معاد جسمانی پر ملا صدرا اور اکابرِ شیعہ کے مابین اختلاف – ڈاکٹر سید محمود ہاشمی نسب، ڈاکٹر شعیب حدادی
معادِ جسمانی، جس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت میں جسم اور روح اکٹھے اٹھائے جائیں گے، قیامت کے عقیدے کا ایک اہم جزو ہے اور اس کی نوعیت پر دانشمندوں میں اختلافِ نظر رہا ہے۔ ہم نے اپنی تحقیق میں پایا کہ ملاصدرا شیرازی قیامت کے مسئلہ پر شیعہ علمائے بزرگ سے مختلف نکتۂ نظر رکھتا ہے۔ اکابرِ شیعہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاد جسمانی ہو گی، اور احادیثِ اہلبیت علیہم السلام بھی اسی نظریئے پر دلالت کرتی ہیں، لیکن ملاصدرا کی رائے اس کے برعکس ہے۔
مقدمہ
معادِ جسمانی کی اہمیت کے پیشِ نظر سبھی مسلم دانشوروں نے اس مسئلے پر بحث کی ہے۔ ایسے میں علمائے شیعہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ معاد اور باقی اعتقادی مسائل پر قرآن اور احادیث کی روشنی میں اس سلسلے میں شیعہ مؤقف کو واضح کریں۔ اس کام کی اہمیت اس صورت میں مزید بڑھ جاتی ہے جب ملاصدرا معاد کے عقیدے میں اپنی آراء کا اضافہ کرتے ہوئے قاری کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ اس تحریر کا بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا ملاصدرا کا مؤقف قرآن و روایات کےمطابق اور علمائے تشیع کے اجماع کے ساتھ ہم آہنگ ہے؟
معاد جسمانی کے بارے بزرگ علمائے شیعہ کے اقوال
پہلے ہم معادِ جسمانی پر مختلف شیعہ دانشوروں کے نظریات کا جائزہ لیں گے۔ علامہ حلی(متوفیٰ 1325ء) خواجہ طوسی کی کتاب ”تجرید الاعتقاد“ کی شرح میں لکھتے ہیں:
«استدل على ثبوت المعاد الجسماني بأنه معلوم بالضرورة من دين محمد ؐ و القرآن دل عليه في آيات كثيرة بالنص مع أنه ممكن فيجب المصير إليه و إنما قلنا بأنّه ممكن لأن المراد من الإعادة جمع الأجزاء المتفرقة و ذلك جائز بالضرورة» (1)
ترجمہ: ”وہ معادِ جسمانی کے اثبات کیلئے یہ دلیل دیتے ہیں کہ یہ حضرت محمد ؐ کے دین سے ضروری طور پر معلوم ہوتی ہے، اور قرآن کی بہت سی آیات بطورِ نص اس پر دلالت کرتی ہیں۔ نیز یہ ایک ممکن امر ہے اور اس کو تسلیم کرنا چاہئے۔ البتہ یہ جو کہا ہے کہ یہ ممکن ہے تو یہاں اعادے سے مراد الگ الگ اجزاء کا جمع ہونا ہے۔ اس کو جائز سمجھنا ضروری ہے۔“
علامہ مجلسی (متوفیٰ 1699ء) فرماتے ہیں:
«وما يشاهد في بعض الناس من نفي بعض الضروريات كحدوث العالم والمعاد الجسماني ونحو ذلك مع الإقرار في الظاهر بنبوة نبينا ؐ واعترافهم بسائر الضروريات وما جاء به النبي ؐ فذلك لأحد الأمرين: إما لكونهم ضالين لشبهة اعترتهم فيما زعموه كتوهمهم كون أباطيل بعض الفلاسفة وسائر الزنادقة برهانا يوجب تأويل الأدلة السمعية ونحو ذلك، أو لكونهم منكرين للنبوة في الباطن ولكن لخوف القتل والمضار الدنيوية لا يتجرءون على إنكار غير ما كشفوا عن إنكاره من الضروريات، وأما إظهارهم إنكار ذلك البعض فلارتفاع الخوف في إظهاره لاختلاط عقائد الفلاسفة وغيرهم بعقائد المسلمين بحيث لا تتميز إحداهما عن الأخرى إلا عند من عصمه الله سبحانه» (2)
