ابنِ عربی کے خیالات

ابنِ عربی کا متوکل عباسی کو خلیفۃ اللہ قرار دینا

109 ملاحظات

ابنِ عربی اہل اللہ میں سے غوث، قطب اور خلیفۃ اللہ کے بارے لکھتا ہے:

یحوز الخلافهَ الظاهرهَ کما حاز الخلافه الباطنه من جهت المقام کأبی بکر و عمر و عثمان و علی و الحسن و معاویه بن یزید و عمر بن عبدالعزیز و المتوکّلِ و منهم من له الخلافه الباطنه خاصّه. (1)

ابنِ عربی کہتا ہے کہ اقطاب میں سے کچھ خلافتِ ظاہری کے ساتھ ساتھ خلافتِ باطنی بھی رکھتے ہیں، جیسے ابوبکر و عمر و عثمان، پھر ابنِ عربی حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کو چوتھے نمبر پر گن کر امام حسن علیہ السلام کے بعد معاویہ بن یزید، عمر بن عبدالعزیز اور متوکل عباسی جیسے ناصبی شخص کو خلیفۂ برحق، غوث اور قطب قرار دیتا ہے۔

جب کہ متوکل عباسی ناصبی کے متعلق شیعہ وسنی علما رقم طراز ہیں کہ وہ دشمنِ امیر المومنین و اولادِ امیر المومنین علیہم السلام تھا۔ اس نے حضرت امام علی نقی علیہ السلام پر بہت ظلم کئے۔ درج ذیل کلام اس پر دال ہے۔

پانچ رجب 244 ہجری میں یعقوب بن اسحق نے، جو ابن سکیت کے نام سے مشہور تھے، وفات پائی۔ وہ متوکل کی اولاد کے استاد تھے۔ ایک دن متوکل نے اُن سے پوچھا کہ ”میرے دونوں بیٹے معتز اور مؤید تیرے نزدیک بہتر ہیں یا حسن و حسین علیہم السلام؟‘‘، اس پر ابن سکیت نے حسنین علیہما السلام کے فضائل بیان کرنا شروع کر دیئے۔

متوکل نے حکم دیا کہ ترک اسے اپنے پاؤں کے نیچے روندیں اور اس کے پیٹ کو کچل دیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اسی سبب سے اُن کی وفات واقع ہوئی۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے متوکل کے جواب میں کہا کہ ”علی علیہ السلام کا غلام قنبر تجھ سے اور تیرے دونوں بیٹوں سے ہزار درجہ بہتر ہے۔‘‘ تو متوکل نے حکم دیا کہ ان کی زبان گدی سے کھینچ لی جائے۔

اُن کو زیادہ سکوت اور خاموشی ہی کی وجوہ سے ابنِ سکیت کہا جاتا تھا. متوکل کے دور میں آلِ ابو طالب علیہم السلام پر اس قدر ظلم ہوئے کہ علوی خاندان کی عورتوں کے تمام لباس پرانے ہوکر پھٹ چکے تھے اور اُن کے پاس ایک ہی ایسا صحیح و سالم لباس تھا کہ جس میں وہ نماز پڑھ سکیں۔ بس جب وہ نماز پڑھنے لگتیں تو ایک ایک بی بی باری باری وہ لباس پہن کر نماز پڑھتی۔ 236 ہجری میں متوکل ناصبی نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک اور اُن مقابر کو جو اس کے ارد گرد واقع تھے، منہدم کروا دیا۔

تمام قبریں تڑوا دیں اور حکم دیا کہ زمین ہموار کر کے یہاں کا شتکاری کی جائے۔ لوگوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ لوگ اُس سے شدید نفرت کرنے لگے اور اُس کو علی الاعلان ناصبی ، یعنی دشمن اہلبیت ؑ کہنے لگے۔ متوکل کو اس قدر بغض تھا کہ اسے اس بات کا رنج اور افسوس تھا کہ وہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے قتل میں کیوں شریک نہ ہوسکا۔

247 ہجری کے واقعات نقل کرتے ہوئے محدث عباس قمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ”اور اسی سال میں متوکل عباسی باغتر ترکی کے ہاتھوں مارا گیا اور صاحب حیواۃ الحیوان نے اُس کے قتل ہونے کا سبب یہ لکھا ہے کہ متوکل امیر المومنین ؑ سے دشمنی رکھتا تھا اور حضرت کی تنقیص کرتا تھا۔ ایک دن اپنی بدبخت عادت کے مطابق اس خبیث نے حضرت کا نام لیا اور آپ پر جسارت کی۔

اُس کا بیٹا مستنصر بھی اسی محفل میں موجود تھا۔ جب اُس نے سُنا تو اس کا رنگ متغیر ہو گیا اور اُس کو بہت غصہ آیا۔ متوکل نے اُسے گالی دی اور یہ شعر پڑھا:

