آیت اللہ میرزا جواد تہرانی کو عصرِ حاضر میں اصالتِ وجود کے سب سے بڑے نقادوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ آپ نے اصالتِ وجود کے کل گیارہ براہین کا رد پیش کیا ہے۔ یہ مقالہ تجزیاتی روش سے اِن دلائل کے بارے میں اُن کے تنقیدی نقطہٴ نظر کا جائزہ لیتا ہے۔
دقیق جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ آیت اللہ جواد تہرانی نے وجود کی اصالت کے دلائل پر تنقید کرنے کے لیے دو طریقے استعمال کیے ہیں: پہلا، اصالتِ وجود کے دلائل میں دَور اور مصادرہ بہ مطلوب جیسے مغالطوں کی نشاندہی کرنا اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ زاویۂ نظر آٹھ براہین کو رد کرنے میں موٴثر رہا ہے۔ دوسرا ”ماہیت من حیث ہی“ کی بعنوانِ مفہومِ ماہیت تفہیم کے راستے اصالتِ وجود کا رد کرنا جس کی وجہ سے وہ تین دلائل میں غلطی کا شکار ہوئے ہیں۔
اس مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ، رائج کی گئی رائے کے برعکس، اصالتِ وجود کو ثابت کرنے کے لیے جو براہین قائم کیے گئے ہیں ان میں سے بہت سے صحیح معنوں میں براہین نہیں ہیں۔
مقدمہ
بلاشبہ اصالتِ وجود عرفانی فلسفہ کے اہم ترین موضوعات میں سے ایک ہے اور اس کے بہت سے مسائل کو اسی کے ذریعے حل کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ابنِ سینا اور یہاں تک کہ فارابی کے اقوال میں بھی اس طرح کے عقیدے کے آثار مل سکتے ہیں، لیکن میر داماد نے پہلی بار اس مسئلے کو اٹھایا۔
اس کا شاگرد ملا صدرا پہلا فلسفی تھا جو وجود کی اصالت پر یقین رکھتا تھا اور اس نے اس کو کئی براہین سے ثابت کیا۔ اس نے اپنی کتابوں میں، خاص طور پر ”کتاب المشاعر“ میں، اصالتِ وجود کے براہین کی وضاحت کی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس نے اپنی تمام تصانیف میں اس حوالے سے جتنے ثبوت پیش کیے ہیں ان کی تعداد چودہ تک پہنچتی ہے۔ (روضاتی، 1388:69)
ان دلائل کا اثر اس قدر تھا کہ ملا صدرا کے بعد کے سبھی مسلم فلسفی تقریباً متفقہ طور پر اصالتِ وجود پر یقین رکھتے تھے اور وجود کے اصیل ہونے کے دیگر دلائل بھی پیش کرتے تھے کہ آج اس نظریئے کے حق میں گھڑے گئے دلائل کی تعداد دسیوں تک پہنچ جاتی ہے۔ تاہم بعض فقہاء اور مسلم فلسفیوں نے اس نظریہ کی مخالفت کی اور اسے معروضی مشاہدات اور حتیٰ کہ مذہبی عقائد کے منافی سمجھا۔
میرزا جواد تہرانی (متوفیٰ 1989ء) دورِ حاضر میں اس نظریہ کے اہم ترین نقادوں اور مخالفین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اگرچہ انہوں نے خود ایک طویل عرصے تک ملا صدرا کے فلسفے کی تعلیم حاصل کی لیکن وہ اس نظرئیے کے بارے اچھی رائے نہیں رکھتے اور اس کے مقابلے میں اصالتِ ماہیت کے تفکر کے بہترین نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی کتاب، ”عارف و صوفی چہ می گویند“ کا بڑا حصہ اصالتِ وجود کے رد سے مختص ہے۔
مذکورہ کتاب میں میرزا جواد تہرانی نے اس عقیدے کے گیارہ اہم اور مشہور دلائل پر تنقید کی ہے۔ اس کتاب میں خاص اور تازہ آراء اور نظریات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود ان کے بارے میں اب تک کوئی مستقل تحقیق نہیں کی گئی۔ یہ مقالہ قاری کو میرزا جواد تہرانی کی اصالتِ وجود پر تنقید سے آشنا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے دلائل کا بھی جائزہ لیتا ہے۔ پہلے ایک دلیل کی مختصر وضاحت پیش کی جائےگی، پھر اس پر میرزا جواد تہرانی کی تنقید کو پیش کیا جائے گا اور آخر میں اس تنقید کا تجزیہ اور جانچ آئے گی۔
اہم اصطلاحات کی وضاحت
سب سے پہلے اصالت، وجود اور ماہیت، ان تین تصورات کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت ضروری ہے۔ اس بحث میں اصالت کا معنی عینیت اور منشاٴِ آثار ہونا ہے، یعنی وہ چیز جو ذاتی طور پر اور بدونِ مجاز، ذہن سے باہر کی دنیا (خارج) میں متحقق ہوتی ہے۔ وجود کا مفہوم اس کے اسمِ مصدر کے معنوں میں ہے، جس کے مترادف کو اردو میں «ہونا» سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ معنی تمام موجودات میں مشترک ہے اس لیے اس کی منطقی تعریف نہیں کی جا سکتی۔ ماہیت کو بھی اس کے خاص معنی میں استعمال کیا جا رہا ہے، یعنی جو کچھ اس سوال کے جواب میں کہا جائے کہ فلاں چیز کیا ہے؟
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگرچہ ہر خارجی شے ایک واحد واقعیت اور ایک امرِ بسیط ہے، لیکن انسانی ذہن اس سے یہ دو الگ مفاہیم نکالتا ہے۔ میرداماد (متوفیٰ 1631ء) کے بعد مسلم فلسفیوں میں اختلاف پیدا ہوا۔ اختلاف یہ تھا کہ خارجی اشیاء ان دونوں مفاہیم میں سے کس کا حقیقی مصداق ہیں؟ دوسرے لفظوں میں ہمارے ذہن سے باہر کی چیزیں اپنی ذات میں اور اولاً وجود کے مفہوم پر پورا اترتی ہیں یا ماہیت کے مفہوم کا مصداق ہیں؟ جو اس کا جواب ہو گا وہی اصیل اور منشاٴِ آثار قرار پائے گا اور دوسرا اعتباری، یعنی ہمارے ذہن کی اختراع ہو گا!