ترجمہ: ”یہ جو بعض لوگ کچھ ضروریاتِ دین، جیسے حدوثِ عالم اور معادِ جسمانی وغیرہ، کا انکار کرتے ہیں جبکہ بظاہر وہ ہمارے نبی ؐ کی نبوت اور باقی ضروریاتِ دین اور جو کچھ نبی کریم ؐ لائے ہیں، کا اقرار کرتے ہیں۔ اس کا سبب ان دو میں سے ایک ہے: یا تو وہ بعض شبہات میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گمراہ ہوئے ہیں، جیسا کہ ان کا بعض فلسفیوں اور زندیقوں کی باطل باتوں کو برہان سمجھنے کے توہم میں مبتلا ہو جانا، جس کی وجہ سے وہ نقلی دلائل کی تاويلات کرنے لگتے ہیں۔ یا پھر وہ باطن میں نبوت کے منکر ہیں اور قتل یا دنیاوی اور مالی نقصان کے خوف سے دوسری ضروریاتِ دین کا کھلم کھلا انکار نہیں کرتے۔ یہ کہ وہ بعض ضروریاتِ دین کا کھلم کھلا انکار کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں مسلمانوں کے عقائد میں یونانی افکار کی اس طرح ملاوٹ ہو گئی تھی کہ ان کو مکمل طور پر ایک دوسرے سے جدا کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں تھی، سوائے ان کے جن کو خدا نے معصوم قرار دیا ہے۔“
شیخ جعفر کاشف الغطاء (متوفیٰ 1813ء) لکھتے ہیں:
«ويجب العلم بأنّه تعالى يعيد الأبدان بعد الخراب، ويرجع هيئتها الأُولى بعد أن صارت إلى التراب، ويحلّ بها الأرواح على نحو ما كانت، ويضمّها إليها بعد ما انفصلت وبانت» (3)
ترجمہ: ”یہ جاننا لازمی ہے کہ اللہ تعالٰی جسموں کو خراب ہونے اور مٹی میں مل جانے کے بعد پہلی والی حالت میں پلٹائے گا اور روحیں بھی جسموں سے جدا ہونے کے بعد پہلے کی مانند ان میں حلول کریں گی اور ان میں ضم ہو جائیں گی۔ “
آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی (متوفیٰ 1992ء) اس بارے میں لکھتے ہیں:
«الايمان بالمعاد الجسماني والاقرار بيوم القيامة والحشر والنشر وجمع العظام البالية وارجاع الارواح فيها، فمن انكر المعاد أو انكر كونه جسمانيا فهو كافر بالضرورة. ولا بد وأن يعلم ان الاقرار بهذه الامور الاربعة له موضوعية في التلبس بحلية الاسلام، وانكار أي واحد منها في حد نفسه موجب للكفر، سواء أكان مستندا الى العناد واللجاج، ام كان مستندا الى الغفلة وعدم الالتفات الناشئ عن التقصير أو القصور، وقد دلت الايات الكثيرة ايضا على كفر منكر المعاد.» (4)
یہ بھی پڑھئے: اعادۂ معدوم اور معادِ جسمانی پر فلاسفہ کی الجھنوں کا جواب – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ ناصر مکارم شیرازی
قیامت کے بارے ملاصدرا کا نظریہ
ملاصدرا اپنی کتاب اسفارِ اربعہ میں قیامت میں دنیوی بدن کے اٹھنے کا انکار کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:
«لا يخفى على ذي بصيرة أن النشأة الثانية طور آخر من الوجود يباين هذا الطور المخلوق من التراب و الماء و الطين و أن الموت و البعث ابتداء حركة الرجوع إلى الله أو القرب منه لا العود إلى الخلقة المادية و البدن الترابي الكثيف الظلماني.» (5)
ترجمہ: ”بصیرت رکھنے والے سے مخفی نہیں کہ عالمِ آخرت ایک اور نوعیت کا وجود ہے۔ یہ مٹی اور پانی سے خلق شدہ دنیا سے الگ ہے۔ موت اور اس کے بعد دوبارہ اٹھنا اللہ کی طرف رجوع کی حرکت کی ابتداء ہے، یعنی اس کے نزدیک جانے کا آغاز ہے۔ ایسا نہیں کہ دوبارہ مادی خلقت، مٹی کے کثیف اور ظلمانی بدن، کی طرف پلٹ جایا جائے۔“