غضب الفتى لابن عمه

راس الفتــي فـــي حــرامـــه

ترجمہ: جو لڑکا اپنے چچازاد کے لئے غصہ میں آیا، اُس لڑکے کا سر اس کی ماں کی شرم گاہ میں جائے۔

مستنصر اس تو ہین پر چراغ پا ہو گیا اور وہ اپنے باپ کے قتل کے درپے ہوا اور موکل کے مخصوص غلاموں میں سے چند غلام اس کو قتل کرنے کے لئے متعین کئے۔

ایک رات متوکل اپنے دوستوں کے ساتھ اپنے قصر میں شراب پینے میں مشغول تھا اور مستی اور نشے کی حالت نے اسے گھیر رکھا تھا کہ ایک غلام قصر میں داخل ہوا اور اس نے اس کے تمام مصاحبوں کو رخصت کر دیا۔ وہ سب کے سب چلے گئے سوائے فتح بن خاقان کے کہ وہ متوکل کے پاس رہ گیا۔ تب وہ غلام جو متوکل کو قتل کرنے کے لئے تیار کھڑے تھے، ننگی تلواریں لیے ہوئے اندر آگئے اور متوکل پر ٹوٹ پڑے ۔

فتح بن خاقان نے جب یہ حالت دیکھی تو وہ چلایا کہ وائے ہو! تم امیر المومنین کو قتل کرنا چاہتے ہو؟ اور یہ کہہ کر اس نے اپنے آپ کو متوکل کے اوپر گرادیا۔ غلاموں نے تلواریں کھینچ لیں اور فتح بن خاقان اور متوکل، دونوں پر پے در پے وار کرنے لگے اور بالآخر دونوں کو خون میں نہلا دیا۔

پھر وہ باہر چلے گئے اور مستنصر کے پاس جا کر اسے خلافت کا سلام پیش کیا۔ متوکل کا قتل رات کے وقت تین یا چار شوال 247 ہجری میں واقع ہوا۔ (2)

حجۃ الاسلام والمسلمین نعمت علی سدھو

حوالہ جات:

1۔ فتوحاتِ مکیہ، ج:2، ص: 6، طبع جدید۔ مکمل متن:

وانفرد به في زمانه على أبناء جنسه وقد يسمى رجل البلد قطب ذلك البلد وشيخ الجماعة قطب تلك الجماعة ولكن الأقطاب المصطلح على أن يكون لهم هذا الاسم مطلقا من غير إضافة لا يكون منهم في الزمان إلا واحد وهو الغوث أيضا وهو من المقربين وهو سيد الجماعة في زمانه ومنهم من يكون ظاهر الحكم ويحوز الخلافة الظاهرة كما حاز الخلافة الباطنة من جهة المقام كأبي بكر وعمر وعثمان وعلي والحسن ومعاوية بن يزيد وعمر بن عبد العزيز والمتوكل ومنهم من له الخلافة الباطنة خاصة ولا حكم له في الظاهر كأحمد بن هارون الرشيد السبتي وكأبي يزيد البسطامي وأكثر الأقطاب لا حكم لهم في الظاهر ومنهم رضي الله عنهم الأئمة ولا يزيدون في كل زمان على اثنين لا ثالث لهما الواحد عبد الرب والآخر عبد الملك والقطب عبد الله قال تعالى وإنه لما قام عبد الله يعني محمدا صلى الله عليه وسلم فلكل رجل اسم إلهي يخصه به يدعى عبد الله ولو كان اسمه ما كان فالأقطاب كلهم عبد الله والأئمة في كل زمان عبد الملك وعبد الرب وهما اللذان يخلفان القطب إذا مات وهما للقطب بمنزلة الوزيرين الواحد منهم مقصور على مشاهدة عالم الملكوت والآخر مع عالم الملك ومنهم رضي الله عنهم.

2۔ احسن المقال، ج: 2، صفحات: 272، 676 تا 679؛

تاریخ بغداد، ج: 7، ص: 165؛

تاریخ الخلفاء عربی، ص: 265،264؛ مترجم، ص: 463، 465، از شمس بریلوی، طبع کراچی؛

تاریخ یعقوبی، ج: 3 ص: 208؛

تاریخ کامل ابن الاثیر، ج: 7، ص: 11، 29؛

تاریخ حبیب السیر، ج: 2، ص: 269، طبع تهران؛

البدایۃ والنہایہ، ابن کثیر، اُردو ج: 10، ص: 860، طبع کراچی؛

تاریخِ طبری، ج: 11، ج: 6 ص: 44، چاپ مصر و بیروت مترجم، ج :9 ص: 57، طبع کراچی۔

اسی زمرے میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button