اصالتِ وجود کے مطابق خارج وجود کا مصداق بالذات ہے اور اصالتِ ماہیت کی رو سے خارجی دنیا ماہیت کے مصادیق سے پُر ہے۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ متذکرہ ماہیت اس سے الگ ہے جو ”ماہیت بہ حمل اولی“ یا ”ماہیت من حیث ہی“ ہے۔ ماہیت بہ حمل اولی ایک ذہنی اور اعتباری مفہوم ہے کہ جو ماہیتِ خارجی سے الگ سنخ رکھتی ہے۔ ماہیت من حیث ہی بھی ذات اور اپنی ذاتیات کے علاوہ کسی چیز کی قابلیت نہیں رکھتی اور اس لئے واقعیت سے متصف نہیں ہوتی۔ (طباطبائی 1422ہ: ص 17؛ سبحانی 1382ش: ص 47؛ جوادی آملی 1375ش: ج 1 ص 327؛ مصباح یزدی 1382ش :ج 1 ص 336)۔
اسی بنیاد پر کچھ مسلم فلسفیوں نے جن میں میرداماد، فیاض لاہیجی، اور محقق دوانی شامل ہیں، ماہیت کی اصلیت کو قبول کیا۔ لیکن دوسرے فلسفی جیسے ملاصدرا، حکیم سبزواری، اور معاصر مسلم فلسفی وجود کی اصالت پر یقین رکھتے ہیں۔
تنقیدی نکات کی دستہ بندی
میرزا جواد تہرانی اپنی کتاب ”عارف و صوفی چہ می گویند“ میں اصالتِ وجود کے گیارہ براہین کا تنقیدی جائزہ لیتے ہیں۔ اس جائزے میں وہ معتقد ہیں کہ اصالتِ ماہیت کو قبول کرنے میں کوئی امرِ مانع یا امرِ محال لازم نہیں آتا اور اسے مان کر بھی وہ سبھی فلسفی الجھنیں حل کی جا سکتی ہیں جنہیں اصالتِ وجود کے معتقدین حل کرنے کے مدعی ہیں۔ ان کی تنقید کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
الف. پہلی قسم کے تنقیدی نکات کا محور یہ ہے کہ اصالتِ وجود کے براہین صحیح معنوں میں براہین نہیں ہیں اور ان میں دَور اور مصادرہ بہ مطلوب جیسے مغالطے استعمال کئے گئے ہیں۔
ب. دوسری قسم کے تنقیدی نکات میں ”ماہیت من حیث ہی“ کو ہی مفہومِ ماہیت قرار دیا گیا ہے۔ ان نکات میں ”ماہیت من حیث ہی“ کی تھوڑی مختلف تشریح کی گئی ہے اور اس بنیاد پر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ اصالتِ وجود کو ماننے والے ماہیت کیلئے صرف ایک مفہومی مرحلہ کے قائل ہیں۔
پہلی قسم کے تنقیدی نکات
اصالتِ وجود کی رد میں پیش کئے گئے گیارہ نکات میں سے آٹھ کو پہلی قسم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
1. برہانِ خیریتِ وجود کا رد
حکماء اس بات کو بدیہی سمجھتے رہے ہیں کہ وجود منشاءِ خیر و شرف ہے۔ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر وجود ایک ذہنی اور اعتباری چیز ہو تو اس میں کوئی خیر و شرف نہیں ہو گا۔ (ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 1، ص 340؛ سبزواری 1386: جلد 1، ص 183) میرزا جواد تہرانی فرماتے ہیں کہ اس برہان سے اصالتِ وجود کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ امورِ خارجی خیر ہیں۔ لیکن یہ بات کہ وجود تحققِ ذاتی رکھتا ہے، اخذ نہیں کی جا سکتی۔ اصالتِ ماہیت کے قائل افراد بھی یہی کہتے ہیں کہ ماہیتِ خارجی منشاءِ خیر و شرف ہے۔
«فرضاً ہر چہ در خارج باشد خیر و شرف باشد، خیر و شرف ہمین واقعیات خارجی است و اما این واقعیات اولاً بالذات وجود است یا ماہیت؟ فہو اول الکلام» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 253)
اس برہان کے بارے میں اہم سوال یہ ہے کہ آخر ماہیت کو منشاءِ خیر کیوں نہیں کہا جا سکتا؟ اس برہان میں مسئلہ یہ ہے کہ جو دلیل قائم کی گئی ہے وہ دعوے کی تکرار ہے، کہ امرِ اعتباری منشاءِ خیر و شرف نہیں ہو سکتا اور صرف امرِ اصیل خیر اور شر جیسے آثار کا منشاء ہو سکتا ہے۔ پھر یہ کہا جاتا ہے کہ وجود خیر و شرف کا منبع ہے لہٰذا وہ امرِ اعتباری نہیں ہو سکتا اور لہٰذا وہ اصالت رکھتا ہے۔ تو گویا اس کی اصالت پہلے ثابت ہو چکی ہے، جبکہ ایسا نہیں ہے۔
اس طرح تو ماہیت کے منبعِ خیر و شرف ہونے کا دعویٰ کر کے اصالتِ ماہیت کا بھی اثبات کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا پہلے وجود یا ماہیت کی عینیت ثابت ہو جائے پھر ان کے آثار و اوصاف، جسے خیر یا شر کا منبع ہونا، کی نوبت آتی ہے۔ پس جب تک وجود یا ماہیت میں سے کسی کی اصالت ثابت نہ ہو جائے، ان میں سے کسی کو بھی خیریت یا شریت سے متصف کرنا ایک قسم کا جانبدارانہ فیصلہ ہے جو پہلے سے طے کر لیا گیا ہو۔
2. برہانِ وجودِ ذہنی کا رد
یہ برہان خارجی شےٴ اور ذہنی شےٴ میں فرق کو ان دونوں کے وجود میں فرق کا نتیجہ قرار دیتا ہے، کیوں کہ یہ پہلے سے مان لیا گیا ہے کہ ان دونوں کی ماہیت ایک ہے۔ اس برہان کے مطابق ماہیت اصالت نہیں رکھتی اور اگر ماہیت اصیل ہو تو اشیاء کے وجودِ خارجی اور وجودِ ذہنی میں فرق نہ ہو گا۔ لیکن انسان بدیہی طور پر جانتا ہے کہ وجودِ ذہنی اور وجودِ خارجی میں ان پر مرتب ہونے والے آثار کے لحاظ سے تفاوت ہوتا ہے، پس ماہیت اصالت نہیں رکھتی اور وجود اصالت رکھتا ہے۔ (ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 2، ص 12؛ ملاصدرا 1375: ص 191؛ فیض کاشانی 1375: ص 7؛ سبزواری 1386: ج 1، ص 183؛ مدرس یزدی حکمی 1372: ص 62؛ طباطبائی 1384: ص 24؛ جوادی آملی 1375: ج 2، ص 28)
البتہ اصالتِ وجود کے معتقدین کا ذہنی شےٴ اور خارجی شےٴکے اختلاف کو ان کی ماہیت کا حصہ نہ ماننے کا سبب یہ ہے کہ وہ علم و معلوم میں مطابقت کو لازمی سمجھتے ہیں۔
ایسے میں میرزا جواد تہرانی کا یہ کہنا ہے کہ ماہیتِ ذہنی اور ماہیتِ خارجی میں اختلاف کو مان لینے سے اصالتِ ماہیت کو قبول کئے بنا چارہ نہیں رہتا:
«با فرض اصالت ماہیت ہم ممکن است بگوییم: تأثیر ماہیت بہ اختلاف مواطن و اطوار مختلف میشود. ماہیت مجعولہ در خارج منشأ آثار خارجی است؛ ولی ماہیت متحقق بہ تَبَع نفس و ذہن آدمی منشأ آن آثار نمیباشد» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 254)
میرزا جواد تہرانی کی تائید میں کہنا چاہئیے کہ وہ ماہیات جو ذہن میں نقش ہوتی ہیں، دراصل ماہیتوں کے مفاہیم ہوتے ہیں اور خارجی ماہیات سے جدا ہوتے ہیں۔ ان ذہنی مفاہیم و ماہیات کی خاصیت یہ ہے کہ یہ خارجی ماہیات کی حکایت کرتی ہیں۔ انسانی ذہن خارجی ماہیت کا تجربہ کرتا ہے تو اس کے مفہوم کو درک کرتا ہے اور یہ مفہوم خارجی اور عینی ماہیت سے آگاہ کرتا ہے۔ اس طرح ذہن اور خارج میں مطابقت قائم رہتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ذہنی چیزوں کا خارجی چیزوں سے اختلاف ان کی ماہیتوں کے اختلاف کا ثبوت ہے اور یہ بات اصالتِ ماہیت کی دلیل ہو گی۔