البتہ ایک اور جگہ وہ اس سے بالکل مختلف مؤقف اپناتا ہے:
«الحق أن المعاد في المعاد هو بعينه بدن الإنسان المشخص الذي مات بأجزائه بعينها، لا مثله، بحيث لو رآه أحد يقول، إنه بعينه فلان الذي كان في الدنيا. و من أنكر هذا فقد أنكر الشريعة، و من أنكر الشريعة كافر عقلا و شرعا، و من أقر بعود مثل البدن الأول بأجزاء أخر، فقد أنكر المعاد حقيقة، و لزمه إنكار شيء من النصوص القرآنية» (6)
ترجمہ: ”حق یہ ہے کہ وہ جو معاد میں پلٹایا جائے گا وہ عین وہی مشخص انسانی بدن ہے، جو مرا۔ وہ اپنے عین انہی اجزاء سمیت محشور ہو گا، نہ یہ کہ اس کا کوئی مثل اٹھے۔ یوں کہ اگر کوئی اسے دیکھے تو یہ کہے کہ یہ تو فلاں شخص ہے جو دنیا میں ہوا کرتا تھا۔ جو اس بات کا منکر ہو وہ شریعت کا منکر ہے۔ جو شریعت کا منکر ہو وہ عقل اور شرع کی رو سے کافر ہے۔ جو کوئی یہ کہے کہ پہلے بدن کی مانند لیکن مختلف اجزاء والا بدن آئے گا، تو اس نے حقیقی معاد کا انکار کیا۔ اس بات کا لازمہ قرآنی نصوص میں سے کچھ کا انکار ہے۔“
علامہ رفیعی قزوینی (متوفیٰ 1975ء) قیامت کے بارے میں ملاصدرا کے نظریئے کی یوں وضاحت کرتے ہیں:
”چوتھا قول ملاصدرا کا ہے جو یوں کہتا ہے کہ مادی جسم سے علیحدگی کے بعد نفس ہمیشہ اپنے دنیاوی جسم کے خیال میں رہتا ہے، کیونکہ موت کے بعد بھی نفس میں تخیل کی قوت باقی رہتی ہے۔ اور جیسے ہی نفس اپنے جسم کا تصور کرتا ہے، اس سے دنیاوی جسم سے مطابقت رکھنے والا جسم نکل آتا ہے۔ نفس قیامت میں اس بدن کے ساتھ اٹھے گا جو اس نے تخیل کے زور پر ایجاد کیا ہے۔ قیامت میں جزا و سزا اسی جسم پر لاگو ہو گی۔ ان بڑے میاں کے مطابق اخروی بدن حقیقت میں نفس کا سایہ اور فوٹو ہے۔ جیسا نفس ہو گا ویسا بدن بنے گا، وہ یا نورانی ہو گا یا ظلمانی ہو گا۔ انہوں نے اپنی کتابوں میں اپنے فلسفے کے قواعد کے مطابق اس کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ لیکن مجھ ناچیز کی نظر میں اس مؤقف پر قائم رہنا بہت مشکل اور سخت ہے، کیونکہ یہ یقیناً بہت سی آیات کے ظاہری معنوں اور صحیح احادیث کی صراحت کے خلاف ہے۔“ (7)
ملاصدرا کا کہنا ہے کہ:
«جمیـع مـا یـراه اإلانسـان یـوم القیامـة یـراه بعیـن الخیـال» (8)
ترجمہ: ”قیامت کے دن انسان جو کچھ دیکھتا ہے وہ تخیل کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔“
کفار کیلئے دائمی عذاب کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے:
«و القول بانتهاء مدّة التعذيب للكفار و إن كان باطلا عند جمهور الفقهاء و المتكلّمين و بدعة و ضلالة- لادّعائهم تحقّق النصوص الجليّة في خلود العذاب و وقوع الإجماع من الأمّة في هذا الباب- إلّا أن كلّا منها غير قطعيّ الدلالة بحيث تعارض الكشف الصريح أو البرهان النيّر الصحيح.» (9)
