

تذکرۃ الاولیاء ایک گمراہ کن کتاب ہے۔ اس کی پہلی جلد میں چالیس، دوسری میں پچاس اولیاء کا ذکر ہے۔ جھوٹے اور بے سند دعوؤں کا میک اپ کر کے ان پیروں کو اولیائے خدا بنا دیا ہے۔

پس ہمارا اور انکا ایک فرق یہ ہے کہ ہم شخصی امامت کے قائل ہیں اور یہ نوعی ولایت کے، جو انحراف ہے۔ بایزید بسطامی، ابراہیم ادہم، معروف کرخی، شقیق بلخی، ذوالنون مصری، جنید بغدادی وغیرہ کے قصے گھڑے۔ یہ بلا دلیل دعوے اور من گھڑت فضائل عقلی طور پر قابلِ قبول بهی نہیں۔ اتحاد، حلول، وحدتِ وجود اور اس قسم کے دیگر عقیدے بھی تذکرۃ الاولیاء میں آئے ہیں۔ یہ مضر کتاب ہے۔

صوفیوں کے باطل ہونے پر ایک بہترین دلیل ان کے احوال پر لکھی کتب کے مطالعے سے روشن ہوتی ہے۔ ان کی کتابوں کو پڑھا ہے اور ان میں اسلامی تعلیمات کے خلاف بے شمار باتیں ملی ہیں۔ تذکرۃ الاولیاء میں جنہیں قطب قرار دیا گیا ہے ان کے حالات و واقعات سے اس دعوے کا بطلان ظاہر ہے۔ یہ خلافِ اسلام باتیں انکے جھوٹا ہونے کیلئے کافی ہیں۔ اگر ان کو اپنا رہبر اور ولی کہتے ہیں تو ان کا کردار قرآن اور سیرتِ اہلبیت ؑ کے خلاف ہے۔

انہوں نے کئی جگہ اہلبیت ؑ کے کلام کو چوری کر کے اپنے بزرگوں سے منسوب کیا ہے۔ یہ کچھ اصول تھے جن پر ان کی کتابوں کو پرکھ کر ان کے باطل و گمراہ ہونے کو سمجھا جا سکتا ہے۔ بلکہ بادشاہوں نے اہلبیت ؑ کے مقابلے میں انکو کھڑا کیا ہے تاکہ لوگوں کو اہلبیت ؑ سے دور کریں۔

سیدھا راستہ صرف ایک ہے۔ قرآن میں 32 مقامات پر صراطِ مستقیم کا ذکر آیا ہے۔

وَأَنَّ هَٰذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِ. (الأنعام: 153)

صراط مستقیم سے ہٹنے کو تفرقے کا سبب بتایا گیا ہے۔ تفاسیر میں آیا ہے کہ صراط مستقیم سے مراد صراطِ ولایتِ اہلبیت ؑ ہے، جو ایک نہایت روشن راستہ ہے۔ اس کو چھوڑنے والے باطل ہیں۔(2)

حوالے:

1۔ روي بسند صحیح عن أحمد بن محمّد بن أبي نصر، قال: قال رجل من أصحابنا للصادق جعفر بن محمّد علیه السّلام قد ظهر في هذا الزمان قوم یقال لهم الصوفیة فما تقول فیهم؟ فقال: إنهم من أعدائنا فمن مال إلیهم فهو منهم، و سوف یحشر معهم، و سیکون أقوام یدّعون حبّنا، و یمیلون إلیهم و یتشبّهون بهم، و یلقّبون أنفسهم بلقبهم و یولون أقوالهم، ألا فمن مال إلیهم فلیس منا و إنّا منه برآء، و من أنکرهم و ردّ علیهم کان کمن جاهد الکفار بین یدي رسول اللّه صلی اللّه علیه و آله (مستدرک الوسائل، جلد 12، صفحہ 323)

درس خارج فقه آیت‌الله نوری، کتاب الوقف، 95/11/16

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button