مزید یہ کہ جدید تحقیقات میں برہانِ وجودِ ذہنی پر اتنے زیادہ اعتراضات پیدا ہو چکے ہیں کہ اس کا دفاع کرنے والے عملی طور پر اپنے دعوے سے ہاتھ اٹھا رہے ہیں اور یہ مان رہے ہیں کہ جو کچھ ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ خود ماہیت نہیں بلکہ اس کا مفہوم ہے۔ (فیاضی 1390: ص 97) لہٰذا اس رائج نظریئے کو، کہ جو ذہن میں آتا ہے وہ عینِ ماہیت اور خودِ ماہیت ہوتا ہے، دوسرے نظریئے کے مقابلے میں سمجھنا چاہئیے کہ جو انسانی ذہن میں ماہیات کی تصویر کو پرکھنے کا قائل رہا ہے۔
3. برہانِ امتناعِ تشکیک بہ اقدمیت در ماہیت کا رد
اس برہان کے مطابق ماہیت اس لیے اصالت نہیں رکھتی کیوں کہ اگر ماہیت اصیل ہو تو علیت و معلولیت جیسے اوصاف کو بھی ماہیت سے منتسب کرنا پڑے گا اور اگر علیت و معلولیت بھی ماہیت میں شامل ہو تو وہ ماہیت جو علت قرار پائے گی اسے اس ماہیت پر مقدم ہونا ہو گا جو معلول ہو گی۔ پس جب ماہیتِ علت اور ماہیتِ معلول ایک ہی ماہیت رکھتی ہوں تو تشکیک بہ اقدمیت لازم آئے گی اور چونکہ ماہیت میں تشکیک نہیں ہو سکتی لہٰذا ماہیت اصالت نہیں رکھتی اور اس سے اصالتِ وجود ثابت ہو جاتی ہے۔ (سبزواری 1386: ج 1، ص 183؛ طباطبایی 1384: ص 24)
میرزا جواد تہرانی، جو خود اصالتِ ماہیت کے تفکر کی نمائندگی کرتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ اس برہان میں ماہیت کے تشکیک نا پذیر ہونے کو پہلے سے طے شدہ حقیقت سمجھ لیا گیا ہے۔ جب کہ خود ان کی طرح اصالتِ ماہیت کے کچھ دیگر قائلین بھی ماہیت میں تشکیک کو کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں سمجھتے۔ لہٰذا ان کیلئے یہ دلیل قابل قبول نہیں ہے۔
«این دلیل بر اصالت وجود فقط جدل و الزام است (نہ برہان)، آن ہم بر ہمان دستہ از قائلین بہ اصالت ماہیت (کہ تشکیک در ماہیت را تجویز نکردہاند) و برای ما کہ میبینیم دلیل قاطعی بر امتناع تشکیک در ماہیت نیست ہیچ فایدہ و اثری ندارد.» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: 258)
اگرچہ یہ تنقید درست ہے اور مذکورہ برہان ان کیلئے جو ماہیت میں تشکیک کی نفی کے قائل نہ ہوں، مطلوبہ نتیجے تک نہیں پہنچاتا، یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ ماہیت میں تشکیک کا اثبات بھی آسان نہیں ہے۔ کیوں کہ حصرِ عقلی کی بنا پر ماہیت میں تمایز یا ان امور کی بنیاد پر ہے جو ماہیت سے خارج ہیں اور یا ان کی بنیاد پر جو ماہیت میں داخل ہیں۔ اگر تمایز ماہیت سے خارج امور کی بنیاد پر ہو تو یہ تمایز ذاتی نہیں بلکہ عرضی ہو گا۔ اور اگر تمایز داخلی چیزوں کی وجہ سے ہو تو یا تمایز تمام ذات سے ہو گا یا ذات کے جز سے ہو گا۔
یہاں اہم نکتہ یہ ہے کہ حصرِ عقلی میں اقسام کے تغیر کا امکان نہیں ہے اور یہ چیز کوئی معنی نہیں رکھتی کہ تمایزِ تشکیکی کے نام سے ایک اور قسم کا اضافہ کیا جائے اور کہا جائے کہ اس میں تمایز نہ ماہیت سے خارج کے امور سے ہے نہ اصلِ ماہیت کے داخل سے ہے۔
4. برہانِ حرکتِ اشتدادی یا انواعِ بے نہایت کا رد
اس برہان کی بنیاد محدود حرکت میں لامحدود حقائق کے وقوع کا امکان نہ ہونا ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ ماہیت اس لیے اصالت نہیں رکھتی کیوں کہ اگر وہ اصیل ہوتی تو ہر حرکتِ اشتدادیِ متناہی میں ماہیت کی بے نہایت انواع قرار پاتی ہیں اور اس چیز کا واقع ہونا محال ہے۔ کیوں کہ یہ ایک لامتناہی امر کے متناہی ہونے اور غیر محصور کے محصور ہونے کے معنوں میں ہو گا۔ پس ماہیت اصیل نہیں اور وجود اصیل ہے۔ (ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 2، ص 17؛ ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 3، ص 83؛ ملاصدرا 1378: ص 69؛ سبزواری 1386: ج 1، ص 184)
میرزا جواد تہرانی بھی لا متناہی حقائق کے متناہی حرکت میں بالفعل وقوع کے نا ممکن ہونے کے قائل ہیں، لیکن ان کا سوال یہ ہے کہ ماہیات کی وہ بے نہایت انواع جو حرکتِ اشتدادی کی حدود سے سمجھ میں آتی ہیں، بالقوہ ماہیات کی نوع سے ہیں یا بالفعل ماہیات کی نوع سے؟
«بنابر فرض اصالت ماہیت و عدم جواز تشکیک در ماہیت، در اشتداد، انواع غیرمتناہیہٴ بالفعل لازم نیاید (بلکہ انواع غیرمتناہیہٴ بالقوہ خواہد بود)؛ زیرا اشتداد (حرکت) و یا ہر امر متصل دیگر انقسامات و ابعاض و اجزای غیرمتناہیہ را بالفعل دارا نیست، بلکہ بالقوہ انقسامات غیرمتناہیہ را (ولو بہحسب ذہن و قوہ واہمہ) قبول مینماید و فرض اصالت ماہیت و انواع ہم کہ امر بالقوہ را بالفعل نمیکند.» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 260)
ترجمہ: ”اصالتِ ماہیت اور ماہیت میں تشکیک کے عدم جواز کی بنیاد پر اشتداد میں غیر متناہی انواع کا بالفعل لازم ہونا ضروری نہیں (بلکہ انواعِ غیر متناہیہ بالقوہ ہوں گی) کیوں کہ اشتداد (حرکت) یا کسی اور امرِ متصل میں بالفعل غیر متناہی اجزاء اور انقسامات اور ابعاض نہیں ہوتیں۔ بلکہ بالقوہ انقساماتِ غیر متناہیہ کو، چاہے ذہن اور قوہ واہمہ میں ہی سہی، قبول کیا جا سکتا ہے اور اصالتِ ماہیت و انواع کا قائل ہونا بھی کسی امر بالقوہ کو بالفعل میں نہیں بدلتا۔“
تھوڑا غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حرکت کی حدود ایک واقعی اور عینی چیز نہیں، کیوں کہ خود وہمی تقسیم سے حاصل ہوئی ہیں، تو ان حدود سے انتزاع کی گئی ماہیتیں بھی وہمی اور بالقوہ ماہیتیں ہیں۔ اس بنا پر حرکتِ اشتدادی کی حدود سے سمجھی گئی ماہیات بھی فرضی اور وہمی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں حرکتِ اشتدادی کی واقعی ماہیت ایک سے زیادہ نہیں، اور اس عینی ماہیت میں اور اس میں جو اس کی وہمی حدود سے سمجھ میں آئی ہو، فرق کرنا چاہئیے۔
5. برہانِ صدقِ حملِ شایع کا رد
حملِ شایع کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ قضیئے کے موضوع اور محمول کے مفاہیم ایک دوسرے سے اختلاف اور تغایر رکھتے ہیں، مصداق میں ایک ہیں۔ پس اگر وجود اصیل نہ ہو توکوئی حمل شایع نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حمل شایع کا تحقق اور صدق نا قابل انکار اور بدیہی ہے۔ پس وجود اصیل ہے۔ (ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 2، ص 12؛ سبزواری 1386: ج 1، ص 186؛ طباطبایی 1384: ص 23)