ترجمہ: ”کفار کے عذاب کی مدت کے خاتمے کا نظریہ اکثر فقہاء اور متکلمین کے نزدیک باطل، بدعت اور گمراہی ہے۔ انکا دعویٰ یہ ہے کہ جلی نصوص اس عذاب کی ہمیشگی پر دلالت کرتی ہیں اور اسی پر بزرگوں کا اجماع ہے۔ البتہ یہ باتیں کوئی قطعی دلیل نہیں ہیں، کیونکہ یہ صریح کشف اور روشن برہان کے مخالف ہیں۔“
ملاصدرا کے عقیدۂ معاد کا تنقیدی جائزہ
چونکہ معاد کے بارے ملاصدرا کا نظریہ علمائے تشیع کے اجماع کے خلاف ہے، لہٰذا اب ہم پانچ حصوں میں اس کا تجزیہ کریں گے۔
اول: ملاصدرا کے نظریئے کے مطابق قیامت نفس پر قائم ہو گی۔ جنت اور دوزخ ابھی وجود نہیں رکھتیں اور قیامت کے دن خیالی صورت میں ظاہر ہوں گی اور یہ نفس سے نکلیں گی۔ جبکہ آیات و روایات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنت اور جہنم ابھی موجود ہیں۔ یہ دونوں مستقل واقعیتیں ہیں اور ان کی حقیقت انسان اور اس کے تخیلات سے ماوراء ہے۔ خدا نے ان کو گناہگاروں کی سرزنش اور مطیع بندوں کو نوازنے کیلئے خلق کیا ہے۔ ان کا انسان کی قوتِ خیال سے کوئی تعلق نہیں۔ انسان کے تخیل میں جو بھی آئے، اس سے ان کی حقیقت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نمونے کے طور پر یہاں کچھ آیات اور روایات کو پیش کرتے ہیں:
قرآنِ کریم میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم ؐ نے معراج میں بہشت کو دیکھا ہے:
«وَ لَقَدۡ رَاٰہُ نَزۡلَۃً اُخۡرٰی. عِنۡدَ سِدۡرَۃِ الۡمُنۡتَہٰی. عِنۡدَہَا جَنَّۃُ الۡمَاۡوٰی.» (10)
ترجمہ: ”اور بتحقیق انہوں نے پھر ایک مرتبہ اسے دیکھ لیا، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس، جس کے پاس ہی جنت الماویٰ ہے۔“
بعض آیات میں ماضی کا فعل، اُعِدَّتۡ، استعمال ہوا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہشت اور جہنم ماضی میں خلق ہو چکی ہیں اور حالِ حاضر میں موجود ہیں۔ مثلاً:
«وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیۡۤ اُعِدَّتۡ لِلۡکٰفِرِیۡنَ.» (11)
ترجمہ: ”اور اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔“
«وَ سَارِعُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الۡاَرۡضُ ۙ اُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِیۡنَ.» (12)
ترجمہ: ”اور اپنے رب کی بخشش اور اس جنت کی طرف جانے میں سبقت لو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے، جو اہل تقویٰ کے لیے آمادہ کی گئی ہے۔“
بہت سی روایات میں بھی اس عقیدے کی تائید آئی ہے۔ مثلاً امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا:
«من أنكر خلق الجنة والنار فقد كذب النبي ؐ وكذبنا وليس من ولايتنا على شئ، وخلد في النار جهنم» (13)
ترجمہ: ”جس نے جنت اور جہنم کی تخلیق کا انکار کیا اس نے نبی اکرم ؐ اور ہمارا انکار کیا۔ اسے ہماری ولایت سے کچھ نہیں ملا اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔“
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
«إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ الْجَنَّةَ وَ طَيَّبَهَا وَ طَيَّبَ رِيحَهَا وَ إِنَّ رِيحَهَا لَتُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَلْفَيْ عَامٍ» (14)
ترجمہ: ”بے شک اللہ نے بہشت اور اس کی خوبیوں کو اس کی خوشبو سمیت خلق کیا۔ اس کی خوشبو ہزار سال کی دوری تک پہنچتی ہے۔“
دوم: معاد کے بارے میں ملاصدرا کے نظریئے کی بنیاد اصالتِ وجود اور تشکیکِ وجود کے نظریات پر ہے۔ ہم نے اپنی کتاب ”تأملی در نظریہ ی اصالتِ وجود و وحدتِ وجود“ میں ثابت کیا ہے کہ یہ دونوں حقیقی براہین نہیں ہیں اور ان کے اثبات کیلئے جن براہین کا سہارا لیا جاتا ہے وہ اصل میں مغالطے ہیں۔ نام نہاد کشف اور شہود کے بغیر ان باتوں کو ماننا ممکن نہیں ہے۔ کتابِ مذکور کی ابتداء میں کشف اور شہود کے حجت نہ ہونے کو بھی ثابت کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:اصالتِ وجود کا عقیدہ درست نہیں – آیۃ اللہ سید قاسم علی احمدی
سوم: اگر معاد کے مسئلے میں کچھ تأمل کیا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ قیامت کے بارے ملاصدرا کا نظریہ خدا کے عادل ہونے کے ساتھ سازگار نہیں ہے۔ قیامت برپا کرنے کا ہدف عدالت کا اجراء اور گناہگاروں کو سزا دینا اور نیک بندوں کو جزا دینا ہے۔
«وَ نَضَعُ الۡمَوَازِیۡنَ الۡقِسۡطَ لِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ فَلَا تُظۡلَمُ نَفۡسٌ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ کَانَ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَیۡنَا بِہَا ؕ وَ کَفٰی بِنَا حٰسِبِیۡنَ.» (15)
ترجمہ: ”اور ہم قیامت کے دن عدل کا ترازو قائم کریں گے پھر کسی شخص پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا اور اگر رائی کے دانے برابر بھی (کسی کا عمل) ہوا تو ہم اسے اس کے لیے حاضر کر دیں گے اور حساب کرنے کے لیے ہم ہی کافی ہیں۔“
واضح ہے کہ دنیوی بدن کے اعضاء و جوارح ہی اطاعت بجا لاتے ہیں یا نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پس ثواب و عذاب کا تعلق بھی انہی سے ہونا چاہئے۔ لیکن ملاصدرا یہ کہتا ہے کہ جزا جس بدن کو ملے گی وہ یہ دنیوی بدن نہیں ہو گا۔ وہ کہتا ہے کہ یہ بدن، جس نے نیکی اور برائی کا ارتکاب کیا، نابود ہو جائے گا تو اس کا اعادہ نہیں ہو گا بلکہ قیامت کے دن حق تعالٰی نفسِ انسانی کے توسط سے ایک نیا بدن پیدا کرے گا اور اسے جزا و سزا دے گا۔ واضح ہے کہ اس جدید بدن نے نہ نیکی کی نہ بدی کی۔
عقلِ سلیم (common sense) یہ کہتی ہے کہ انہی اعضاء و جوارح کو صلہ ملنا چاہئے جنہوں نے نیکی یا بدی کا ارتکاب کیا ہے۔ ان کو نہیں جو اس دنیا میں موجود ہی نہ تھے اور ان سے نہ اطاعت سرزد ہوئی نہ گناہ!
چہارم: قیامت کے بارے ملاصدرا کا عقیدہ ایک رخ سے تشکیکِ وجود کے نظریئے پر کھڑا ہے تو دوسرے رخ سے اس کے خلاف ہے۔
تشکیکِ وجود کا نظریہ یہ کہتا ہے کہ عینی موجودات میں تشکیکی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان کے ما بہ الامتیاز کی بازگشت ان کے ما بہ الاشتراک کی طرف ہے۔ جیسا کہ شدید روشنی اور ضعیف روشنی میں اختلاف، جبکہ دونوں نور ہیں۔ پس تشکیکی وجودات کا اختلاف مراتب کے فرق سے ہے ورنہ ان کی ذات اور جوہر ایک ہی ہے۔ اس بنا پر دارِ وجود میں کوئی چیز دوسری چیز سے ذات اور حقیقت میں تباین یا جدائی نہیں رکھتی۔ چیزوں میں اختلاف مرتبے کا اختلاف ہے۔ ان میں تفاوت، وجود کی شدت و ضعف کا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: کثرت در وحدت یا تشکیکِ وجود کا عقیدہ درست نہیں – ڈاکٹر سید محمود ہاشمی نسب