میرزا جواد تہرانی یہ کہتے ہیں کہ اگر اصالتِ وجود کی بنیاد پر وجود میں قضیئے کے موضوع اور محمول ایک ہو جاتے ہیں تو کیوں یہی بات ماہیت کے بارے میں نہ کہیں؟ بنیادی طور پر اصالتِ ماہیت کے قالین کا دعویٰ بھی یہی ہے کہ ماہیت میں قضیئے کے موضوع اور محمول باہم ایک ہیں:
«ملاک صحت حمل ہمین است کہ یک نحو اتحاد و ہو ہویتی بین موضوع و محمول بودہ باشد، نہ بہ خصوص اتحاد وجودی (چنانکہ مشہور است) و بنا بر فرض اصالت ماہیت، آن اتحاد را ما اتحاد تحققی و مصداقی گوییم؛ یعنی موضوع و محمول در قضایای شایع صناعی (گرچہ مفہوماً متغایرند ولی) مصداقاً و تحققاً متحدند (و این تحقق تحقق ماہوی است، نہ وجودی).» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 269)
یہاں اس نکتے کی یاد دہانی ضروری ہے کہ یہاں ماہیت سے مراد اس کا مفہوم نہیں ہے۔ جیسا کہ وجود سے مراد بھی اس کا مفہوم نہیں ہے۔ اب اگر شایع صناعی کے قضیئے میں موضوع اور محمول کا مصداق ایک ہے تو اس مصداقِ واحد کو ماہیت کا مصداق قرار دیا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ان قضیئوں کا موضوع اور محمول مصداق اور فرد ماہیت میں باہم متحد ہیں اور یہی اتحاد ان قضیئوں میں صحتِ حمل کا ملاک کہلاتا ہے۔
مثال کے طور پر مفہومِ انسان اور مفہومِ کاتب، تو جداگانہ اور ایک دوسرے سے الگ مفاہیم ہیں، لیکن خارج میں زید نامی شخص ایک انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی کتاب کی نسبت سے کاتب بھی ہے۔ پس دونوں میں اتحاد اور وحدت برقرار ہے اور یہی خارج میں ماہیت کے مصداق کا ایک ہونا ان دو مفاہیم کی صحتِ حمل کا ملاک ہے۔
لہٰذا یہ جو کہا جاتا ہے کہ ”ماہیت کثرت اور اختلاف کی باعث ہے اور وجود موضوع و محمول کے اتحاد کا سبب ہے“، تنہا انتخاب اور اکیلا قابلِ غور نکتہ نہیں ہے۔ کیوں کہ جیسا کہ بیان ہوا، اگرچہ مفہوم کے لحاظ سے موضوع اور محمول الگ الگ ہیں، مصداق و فردِ ماہیت میں باہم متحد ہیں اور یہی ایک ہونا شایع صناعی کے قضیئوں کے حمل کے درست ہونے کا موجب ہے۔
6. برہانِ ترکب کی تمامیت کا رد
یہ برہان اصل میں ابنِ کمونہ کے شبہے کو دور کرنے کیلئے بنایا گیا ہے جس کے مطابق دو واجب الوجود فرض کئے جا سکتے ہیں جن میں کوئی وجہٴ اشتراک نہ ہو۔ برہانِ ترکب اس شبہہ کا جواب یوں دیتا ہے: فرض کئے گئے دو واجب الوجود تمامِ ذات میں متباین نہیں ہیں کیوں کہ ہر دو وجود کے وجوب میں مشترک ہیں اور یہی چیز ان کے درمیان مابہ الاشتراک ہے۔ پس ہر واجب الوجود مابہ الاشتراک اور مابہ الامتیاز کا مرکب ہو جائے گا اور یہ ایسے حال میں ہے کہ ذاتِ حق میں ترکیب محال ہے۔
اب اصالتِ وجود کے قائل حضرات کا دعویٰ یہ ہے کہ اگر وجود اصیل نہ ہو تو دو واجب الوجود میں وجہٴ اشتراک تصور نہیں کی جا سکتی اور یہ دونوں متباین بہ تمام ذات ہو جائیں گے اور برہانِ ترکب باطل ہو جائے گا۔ چونکہ برہانِ توحید درست اور صحیح ہے، لہٰذا وجود اصیل ہے۔ (سبزواری 1386: ج 1، ص 187) میرزا جواد تہرانی اس دلیل کو دَور سمجھتے ہیں:
«این دلیل دور است؛ چون بر اصالت وجود بہ امری استدلال شدہ است کہ خود آن امر متوقف است بر ثبوت اصالت وجود؛ زیرا استقامت و تمامیت دلیل لزوم ترکیب از ما بہ الاشتراک و ما بہ الامتیاز متوقف است بر ثبوت اصالت وجود…» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 272)۔
ترجمہ: ”یہ دلیل دَور ہے کیوں کہ اصالتِ وجود کو ثابت کرنے کیلئے ایسی بات سے استدلال کیا گیا ہے کہ جو خود اصالتِ وجود کے اثبات پر متوقف ہے۔ کیوں کہ ما بہ الاشتراک و ما بہ الامتیاز سے ترکیب کا لازم آنا اصالتِ وجود کے ثبوت پر متوقف ہے۔“
برہانِ ترکب کا دقیق مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ یہ برہان نہ صرف یہ کہ پورا نہیں پڑتا بلکہ ایک قسم کا جدل ہے۔ اس کا سیاق یہ ہے کہ اگر ہم اصالتِ وجود کے معتقد نہ ہوں تو خدا کی وحدانیت پر حرف آ جائے گا۔ پس خدا کی توحید کے اثبات کیلئے ہمیں اصالتِ وجود کو مان لینا چاہئیے۔ گویا اصالتِ وجود کو مانے بنا توحید کے اثبات کیلئے کوئی اور برہان قابلِ تصور نہ ہو۔ اسی وجہ سے اس برہان کو خود اصالتِ وجود کے قائلین میں سے بعض نے رد کر دیا ہے۔ (فیاضی 1390: ص 165؛ شیرازی 1392: ج 1، ص 57)
اس کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہئیے کہ عرفانی فلسفے میں وجود میں تشکیک کا نظریہ اصالتِ وجود کے تصور کے بعد بیان ہوتا ہے اور ترتیب کے لحاظ سے اس کے بعد قرار پاتا ہے۔ پس ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس سے اصالتِ وجود کے اثبات کے مقدمے کا کام لیا جائے۔
اسی طرح اصالتِ وجود ثابت ہو بھی جائے تو بھی فلاسفہٴ مشاء کی طرح خارج میں کثرتِ وجودات کا قائل ہوا جا سکتا ہے اور ان کو بھی متباین بہ تمام ذات کہا جا سکتا ہے۔ اس بنا پر ہم پھر شبہہٴ کمونہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ ایسے دو واجب الوجود فرض کئے جا سکتے ہیں جن میں کوئی وجہٴ اشتراک نہ ہو۔ اب چاہے ان کو دو الگ الگ ماہیتیں سمجھیں یا دو الگ الگ وجود، اصلِ شبہہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لہٰذا برہانِ ترکب شبہہٴ ابن کمونہ کو ختم نہیں کرتا۔
7. برہانِ عینیتِ صفات و ذاتِ حق
یہ برہان بھی پچھلے برہان کی طرح اس بنیاد پر کھڑا ہے کہ ذاتِ حق اور اس کے اسماء میں اشتراک اور وحدت کی وجہ وجود ہے۔ لہٰذا اگر وجود اصیل نہ ہو تو وحدت بھی نہیں ہو سکتی اور اگر وحدت نہ ہو تو حق کی ذات و صفات میں وحدت اور عینیت نہیں ہو سکتی۔ چونکہ صفاتِ حق آپس میں اور ذاتِ حق کے ساتھ متحد اور ایک دوسرے کا عین ہیں، لہٰذا وجود اصیل ہے۔ (ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 6، ص 148؛ سبزواری 1386: ج 1، ص 188)
میرزا جواد تہرانی کے مطابق جیسے اصالتِ وجود کے تحت ذاتِ حق اور سبھی اسماء میں نقطۂ وحدت وجود میں ہے، اصالتِ ماہیت کے تحت بھی ماہیت ان کی وحدت کی مصداق ہے:
«گذشتہ از اینکہ بنا بر فرض اصالت وجود (ہم چنانکہ گفتہ می شود) مفاہیم مختلفہٴ علم و قدرت و حیات و سایر صفات کمالیہ در وجود متحدند، بنا بر فرض اصالت ماہیت ہم میتوان گفت کہ این مفاہیم مختلف در مقام مصداق و تحقق ماہوی متحدند و ہمہ عین ذات و حقیقت واحد حق متعال می باشند. می گوییم این استدلال مثبت اصالت وجود فقط در مورد ذات واجب تعالی خواہد بود.» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 272)
پہلا نکتہ جس کی طرف میرزا جواد تہرانی نے اشارہ کیا ہے اس کے بارے میں کہنا چاہئیے کہ حق تعالیٰ کی صفات متعدد اور کثیر ہیں اور واضح ہے کہ ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ یہ صفات ذاتِ حق کی بھی غیر ہیں۔ لیکن یہ تعدد اور اختلاف صرف ذہنی ہے اور مفہوم سے مربوط ہے۔ اصالتِ وجود کے مطابق صفاتِ حق اپنے وجود میں ایک دوسرے سے اور ذاتِ حق سے متحد اور یگانہ ہیں۔ یہ وہی معروف نظریہ ہے جسے اسماء و صفات کے ذاتِ حق سے اختلافِ مفہومی و اتحادِ مصداقی کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے۔
ایسے میں یہ سوال پیش آتا ہے کہ اگر اسماء و صفاتِ حق کے مفاہیم ایک دوسرے سے تمایز رکھتے ہیں اور ذاتِ حق سے بھی الگ ہیں، ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ یہ مفاہیم ماہیت کے مصداق میں ایک دوسرے سے متحد ہوں؟ اس بنیاد پر واجب الوجود کی ماہیت مجہول الکنہ ہے کہ جس سے ذات و اسماء کے متعدد اور کثیر مفاہیم اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
دوسرے نکتے کے بارے میں بھی کہنا چاہئیے کہ اصالتِ وجود کی بحث صرف ایک خاص مصداق (یہاں واجب الوجود مراد ہے) سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہی سبھی موجودات، چاہے ممکنات ہوں یا واجب الوجود، کا احاطہ کرتی ہے۔ لہٰذا اس رو سے ممکن ہے کہ کچھ لوگ واجب الوجود کیلئے اصالتِ وجود کے قائل ہو جائیں اور ممکن الوجود کیلئے ماہیت کو اصیل سمجھیں۔ جیسا کہ نظریہٴ ذوق تألہ اور محقق دوانی سے یہ رائے منسوب کی گئی ہے۔
8. برہانِ توحیدِ فعلی کا رد
اس برہان کے مطابق توحیدِ فعلی یا فعلِ واحدِ الہٰی صرف نظریۂ اصالتِ وجود سے سازگار ہے۔ یعنی اگر وجود اعتباری ہو تو دارِ تحقق میں وحدت برقرار نہیں ہوتی۔ اور اگر موجودات میں وحدت نہ ہو تو ہم گوناگوں اور کثیر ماہیات سے روبرو ہوں گے کہ جن میں سے ہر ایک کسی ایک فعل حق کی حکایت کرے گی۔ اس طرح فعلِ خداوند متعدد اور کثیر ٹھہرے گا جبکہ فعلِ حق واحد ہے۔ پس وجود اصیل ہے۔ (سبزواری 1386: ج 1، ص 189)
یہاں بھی یہ نکتہ قابلِ توجہ ہے کہ فعل واحد سے ان کی مراد وجودِ منبسط ہے اور وجود منبسط کا اثبات اصالتِ وجود کے ثابت ہونے کے بعد ہوتا ہے۔ پس ایسا نہیں ہو سکتا کہ اسے اصالتِ وجود کے اثبات کی بنیاد بنایا جا سکے:
«توحید فعل اللہ، بہمعنایی کہ در این جا مراد است بہ این کہ فعل خداوند متعال ازلاً و ابداً شیء و حقیقت واحدی چون وجود منبسط عرفانی باشد، عقلاً ثبوت آن متوقف است بر ثبوت اصالت وجود، بلکہ بہ ضمیمہٴ وحدت و تشکیک در وجود.» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 273)
مختصر یہ کہ اس برہان میں بھی برہان ترکب کی طرح اصالتِ وجود کے اثبات کیلئے ایسی بات کو دلیل بنایا جا رہا ہے کہ جس کا اپنا اثبات اصالتِ وجود کے اثبات پر موقوف ہے۔ پس یہ برہان بھی دَور ہے۔
یہ بھی پڑھئے: ملا صدرا اور پروکلس کے ہاں صادرِ اول کا تصور – ڈاکٹر سعید رحیمیان، ڈاکٹر زہرا اسکندری
دوسری قسم کے تنقیدی نکات
میرزا جواد تہرانی کی طرف سے اصالتِ وجود کے تین براہین کے رد کو اس گروہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
1. برہانِ موجودیتِ ماہیات کا رد
یہ برہان اصالتِ وجود کا اصلی ترین برہان سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے میرزا جواد تہرانی کی تنقید کا زیادہ حصہ اس پر صرف ہوا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر وجود اصیل نہ ہوتا تو کوئی ماہیت حد استوا سے خارج نہ ہوتی اور موجودیت پیدا نہ کرتی۔ لیکن چونکہ ماہیات خارج میں متحقق ہیں، لہٰذاوجود اصالت رکھتا ہے۔ (ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 8، ص 13؛ ملا صدرا 1366: ج 1، ص 50؛ ملا صدرا 1378: ص 195؛ ملا صدرا 1375: ص 188؛ فیض کاشانی 1375: ص 7؛ سبزواری 1386: ج 1، ص 185؛ زنوزی 1361: ص 54؛ طباطبائی 1384: ص 23؛ جوادی آملی 1375: ج 1، ص 331)
میرزا جواد تہرانی کا یہ کہنا ہے کہ وہ ”ماہیت من حیث ہی“ ، جو حد استوا میں ہے، ماہیت کا مفہوم ہے اور مفہوم اور اس کے مصداق کے آثار و احکام میں فرق ہے۔ ماہیت کا مصداق اصالت رکھتا ہے۔ لہٰذا ماہیت من حیث ہی کی اعتباریت سے مصداقِ ماہیت کو مراد نہیں لیا جا سکتا:
«این کہ گفتہ می شود ماہیت من حیث ہی لیست الا ہی و نسبتش بہ وجود و عدم یک سان و برابر است ناظر بہ مرحلہٴ مفہوم بما ہو مفہوم است و اما این کہ گفتہ میشود ماہیت اصیل است و اولاً و بالذات در خارج مجعول و موجود است ہمانا بہ لحاظ مرحلہٴ مصداق ماہیت است، نہ مفہوم بما ہو مفہوم و اختلاف احکام ماہیت بہ لحاظ این دو مرحلہ اشکالی ندارد.» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 262)
یہ تنقید درست نہیں ہے کیوں کہ ماہیت من حیث ہی اور مفہومِ ماہیت میں فرق ہے۔ اوپر پیش کی گئی عبارت میں ایسا لگتا ہے کہ میرزا جواد تہرانی ”ماہیت من حیث ہی“ کو ”ماہیت لا بشرط قسمی“ سمجھتے ہیں۔ یہ وہی تصور ہے جو ان سے پہلے جناب تقی آملی نے پیش کیا تھا۔ (محمد تقی آملی، درر الفوائد، جلد 1، صفحات 305 تا 310) جاننا چاہئیے کہ ماہیت من حیث ہی کو قسمی سمجھنا اس کو ذہن تک مقید اور محدود کر دیتا ہے اور یہ چیز موجب بنتی ہے کہ خارج میں ماہیات کا انکار کیا جائے۔
لہٰذا ماہیت من حیث ہی کو ایسی مقسم ماہیات میں قرار دینا ہو گا کہ جس کی ایک قسم ماہیت لا بشرط قسمی ہو گی۔ ماہیت من حیث ہی کی یہی لا بشرطیت اور لا اقتضائیت اس بات کی موجب ہو گی کہ ذہن اور خارج، دونوں جگہ تحقق پیدا کرے۔ یعنی مفہوم بھی رکھتی ہو گی اور مصداق بھی رکھتی ہو گی۔
عرفانی فلاسفہ ان مقدمات کو قبول کرنے کے بعد اس بحث میں پڑتے ہیں کہ کیا مصداقِ ماہیت ذاتی طور پر اصالت رکھتا ہے یا اس کا تحقق وجود کے واسطے سے ہوتا ہے؟ اس بنا پر اگر ماہیت من حیث ہی، جیسا کہ میرزا جواد تہرانی معتقد ہیں، لا بشرط قسمی کی نوع سے ہو تو اصالتِ ماہیت کی بحث بے معنی ہو جاتی ہے۔
2. برہانِ تشخصِ اشیاء کا رد