لیکن معاد کے بارے میں ملاصدرا کا عقیدہ عالمِ دنیا اور عالمِ آخرت کی ذات اور حقیقت میں بیگانگی، تباین اور جدائی پر مبتنی ہے۔ وہ دنیا اور آخرت میں تفاوت اور تباین کے بارے کہتا ہے:
«و بالجملة فنحو وجودي الدنيا و الآخرة مختلفان في جوهر الوجود و لو كانت الآخرة من جوهر الدنيا لم يصح أن الدنيا يخرب و الآخرة يبقى فهذا الوجود يخالف وجود الآخرة ذاتا و جوهرا» (16)
ترجمہ: ”مختصر یہ کہ دنیا اور آخرت کے ہونے کی نوعیت جوہرِ وجودی میں مختلف ہے۔ اگر آخرت دنیا کے جوہر سے ہوتی تو اس دنیا کا معدوم ہو جانا اور آخرت کا باقی رہنا درست نہ ہوتا۔ پس یہ وجود اپنی ذات اور جوہر میں آخرت کے وجود سے جدا ہے۔“
ایک اور جگہ بھی اس جداگانگی کا ذکر کرتا ہے:
«و البعث من نشأة طبيعية إلى نشأة أخروية لا يمكن إلا بانقلاب الجوهر و تبدل الذات، لأن النشأتين الأولى و الآخرة متخالفتان في النوع متباينتان في نحو الوجود لا في الأوصاف و الأعراض، و إلا لم يكن كل منها برأسه عالما تاما، و قد علمت استحالة تعدد العوالم بالعدد مع اتحادها في النوع، فإذن جوهر الآخرة نوع آخر من الوجود مباين لجوهر الدنيا» (17)
ترجمہ: ”عالمِ طبیعت سے اٹھا کر آخرت کے عالم میں لے جانا، جوہر اور ذات کی تبدیلی کے بنا ممکن نہیں۔ کیونکہ دنیا اور آخرت کے عوالم صرف اوصاف و اعراض میں نہیں، بلکہ اپنی نوعیت اور اپنی وجودیت میں جدا جدا ہیں۔ ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنے آپ میں ایک پوری دنیا نہ ہوتا۔ جیسا کہ آپ جان چکے ہیں کہ ایک نوع کے متعدد عوالم کا پایا جانا محال ہے۔ پس آخرت کا جوہر، وجود کی ایک الگ نوع ہے جو دنیا کے جوہر سے بالکل الگ ہے۔“
گویا وہ دنیا اور آخرت میں ذاتی اور جوہری تفاوت کی وجہ سے دنیاوی جسم کے اٹھائے جانے کا منکر ہوا ہے۔ اسے ناممکن سمجھ کر اس بات کا قائل ہوا ہے کہ آخرت میں اس عالم سے مطابقت رکھنے والا ایک نیا بدن خلق ہو کر محشور ہو گا۔
واضح و روشن ہے کہ دنیا اور آخرت میں ذاتی و جوہری جدائی تشکیکِ وجود کے نظریئے کے ساتھ سازگار نہیں جو موجودات میں اختلاف کو ذاتی و حقیقی اختلاف کے بجائے مرتبے کا اختلاف قرار دیتا ہے۔ نظریۂ تشکیک وجود کے مطابق تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ:
«آخرت کا وجود دنیا کے وجود سے سنخیت رکھتا ہے۔ چونکہ ہر دو حقیقتِ وجود میں وحدت اور اشتراک رکھتے ہیں اور ان میں تفاوت مرتبے کے اختلاف سے ہے۔»
پنجم: معاد کے بارے ملاصدرا کا عقیدہ ایک رخ سے تشکیکِ وجود پر مبتنی ہے۔ وہ اپنے عقیدۂ معاد میں تشکیکِ وجود کے بنیادی کردار کو یوں بیان کرتا ہے:
«ان بعض افراد البشر في كمال ذاته بحيث يصير من الملائكة المقربين الذين لا يلتفتون إلى ما سواه وإلى شيء من لذات الجنّة و طبقات نعيمها» (18)