اس برہان کے مطابق اشیاء کا تشخص اصالتِ وجود کی دلیل ہے۔ کیوں کہ اگر وجود اعتباری ہو تو کوئی ماہیت حقیقی فرد یا جزء نہیں رکھتی ہو گی۔ یعنی ماہیات صرف ذہنی اور کلی وجود رکھتی ہوں گی کہ جن کے کوئی خارجی افراد نہیں ہوں گے۔ جبکہ خارج میں اشیاء مشخص ہیں اور خارج میں ان کا تشخص ایک وجدانی اور بدیہی امر ہے۔ پس وجود اعتباری امر نہیں بلکہ اصالت رکھتا ہے۔ (ملا صدرا، اسفارِ اربعہ، جلد 2، ص 13؛ زنوزی 1361: ص 56؛ آشتیانی 1378: جلد 2، ص 406)
میرزا جواد تہرانی یہاں بھی وجود کے خواص کو ماہیت سے نسبت دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ ماہیت کا مفہوم نہ کلی ہے نہ جزئی، اس کا مصداق جزئی اور مشخص ہے اور اپنے تشخص کیلئے وجود کی قید کی ضرورت محسوس نہیں کرتا:
«مفہوم ماہیت، مثلاً انسان بما ہو، گرچہ نہ کلی است و نہ جزئی، ولی مصداق آن جزئی است و بہ مجرد این کہ جاعل بہ جعل بسیط در خارج مصداق ماہیت را اولاً و بالذات جعل نمود، ماہیت متحقق در خارج و جزئی و متشخص و ممتنع از صدق بر کثیرین میشود و ہرگز برای حصول تشخص احتیاج بہ انضمام امر دیگری ندارد.» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 276)
اس عبارت میں میرزا جواد تہرانی نے ماہیت من حیث ہی کو ہی مفہومِ ماہیت کے طور پر لیا ہے، کیوں کہ مفہومِ ماہیت ہمیشہ ایک امر کلی ہے اور کبھی حالتِ کلیت سے خارج نہ ہو گا۔ یہ صرف ماہیت من حیث ہی ہے جو نہ کلی ہے نہ جزئی۔ اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اگرچہ ماہیت اپنی ذات میں ذہن یا خارج کی پرواہ نہیں کرتی اور اسی وجہ سے دونوں ظروف میں موجود ہے، خارج میں جزئی و حقیقی مصداق نہیں رکھتی۔ دوسرے لفظوں میں بالعرض جزئی مصداق رکھتی ہے۔
کیوں کہ اگر یہ کہا جائے کہ ماہیت کا مصداق خارج میں ذاتاً متحقق ہے تو فوراً یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ وہ ماہیت جو ذاتاً نہ موجود ہے، نہ معدوم، نہ کلی ہے نہ جزئی، اچانک خارج میں موجود ہو جاتی ہے؟ وہ کیا ہے جس کے اضافے سے ماہیت خارج میں محقق ہوتی ہے؟ کیا اس واقعیت سے اس کے علاوہ کوئی اور بات ذہن میں آتی ہے کہ جاعل نے ایسی چیز کا ماہیت پر اضافہ کیا ہے جو اس کی سنخ سے نہیں تھی؟ لہٰذا ماہیت کا مصداق اپنے تحقق میں وجود کی قید سے بے نیاز نہیں ہے۔ اس لحاظ سے میرزا جواد تہرانی کی تنقید درست نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: عرفانی فلسفے کی بنیادیں کھوکھلی ہیں – آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد اسحاق فیاض
3. برہانِ لزوم تحقق منتزع عنہ برائے انتزاعِ مفہومِ وجود کا رد
اس برہان کی بنیاد پر وجود کے مفہوم کا انتزاع، منتزع عنہ یعنی وجود، کے تحقق پر دلیل ہے۔ کیوں کہ اگر وجود اصیل نہ ہو اور انتزاعی اور اعتباری چیز ہو تو ماہیت کہ جو اس کی معروض ہے، اس امرِ انتزاعی سے پہلے محقق ہونی چاہئیے۔ لیکن ماہیت بھی مفہومِ وجود کی منشاءِ انتزاع یا منتزع عنہ نہیں ہو سکتی کیوں کہ وجود و عدم سے اس کی نسبت یکساں ہے۔ پس وجود ہی اصیل ہے۔ (آشتیانی 1378: ج 4، ص 459) میرزا جواد تہرانی اس کی رد میں کہتے ہیں:
«ماہیت قبل از جعل در خارج معدوم است و بہمجرد جعل، انتزاع موجودیت از ماہیت و حکم بہ موجودیت آن در خارج صحیح است.» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: ص 276)
اس عبارت میں میرزا جواد تہرانی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ماہیت خارج میں جعل ہونے سے پہلے معدوم ہے۔ وہ اس لیے یہ کہہ رہے ہیں کیوں کہ وہ ماہیت من حیث ہی کو مفہومِ ماہیت سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ مفہومِ ماہیت صرف معدوم نہیں بلکہ نہ موجود ہے اور نہ معدوم ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر وجود ایک اعتباری چیز ہو تو اس مفہوم کے انتزاع کا منشاء ماہیت کو ہی ہونا چاہئیے تاکہ یہ مفہوم اس سے اخذ ہو سکے۔ کیوں کہ وجود ماہیت پر عارض ہے۔ اور اگر وجود اعتباری ہو تو اس کا معروض اس سے پہلے موجود ہونا چاہئیے تاکہ مفہومِ وجود باقی مفاہیم اور اوصاف کی طرح اس سے انتزاع ہو سکے۔
لیکن مشکل یہ ہے کہ ماہیت بھی مفہومِ وجود کے انتزاع کا منشاء نہیں ہو سکتی کیوں کہ ذاتاً وجود اور عدم کی نسبت اس کی وضعیت علی السوایہ ہے اور خارج میں خود سے موجودیت اور تحقق نہیں رکھتی۔ پس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا کہ حقیقتِ وجود ہی مفہومِ وجود کے انتزاع کا منشاء ہو۔ ضمناً جعل کی بحث چھیڑنے سے بھی یہ گرہ کھلتی نظر نہیں آتی۔
بہر حال سوال یہ ہے کہ ماہیتِ معجولہ کس علت سے موجود کے عنوان کی مستحق ہوئی ہے؟ کیا اس کے علاوہ کچھ ہے کہ جاعل نے کوئی ایسی چیز جو ماہیت کی سنخ سے نہ ہو اس کے ساتھ ملحق کی ہے اور یوں اس کو وجود اور عدم کے درمیان کی حالت سے نکالا ہے؟ اس بنیاد پر جعل کا نکتہ اٹھانا نہ صرف یہ کہ کسی مسئلے کو حل نہیں کرتا بلکہ بنیادی سوال سے گریز کی علامت ہے۔
اصالتِ ماہیت پر دلیل
میرزا جواد تہرانی لکھتے ہیں:
«و اینک در مقام اثبات اصالت مہیت می گوییم: ہر عاقل شاعری – چون بہ نور فہم و شعور و نور علم و عقل خدادادہ، خارج را مشاہدہ نماید – حکم می کند کہ اشیاء و مہیات (مثلاً انسان، فرس، بقر، شجر، حجر، . . .) در خارج حقیقتاً و اولاً و بالذات اشیای واقعی و حقیقی می باشند؛ یعنی بشر بہ فطرت سلیم خود حکم می کند کہ در خارج، مثلاً انسان، فرس، بقر، شجر، حجر متحقق است حقیقتاً (نہ این کہ این اشیاء و ماہیات مجازاً و ثانیاً و بالعرض متحقق باشند و امر دیگری بنام وجود اولاً و بالذات موجود و واسطہ در عُروض تحقق، نسبت بہ آنہا باشد) و عنوان موجود مجرد مفہومی است کہ بشر از این اشیاء و مہیات خارجی قہراً انتزاع و بر آنہا حمل می نماید.
بہ بیان دیگر: آدمی بہ نور شعور فطری، واقعیات خارجیہ را مصادیق حقیقی مفاہیم مثلاً انسان، فرس، بقر، شجر و حجر . . . درک می کند. پس بہ فطرت حکم می کند کہ انسان و فرس و بقر و شجر و حجر . . . در خارج متحقق و موجود است حقیقتاً (اولاً و بالذات، نہ مجازاً و ثانیاً و بالعرض) و وجود، چنان کہ اشارہ شد، مجرد مفہومی است انتزاعی کہ از واقعیات و مصادیق حقیقی ماہیات انتزاع می شود.
پس ما بہ نور شعور و فطرت عقولمان، اصالتِ ماہیت و موجودیت بالذات ماہیت را در خارج ادراک می کنیم، نہ اعتباریت و انتزاعیت و موجودیت بالعرض آن را (و برای توضیح بیش تر، خوانندگان محترم از مطالعہ پاورقی غفلت نکنند!) و حکم بہ این کہ ماہیت متحقق و موجود است حقیقتاً (اولاً و بالذات؛ نہ مجازاً و ثانیاً و بالعرض) فطری می باشد و درک آن برای ہر عاقلی بہ فطرتِ سلیم اوّلیّہ ی خود بسیار سہل است و صحّت سلب چنین موجودیت از ماہیت خارجی بہ غایت مشکل است و بالفطرہ جایز نیست.
و با این کہ تا حال، دلیل و برہانی ہم بر خلاف این فطرت در نظر ما قائم و تمام نشدہ است، چگونہ عقلاً جایز و روا است کہ دست از مقتضای این فطرت بر داریم؟!
﴿فَأقِمْ وجْہكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا فِطْرَةَ اللَّہ الَّتِي فَطَرَ النّاسَ عَلَيْہا لا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّہ ذَلِكَ الدِّينُ القَيِّمُ ولَكِنَّ أكْثَرَ النّاسِ لا يَعْلَمُونَ﴾ (سورہ الرّوم، آیہ ۳۰)» (تہرانی، عارف و صوفی چہ میگویند؟، 1390: صفحات 277 – 280)
ترجمہ: ”اب ہم اصالتِ ماہیت کے اثبات میں کہتے ہیں: ہر باشعور عقلمند انسان جب خدا کے عطا کردہ نورِ فہم و شعور اور نورِ علم و عقل سے خارج کا مشاہدہ کرتا ہے تو جان لیتا ہے کہ اشیاء اور ماہیات، مثلاً انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر، وغیرہ، خارج میں، حقیقتاً، اولاً اور بالذات حقیقی اور واقعی اشیاء ہیں۔ یعنی انسان اپنی فطرتِ سلیم کے ساتھ اس فیصلے پر پہنچتا ہے کہ خارج میں انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر وغیرہ حقیقتاً متحقق ہیں (نہ یہ کہ یہ چیزیں اور ماہیات ثانوی اور مجازی اور عرضی حیثیت میں متحقق ہوں اور ایک علیحدہ چیز بنام ”وجود“ اولاً اور بالذات موجود ہو اور ان چیزوں سے اس کی نسبت عروضِ تحقق میں واسطے کی ہو)۔ وجود کا عنوان محض ایک مفہوم ہے جو ان اشیاء اور ماہیات سے اخذ کرنا اور ان سے منسوب کرنا انسان کی مجبوری ہے۔
دوسرے الفاظ میں انسان فطری شعور کی روشنی میں واقعیاتِ خارجیہ کو مفاہیم کے حقیقی مصادیق، مثلاً انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر، وغیرہ، سمجھتا ہے۔ پس فطرتاً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر، وغیرہ خارج میں متحق اور حقیقی طور پر موجود ہیں (اولاً و بالذات، نہ مجازاً و ثانیاً و بالعرض)۔ اور وجود، جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، محض ایک انتزاع شدہ مفہوم ہے جو واقعات سے اور ماہیت کے حقیقی مصادیق سے حاصل کیا جاتا ہے۔
پس ہم شعور کی روشنی اور عقول کی فطرت سے خارج میں ماہیت کے اصیل ہونے اور موجود بالذات ہونے کو درک کرتے ہیں نہ کہ اس کی اعتباریت و انتزاعیت اور موجودیت بالعرض کو! (مزید وضاحت کیلئے قاریانِ محترم حاشیے سے غفلت نہ کریں)۔ یہ کہنا کہ ماہیت حقیقت میں متحقق اور موجود ہے (اولیت کے ساتھ اور بالذات، نہ مجازی یا ثانوی حیثیت میں بالعرض)، فطری ہے اور اس کو درک کرنا ہر عقلمند انسان کیلئے اپنی فطرتِ سلیم کے ساتھ بہت آسان ہے اور خارجی ماہیات سے ان کی موجودیت کو سلب کرنے کا صحیح ہونا مشکل ہے اور یہ فطرتاً جائز نہیں ہے۔
یوں بھی تاحال اس فطرت کے خلاف ہمارے نزدیک کوئی دلیل و برہان بھی قائم اور تمام نہیں ہو سکا، عقلی طور پر یہ بات کیسے جائز اور روا ہو سکتی ہے کہ ہم اس فطری تقاضے سے ہاتھ اٹھا لیں؟ (پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ سورہ روم، آیت 30)“
تجزیہ و تحلیل
میرزا جواد تہرانی نے اصالتِ وجود کے براہین کا سامنا کرتے ہوئے یہ کوشس کی ہے کہ انہی براہین کے راستے پر جا کر اصالتِ وجود کو باطل ثابت کریں۔ یعنی ان براہین میں وجود کی جگہ ماہیت کو اصیل قرار دے کر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ماہیت بھی اصیل قرار دی جا سکتی ہے۔
ان کے اٹھاۓ گئے تنقیدی نکات کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ان دو حصوں کا تقابلی جائزہ یہ بتاتا ہے کہ پہلی قسم کے تنقیدی نکات درست ہیں کیوں کہ ان براہین میں دَور اور مصادرہ بہ مطلوب جیسے مغالطے استعمال کئے گئے تھے۔ مختصر یہ کہ یہ براہین صحیح معنوں میں براہین نہیں ہیں۔ یہ گروہ آٹھ براہین پر مشتمل ہے اور ان پر نظر ثانی کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ:
1. برہانِ خیریتِ وجود مصادرہ بہ مطلوب ہے کیوں کہ دعویٰ یہ ہے کہ وجود منشاءِ آثار ہے اور بطورِ دلیل بھی وجود کو منبع خیر و شرف قرار دیا گیا ہے۔
2. برہانِ وجودِ ذہنی میں آثار کے مراتب کے لحاظ سے وجودِ خارجی اور وجودِ ذہنی میں فرق کیا گیا ہے۔ لیکن توجہ رہے کہ اصالتِ ماہیت کی رو سے بھی ماہیتِ ذہنی اور ماہیتِ خارجی متفاوت ہیں۔ پس اگر ان دو ماہیتوں کے تفاوت کا منشاء وجود کو سمجھا جائے تو مصادرہ بہ مطلوب ہے۔ کیوں کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ماہیتِ ذہنی اور ماہیتِ خارجی کو ایک ثابت کرنے کیلئے جو کچھ کہا جاتا ہے اس میں بنیادی غلطیاں ہیں۔
3. برہانِ امتناعِ تشکیک بہ اقدمیت در ماہیت دَور ہے کیوں کہ اس کے آغاز میں ہی تشکیک در وجود کو مان لیا گیا ہے جبکہ تشکیک در وجود تو اصالتِ وجود پر مبتنی ہے۔
4. برہانِ حرکتِ اشتدادی میں بھی اگر اصالتِ وجود کے مطابق حرکتِ اشتدادی سے انتزاع ہونے والی لامحدود انواعِ ماہیت، انواعِ بالفعل نہیں ہیں بلکہ حدود و ماہیات بالقوہ ہیں کہ جنہیں ذہن نے انتزاع کیا ہے، تو اصالتِ ماہیت کے تصور میں بھی وہ ماہیات جو حدود و مراتب وہمی سے انتزاع ہوں، بالقوہ ماہیات ہیں نہ بالفعل؛ نتیجتاً امورِ نامتناہی کا حصر بالفعل واقع نہیں ہوتا۔ لہٰذا وجود کو ماہیت پر ترجیح دینا مصادرہ کے سوا کچھ نہیں۔
5. اتحاد موضوع و محمول کے حمل شایع کے سچ ہونے کا ملاک ایسا مصداق ہے جسے اصالتِ وجود کے قائلین وجود قرار دیتے ہیں۔ اصالتِ ماہیت کے قائلین بھی مصداق میں موضوع اور محمول کی وحدت کے منکر نہیں، لیکن اس مصداق کو ماہیت قرار دیتے ہیں۔ چونکہ اس برہان کی بنیاد میں ہی اس مصداق کا وجود ہونا قرار دیا گیا ہے، یہ برہان مصادرہ بہ مطلوب ہے۔