ترجمہ: ”بعض انسان اپنی ذات میں اتنے کامل ہیں کہ گویا خدا کے مقرب فرشتوں میں سے ہو جاتے ہیں جو اس کے سوا کسی اور کی طرف یا جنت کی لذات اور اس کی نعمتوں کے مراتب کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔“
نتیجۂ بحث
قرآن و روایات کے شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ جنت اور جہنم ابھی اس وقت خارجی وجود رکھتی ہیں۔ اصالتِ وجود کا نظریہ، جس پر بڑے اعتراضات وارد ہوتے ہیں، ملاصدرا کے حالِ حاضر میں جنت اور دوزخ کی موجودگی کے انکار کی دلیل نہیں بن سکتا۔
عذاب و عقاب اسی دنیاوی جسم پر واقع ہو گا، یہ ایسے بدن کو نہیں ملے گا جس نے کوئی اچھا یا برا عمل انجام نہ دیا ہو۔
اسی طرح ہم نے دیکھا کہ معاد کے بارے ملاصدرا کا نظریہ تناقض کا شکار ہے کیونکہ ایک طرف یہ تشکیکِ وجود کی بنیادوں پر کھڑا کیا گیا ہے تو دوسری طرف اس کے خلاف جاتا ہے۔ یہ ایسے حال میں ہے کہ وہ اگرچہ جسم دنیوی کے اعادے کا انکار کرتا ہے، لیکن ایک جگہ دنیاوی بدن کے قیامت کے دن لوٹائے جانے کا اقرار بھی کرتا ہے اور اس کے انکار کو شریعت کا انکار سمجھتا ہے۔ ہم نے یہ بھی دیکھا کہ وہ عذاب کی ہمیشگی کی دلالت کو قطعی نہیں سمجھتا اور اسے کشف کے خلاف سمجھتا ہے۔
اسے سنئے: معاد جسمانی کی وضاحت – حجۃ الاسلام والمسلمین نعمت علی سدھو
حوالہ جات
1۔ علامہ حلی، ”کشف المراد“، صفحہ 406، تحقیق: حسن زاده آملی، مؤسسۃ النشر الاسلامی، قم۔
2۔ علامہ باقر مجلسی، ”بحار الانوار“، جلد 30، صفحہ 483، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، 1403 قمری۔
3۔ شیخ جعفر کاشف الغطاء، ”كشف الغطاء عن مبہمات الشريعۃ الغرّاء“، جلد 1، صفحہ 59، مكتب الإعلام الإسلامي، فرع خراسان۔
4۔ آیۃ اللہ العظمیٰ خوئی، ”مصباح الفقاہۃ“، جلد 1، صفحات 390، 391، مكتبة الداوری، قم۔
5۔ ملاصدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 9، صفحہ 153، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
6۔ ملاصدرا، ”المبدأ و المعاد“، صفحہ 376، انتشارات انجمن حکمت و فلسفہ ایران، تہران، 1354 ہجری شمسی۔
7۔ علامہ ابوالحسن رفیعی قزوینی، ”مجموعہ رسائل و مقالات فلسفی“، صفحہ 83، انتشارات الزہراء، قم، 1368 شمسی۔
8۔ ملاصدرا، ”اسفارِ اربعہ“، جلد 9، صفحہ 337، دار احیاء التراث العربی، بیروت۔
9۔ ملاصدرا، ”تفسیر القرآن الکریم“، جلد 4، صفحہ 316، بیدار، قم، 1366 ہجری شمسی۔
10۔ سورہ النجم، آیات 13 تا 15۔
11۔ سورہ آل عمران، آیت 131۔
12۔ سورہ آل عمران، آیت 133۔
13۔ علامہ باقر مجلسی، ”بحار الانوار“، جلد 30، صفحہ 483، مؤسسۃ الوفاء، بیروت، 1403 قمری۔
14۔ شیخ کلینی، ”الكافى“، جلد 7، صفحہ 55، حدیث 10؛ شیخ صدوق، ”من لا يحضرہ الفقيہ“، جلد 4، صفحہ 231؛ شیخ طوسی، ”تہذيب الاحکام“، جلد 9، صفحہ 246۔
15۔ سورہ انبیاء، آیت 47۔
16۔ ملاصدرا، ”مفاتیح الغیب“، صفحہ 603، موسسہ مطالعات و تحقيقات فرہنگى، تہران، 1363 ہجری شمسی۔
17۔ ملاصدرا، ”اسرار الآیات“، صفحہ 86، انجمن حكمت و فلسفہ اسلامی، تہران، 1360 ہجری شمسی۔
18۔ ملاصدرا، ”عرشیہ“، صفحہ 251، انتشارات مولی، تہران، 1397 ہجری شمسی۔