6. برہانِ تمامیتِ برہانِ ترکب دَور ہے کیوں کہ یہ اصالتِ وجود کے اثبات کیلئے تشکیکِ وجود کا سہارا لیتا ہے جو خود اصالتِ وجود پر متوقف ہے۔
7. برہانِ عینیتِ صفات با ذاتِ حق بھی مصادرہ بہ مطلوب ہے۔ کیوں کہ اگر صفاتِ حق تعالیٰ آپس میں اور ذاتِ حق کے ساتھ ایک مصداق میں متحد ہیں جسے اصالتِ وجود کے قائلین وجود قرار دیتے ہیں تو اصالتِ ماہیت کی رو سے بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ صفاتِ حق آپس میں اور ذاتِ حق کے ساتھ جس مصداق میں متحد ہیں، وہ ماہیت ہے۔ پس اس مصداق کو وجود کہنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
8. برہانِ توحید فعلی بھی دَور ہے۔ کیوں کہ اصالتِ وجود کے اثبات کیلئے وجودِ منبسط کا سہارا لیا جاتا ہے جبکہ یہ خود اصالتِ وجود پر کھڑا ہے۔
دوسرے گروہ میں تین براہین؛ موجودیتِ ماہیات، تشخصِ اشیاء اور لزوم تحقق منتزع عنہ برائے انتزاعِ مفہومِ وجود؛ پر تنقید کی گئی ہے کہ جس میں زیادہ وزن نہیں ہے۔ کیوں کہ یہاں ماہیت من حیث ہی کو مفہومِ ماہیت کے مساوی سمجھا گیا ہے اور پھر یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ مصداقِ ماہیت خارج میں موجود ہے۔
اس تصور میں تناقض موجود ہے کیوں کہ اس کا لازمہ یہ ہے کہ ماہیت من حیث ہی، لا بشرط قسمی کی نوع سے ہو۔ اس صورت میں اگرچہ ان تین براہین سے اصالتِ وجود کا اثبات ممکن نہ رہے گا، لیکن اصالتِ ماہیت بھی غلط ثابت ہو جائے گی۔ کیوں کہ اس بنیاد پر ماہیت خارج میں نہیں ہو گی، چہ جائیکہ اس کو اصیل قرار دیا جائے۔ یعنی ماہیت صرف ذہنی مفہوم رہ جاتی ہے کہ جو خارج میں تحقق کے قابل نہیں رہتا اور ماہیات کی قلمرو صرف ذہن میں محدود ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ تصور کہ خارج میں ماہیات محقق نہ ہوں، انسان کی بدیہیات اور وجدانیات کے خلاف ہے۔
نتیجہ
میرزا جواد تہرانی اصالتِ وجود کے براہین پر اپنی تمام تنقید میں یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان میں اصالتِ ماہیت پر کافی حد تک غور نہیں کیا گیا اور انہیں گھڑنے والے حضرات نے اصالتِ وجود کی عینک سے معاملات کو دیکھا اور عینیتِ وجود کے اثبات کی سعی کرتے رہے۔ حالانکہ ان براہین میں جو کچھ وجود کی صفات کے طور پر پیش کیا گیا ہے، بعینہٖ اصالتِ ماہیت کیلئے بھی ثابت ہے لیکن اصالتِ وجود کے وکلا نے اس سے نظریں چرائی ہیں۔ ان کی تنقید کا تجزیہ بتاتا ہے کہ انہوں نے اصالتِ وجود کے براہین پر دو طریقوں سے نقد کی:
1. اصالتِ وجود کی ادلہ کا ابطال کرنے کیلئے ان میں دَور اور مصادرہ بہ مطلوب کے استعمال کو ثابت کرنا، کہ جس پر ان کی تنقیدی آراء کا پہلا حصہ مشتمل تھا۔ دقیق جائزے سے معلوم ہوا کہ اس طریقے سے انہوں نے اصالتِ وجود کے آٹھ براہین کو رد کیا کہ جن میں دَور اور مصادرہ بہ مطلوب کا استعمال کیا گیا تھا۔
2. دوسرا طریقہ ماہیت من حیث ہی کے خاص تصور پر مبنی تھا کہ جس کی بنیاد پر اس ماہیت کو مفہومِ ماہیت کے طور پر پیش کیا گیا۔ میرزا جواد تہرانی کی تنقید کا دوسرا حصہ اس محور پر گھومتا تھا اور اس وجہ سے تین براہین پر ان کی تنقید درست نہ تھی۔
یہ بھی پڑھئے: جدید دور میں عرفانی فلسفے کی ساکھ ختم ہو چکی ہے
ڈاؤنلوڈ لنک: آیت اللہ میرزا جواد تہرانی کی کتاب ”عارف و صوفی چہ میگویند؟“ کو ڈاؤنلوڈ کریں
کتابیات
1. قرآن کریم.
2. آشتیانی، جلال الدین (1378)، منتخباتی از آثار حکمای الہی ایران، ویرایش دوم، قم: دفتر تبلیغات اسلامی.
3. آملی، محمد تقی، درر الفوائد، تعلیقہ بر شرح منظومہٴ حکمت، تہران: مرکز نشر کتاب.
4. تہرانی، حاج میرزا جواد آقا (1390)، عارف و صوفی چہ میگویند؟، تہران: آفاق.
5. جوادی آملی، عبداللہ (1375)، رحیق مختوم: شرح حکمت متعالیہ، قم: مرکز نشر اسراء.
6. روضاتی، محمد (1388)، «بررسی برہان ہای صدر المتالہین درباب اصالت وجود»، دو فصل نامہٴ فلسفہ و کلام اسلامی، دورہ 42، ش 1.
7. زنوزی، ملا عبداللہ (1361)، لمعات الہٰیہ، مقدمہ و تصحیح سید جلال الدین آشتیانی، تہران: مؤسسہٴ مطالعات و تحقیقات فرہنگی.
8. سبحانی تبریزی، جعفر (1382)، ہستیشناسی در مکتب صدر المتالہین، قم: مؤسسہٴ امام صادقؑ.
9. سبزواری، ملا ہادی (1386)، شرح المنظومہ فی المنطق و الحکمہ، تحقیق و تعلیق محسن بیدار فر، قم: بیدار.
10. شیرازی، رضی (1392)، درس ہای شرح منظومہٴ حکیم سبزواری، تہران: حکمت.
11. طباطبایی محمد حسین (1384)، بدایۃ الحکمہ، ترجمہ و اضافات دکتر علی شیروانی، قم: دار العلم.
12. طباطبایی محمد حسین (1422 ق)، نہایۃ الحکمہ، قم: نشر اسلامی.
13. فیاضی، غلام رضا (1390)، ہستی و چیستی در مکتب صدرایی، تحقیق و نگارش حسینعلی شیدان شید، قم: پژوہشگاہ حوزہ و دانشگاہ.
14. فیض کاشانی، ملا محسن (1375)، اصول المعارف، تعلیق و تصحیح و مقدمہ سیدجلالالدین آشتیانی، قم: دفتر تبلیغات اسلامی.
15. مدرس یزدی حَکَمی، میرزا علیاکبر (1372)، رسائل حَکَمیہ، تہران: وزارت فرہنگ و ارشاد اسلامی.
16. مصباح یزدی، محمد تقی (1382)، آموزش فلسفہ، تہران: امیرکبیر.
17. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم (1366)، تفسیر القرآن الکریم، تصحیح محمد خواجوی، قم: بیدار.
18. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم (اسفارِ اربعہ)، الحکمۃ المتعالیۃ فی الاسفار الاربعۃ العقلیہ، قم: مکتبہٴ المصطفوی.
19. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم، المشاعر بہ ضمیمہٴ عماد الحکمہ بدیع الملک میرزا عماد الدولہ، تصحیح ہانری کربن، اصفہان: مہدوی.
20. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم (1378)، رسالہ فی الحدوث (حدوث العالم)، تصحیح و تحقیق دکتر سید حسین موسویان، تہران: بنیاد حکمت اسلامی صدرا.
21. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم (1378)، سہ رسالہ فلسفی (متشابہات القرآن، المسائل القدسیہ، اجوبۃ المسائل)، مقدمہ و تصحیح و تعلیق سید جلال الدین آشتیانی، قم: دفتر تبلیغات اسلامی.
22. ملا صدرا، محمد بن ابراہیم (1375)، مجموعہٴ رسائل فلسفی صدر المتألہین، تحقیق و تصحیح حامد ناجی اصفہانی، تہران: حکمت.